Laaltain

دمِ جنون

5 نومبر، 2025

میں پچھلے بائیس سالوں میں اس جیل میں ہزاروں لوگ دیکھ چکا ہوں ۔بوڑھے، بچے، جوان، قاتل، مقتول، قصوروار، مظلوم، بے قصور سب۔کچھ یہیں مرے، کچھ نکل گئے، کچھ کے چہرے یاد ہیں، کچھ بس آوازوں کی طرح ذہن میں رہ گئے ہیں۔ یہاں ہر کوئی کسی نہ کسی لمحے ٹوٹتا ہے ۔جو جرم مان چکے ہوں وہ بھی اور جو انکار میں ڈٹے رہتے ہیں وہ بھی۔ فرق بس اتنا ہوتا ہے کہ کچھ اونچی آواز میں رو پڑتے ہیں اور کچھ چپ چاپ دیوار سے لگ کر ٹوٹتے ہیں۔ یہاں وقت سب کو ایک سا بنا دیتا ہے ۔بڑے بڑے غنڈے جو دن کو لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں، مگر رات کے وقت جب باقی قیدی خراٹے لینے لگتے، وہ آہستہ آہستہ ” استغفراللہ“ پڑھتے ہیں، اتنی دھیمی آواز میں جیسے خود اپنے گناہ کو جگانا نہ چاہتے ہوں۔ وہ تسبیح کے دانے نہیں گنتے تھے، اپنے دن گنتے تھے۔ مگر نہ دن گننے سے کٹتے ہیں اور نہ گناہ گننے سے دھلتے ہیں۔

کچھ ایسے بھی تھے جن کو کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔ وہ کہتے تھے، ”ہم نے جو کیا ٹھیک کیا“ مگر ان کے لہجے میں کہیں نہ کہیں ایک شکست چھپی ہوتی تھی۔ وہ وضاحتیں دیتے تھے کہ ”حالات نے مجبور کیا۔۔ پہل اُس نے کی تھی۔۔ کوئی راستہ نہیں بچا تھا“جیسے اپنے اندر کے کسی جج کے سامنے دلیل دے رہے ہوں۔ ان کے چہروں پر ایک خاص قسم کی ویرانی ہوتی تھی۔ وہ ہنستے بھی تو آنکھوں کے کنارے سُن رہتے۔ یہاں خاموشی سب سے بڑا جج ہے جو ہر رات فیصلہ سناتی ہے۔ کوئی اونچی آواز میں چیخ کر مان لیتا ہے، کوئی وضو کر کے جھوٹ بولتا ہے اور کوئی صرف چپ رہ کر اپنے اندر سچ قبول کر لیتا ہے۔ آخر میں سب ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔ اعتراف کرنے والے بھی اور انکار کرنے والے بھی۔۔

مگر بِلا ان سب سے مختلف تھا۔

بائیس برسوں میں بِلا کئی بار یہاں آیا ۔کبھی سال بھر کے لیے، کبھی دو برس، کبھی چند مہینوں کے لیے۔ مگر ہر بار یوں لوٹا جیسے جیل اور بِلا ایک دوسرے کے پرانے واقف ہوں، جیسے دونوں کے درمیان کوئی خاموش سمجھوتہ ہو چکا ہو۔ باقی سب قیدی وقت کے ساتھ جھک جاتے تھےمگر بِلا نہیں جھکتا تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں نہ کبھی پچھتاوا دیکھا، نہ کوئی دراڑ، نہ وہ لرزش جو کسی گناہ کے بعد انسان کے اندر آتی ہے۔ جیسے اس کے اندر کچھ ہو ہی نہیں۔۔ نہ احساس، نہ ندامت، نہ خوف۔

پہلی بار جب آیا تھا تو عمر یہی کوئی سولہ، سترہ برس کی ہو گی۔ جرم تھا اپنے تایا کا قتل۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب اسے لایا گیا تھا۔ چپ چاپ چل رہا تھا، جیسے کسی اسکول کی سزا کے لیے جا رہا ہو۔ سپاہی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے تھا مگر بِلے کے چہرے پر ایک عجیب سی ٹھہراؤ بھری مسکراہٹ تھی جیسے دنیا کے سارے فیصلے وہ پہلے ہی سن چکا ہو۔ سات برس یہاں رہا۔ نہ کبھی اپنے جرم کی وضاحت کی، نہ کبھی اپنی صفائی میں کچھ کہا۔ ایک بار میں نے پوچھا بھی کہ بِلے کیوں کیا تھا تم نے؟ اس نے بس اتنا کہا، ”جو ہونا تھا، وہ ہو گیا“ اور پھر دیر تک خاموش بیٹھا مٹی پر انگلیوں سے لکیر کھینچتا رہا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ جیل کی قید میں نہیں، اپنی ہی ذات کے اندر قید تھا۔۔ ایک ایسی قید جس میں نہ خوف داخل ہو سکتا تھا، نہ پچھتاوا جنم لے سکتا تھا۔

جیل میں اس کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا جو کسی انسان کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ مگر یہاں انسان رہتے کب ہیں۔ انسان ہوں تو سمجھتا کون ہے؟ تنہائی، بھوک، سزا، کوٹھڑی کے اندر اندھیری راتیں مگر بِلا کبھی نہیں ٹوٹا۔ دوسرے قیدیوں کو میں نے دیکھا، وہ وقت کے ساتھ پگھل جاتے تھے۔ بِلا مگر پتھر کی طرح تھا، نہ پگھلا، نہ بکھرا، نہ بدلنے کی خواہش کی۔ کبھی کبھی لگتا تھا جیسے اس کے اندر دل نہیں، ایک خلا ہے ۔۔گہرا، ساکت، بے حس۔ وہ بیٹھا رہتا، دور دیکھتا رہتا، جیسے کسی دوسرے زمانے میں ہو۔ کبھی کبھی اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی تھکن آتی، مگر وہ بھی یوں لگتی جیسے کسی پرانی تصویر پر دھول جم گئی ہو۔

بِلا جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا تھا ۔ ایک ایسا گاؤں جہاں دوپہروں میں دھول اڑتی ہے اور شاموں میں مزار کے چراغوں سے زرد روشنی نکلتی ہے۔ وہاں عزت کے تین ہی پیمانے تھے۔۔ زمین، مزار اور پیر کی قربت۔ جن کے پاس یہ تینوں نہ ہوں ان کے نام کے ساتھ عزت کا لفظ نہیں لگتا تھا۔ بلا اسی خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ اس کا تایا، پیر قرار حسین مزار کا گدی نشین تھا۔ سفید کپڑوں میں ملبوس، ہاتھ میں تسبیح اور آنکھوں میں وہ غرور جو اختیار کے ساتھ آتا ہے۔ لوگ اس کے قدم چُھوتے، اس کے در پر چڑھاوے رکھتے اور اس کے ایک اشارے کو اپنی تقدیر سمجھتے۔ مگر بِلے کا باپ، ستار حسین، اسی مزار کا پاگل ملنگ تھا۔ دن رات صحن میں پھرتا رہتا۔کبھی درختوں کے سائے سے باتیں کرتا، کبھی مٹی پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیتا جیسے کسی اندر کی دنیا میں گم ہو گیا ہو۔ کبھی بے ربط دعائیں مانگتا جن کے آخر میں آمین نہیں ہوتی تھی بس ایک ہنسی یا چیخ نکلتی تھی۔

دونوں ایک ہی احاطے میں رہتے تھے مگر ایک دوسرے سے اجنبی۔ ایک کے پاس دولت، مرید اور دربار کی رونق تھی، دوسرے کے پاس خاموشی، خاک اور ایک چادر جس پر برسوں کی مٹی جم چکی تھی۔ ایک کے در پر روشنی تھی، دوسرے کے قدموں میں سایہ۔ اور انہی دونوں کے بیچ بِلا بڑا ہوا۔ کم گو، الجھا ہوا اور شاید کسی ایسی لکیر پر جہاں عقیدت اور جنون کا فرق مٹ جاتا ہے۔

گاؤں میں ایک پرانی افوا تھی۔۔ اتنی پرانی کہ اب کوئی یاد بھی نہیں کر پاتا کہ شروع کس نے کی تھی۔ لوگ دبی آواز میں کہتے تھے کہ پیر قرار حسین نے اپنے بھائی ستار حسین کو کوئی “بُوٹی” کھلا دی تھی، کوئی ایسی شے جس نے اس کے ہوش کے دھاگے ایک ایک کر کے کھول دیے۔

لوگوں کا کہنا تھا کہ پیر قرار حسین کو صرف گدی نہیں، مزار کی تولیت بھی چاہیے تھی۔ وراثت کے حساب سے گدی تو اس کے حصے میں آتی تھی مگر مزار کی چابیاں ستار کے پاس تھیں۔ اور یہی چابیاں آہستہ آہستہ دونوں بھائیوں کے بیچ دیوار بن گئیں۔

پھر ایک دن یہ افواہ بھی پھیلی کہ بِلا اور اس کی بہن صغراں دراصل پیر صاحب کے گناہ کی پیداوار ہیں۔ یہ جملہ پہلے پہل چند زبانوں تک محدود رہا، پھر چائے کے کھوکھوں، حُقے کی مجلسوں اور عورتوں کے آنگنوں میں دہرایا جانے لگا۔ کوئی ثبوت نہیں تھا، مگر اتنی بار کہا گیا کہ آخرکار وہی بات سچ بن گئی۔ لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ ستار حسین کو تو اپنے ہوش نہیں رہے تھے تو زوجیت کہاں سے کرتا؟ کہتے ہیں اس کے بعد ستار کا دماغ جیسے کسی اور جہاں میں رہنے لگا۔ وہ مزار کے صحن میں گھنٹوں خالی آسمان کو تکتا رہتا، کبھی ہنستا، کبھی روتا اور کبھی مٹی پر ہاتھ مار کر کہتا ۔۔”یہی سچ ہے!“

بِلا تب پندرہ، سولہ برس کا ہوگا جب اس نے پہلی بار اپنے بارے میں یہ سرگوشیاں سنیں کہ وہ اور صغراں پیر صاحب کے گناہ کی اولاد ہیں۔ پہلے پہل ہنس دیا، جیسے کوئی بچگانہ الزام ہو۔ مگر رات کو جب صحن میں چراغ بجھ جاتے اور مزار کی سمت سے دھواں سا آتا تو وہ جاگتا رہتا۔ اسے لگتا تھا کہ دیواروں کے پار کوئی اس کے اندر جھانک رہا ہے۔ وہ اکثر اپنے باپ کے چہرے کو دیر تک تکتا رہتا، اس کی آنکھوں میں کوئی سچ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا۔ مگر وہاں کچھ نہ تھا، صرف ایک دھند تھی جیسے آنکھوں کے پیچھے کوئی پرانا زخم چھپا ہو۔ کبھی کبھی ستار حسین یونہی زمین پر بیٹھا آسمان کی طرف دیکھ کر کہتا، ”سچ دھرتی کے نیچے ہے، اوپر صرف دھواں ہے“ ، بلا اس جملے کے بعد گھنٹوں خاموش رہتا۔

صغراں بِلے سے ایک برس چھوٹی تھی۔ ذہنی طور پر کمزور تھی مگر اتنی نہیں کہ پہچان نہ سکے کہ اس کے بارے میں بھی کچھ کہا جا رہا ہے۔ وہ کبھی بِلے کے کندھے پر سر رکھ کر ہنستی، کبھی اچانک رو پڑتی۔ اس کی ہنسی میں ایک عجیب لرزش ہوتی۔ جیسے معصومیت اور خوف کے درمیان کوئی باریک سی لکیر ہو اور وہ روز اس لکیر پر چلنے کی کوشش کرتی ہو۔ بِلے کے لیے وہ دن ایک ایسی گرہ بن گئے، جنہیں وقت نے کبھی نہیں کھولا۔ بس ہر سال، ہر موسم کے ساتھ وہ گرہ تھوڑی اور سخت ہو جاتی رہی۔

ادھر پیر صاحب کی دسترس ایسی تھی کہ سات سات کوس تک ان کے حکم اور دعا کا اثر مانا جاتا تھا۔ اس علاقے میں بچہ ہو یا بوڑھا، عورت ہو یا مرد، یہاں تک کہ مویشی۔۔۔ سب کے دکھ درد کا ایک ہی علاج تھا، پیر صاحب کا” دم“۔ بخار سے لے کر چیچک اور یہاں تک کہ کینسر جیسے لفظ بھی ان کے آگے ماند پڑ جاتے تھے۔ ڈاکٹر، دوا، حکیم یہ سب اس علاقے میں اجنبی لفظ تھے، جیسے کسی اور زمانے کی بات ہو۔ پیر صاحب کی زبان سے نکلی ہوئی دعا، دوا سے زیادہ اثر رکھتی تھی اور ان کے ہاتھ سے دم کیا ہوا پانی گاؤں کے سب گھروں میں تبرک سمجھ کر رکھا جاتا۔ مردوں کی نسبت عورتیں ” دم“ کے لیے زیادہ لائی جاتی تھیں۔ کوئی بانجھ پن کے علاج کے لیے، کوئی شوہر کی بے رخی کے تعویذ کے لیے، کوئی فقط اس آس پر کہ پیر صاحب کے ہاتھ سے پانی پیا تو نصیب کھل جائے گا۔ مزار کے اندر ایک نیم تاریک حجرہ تھا۔ دیواروں پر تیل کے چراغوں کی کالک، فرش پر پرانے گیلے کپڑے اور ایک خاص قسم کی بو، جس میں لوبان، پسینہ اور دُعا تینوں گھلے ہوتے۔ وہاں ہونے والے ”دم“ کی باتیں کبھی باہر نہیں نکلتیں۔ عورتیں پردوں میں لوٹتیں، مرد نظریں جھکا لیتے اور سب یوں خاموش رہتے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ مگر گاؤں کی ہوا سادہ نہیں تھی۔۔ وہ ہر راز کی خوشبو اپنے ساتھ لے جاتی تھی۔ اور پیر صاحب کے حجرے کی خوشبو تو ایسی تھی جو دیر تک مزار کے دروازوں پر ٹھہری رہتی تھی۔ لوگ کچھ نہیں کہتے تھے، بس ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ کر خاموش رہتے جیسے سب جانتے ہوں مگر کسی کے پاس کہنے کی ہمت نہ ہو۔

صغراں بھی انہی” دَموں“کے زیرِ علاج تھی۔ اس کی ماں کو بتایا گیا تھا کہ بچی پر سایہ ہے، جن کا اثر ہے، پیر صاحب کے دم سے ٹھیک ہو جائے گی۔ دم دس پندرہ دن بعد مزار کے کسی نہ کسی کمرے میں ہوتا۔کبھی حجرے میں، کبھی صحن کے اُس گوشے میں جہاں چراغ کی روشنی کم پڑ جاتی اور لوبان کی خوشبو کچھ زیادہ۔ صغراں وہاں جاتی تو اس کے ہاتھ کانپنے لگتے، آنکھیں پھیل جاتیں، جیسے روشنی اور سایہ آپس میں الجھ گئے ہوں۔ مگر ماں اسے بازو سے تھام لیتی، سر پر ہاتھ پھیر کر کہتی، ”پیر کے دم سے برکت آتی ہے، بس آنکھیں بند رکھنا، سب ٹھیک ہو جائے گا“ اور وہ خاموش ہو جاتی، جیسے کسی نے اس کے اندر کی آواز بند کر دی ہو۔ حجرے میں کچھ دیر ہلکی ہلکی آہٹیں رہتیں، پھر دروازہ کھلتا، اور صغراں چپ چاپ باہر نکل آتی۔ ماں اس کے ماتھے پر دم کیا ہوا پانی چھڑکتی اور لوگ سمجھتے، شفا کا پہلا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔

ایک دن بِلا ایک جنگلی کبوتر کے پیچھے بھاگتا ہوا مزار کے پچھلے حصے تک جا پہنچا۔ اسے ہمیشہ منع کیا گیا تھا کہ اس طرف نہ جائے۔ وہ حجرہ پیر صاحب کی خلوت تھا جہاں روشنی بھی اجازت لے کر جاتی تھی مگر کبوتروں کی طرح بلا کے اندر بھی ایک اڑان تھی، ضدی اور بے سمت۔ وہ دیوار پر چڑھا، پھر چھت کے کنارے رینگتا ہوا روشن دان تک آیا۔ نیچے جھانکا تو حجرے میں نیم تاریکی تھی۔ لوبان کا دھواں پھیلا ہوا تھا۔ پیر قرار حسین بیٹھا تھا اور کے سامنے صغراں تھی۔ پیر صاحب ہاتھوں سے صغراں کے وجود پر دم کر رہے تھے، ایک ایسا دَم جو کسی کتاب میں تھا۔ صغراں کی آنکھوں میں خوف کا دھواں بھرا تھا اور پیر صاحب کے چہرے پر مکروہ سایہ۔ بِلا کچھ دیر چپ چاپ دیکھتا رہا۔ اس کے دل میں جیسے کوئی گہری چیز ٹوٹ کر نیچے گر گئی جیسے کسی نے دروازہ اندر سے بند کر کے کنجی پھینک دی ہو۔ وہ نیچے اترا تو ہوا میں وہی لوبان کی خوشبو اب خوشبو نہیں ایک ناپاک یاد تھی۔ اس کے اندر ایسا طوفان اٹھا، جو برسوں بعد جیل کی کوٹھریوں میں بھی خاموش نہ ہوا۔ بس پتھر بن کر اس کے سینے میں جم گیا۔

اسی شام مزار پر چراغ جلنے لگے تھے۔ مریدوں کی صفیں ترتیب سے بیٹھ چکی تھیں اور ہوا میں وہ عقیدت گھلی ہوئی تھی جو اکثر اندھے یقین سے جنم لیتی ہے۔ پیر قرار حسین ابھی حجرے سے نکلنے والے تھے، مزار کے دروازے پر ان کے لیے قالین بچھایا جا رہا تھا۔ بِلا کچن کے پیچھے ایک ستون کے سائے میں کھڑا تھا، چپ، جیسے خود اپنی سانسوں سے بھی چھپ رہا ہو۔ ہاتھ میں چھری تھی اور دل میں وہ خوف جو کبھی یقین بن کر دھڑکنے لگتا ہے۔ اس کے سامنے بھیڑ تھی، دعا کے لیے ترستی آنکھیں، عقیدت سے جھکی گردنیں اور ان سب کے بیچ وہ چہرہ جسے وہ اب صرف نفرت کے دھندلے پردے سے دیکھ رہا تھا۔ پیر صاحب مجمع کے بیچ آئے ، سفید لباس، چہرے پر مسکراہٹ۔ لوگ آگے بڑھ بڑھ کر ہاتھ چومنے لگے ۔ انہیں کے درمیان بِلا بھی آگے بڑھا۔ کسی کے سمجھنے سے پہلے اس نے وار کر دیا۔ پیر صاحب کے چہرے پر حیرت لمحہ بھر کو ٹھہری، پھر وہ زمین پر گرے، صحن میں خون کی گرم بُو گھل گئی۔ بِلے نے اتنے وار کئے کہ پیر صاحب کی انتڑیاں فرش پر بکھر گئیں۔ مریدوں کے ہجوم میں شور اٹھا، کوئی بھاگا، کوئی چیخا، کوئی بس سجدے میں گر گیا۔ اور بِلا؟ وہ بس وہیں کھڑا رہا۔۔ جیسے اپنے کیے کو نہیں، اپنی تقدیر کو دیکھ رہا ہو۔ بِلے کو اُسی رات گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت میں کہا گیا کہ ”عمر کم ہے، فہم ناپختہ ہے“ سو اسے سات سال کی قید سنائی گئی۔ مگر جو طوفان اس کے اندر اس دن بیدار ہوا تھا، وہ کسی سزا سے ختم ہونے والا نہیں تھا۔

سات برس بعد جب بِلا جیل سے نکلا تو گاؤں بدل چکا تھا۔ وہی مزار، وہی صحن مگر فضا میں عقیدت کی وہ نمی نہیں رہی تھی، جیسے وقت نے وہاں بھی اپنا تھوک پھیر دیا ہو۔ ستار حسین اب گدی نشین تھا۔ وہی جو کبھی پاگل ملنگ کہلاتا تھا، اب”دیوانہ پیر“ بن چکا تھا۔ لوگ اس کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھتے۔ اس کی ہر بے ربط بات کو کرامت مانتے اور اس کے جھولتے ہاتھوں میں شفا تلاش کرتے۔ صغراں مر چکی تھی۔ کسی نے بتایا، ”بخار اٹھا تھا، دو دن میں ختم ہو گئی“۔بس اتنا ہی۔ نہ قبر کا نشان، نہ یاد کا سایہ۔

بِلا دیر تک مزار کے دروازے کے پاس کھڑا رہا۔ دیواروں پر وہی چراغ تھے مگر اس کے اندر سب بجھا ہوا۔

پھر وہ چلا گیا۔۔ ہمیشہ کے لیے۔ پنجاب کے میدانوں سے گزرتا ہوا شہر تک جا پہنچا، جہاں جرم کمائی تھا اور گناہ روزمرہ کی عادت۔ وقت کے ساتھ بِلا ایک آلہ بن گیا۔ سیاسی ٹھیکیداروں، قبضہ گروں اور گینگسٹرز کے ہاتھوں میں۔ اس کے اندر اب رحم نہیں رہا تھا اور نہ ہی خوف۔ بس ایک عادت رہ گئی تھی، مارنے کی، لوٹنے کی، چاہے اندر کچھ بھی مر جائے۔ وہ ہر دو تین سال بعد پھر جیل پہنچ جاتا جیسے جیل ہی اس کی اصل پناہ گاہ ہو۔ مگر اندر کہیں، مٹی کے نیچے، وہی لڑکا اب بھی سانس لے رہا تھا، وہی جو روشن دان کے نیچے اپنی بہن کو دیکھ کر پتھر ہو گیا تھا۔ اسی لیے لوگ کہتے تھے کہ”بِلا ہر جرم کر سکتا ہے سوائے اُس جرم کے جو عورت کی عزت سے جڑا ہو“۔ شاید اسی لیے اس کے ہاتھوں پر خون کے دھبّے تو تھے مگر کسی بے حرمتی کا نشان نہیں۔

آخری بار جب بِلا یہاں سے چھوٹ رہا تھا، تو جاتے ہوئے رُک کر بولا، ”اب میں تھک چکا ہوں ماسٹر“۔اس کے لہجے میں وہی سختی تھی، وہی خراش جو برسوں کی جیل تراشتی ہے، مگر آنکھوں میں ایک دھند تھی۔۔ جیسے جسم ہار گیا ہو مگر انا اب بھی سانس لے رہی ہو۔ پشیمانی اب ابھی نہیں تھی، وہ اس کے قبیلے کا لفظ ہی نہیں تھا۔ مگر تھکن تھی ،گوشت کی، ہڈیوں کی اور شاید وقت کی بھی۔

پھر دو سال تک اس کی کوئی خبر نہ آئی۔

مگر جیل اپنے پرانے قیدیوں کو کبھی بھولتی نہیں۔ یہ دیواریں جانتی ہیں کہ کون کہاں جا کر سانس لے رہا ہے، کون مر گیا اور کون اب بھی زندہ رہنے کا دکھ جھیل رہا ہے۔ ایک دن خبر آئی، آہستہ سے جیسے کسی نے راز کی بات بتائی ہو کہ بِلے نے شہر کے پرانے بازار میں ایک طوائف کے ہاں ڈیرہ ڈال لیا ہے۔ کہا گیا، وہ عورت وہی ہے جو برسوں پہلے، جب بلا پہلی بار شہر آیا تھا اس کی زندگی میں آئی تھی۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ کبھی وہاں جاتا، کبھی مہینوں غائب رہتا مگر ہر بار واپس اسی در پر لوٹتا۔ شاید اس عورت کے کمرے میں، جس میں راتیں دھند اور عطر میں لپٹی رہتی تھیں، بلا کو وہ خاموشی ملتی تھی جو کسی جیل میں نہیں ملتی۔ یا شاید وہ بھی اس کی طرح تھک چکی تھی اور دونوں نے ایک دوسرے کی تھکن میں پناہ تلاش کر لی تھی۔

کوئی چار مہینے پہلے بلا ایک بار پھر جیل آ گیا۔ خبر پھیلی کہ اس نے اُسی طوائف، سلیمہ کو بے دردی سے قتل کر دیا ہے۔ جب اسے لایا گیا تو اس کی آنکھوں میں وہی پرانی چمک تھی مگر اب اس کے اندر کچھ ٹوٹ چکا تھا۔ چہرہ جیسے کسی نے اندر سے مٹا دیا ہو۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا، کسی کو قریب نہیں آنے دیتا تھا۔ ہر تیسرے چوتھے دن کسی قیدی سے الجھ پڑتا، بے تحاشا مارتا اور پھر دِنوں تنہائی میں بند رہتا۔ کسی کو کچھ خبر نہیں تھی کہ ہوا کیا۔ سب حیران تھے کہ بِلا، جو عورت پر ہاتھ نہیں اٹھاتا تھا، وہی بِلا اب قاتل بن گیا۔ جیل کے صحن میں قیدی سرگوشی کرتے تھے؛ ”پندرہ برس وہ اس عورت کے ساتھ رہا اور آخرکار اسی کو مار دیا؟” کوئی کہتا، “محبت کا جنون تھا“، کوئی کہتا، ”پاگل ہو گیا ہے“، مگر سچ کسی کے پاس نہیں تھا۔ وقت گزرتا گیا اور بِلے کی حالت بگڑتی گئی۔ اب وہ دن بھر پاگلوں کی طرح بڑبڑاتا ۔رات کو دیوار سے سر لگاتا اور کان لگا کر کچھ سنتا جیسے کوئی اندر بول رہا ہو۔ خاموشی میں اس کے ہونٹ ہلتے رہتے جیسے کوئی پرانا مکالمہ دہرا رہا ہو۔ کبھی اپنے باپ ستار حسین کا نام لیتا، کبھی تایا قرار حسین کو کوستا، کبھی اپنے گناہوں کو گننے لگتا۔ لیکن ایک بات سب نے نوٹ کی کہ اس کے پاگل پن میں بھی دو نام کبھی زبان پر نہ آئے۔ ایک صغراں اور دوسرا سلیمہ۔ جیسے ان دونوں کو اس نے اپنے اندر کہیں محفوظ کر رکھا ہو، ایک ایسی جگہ جہاں نہ پچھتاوا پہنچ سکتا تھا، نہ ہوش۔

جب اس کی آنکھوں کے نیچے نیلاہٹ اترنے لگی اور راتوں کی نیندیں دن میں بھٹکنے لگیں تو جیلر نے سفارش لکھی کہ قیدی بِلا ولد ستار حسین کو ذہنی امراض کے وارڈ میں منتقل کیا جائے۔ یوں لگتا تھا کہ بِلے کی کہانی اپنے انجام پر نہیں، اپنے دائرے پر واپس آ گئی ہے۔

یہ جیل میں اس کی آخری رات تھی۔ وہ چپ چاپ آیا۔ میرے سامنے بیٹھ گیا اور دیر تک کچھ نہیں بولا۔ میں نے بھی نہیں پوچھا۔ کبھی کبھی سوال بھی توہین لگتا ہے۔ وہ پتھر کی طرح بیٹھا رہا، جیسے اپنی ہی سانسوں کا شور سن رہا ہو۔ پھر آہستہ سے بولا، ”ماسٹر میں اس عورت سے محبت کرتا تھا۔” اس کی آواز میں پہلی بار انسانیت کی کوئی پرت دکھائی دی۔ ”میں نے کبھی اس سے دغا نہیں کی۔ میں نے کسی اور کو دیکھا تک نہیں۔ اس کا ماضی کیا تھا مجھے کبھی فرق نہیں پڑا۔ روپے پیسے کی کمی نہیں ہونے دی۔ اس نے اپنی زندگی بدل لی تھی۔۔ نماز، حج، یتیم خانہ۔ میں نے اسے روکا نہیں۔ میں سمجھا شاید یہی کفارہ ہے اس کا۔ وہ چلّے کاٹنے لگی، ذکر اذکار میں ڈوب گئی۔ میں جانتا تھا ہر کوئی پچھتاوا سہہ نہیں سکتا۔ میں نے کرنے دیا جو وہ کرنا چاہتی تھی۔“ وہ رکا جیسے زبان پر رکھا جملہ زہر بن گیا ہو۔ دیر تک خاموش بیٹھا رہا پھر گردن جھکائے مدھم آواز میں بولا:

”ماسٹر، ہماری ایک بیٹی ہے۔۔ پندرہ برس کی۔ میں نے اس کا نام صغراں رکھا ہے۔“ یہ نام لیتے ہی اس کے چہرے پر ایک کپکپی سی دوڑ گئی۔ آنکھوں میں ایک چمک ابھری، وہی پرانی وحشت جو برسوں پہلے میں نے اس کے اندر دیکھی تھی، جب وہ روشن دان کے نیچے کھڑا اپنی بہن کو دیکھ رہا تھا۔ لگتا تھا جیسے وہ لمحہ دوبارہ اس کے اندر زندہ ہو گیا ہو۔ پیر قرار حسین، وہ نیم اندھیری کوٹھڑی، صغراں کی خوفزدہ آنکھیں، لوبان کی بو، اور وہ مٹی جو اس دن سے اس کے اندر جم گئی تھی۔ باہر بارش کے بعد کی زمین کی بو تھی، مگر جیل کے اندر وہی پرانی گھٹن۔ جیسے ماضی بھیگ گیا ہو مگر گناہ ابھی خشک ہو۔

اس کے لب ہلنے لگے، مگر آواز دیر سے نکلی۔

”سلیمہ اسے دم کرانے لے گئی“۔

پھر وہ اچانک سیدھا بیٹھ گیا جیسے کسی نے اس کے جسم میں بجلی بھر دی ہو۔آنکھیں پھیل گئیں، سانس بھاری ہو گئی۔

”نا ماسٹر۔۔۔ نا “

اس کی آواز دیواروں سے ٹکرا کر پلٹی۔ ”وہ میری صغراں تھی۔۔ میری خون کی صغراں۔۔میں ایک صغراں کھو چکا تھا۔۔دوسری نہیں۔۔نا ماسٹر نا“ ۔۔۔

میں نے دیکھا اس لمحے وہ جیل میں نہیں تھا۔ وہ پھر اسی مزار میں کھڑا تھا۔ وہی دھند، وہی خوف، وہی گناہ کی بو۔ اس بار ہاتھ میں چھری نہیں، تقدیر تھی۔ اور اس کے وار سے جو چیخ نکلی، وہ شاید سلیمہ کی نہیں تھی۔۔ قرار حسین کی نہیں تھی، صغراں کی تھی اور خود بِلے کی بھی تھی۔ پھر خاموشی اتری۔ وہی جو ہر گناہ کے بعد زمین پر آتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *