Laaltain

برتولت بریخت کی نظمیں (مترجم: بکل دیو)

10 جولائی، 2020

ادھر برتولت بریخت کی نظموں کے کئی ترجمے پڑھنے میں آئے۔ ان نظموں کو سیدھے طور پر ترجمہ کہا جانا ٹھیک نہیں ہے۔ انہیں ایک قسم کی موزوں ترجمانی کہنا زیادہ ٹھیک رہے گا۔ بریخت کی نظم کا اصل تاثر گرفت میں لے کر میں نے یہ کوشش کی ہے کہ کوئی اردو شاعر اگر اس قسم کے خیال سے دوچار ہوتا تو اس کا رد عمل کیا ہوتا؟ اردو کی جو کلاسیکی شعری روایت ہے، جو تہذیب ہے، جو آہنگ ہے، جو زبان ہے، اس میں ڈھلنے پر وہ خیال کیسا لگتا۔

ان پانچ نظموں میں سے چار کے ساتھ اصل نظم کے انگریزی تراجم بھی دیے گئے ہیں۔

دیکھا جائے تو لغوی معنوں میں یہ نظمیں بھلے ہی ترجمہ نہ ہوں، لیکن خیال کی سطح پر ترجمہ ہی ہی ہیں۔ اور خیال کی سطح پر ترجمہ ہونے کے بعد بھی ان کا اپنا اسلوب ہے، اپنی زمین ہے۔

 

[divider]نہیں ۔۔سکندر سے مجھ کو کوئی گلہ نہیں ہے[/divider]

[col­umn size=one_half position=first ]

نہیں ۔۔سکندر سے مجھ کو کوئی گلہ نہیں ہے

زمیں کو سر کرنا چاہتا تھا
تیمور کوئی
سنا ہے میں نے

عجیب لگتا ہے شغل ایسا
کہ ہم زمیں کیا
بھلا بھی سکتے ہیں آسماں کو
ذرا سی مے سے

نہیں۔۔سکندر سے مجھ کو کوئی گلہ نہیں ہے

مگر کروں کیا
کہ میں نے دیکھے ہیں فرد ایسے
جو صرف ہونے پہ خوش تھے اپنے

ذرا توقع کے مستحق ہیں
وہ لوگ سارے
تمام دشواریوں کے ہوتے
جو جی رہے تھے
جو جی رہے ہیں

میں سوچتا ہوں
عظیم ہونا بھی شاپ ہے کیا؟

کہ میں نے دیکھا ہے اکثر اکثر
عظیم لوگوں کو
متفق جو نہیں تھے خود سے

دروں میں جن کے کوئی خلا تھا
خلا جسے بھرنے کی قواعد کو لوگ عظمت پکارتے ہیں

اک ایسی عظمت
کہ جس میں سگریٹ کا کش بھی لو تو
سکوں نہ آئے

کہ جس میں ہاتھوں میں جام ہو پر
نہ درد کم ہو نہ لطف آئے

کہ جس میں محبوب کی جبیں پر
نظر پڑے تو
کسی علاقے کی کوئی سرحد
ابھرتی جائے ابھرتی جائے

کوئی بتائے
کہ ایسی عظمت کا مول کیا ہے؟

نہیں۔۔سکندر سے مجھ کو کوئی گلہ نہیں ہے
[/column][column size=one_half position=last ]

I’M Not Say­ing Any­thing Against Alexan­der

Timur, I hear, took the trou­ble to con­quer the earth.
I don’t under­stand him.
With a bit of hard liquor you can for­get the earth.

I’m not say­ing any­thing against Alexan­der,
Only I have seen peo­ple who were remark­able,
High­ly deserv­ing of your admi­ra­tion
For the fact that they were alive at all.

Great men gen­er­ate too much sweat.
In all of this I see just a proof that
They could­n’t stand being on their own
And smok­ing and drink­ing and the like.
And they must be too mean-spir­it­ed to get
Con­tent­ment from sit­ting by a woman.

[/column]

[divider]آنے والی نسلوں کے لیے[/divider]

[col­umn size=one_half position=first ]

مجھے یہ اعتراف ہے
کہ اب مفر کی راہ بھی نہیں بچی
مجھے یہ اعتراف ہے
کہ دل میں اب امید تک نہیں رہی
مجھے یہ اعتراف ہے
میں اپنی غلطیاں بھی خرچ کر چکا
مجھے یہ اعتراف ہے
میں مر چکا میں مر چکا میں مر چکا

سو میری اور سے بیاں ہے آخری
خلا ہمارا ہمقرآں ہے آخری

[/column]

[col­umn size=one_half position=last ]

Future gen­er­a­tions

I con­fess this:
I have no hope.
The blind talk about an escape.
I see.
When the errors are con­sumed
The noth­ing will sit next to us as our last com­pan­ion.

[/column]

 

[divider]شیطان کا مکھوٹا[/divider]

 

[col­umn size=one_half position=first ]

ایک نقاشی ٹنگی ہے
گھر کی اک دیوار پر

اور نقاشی
مکھوٹا ہے کسی شیطان کا
سرخی  مائل سونے کا پانی چڑھا

اور میں حساس دل
تکتا ہوں ہمدردی سے
اس کے ماتھے کی نسیں
پھولی ہوئیں ابھری ہوئیں

اور پھر یہ سوچتا ہوں
کتنا مشکل ہے
جہاں بھر کے اندھیرے کا کوئی عنوان ہونا

سخت اذیت
سخت اذیت کن ہے اک شیطان ہونا

[/column]

[col­umn size=one_half position=last ]

On my wall hangs a Japan­ese carv­ing,
The mask of an evil demon, dec­o­rat­ed with gold lac­quer.
Sym­pa­thet­i­cal­ly I observe
The swollen veins of the fore­head, indi­cat­ing
What a strain it is to be evil.

[/column]

 

[divider]سامان مسرت[/divider]

[col­umn size=one_half position=first ]

صبح کی پہلی کرن باد صبا
پربتوں پر برف کی اجلی قبا

موسموں کے رنگ ان کی آب و تاب
طاق پر مل جائے اک کھوئی کتاب

سگ کا سستانا گلی کی دوب پر
شاعری سے گفتگو اسلوب پر

صبح دم اخبار گرنا صحن میں
کوئی جملہ کوندھ جانا ذہن میں

راستے میں اک گھنے برگد کی چھاوں
خوش ترک اور مخملی جوتوں میں پاوں

جھانکنا بٹوے سے اک تصویر کا
یک بہ یک کھل جائے مصرع میر کا

ہوکے گم پھر کھوجنا جنگل میں راہ
گنگنانا نظم اپنی گاہ گاہ

کوہ سے گرتا ہوا اک آبشار
اک پرانے گیت میں بجتا ستار

دل سے بھی دنیا سے بھی منسوب ہیں
ہم کو سامان مسرت خوب ہیں

[/column]
[col­umn size=one_half position=last ]

Plea­sures

First look from morn­ing’s win­dow
The redis­cov­ered book
Fas­ci­nat­ed faces
Snow, the change of the sea­sons
The news­pa­per
The dog
Dialec­tics
Show­er­ing, swim­ming
Old music
Com­fort­able shoes
Com­pre­hen­sion
New music
Writ­ing, plant­i­ng
Trav­el­ing
Singing
Being friend­ly

[/column]

 

[divider]پامالی کا حسن[/divider]

پیتل کا گلدان پرانا
جس پرکھڈا پڑا ہواہے
میز سے گرجانے کے باعث
جس کی کوریں گھسی ہوئی ہیں

ایک شکستہ بت
ایسا بت
جس کے بازو کٹے ہوئے ہیں
اور ڈھائے جانے پر بھی
جس کی آنکھیں چمک رہی ہیں

ان گن ہاتھوں سے گزرے یہ

چمچ کانٹے چھری پتیلے
مبہم مبہم نقش ہیں جن پر
نرم پڑچکے جن کے ہتھے
ہاتھوں سے پھسلے جاتے ہیں

آئینہ تمثال ہو چکا
گھاٹ کے زینے کا اک پتھر
ہنستے ہنستے
دھوپ کو جیسے ٹھیل رہا ہے

ایک قدیم عمارت جس کو
کھنڈر کہیں تو ٹھیک رہے گا
کھنڈر کہ جس نے
شکل بنا رکھی ہے ایسی
جیسے اک تصویر مکمل ہونا چاہے

کب سے ہے یہ کیفیت جو
خبر نہیں ہے
لیکن سچ ہے
اک عرصے سے

اشیا جو پامال ہوچکیں
مجھ کو وہ احساس سکوں ہیں
منظر جو ویران ہوچکے
ساماں ہیں تسکین نظر کا

کار نمو سے اوب چکا میں
ایک چٹان سے پیٹھ ٹکائے سوچ رہا ہوں

پامالی کا اپنا حسن ہوا کرتا ہے
پامالی کے ضبط پہ دنیا ٹکی ہوئی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *