Laaltain

نجمِ اسود اور ننھی کائناتیں: قسط نمبر 4 (ALS کے ساتھ میرا تجربہ)

23 اپریل, 2021
Picture of طارق عباس

طارق عباس

گذشتہ اقساط کے مطالعہ کے لئے درج ذیل لنکس استعمال کیجئے (لنک نئے ٹیب میں کھلیں گے)

قسط نمبر 1قسط نمبر 2، قسط نمبر 3

باب نمبر 3: اے ایل ایس کے ساتھ میرا تجربہ

مجھ سے بارہا یہ پوچھا جاتا ہے کہ میں اے ایل ایس (وہ بیماری جس میں ہاکنگ مبتلا تھے۔ مترجم) کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہوں؟ میرا جواب یہ ہے ،” کچھ خاص نہیں”۔ میں جس حد تک ممکن ہو سکے،ایک نارمل زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہوں، اور اپنی حالت کے بارے میں نہیں سوچتا یا ان امور پر افسوس نہیں کرتا جو میں بیماری کے باعث انجام نہیں دے سکتا۔ اور ایسے امور کچھ زیادہ بھی نہیں ہیں۔

یہ دریافت میرے لئے بہت بڑا دھچکا تھا کہ مجھے موٹر نیوران کی بیماری ہے۔ میں جب بہت چھوٹا تھا، تب بھی میری جسمانی حرکات نارمل نہ تھیں۔ میں گیند سے کھیلے جانے والی کھیلوں میں اچھا نہیں تھا، اور شاید یہی وجہ تھی کہ میں نے کبھی جسمانی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ لیکن جب میں آکسفورڈ گیا تو حالات تبدیل ہوتے دکھائی دئے۔ میں نے چپو والی کشتی چلانا شروع کی۔ میں اس سطح پر تو نہیں پہنچ سکا کہ Boat Race مقابلے میں حصہ لے سکوں لیکن کالجز کے باہمی مقابلہ جات تک میں ضرور پہنچ گیا تھا۔

تاہم آکسفورڈ کے تیسرے برس میں ، مجھے یہ محسوس ہوا کہ میری جسمانی حرکات بد سلیقگی کا شکار ہوتی جا رہی ہیں، اور ایک دو مرتبہ بظاہر بغیر کسی وجہ کے میں گربھی گیا تھا۔ اگلے برس جب میں کیمبرج میں تھا، تب والدہ مجھے ہمارے فیملی ڈاکٹر کے پاس لےگئیں۔ فیملی ڈاکٹر نے مجھے ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر تجویز کیا اورا پنی اکیسویں سالگرہ کے کچھ عرصہ بعد میں ٹسٹ کروانے کے لئے ہسپتال گیا۔ دو ہفتے مجھے ہسپتال میں گزارنا پڑے جس دوران میرے بہت سے ٹسٹ کئے گئے۔ انھوں نے میرے بازو سے پٹھوں کے سیمپل لئے، مجھے الیکٹروڈ لگائے گئے، میری ریڑھ کی ہڈی میں تابکاری مائع ڈالا گیا ۔ جب میرا بیڈ اوپر تلے کیا جاتا ساتھ ہی میں ایکس رے مشین میں اس مائع کو میں اوپر تلے جاتا دیکھتا۔ ان سب کے بعد بھی، انھوں نے مجھے یہ نہ بتایا کہ مسئلہ کیا تھا سوائے اس کے کہ یہ multiple sclerosis نہیں تھا اور یہ کہ میرا مرض معمول سے ہٹ کر تھا۔ تاہم میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ڈاکٹروں کو یہ توقع تھی کہ میرا مرض بد سے بد تر ہوتا جائے گا اور وہ مجھے سوائے وٹامن کی گولیاں دینے کے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ مجھے یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ ڈاکٹروں کو وٹامن کی گولیوں کے استعمال سے بھی زیادہ بہتری کی توقع نہ تھی۔ اور مجھے زیادہ تفصیلات میں جانے کی خواہش بھی نہ ہوئی کیونکہ تفصیلات یقیناً حوصلہ شکن تھیں۔

مجھے یہ جان کر شدید جھٹکا لگا کہ میں ایک لاعلاج مرض کا شکار ہوں جو عین ممکن ہے کہ مجھے چند برسوں میں مار ڈالے ۔ ایسا میرا ساتھ کیسے ہو سکتا تھا؟ میں کیوں اس طرح مارا جاؤں؟ تاہم جب میں ہسپتال میں تھا، میں نے ایک لڑکا دیکھا جسے میں تھوڑا بہت جانتا تھا، وہ میرے سامنے والے بستر پر تھا اور خون کے کینسر کی وجہ سے میری موجودگی میں ہی اس کی وفات ہو گئی تھی۔ یہ منظر بہت تکلیف دہ تھا۔ یقیناً ایسے لوگ موجودتھے جن کی حالت مجھ سے بھی بدتر تھی۔ کم از کم اتنا ضرور تھا کہ مجھے اپنی حالت سے کراہت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ جب کبھی مجھے خود پر ترس آنے لگتا ہے، میں اُس لڑکے کو یاد کر لیتا ہوں۔

میری سمجھ سے باہر تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے کیونکہ نہ مجھے یہ معلوم تھا میرے ساتھ کیا ہونے والا تھا نہ ہی معلوم تھا کہ بیماری کس رفتار سے بڑھے گی۔ ڈاکٹروں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں کیمبرج واپس چلا جاؤں اور جنرل نظریۂ اضافت اور کُونیات پر اپنی تحقیق جاری رکھوں۔ لیکن ریاضی میں مضبوط پس منظر نہ ہونے کے باعث میں زیادہ آگے نہیں بڑھ پا رہا تھا، اور ویسے بھی مجھے یوں لگتا تھا کہ میں شاید پی ایچ ڈی کی تکمیل تک زندہ بھی نہ رہ پاؤں۔ مجھے اپنی ذات ایک المیاتی کردار محسوس ہونے لگی۔ میں نے Wagner کو سننا شروع کر دیا لیکن میگزین کے مضامین میں میری مے نوشی سے متعلق خبریں بہت مبالغہ آمیز ہوتی تھیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ جب ایک مضمون میں یہ بات کہہ دی گئی تو باقی مضامین نے بھی اسی بات کو دہرانا شروع کر دیا کیونکہ اس سے کہانی ذرا پر کشش بن جاتی تھی۔ ویسے بھی جو کچھ بھی پرنٹ میڈیا میں بار بار شائع ہو وہ خود بخود سچ بن جاتا ہے۔

اس دوران میرے خواب بھی پریشان کن ہوا کرتے تھے۔ میری بیماری کی تشخیص سے قبل میری زندگی بہت زیادہ بوریت کا شکار تھی۔ مجھے کسی کام میں بھی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ لیکن ہسپتال سے واپس آنے کے چند دنوں بعد میں نے خواب دیکھا کہ مجھے پھانسی دی جانے لگی ہے۔ (اور خواب کے دوران ہی) مجھے احساس ہوا کہ ایسی بہت سے کام تھے جو میں کر سکتا تھا اگر میری پھانسی روک دی جاتی۔ ایک اور خواب جو میں نے بارہا دیکھا وہ یہ تھا کہ میں اپنی زندگی قربان کر کے دوسروں کی جان بچا رہا ہوں۔ لہذاٰ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میں نے مر تو جانا ہی ہے۔ کیوں نہ کچھ لوگوں کا بھلا کر کے مرا جائے۔

مگر میری موت نہیں ہوئی۔ اگرچہ میرے مستقبل پر شک کے بادل منڈلا رہے تھے لیکن مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ میں اپنی حالیہ زندگی سے بہ نسبت ماضی زیادہ لطف اندوز ہو رہا تھا۔ میرا تحقیقی کام آگے بڑھنے لگا، میری منگنی اور بعد ازاں شادی ہو گئی، اور مجھے کِیز (Caius) کالج کیمبرج میں ریسرچ فیلو شپ بھی مل گئی۔

کِیز کالج میں ملنے والی فیلوشپ نے میرے ملازمت کے فوری مسئلے کو حل کر دیا۔ میں خوش قسمت تھا کہ میں نے نظری طبیعیات کا انتخاب کیا تھا کیونکہ یہ ان چند شعبہ جات میں سے تھی جن میں میری جسمانی حالت بہت زیادہ رکاوٹ نہیں تھی۔ اور یہ بھی میری خوش بختی تھی کہ میری جسمانی معذوری کے بدتر ہونے کے ساتھ ہی بطور سائنس دان میری شہرت میں اضافہ ہوا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ لوگ مجھے اپنے اداروں میں ایسی پوزیشن دینے کو تیار تھے جن میں مجھے صرف تحقیقی کام کرنا تھا اور لیکچر دینا ضروری نہ تھا۔

ہم رہائش کے معاملے میں بھی خوش قسمت رہے۔ جب ہماری شادی ہوئی تب Jane ویسٹ فیلڈ کالج لندن میں ابھی انڈر گریجویٹ تعلیم حاصل کر رہی تھی اس وجہ سے اسے ہفتے کے پانچ دنوں کے لئے لندن جانا ہوتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ایک ایسی جگہ چاہئے تھی جو کہیں درمیان میں کر کے ہو اور جہاں پر میں خود سے کیمبرج آ جا سکوں کیونکہ میں زیادہ چل نہیں سکتا تھا۔ میں نے کالج والوں سے مدد کی درخواست کی لیکن کالج کے خزانچی نے بکالج کی پالیسی بتائی کہ ادارہ رہائش کے حوالے سے فیلوز کی مدد نہیں کرتا۔ لہذاٰ ہم نے اپنا نام نو تعمیر شدہ عمارت کا فلیٹ کرائے پر لینے کے لئے جمع کرا دیا، عمارت مارکیٹ میں ہی واقع تھی۔ (بہت برسوں کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ فلیٹ کالج کی ملکیت تھے لیکن کالج والوں نے مجھے نہیں بتایا تھا)۔ جب ہم امریکہ سے گرمیوں کے بعد کیمبرج واپس لوٹے تو ہمیں معلوم ہوا کہ فلیٹ ابھی رہائش کیلئے دستیاب نہ تھے۔ (لیکن عارضی طور پر) یونی ورسٹی کے خزانچی نے ہم پر عنایت کی اور گریجویٹ طالب علموں کے ہاسٹل میں ہمیں ایک کمرہ دے دیا۔ اس نے کہا، ” بالعموم ہم ایک رات کا 12 شلنگ اور 6 پینس چارج کرتے ہیں ، لیکن چونکہ تم دو لوگ ہو اس لئے ہم 25 شلنگ چارج کریں گے”

ہم وہاں صرف تین راتیں ٹھہرے۔ بعد ازاں ہم نے ایک گھر ڈھونڈ لیا جو میرے یونی ورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ سے 100 یارڈ کے فاصلے پر تھا۔ یہ گھر دراصل ایک اور کالج کا حصہ تھا، جو اس نے اپنے ایک فیلو کو کرائے پر دے رکھا تھا۔ وہ فیلو حال ہی میں مضافاتی رہائشی علاقے میں شفٹ ہوا تھا اور یوں تین ماہ کے لئے اس نے ہمیں گھر شکمی کرائے پر (sub-let) دے دیا۔ ان تین ماہ کے دوران ہم نے اسی سڑک پر واقع ایک اور خالی مکان ڈھونڈ نکالا۔ ایک ہمسائے نے مالک مکان کو Dorset سے بلایا اور اسے کہا کہ یہ رسوائی کا مقام ہے کہ جب بھی جوان لوگ گھر ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں تمھارا گھر خالی پڑا ہوتا ہے (اس گھر سے کسی کو فائدہ پہنچاؤ اور اسے کرائے پر دے دو)، اور یوں اُس نے ہمیں گھر کرائے پر دے دیا۔ کچھ برس وہاں گزارنے کے بعد ہم اسے خرید کر اس کی حالت کچھ بہتر بنانا چاہ رہے تھے۔ لہذاٰ میں نے اپنے کالج سے قرض کے لئے درخواست جمع کرائی۔ کالج نے اپنا سروے کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ ہم ایک اچھا رسک نہیں لے رہے تھے۔ لہذاٰ آخرِ کار ہم نے ایک بلڈنگ سوسائٹی سے قرض لیا، اور میرے والدین نے بھی ہمیں گھر کی حالت بہتر بنانے کے لئے کچھ رقم دی۔

ہم وہاں مزید چار برس تب تک رہے جب تک میرے لئے سیڑھیاں چڑھنا قریب قریب نا ممکن ہو چکا تھا۔تب تک کالج میں میری حیثیت بھی پہلے سے بہتر ہو چکی تھی اور (ادارے کا) خزانچی بھی تبدیل ہو چکا تھا۔ لہذاٰ کالج والوں نے ہمیں ایک گراونڈ فلور کا فلیٹ دے دیا، جو کالج ہی کی ملکیت تھا۔ میرے لئے یہ فلیٹ بہت مناسب تھا کیونکہ اس کے کمرے کشادہ اور دروازے  بڑے تھے۔ اور فلیٹ وسط میں اس طرح واقع تھا کہ میں اپنی الیکٹرک ویل چیئر پر کالج بھی جا سکتا تھا اور اپنے ڈیپارٹمنٹ بھی۔ یہ فلیٹ ہمارے بچوں کے لئے بھی نہایت موزوں تھا کیونکہ یہ اطراف سے باغ میں گھرا ہوا تھا اور باغ کی دیکھ بھال کالج کے مالی کرتے تھے۔

1974 تک میں خود سے کھا پی بھی سکتا تھا اور بستر پر بھی خود آ جا سکتا تھا۔ Jane بغیر کسی بیرونی مدد کے میری دیکھ بھال بھی کرتی تھی اور بچوں کو بھی سنبھالتی تھی۔ لیکن اس کے بعد معاملات مشکل ہوتے گئے، لہذاٰ میں نے اپنا ایک ریسرچ سٹوڈنٹ اپنے ساتھ رکھ لیا۔ مفت رہائش ، میری بھر پور توجہ اور (ہمہ وقت) دستیابی کے عوض وہ مجھے بستر تک لے جانے میں میری مدد کرتا تھا۔ 1980 میں ہم نے کمیونٹی سسٹم اختیار کیا اور ایک دو گھنٹوں کیلئے نرسیں صبح اور شام کے وقت آنا شروع ہو گئیں۔ یہ سلسلہ مجھے 1985 میں نمونیا ہونے تک جاری رہا۔ میرا tracheostomy کا آپریشن ہونا تھا اور اس کے بعد مجھے 24 گھنٹے نرس کی دیکھ بھال چاہئے تھی۔ اور یہ سب کچھ بہت سی مختلف فاونڈیشنز کی (مالی) معاونت سے ممکن ہو سکا۔

آپریشن سے قبل میری آواز دن بدن غیر واضح ہوتی جا رہی تھی، اور جو لوگ مجھے اچھی طرح جانتے تھے وہی میری آواز سمجھ سکتے تھے۔ لیکن بہرحال میں بات چیت کم از کم کر ضرور لیتا تھا۔ میں نے سائنسی مقالہ جات ایک سیکریٹری کو لکھوا کر مکمل کئے اور میں سیمینارز میں ایک برقی ترجمان (interpreter) کی مدد سے گفتگو کیا کرتا تھا جو میرے الفاظ کو مزید وضاحت سے بولتا تھا۔  تاہم tracheostomy نے میرے بولنے کی صلاحیت مکمل طور پر سلب کر لی۔ کچھ وقت تک میری بول چال صرف ایک ہی طریق پر ممکن تھی او ر وہ یہ تھا کہ ایک spelling card میرے سامنے لایا جاتا تھا اور اس پر تمام حروف لکھے ہوتے تھے، اور فرداً فرداً ہر حرف پر ہاتھ رکھا جاتا، جب درست حرف پر ہاتھ رکھا جاتا تو میں اپنی ابرو کے اشارے سے بتا دیتا۔ اس طریق پر سائنسی مقالہ لکھنا تو درکنار، گفتگو تک کرنا نہایت مشکل تھا۔ تاہم کیلیفورنیا میں ایک کمپیوٹر کے ماہر Walt Woltosz کو میری تکلیف کا علم ہوا۔ اس نے مجھے ایک کمپیوٹر پروگرام لکھ کر بھیجا جس کا نام Equalizer تھا۔ یہ پروگرام مجھے ایک مینیو (menu) کی سیریز میں سے الفاظ منتخب کرنے میں مدد کرتا تھا اور الفاظ کے انتخاب کیلئے میرے ہاتھ میں ایک سوئچ ہوتا تھا۔ پروگرام آنکھ اور سر کی حرکت سے بھی کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ جب میں وہ فقرہ لکھ چکتا جو میں کہنا چاہ رہا ہوتا تھا، وہ فقرہ میں speech synthesizer کو دیتا اور وہ اسے خود کار طریق پر بول دیتا تھا۔

ابتداً میں equalizer پروگرام کو desktop کمپیوٹر پر چلا سکتا تھا۔ بعد ازاں ڈیوڈ میسن (David Mason)، جو کمیبرج کے Adaptive Communications شعبہ سے تعلق رکھتا تھا، اس نے ایک چھوٹا سا کمپیوٹر اور speech synthesizer میری وہیل چیئر کے ساتھ فٹ کر دیا۔ یہ نظام مجھے پہلے سے کہیں بہتر طریق پر گفتگو میں مدد دیتا ہے۔ میں ایک منٹ میں قریب پندرہ الفاظ بول سکتا ہوں۔ میں جو کچھ لکھ چکا ہوتا ہوں وہ بول بھی سکتا ہوں اور اسے ایک ڈسک پر محفوظ بھی کر سکتا ہوں۔ پھر اسے میں پرنٹ بھی کر سکتا ہوں یا دوبارہ سے ڈسک کو چلا کر ایک ایک فقرہ بول سکتا ہوں۔ اس نظام کو استعمال کر کے میں نے دو کتابیں اور بہت سے سائنسی مقالہ جات لکھے ہیں۔ اوراسی نظام کی مدد سے میں نے سائنسی اور معروف (popular)لیکچرز بھی دئے ہیں۔ یہ لیکچرز لوگوں کو پسند بھی آئے ہیں، اور میرا خیال ہے اس کا بہت سارا کریڈٹ speech synthesizer کو جاتا ہے، جو Speech Plus کمپنی کا تیار کردہ ہے۔ انسان کی آواز بہت اہم ہوتی ہے۔ اگر آپ کی آواز غیر واضح ہو تو لوگ آپ کو کند ذہن گردانتے ہیں۔ میرے استعمال میں موجود Speech Synthesizer میری معلومات کے مطابق سب سے بہتر ہے کیونکہ یہ لحن (intonation) اور سُر کا درست طریق پر استعمال کرتا ہے اور Dalek (بی بی سی کے ایک انگریزی ڈرامے کا روبوٹ کا کردار۔ مترجم) کی طرح نہیں بولتا۔ اس کے ساتھ صرف ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ اس کا لہجہ امریکی ہے۔ بہرحال اب یہ آواز میری پہچان ہے اور اب اگر مجھے برطانوی لہجے کی مشین مل بھی جائے تب بھی میں اسے تبدیل نہیں کرنا چاہوں گا۔ کیونکہ میں خود کو ایک مختلف انسان محسوس کرنے لگوں گا۔۔

میری تمام جوانی عملاً موٹر نیوران بیماری کے ساتھ کٹی ہے۔ پھر بھی یہ مجھے اپنے کام میں کامیاب ہونے اور ایک شاندار فیملی کو وجود بخشنے سے نہیں روک پائی۔ اور اس کی بنیادی وجہ وہ سہارا ہے جو میری بیوی نے مجھے دئے رکھا، اور میرے بچوں، بہت سے لوگوں اور اداروں نے بھی۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میری حالت ابتری کی طرف اتنی تیزی سے گامزن نہیں ہوئی جتنا کہ عموماً ہوا کرتی ہے۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔

یہ گفتگو برٹس موٹر نیوران disease ایسوسی ایشن کی کانفرنس میں کی گئ۔

 

 

ہمارے لیے لکھیں۔