دیکھنے سننے میں کتنا اچھا لگتا ہے کہ کسی انسان کی شادی ہو رہی ہے۔شادی ایک غیر قدرتی عمل ہے، محبت کے بالکل برخلاف۔ایک ٹھونسی ہوئی اور گھسی پٹی سی چیز۔ مگر اس پر ایسے سونے چاندی کے ورق لگا کر، رسموں کا پانی چھڑک کر، خاندان کی رضامندی اور آشیرواد کے عطر میں ڈبو کر مختلف قسم کے سماجوں نے صدیوں کے عرصے میں اسےکتنا سندر بنادیا ہے۔کلرک خطیب یہی سب سوچا کرتا تھا۔ناٹا قد، پیٹھ میں کوبڑ تو نہ تھا، مگر ایک بہت ہلکی سی اٹھان تھی، جو کہ خاص طور پر جب وہ چلتا تو ابھر آتی اور اس کی چال میں ایک قسم کی چمپیزیت پیدا ہوجاتی۔چہرے پر کچی داڑھی، رنگ سانولا، جسم گٹھا ہوا اور ایک ہاتھ میں دو جڑواں انگوٹھے یعنی چھ انگلیاں۔کام کرتا تھا وہ ایک اسکول میں۔ پرائمری اسکول تھا، اور وہ فیس، اسکول کی عمارت پر ہونے والے اخراجات، اساتذہ کی سیلیری اور دوسرے تمام خرچوں کا حساب رکھتا تھا۔کلرک ہونا جرم نہیں، مگر کنوارا کلرک ہونا جرم ہے۔ایک سماجی جرم۔ وہ خاندان سے دور تھا، رشتے ناتوں سے علیحدہ اس کی اپنی زندگی گوتم بدھ نگر کے چِراسی گائوں میں ایک پرانے اپارٹمنٹ میں بسر ہو رہی تھی۔ گاؤں کی آبادی زیادہ نہ تھی۔آس پاس کے تین چار گاؤں اور جوڑ لیے جائیں تو آبادی دس ہزار پر مشتمل ہوتی تھی۔دہلی سے قریب ہونے کی وجہ سے کشادہ سڑکیں۔ عالی شان عمارتیں، کہیں کہیں پکے کچے مکانات بھی تھے۔فٹ پاتھ بھی خوب صاف ستھرے۔جس بلڈنگ میں اس کا قیام تھا، وہ چھ منزلہ تھی، پرانی مگر تمام سہولیات سے لیس۔لفٹ بھی تھی، پانی بھی ۔گرمیوں میں پانی اور بجلی کی قلت کا سامنا ضرور کرنا پڑتا تھا مگر وہ اکیلی جان تھی، سو تھوڑی کفایت سے کام چل جاتا۔اسکول سرکاری تھا، اس کی نوکری تھی معاہدے کے رو سے گیارہ مہینے کی مگر اسے یہاں تیرہواں مہینہ لگ گیا تھا۔کانٹریکٹ مزید چھ ماہ کے لیے بڑھ گیا تھا۔جب وہ یہاں آکر بسا تھا تو رشتے داروں کی آئے دن کی چخ چخ سے کچھ روز کے لیے اسے نجات مل گئی تھی۔ بال کنپٹیوں پر سے چاندی جھلکا رہے تھے، سو ان کی بھی کائیں کائیں بڑھ گئی۔ بیٹا! اب تو شادی کرلو، تم کو کوئی لڑکی پسند ہو تو بتاؤ۔۔دو چار سال اور نکل گئے تو پھر نہ ہوسکے گی۔الغرض اتنی باتیں کبھی دبے منہ، کبھی مذاق یا سنجیدگی سے کہی جاتیں کہ وہ جھلا جاتا۔ شادی ہی شادی۔ ایسا لگتا تھا یہ پورا سماج ایک قسم کا دلال ہے، شادی کا دلال۔موٹی موٹی رقمیں، پھیلی پھیلی جیبیں، کھلی کھلی بانچھیں ، ہر چیز میں شادی کی رال لگی ہوئی تھی۔ہر جسم سے شادی کا بور پھوٹتا تھا، ہر روح میں شادی کی کلی کھلتی تھی۔ نہیں ہوئی شادی۔ کرنی بھی نہیں۔کرے بھی تو کس سے۔آدمی کی عمر بیت رہی ہو، وقت گزر رہا ہو، قبر میں پائوں لٹکے ہوں یا منہ میں چُسنی ہو۔جب تک من بھایا کوئی نہ ملے، دماغ میں اتر سکنے والی کوئی سنگنی نظر نہ آئے یا پھر یونہی من نہ کرے، ارادہ نہ ہو، جی نہ چاہے تو کیا زبردستی یہ نوالہ ٹھونس لیا جائے۔
اسے یاد ہے، اسی جھلاہٹ میں ایک دن اس نے بڑا لور لفنگ کیا تھا۔ حافظ الہام گھر پر بتانے آیا تھا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔ الہام کو حفظ کیے تین برس ہوئے تھے، تیئس برس کا سن تھا۔ گھر والوں نے ہاتھ میں شادی کا کارڈ لے کر کیا کیا اسے نہیں سنا ڈالا تھا۔غصے میں اس نے پاس پڑا والد کا سروتا بڑی زور سے دیوار پر مارا۔نشانہ خطا ہوا اور سروتا جاکر ٹکرایا موٹے مضبوط آئنے سے۔جس کے ٹھیک شکم پر ایک چھوٹی درار ابھر آئی۔سب تو چپ ہوگئے مگر وہ دراڑ چپ نہ ہوئی، روز اس کی انگڑائی پھیلتی جاتی اور ایک روز چھاڑڑڑڑ کرکے آدھا آئنہ زمین پر آ رہا۔اس نے بھی سوچا اچھا ہوا۔ایک تو جسم کمینہ ایسا کہ اپنی ہی قد کاٹھی پر اوب آنے لگتی ہے۔ یہ کیا کہ جب چل رہے ہیں تو ایسا لگ رہا ہے، جیسے کوئی بندر پھو پھو کرتا بھاگا جارہا ہو۔ کوئی اسے ٹوکتا نہ تھا۔مگر اسے اندر سے اپنی اس چال کی بد ہنگم اور بد شکل نمائش سے خوف بھی آتا تھا، چڑ بھی ہوتی تھی۔وہ کس سے یہ بات کہتا، ان گھر والوں سے جن کے نزدیک شادی کا مطلب تھا، اس کی مرضی اور خواہش جانے بغیر ایک عورت لاکر اس کے سر منڈھ دینا۔جسے نہ وہ جانے، نہ پہچانے۔وہ فلموں میں دیکھتا تھا کیسے ہیرو، ہیروئن سے کسی خاص موقعے پر ملتا ہے، دونوں کی آنکھیں چار ہوتی ہیں۔پھر موسم موسم دونوں کا پیار بانس کے پودے جیسا بڑھتا، پھلتا پھولتا ہےا ور ایک دن جب وہ لٹھ جتنا مضبوط ہوجاتا ہے تو دونوں شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ شادی نہیں چاہتا تھا۔ اسے بھی خواہش تھی، مگر وہ کمبخت فلمی فیلنگ اجاگر ہی نہیں ہوتی تھی۔ سب کے پاس عورت تھی، اس کے باپ کے پاس بھی، اس کے بڑے بھائی کے پاس بھی، پڑوس کے قریب قریب ہر مرد کے پاس اور اب تو حافظ الہام جیسے لونڈے کو بھی عورت مل رہی تھی۔ مگر ہیروئن ایک کی بھی دسترس میں نہ تھی۔ کیونکہ ہیروئن ملتی نہیں، ڈھونڈتی پڑتی ہے، کمانی پڑتی ہے۔ایسی خالص، سچی اور بے داغ محبت جو تاعمر رہے، جس میں ایک دوسرے کو سمجھا جا سکے، جس میں ایک دوسرے کا انتظار کیا جا سکے، جس میں ایک دوسرے کی عزت کی جا سکے۔ اس سماج سے ناپید تھی، مگر یہ سماج پردے پر اس محبت کو بڑے چاؤ سے دیکھتا تھا، پر خود ہیروئن کے لیے کوئی محنت نہیں کرنا چاہتا تھا، خود کو بدلنا نہیں چاہتا تھا۔بس پڑے پڑے عورت لادو، کھاٹ سے اسے باندھ دو، اس کی نتھ پہنائی کی رسم ادا کرو، اسے کھیت کی بھربھری زمین میں بدل دو اور خود کولہو کے بیل بن کر اسے جوتے جاؤ، جوتے جاؤ۔نہ عورت کا کوئی وجود، نہ اپنا، نہ اس کی شناخت، نہ اپنی۔بس سب کچھ اللہ میاں کی مرضی پر ڈال دو۔کون عورت ملے گی، کتنے بچے ہوں گے، وہ کیسے پلیں گے، عورت کیسے جیے گی، سب مشیت ایزدی کے حساب سے ہی طے ہو گا۔
اب وہ ان جھنجھٹوں سے نکل آیا تھا۔ اسکول میں جاکر اس کا خیال تھا کہ رشتے داروں کی سوالوں والی جہنم سے اسے چھٹکارا ملے گا۔وہ اپنے کام سے کام رکھے گا۔ اور ایسا ہوا بھی ۔چراسی میں اس سے کسی نے زیادہ پوچھ گچھ نہیں کی۔اساتذہ اس کے کمرے سے ملحق اسٹاف روم میں سیاست، سماج اور مذہب سے لے کر ایک دوسرے کی ذاتی زندگیوں پر اظہار خیال کرتے۔ مگر کمپیوٹر سے الجھے اس کبڑے کلرک کو ایک قسم کی مشین ہی گردانتے۔صبح اس کی آمد پر جس سے بھی مڈبھیڑ ہوتی، وہ گردن ہلا کر اظہار تعلق تو کر دیتا مگر اس سے آگے ایک پھیلی ہوئی خاموشی۔ پھر دفتر میں اسے اتنا سمے بھی نہیں ملتا تھا کہ وہ انہی سب باتوں میں مصروف رہتا کہ کس کی فیس آئی ہے، کس کی نہیں آئی۔ کس کی فیس معاف ہونی ہے، کون سا افیڈیوٹ، کون سا معاہدہ، اور بلڈنگ پر ہونے والے خرچ ورچ کا حساب کیا ہے۔الجھاؤ بہت تھا۔ دن تیز ی کے ساتھ گزرتا۔اس کی زندگی میں دو وقت مگر ایسے تھے، جب وہ تنہائی کی الجھی ہوئی رسیوں پر نٹوں کی طرح رقص کرتا اور زمین سے دوری کا احساس اسے کاٹنے کو دوڑتا اور یہ وقت وہ ہوتا تھا جب وہ اپنے گھر سے پیدل اسکول کے لیے صبح کو جاتا اور شام کو گھر کی جانب واپس لوٹتا۔ ایک جانب کا فاصلہ تین، ساڑھے تین کلومیٹر تھا۔ سائیکل رکشہ وغیرہ مل سکتا تھا، مگر اس کا خیال تھا کہ پیدل چلتے رہنے کے بدلے دن میں بیٹھے رہنے سے جمع ہونے والی چربی کچھ تو پگھلے گی۔جس فٹ پاتھ سے وہ گزرتا، اس پر اکثر ہی صبح کے وقت دھیما ٹریفک ہوا کرتا تھا۔ خوبصورت گاڑیوں اور آٹو رکشہ میں بیٹھی ہوئی عورتیں اسے دکھائی دیتیں اور اس کا دل کھٹ پٹ کرنے لگتا۔صبح کی تازگی ان کے رنگین چہروں سے ایسے جھانکتی جیسے سردی کی بھور، رات کی چٹان سے ابھرتی ہے۔لجیلے سجیلے بدن، ڈرائیونگ سیٹ پر ہوں یا پچھلی نشست پر۔ان کے جسم کے خطوط دیکھ کر اس کے ہونٹوں کی کپکپاہٹ بڑھ جاتی، جسم میں ہڈیاں چٹخ اٹھتیں۔ماتھا شن شن کرنے لگتا اور حواس چوپٹ ہوکر کانوں میں اتر آتے اور شور مچاتے۔ ناف کے نیچے ایک حجلہ عروسی کا در کھلتا، آنکھیں شدت جذبات سے بھیگ بھیگ اٹھتیں اور وہ دھیان بٹانے کے لیے فورا دن کے دوسرے ضروری امور پر غور کرنے لگتا۔کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ وہ سوچتا، کیسا ہو اگر میں ان عورتوں کے بدن میں ڈھل جاؤں، یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ مجھے اچانک کوئی اپار شکتی پراپت ہو جائے اور میں انہیں نظر نہ آؤں۔ان کے برابر بیٹھوں، ان کو حسرت سے دیکھتا رہوں، دیکھتا جاؤں۔ ان کی دن چریا معلوم کروں، ان کے سونے، جاگنے کے اوقات، ہنسنے بولنے کے انداز، جینے کے طور طریقے۔اس کے لیے مجھے نہ کسی میٹریمونیل سائٹ کی ضرورت ہو، نہ کسی ایجنٹ کی۔میں انہیں دیکھ سکوں، مختلف لباسوں میں اور کبھی بے لباس۔میں جان سکوں کہ فلاں عورت کھانا کھاتے وقت کیسی دکھتی ہوگی، کوئی دوسری عورت کس طرح رفع حاجت کے لیے ٹانگیں پھیلا کر، گھٹنوں سے اپنے سینے کے ابھاروں کو دبائے ،پیٹ پر زور ڈالتی ہوگی اور کیا اس وقت اس کی کنپٹیاں سرخ ہوجاتی ہوں گی۔مجھے دیکھنا ہے، جاننا ہے کہ شادی کے لیے ان تفصیلات کا ذکر کبھی کیوں نہیں ہوتا۔یا اگر ان کی کوئی اہمیت نہیں، ضرورت نہیں تو ان باتوں کی کیوں ہے کہ کوئی لڑکی اپنے آچار وچار میں کیسی ہے، اس کا چرتر کیسا ہے، وہ ساس سسر اور شوہر کے بارے میں کیا خیالات رکھتی ہے۔مشرقی عورت کے گلے میں یہ تمغہ کیوں ڈالا گیا ہے کہ اس کے ریاح کی آواز گھر کے کسی فرد تک نے نہیں سنی۔تہذیب کا ریاح سے کیا تعلق ہے؟ کراہت کو لحاظ سے اتنی دوری پر کیوں رکھا گیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کسی کو جان بوجھ، سمجھ کر ہی شادی کی جائے۔مگر کسی کو برت کر شادی کیوں نہیں ہوسکتی۔ پھر یکدم اسے خیال آیا کہ شادی ہی کی کیا ضرورت ہے؟ شادی کا بھوت اتنا گہرا کیوں ہے کہ اس کے دماغ کے پاتالوں میں بھی اس نے اپنے ڈیرے بسائے ہوئے ہیں۔ و ہ نہیں کرے گا شادی، ساری عمر نہیں کرے گا۔بھوکا مرجائے گا، مگر اس شرط پر کھانے کو ہاتھ نہیں لگائے گا کہ اگر ابھی نہ کھایا تو وہ بعد میں بھوکا رکھا جائے گا۔
اسے کسی لحاظ سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ شادی کی ایک عمر ہوتی ہے۔ عمر ایک بہت دھوکے باز چیز ہے۔اسے محسوس ہوتا تھا کہ عمر کسی چیز کی نہیں ہوتی، جنسی خواہش کی بھی نہیں۔ ستر ستر اسی اسی سال کے مرد، جوان لڑکیوں کے گدرائے سینے کو للچائی نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں؟ اسے یہ سب باتیں ڈھکوسلا لگتی تھیں۔کسی ہم خیال کے ساتھ گزاری ہوئی دس سال کی پرسکون زندگی اس کی نظر میں کچرا رقابتوں کی پچاس سالہ قید بامشقت سے کہیں زیادہ بہتر تھیں۔اور وہ لوگ جو شادی نہیں کرتے، کیا سماج باہر کے ہیں؟ کیا ان کے ماتھے پر سینگ نکل آتے ہیں؟ کیا ان کی ٹانگیں گھٹ جاتی ہیں یا پیٹ پر کوئی چپکے سے غیر شادی شدہ گود جاتا ہے۔کچھ بھی نہیں ہوتا۔ہمارے سماجوں میں دراصل شادی کے لیے اتنا مجبور اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ انسان جنسی خواہش کی کوئی دوسری صورت، کوئی آزادانہ اور کھلی ہوئی خواہش لے کر نہ جینے لگے۔ وہ کسی کے ساتھ کوئی ایسی رات نہ بسر کرلے، جس کی ننگئی سے دھرم، سماج اور خاندان تھر تھر کانپتے ہیں۔ جس کی ہنستی ہوئی، کھلکھلاتی ہوئی، سکون بخش قمیص پر انہوں نے ناجائز اور غیر مقدس کے بڑے بڑے بٹن ٹانک دیے ہیں۔
کل شام اس کی والدہ نے ایک لڑکی کی تصویر واٹس ایپ پر بھیجی تھی۔اور ساتھ میں چھوٹا سا پیغام بھی الف کردیا تھا۔
’بیٹا ! یہ بھاگل پور کی ایک فیملی ہے، شریف لوگ ہیں، لڑکی کا باپ موذن ہے، ہوسکے تو اپنے دفتر کی ایک اچھی سی تصویر کھینچ کر بھیج دے، تفصیل میں چھوٹے سے لکھواکر کر ان کو بھجوادوں گی۔‘
اس نے پہلے تو کچھ الفاظ ٹائپ کیے، پھر انہیں مٹا کر قمیص اتار کر گہرے نیلے اجالے میں چوں ں ں ں کرتے ہوئے پنکھے کو گھورنے لگا۔اس کے دماغ میں بجلیاں کوندنے لگیں۔پھر وہی سب۔تصویر بھیجو، تفصیل بھیجو۔پھر وہاں سے لڑکی والے ملنے کا وقت دیں گے، وہاں ملنے جاؤ، خاندان بھر کے بیچ میں بیٹھ کر لڑکی کو دیکھو،اس بے چاری کی نمائش لگاؤ۔کیا کرتی ہو؟ آپ کیا کرتے ہیں؟ زندگی سے کیا چاہتی ہو؟ ایک طویل خاموشی اور پھر بتاتے ہیں کہہ کر پلٹ آنے والا اس کا خاندان۔پھر اس بے چاری کے گھر، خاندان اور اس کے کردار کی پرتیں بیٹھ کر یا تو خود اتارو یا اپنے خاندان والوں کو اتارتے دیکھو۔ اچھا نوکری کرنا چاہتی ہے؟ کوئی بات نہیں، یہ سب تو آج کل ہر گھر میں ہوتا ہے، سنا ہے، تیس کے قریب کی ہے، مگر کہیں کسی لڑکے وڑکے سے دوستی نہیں، شریف گھرانہ ہے۔بات آگے بڑھائی جائے۔اور پھر کیا کہتے ہو کیا سنتے ہو کی ایک لمبی تکرار؟ یہ کیا بات ہوئی؟ کیا چند ملاقاتوں میں وہ ایک دوسرے کو سمجھ لیں گے؟ کیا لوگوں کے بیچ چلنے بیٹھنے، اٹھنے سے ہی سب کچھ سمجھ آ جاتا ہے۔اس کے گھر دن دو دن کے لیے جب مہمان آتے تو ماں باپ کیسے اسی کے بدن میں اس کا ایک نقلی جڑواں بھائی پیدا کر دیتے۔سرگوشیاں ہوتیں۔یہ مت کرو، ایسے مت چلو، یہاں مت بیٹھو۔انکل کو یہ کرکے دکھاؤ۔اور وہ تکلف کی کتنی تکلیف دہ کھائیوں سے گزرتا ہوا وہ سارے کرتب دکھاتا جاتا۔اس بے چاری لڑکی کے ساتھ بھی تو یہی ہوا ہوگا۔اسے بھی کہا جاتا ہوگا؟ کب تک گھر پر بیٹھی رہو گی؟ تمہاری اور بھی بہنیں ہیں؟ شادی کر لو، شادی کرلو۔۔۔اتنے تازیانے پڑتے ہوں گے کہ آخر کو مجبور ہوکر وہ بھی ایک بندریا کی طرح گھروالوں کی مرضی کے کرتب دکھانے پر راضی ہو جاتی ہو گی۔پھر یہی گھر والے جب دھوم دھام سے شادی کرکے اس لڑکی کو بہو بنا کر لے آئیں گے تو زندگی بھر یہ کہہ کہہ کر اس کا جینا حرام کر دیں گے کہ شادی سے پہلے ہم نے اسے جیسا دیکھا تھا، وہ اب ویسی نہیں ہے۔ارے تو تم بھی تو اس کے سامنے کپڑے پھاڑ کر یوں ننگے ہوکر ہوہو کرتے نہیں آگئے تھے۔جنگل کی آگ اور رشتے داروں سے بچنا ہو تو دوڑ لگانی ہی پڑتی ہے، ان سے دور بھاگنا ہی پڑتا ہے۔مگر سماج ہے کہ اس بات پر مصر ہے کہ چاہے جھلس جاؤ، مگر اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہو۔
یہی سب سوچتے سوچتے وہ کب سوگیا پتہ ہی نہ چلا۔
صبح اٹھا تو ایک نئے لحاف میں بسا ہوا دن اس کا انتظار کر رہا تھا۔اس نے پہلے کچی داڑھی مونڈ ڈالی۔ آج اتوار تھا۔اسکول جانا نہیں تھا۔یوں وہ زیادہ تر اتوار تنہائی میں گزارتا تھا۔مگر آج نہا دھو کر پرفیوم لگا کر ٹی شرٹ جینز پہن کر وہ گھر سے نکلا اور قریب کے ہی مونڈھا مارکیٹ میں بے مقصد گشت کرنے لگا۔بازار میں بھیڑ تھی۔ حسب معمول عورتیں زیادہ ، آدمی کم۔اس کی کنوار پن والی رگ پھڑک اٹھی۔وہ ادھر ادھر ہوتا ہوا، گھوم گھوم کر چہرے دیکھتا، ہونٹوں سے ہلکی وسل بجاتا۔جینز کی چھوٹی جیبوں میں چار انگلیاں ٹھونسے ٹٹ پٹ چلے جارہا تھا۔کیا فرسٹ کلاس دن ہے۔آج وہ مشین نہیں ہے اور ایک ایسے بازار میں سیر کر رہا ہے، جس میں کسی کو اس بات سے غرض نہیں کہ اس کی کنپٹیاں سفید ہونے کو آئیں، عمر چالیس کے پیٹے میں آ گئی، توند سی نکلنے لگی اور ٹھوڑی کے نیچے کی کھال کچھ لٹکنے لگی۔وہ اس بازار کو بازار حسن کہے، بازار مصر کہے یا کہے ایک ایسا سماج ، جس میں شادی کا کوئی وجود نہیں۔جسمو ں کا رشتہ بس اتنا کہ ٹکراجائیں، کہیں کوئی چھاتی چھن سے بولے، کہیں کوئی ہتھیلی گھسڑ جائے۔پیچھے ہٹے تو کسی کے کولہے سے کولہا ٹکرا جائے، آگے بڑھے تو کسی کا دھونکنی سا سانس چہرے پر پھلواریاں بنادے۔سکنڈوں کی دنیا، منٹوں کا ساتھ۔یہ آیا وہ گیا، یہ رکا، وہ چلا۔
اسے دکھا کہ ایک دکان پر ایک سانولی رنگ کی لڑکی پشت کیے کھڑی ہے، جس نے بڑا روایتی سوٹ زیب تن کیا ہوا ہے۔وہ اپنی سریلی آواز میں دکاندار سے کسی شوپیس کو خریدنے پر بحث و تکرار کررہی ہے۔اس کے دل میں تجسس جاگا۔ایک ادا سے اسی طرح ہونٹ سکیڑے ہوئے وہ آگے بڑھا اور دکان کے کنارے پر جاکر کھڑا ہوگیا۔لڑکی اب بھی دکاندار سے الجھی ہوئی تھی، اس نے دکان کی کھپچی پر ٹنگے ایک بانس کا ہیٹ کو اتارا،سر پر جمایا۔حالانکہ وہ جانتا تھا کہ آئنہ کس طرف رکھا ہے، مگر پھر بھی اس نے لڑکی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے دکاندار سے بآواز بلند پوچھا۔
’آئنہ کدھر ہے؟‘ لڑکی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، پھر اس کے بندر نما چہرے پر بڑا سا ہیٹ دیکھ کر وہ بحث بھول کر مسکرانے لگی، خطیب نے لڑکی کی مسکراہٹ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، ہیٹ پہنے پہنے ایک ہیرو کی طرح جست بھری، اور آئنے کے سامنے دو انگلیوں کی بندوق بناتے ہوئے بائیں ہاتھ کو سینے پر ٹیڑھا کرکے اس کے نیچے سے تین فائروں کی آواز نکالی۔
’ٹھش ٹھش ٹھش‘