Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

(حجامت (افسانچہ

test-ghori

test-ghori

18 مارچ, 2013
مراسلہ: عامر رضا
قارئین کی نگارشات سے۔۔۔
دن بھر میں چار حجامتیں جن میں کبھی کبھار ایک آدھ ٹنڈ بھی شامل ہو جاتی اور کوئی پانچ سے چھ شیویں شاہد نائی کی کل اوسط آمدنی کا ذریعہ یہی تھا ۔شیو کروانے والا اگر کوئی تگڑا دکاندار ہوتا تو اس کے ناک کے بال مفت میں کاٹنے پڑتے اور مٹھی چاپی الگ سے ۔اگر کہیں کوئی ہاتھ سخت پڑجاتا تو دکاندار ایک موٹی سی گالی بھی دے دیتا؛”حرام خور تونے بھی زدداری کی طرح ہاتھ سخت ہی کر دیا ہے پولا پولا دبا”…. شاہد نائی اس گالی پر غصہ پیتا اور ہاتھ کا دباؤ ہلکا کر دیتا ہے ۔قلندری کریانہ سٹور کے مالک سے وہ سب سے زیادہ تنگ تھا ۔ جمعہ کا سارا دن شیخ صاحب کھا جاتے تھے دن کا آغاز خط بنانےسے ہوتا جس میں اس کو اتنا ہی وقت لگتا جتنے وقت میں وہ چار چھوٹی اور ایک بڑی حجامت کر سکتا تھا ۔ہر خط کے بعد شیخ کی پکوڑے جیسی ناک سے بال کاٹنا اُسے عذاب لگتا تھا۔شیخ صاحب کی ریش اور بالوں کو رنگنے کے بعد وہ دکان میں بیٹھے ایک آدھ گاہک کوبھگتا نے کے قابل ہو ہی جاتا ۔اس دوران میں شیخ صاحب خبروں کا بقیہ والا صفحہ پڑھتے رہتے ۔خضاب کے خشک ہوتے ہی اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے دوسری جنگ عظیم کی پن اپ گرلز کے پوز میں بازو اٹھا کر سر پر رکھتے “چل بیٹا بغلوں کے بال اتار دے…چاول کے دانے سے زیادہ ہو گئے ہیں”…یہ لمحہ شاہد نائی کی زندگی میں سب سے زیادہ تلخ ہوتا تھا… اسے ایسا لگتا جیسے پورے نظام کے گلنے سڑنے کی بدبو شیخ صاحب کی بغلوں میں آ گئی ہو۔اس نے کئی بار سوچا کہ دکان پر لکھ کر لگا دے ؛”بغلوں سے بال نہیں اتارے جائیں گے” لیکن پھر یہ سوچ کر ارادہ ترک کر دیتا کہ کہیں اس کے رہے سہے گاہک بھی نہ چلیں جائیں۔ شیخ کی بغلوں کو صاف کرتے ہوئے اس کی نظر اکثر پیٹر مسیح پر پڑ جاتی جس نے اس کی دکان کے سامنے بلیرڈ کا میز لگایا ہوا تھا ۔ وہ نہا دھو کر پاوڈر لگا کر گھر سے دوپہر کے قریب نکللتا اپنی دکان کھولتا اور کام پر بیٹھ جاتا لونڈے لپاڑے آتے بلیرڈ کھیلتے پیسے پیٹر کی جیب میں ڈالتے اور چلتے بنتے ۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے شاہد کے کاروبار کو کافی متاثر کر دیا تھا ۔ساتھ ہی ڈنڈی ہیر کٹنگ ایر کنڈیشن سیلون کھل گیا تھا۔جس میں بجلی بند ہونے کی صورت میں جنریٹر کی سہولت بھی موجود تھی ۔چونکہ دکان بڑی تھی اور سرمایہ کافی لگا ہوا تھا اس لیے ان کے ریٹ بھی زیادہ تھے ۔اے سی روم ہونے کی وجہ سے ڈنڈی ہیڑ کٹنگ والوں نے بغلوں کی صفائی سے معذرت کر لی تھی اور لکھ کر لگا دیا تھا کہ؛”کشمیر کی آازادی تک بغلوں کی صفائی بند ہے”۔ اور اس کے نیچے بگ پاکی ریزر کا اشتہار لگا دیا تھا…شاہد کے پاس اب وہی لوگ آتے تھے جو حجامت اور شیو کے ساتھ بغلوں کی صفائی جھونگے میں کرواتے ہوئے بگ پاکی ریز کے پیسے پچا لیتے تھے ۔جس دن بجلی نہ ہوتی اس دن شاہد نائی کی بِکری بھی کم ہی ہوتی…اس صورتحال سے تنگ آ کر اس نے روزگار کے متبادل مواقعے تلاش کرنا شروع کیے ۔بہت دن تک سوچتا رہا پھر اچانک ذہن میں بلیرڈ کی میز لگانے کا خیال آیا ۔۔۔لیکن اس میں بڑی قباحت پیٹر کی دکان تھی۔اور اس کے ہوتے ہوئے دوسری دکان کا چلنا مشکل تھا ۔اور شاہد کی دکان میں میز رکھنی کی جگہ بھی نہیں تھی ۔اگر وہ بازار میں میز رکھتا تو نوری الیکٹرک سٹور کا فرنٹ مارا جاتا۔اور سڑک کے اس پارک قادری کریانہ سٹور کا مالک بھی متاثر ہوتا…کئی دنوں تک اس نے اس بات پر غور کیا…اس نے یہی مناسب سمجھا کہ پیٹر کو کسی نہ کسی طرح چلتا کیا جائے…اس کے لیے اس نے شیخ صاحب سے بات بھی کی ۔شیخ صاحب کی بغلیں اتارتے ہوئے اس نے کہا؛ “یہ چُوڑا لڑکوں کو برباد کر رہا ہے…سارا دن سکول نہیں جاتے یہاں کھڑے بلیرڈ کھیلتے ہیں ۔لڑکیوں کو بھی چھیڑتے ہیں”۔شیخ صاحب نے اس کی بات کو نوٹس لیے بغیر قمیض اٹھا کر دوسری بغل بھی آگے کر دی…اور دونوں بغلوں کی صفائی کے بعد دکان سے چلتے بنے…ڈیرھ دو ماہ تک اس نے پیٹر کے خلاف چوری چھپے مہم چلائی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا…آخر کار ایک دن اس نے اس مسئلے کا حل ڈھونڈ ہی لیا ۔جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ کئی دنوں تک گو مگو کا شکار رہا…جیسے جیسے گرمیاں قریب آنے لگی لودشیڈنگ کے ساتھ ساتھ شیخ کی بغلوں کی بدبو بڑھنے لگی ۔اور اس کی آمدن کم ہونے لگی۔اس کے مزاج میں تلخ بڑھنے لگی ۔اسی تلخی میں ایک دن اس نے چوک میں کھڑے ہو کر نعرۂ مستانہ بلند کیا اور کافر کو جہنم واصل کرنے کی دُہائی دی۔اور پھر لوگوں نے اپنے گھر وں کا گند صاف کرنے والوں پر دھاوا بول دیا…

(Published in The Laaltain – Issue 8)