ادھر برتولت بریخت کی نظموں کے کئی ترجمے پڑھنے میں آئے۔ ان نظموں کو سیدھے طور پر ترجمہ کہا جانا ٹھیک نہیں ہے۔ انہیں ایک قسم کی موزوں ترجمانی کہنا زیادہ ٹھیک رہے گا۔ بریخت کی نظم کا اصل تاثر گرفت میں لے کر میں نے یہ کوشش کی ہے کہ کوئی اردو شاعر اگر اس قسم کے خیال سے دوچار ہوتا تو اس کا رد عمل کیا ہوتا؟ اردو کی جو کلاسیکی شعری روایت ہے، جو تہذیب ہے، جو آہنگ ہے، جو زبان ہے، اس میں ڈھلنے پر وہ خیال کیسا لگتا۔

ان پانچ نظموں میں سے چار کے ساتھ اصل نظم کے انگریزی تراجم بھی دیے گئے ہیں۔

دیکھا جائے تو لغوی معنوں میں یہ نظمیں بھلے ہی ترجمہ نہ ہوں، لیکن خیال کی سطح پر ترجمہ ہی ہی ہیں۔ اور خیال کی سطح پر ترجمہ ہونے کے بعد بھی ان کا اپنا اسلوب ہے، اپنی زمین ہے۔

 

نہیں ۔۔سکندر سے مجھ کو کوئی گلہ نہیں ہے

نہیں ۔۔سکندر سے مجھ کو کوئی گلہ نہیں ہے

زمیں کو سر کرنا چاہتا تھا
تیمور کوئی
سنا ہے میں نے

عجیب لگتا ہے شغل ایسا
کہ ہم زمیں کیا
بھلا بھی سکتے ہیں آسماں کو
ذرا سی مے سے

نہیں۔۔سکندر سے مجھ کو کوئی گلہ نہیں ہے

مگر کروں کیا
کہ میں نے دیکھے ہیں فرد ایسے
جو صرف ہونے پہ خوش تھے اپنے

ذرا توقع کے مستحق ہیں
وہ لوگ سارے
تمام دشواریوں کے ہوتے
جو جی رہے تھے
جو جی رہے ہیں

میں سوچتا ہوں
عظیم ہونا بھی شاپ ہے کیا؟

کہ میں نے دیکھا ہے اکثر اکثر
عظیم لوگوں کو
متفق جو نہیں تھے خود سے

دروں میں جن کے کوئی خلا تھا
خلا جسے بھرنے کی قواعد کو لوگ عظمت پکارتے ہیں

اک ایسی عظمت
کہ جس میں سگریٹ کا کش بھی لو تو
سکوں نہ آئے

کہ جس میں ہاتھوں میں جام ہو پر
نہ درد کم ہو نہ لطف آئے

کہ جس میں محبوب کی جبیں پر
نظر پڑے تو
کسی علاقے کی کوئی سرحد
ابھرتی جائے ابھرتی جائے

کوئی بتائے
کہ ایسی عظمت کا مول کیا ہے؟

نہیں۔۔سکندر سے مجھ کو کوئی گلہ نہیں ہے

I’M Not Saying Anything Against Alexander

Timur, I hear, took the trouble to conquer the earth.
I don’t understand him.
With a bit of hard liquor you can forget the earth.

I’m not saying anything against Alexander,
Only I have seen people who were remarkable,
Highly deserving of your admiration
For the fact that they were alive at all.

Great men generate too much sweat.
In all of this I see just a proof that
They couldn’t stand being on their own
And smoking and drinking and the like.
And they must be too mean-spirited to get
Contentment from sitting by a woman.

آنے والی نسلوں کے لیے

مجھے یہ اعتراف ہے
کہ اب مفر کی راہ بھی نہیں بچی
مجھے یہ اعتراف ہے
کہ دل میں اب امید تک نہیں رہی
مجھے یہ اعتراف ہے
میں اپنی غلطیاں بھی خرچ کر چکا
مجھے یہ اعتراف ہے
میں مر چکا میں مر چکا میں مر چکا

سو میری اور سے بیاں ہے آخری
خلا ہمارا ہمقرآں ہے آخری

Future generations

I confess this:
I have no hope.
The blind talk about an escape.
I see.
When the errors are consumed
The nothing will sit next to us as our last companion.

 

شیطان کا مکھوٹا

 

ایک نقاشی ٹنگی ہے
گھر کی اک دیوار پر

اور نقاشی
مکھوٹا ہے کسی شیطان کا
سرخی  مائل سونے کا پانی چڑھا

اور میں حساس دل
تکتا ہوں ہمدردی سے
اس کے ماتھے کی نسیں
پھولی ہوئیں ابھری ہوئیں

اور پھر یہ سوچتا ہوں
کتنا مشکل ہے
جہاں بھر کے اندھیرے کا کوئی عنوان ہونا

سخت اذیت
سخت اذیت کن ہے اک شیطان ہونا

On my wall hangs a Japanese carving,
The mask of an evil demon, decorated with gold lacquer.
Sympathetically I observe
The swollen veins of the forehead, indicating
What a strain it is to be evil.

 

سامان مسرت

صبح کی پہلی کرن باد صبا
پربتوں پر برف کی اجلی قبا

موسموں کے رنگ ان کی آب و تاب
طاق پر مل جائے اک کھوئی کتاب

سگ کا سستانا گلی کی دوب پر
شاعری سے گفتگو اسلوب پر

صبح دم اخبار گرنا صحن میں
کوئی جملہ کوندھ جانا ذہن میں

راستے میں اک گھنے برگد کی چھاوں
خوش ترک اور مخملی جوتوں میں پاوں

جھانکنا بٹوے سے اک تصویر کا
یک بہ یک کھل جائے مصرع میر کا

ہوکے گم پھر کھوجنا جنگل میں راہ
گنگنانا نظم اپنی گاہ گاہ

کوہ سے گرتا ہوا اک آبشار
اک پرانے گیت میں بجتا ستار

دل سے بھی دنیا سے بھی منسوب ہیں
ہم کو سامان مسرت خوب ہیں


Pleasures

First look from morning’s window
The rediscovered book
Fascinated faces
Snow, the change of the seasons
The newspaper
The dog
Dialectics
Showering, swimming
Old music
Comfortable shoes
Comprehension
New music
Writing, planting
Traveling
Singing
Being friendly

 

پامالی کا حسن

پیتل کا گلدان پرانا
جس پرکھڈا پڑا ہواہے
میز سے گرجانے کے باعث
جس کی کوریں گھسی ہوئی ہیں

ایک شکستہ بت
ایسا بت
جس کے بازو کٹے ہوئے ہیں
اور ڈھائے جانے پر بھی
جس کی آنکھیں چمک رہی ہیں

ان گن ہاتھوں سے گزرے یہ

چمچ کانٹے چھری پتیلے
مبہم مبہم نقش ہیں جن پر
نرم پڑچکے جن کے ہتھے
ہاتھوں سے پھسلے جاتے ہیں

آئینہ تمثال ہو چکا
گھاٹ کے زینے کا اک پتھر
ہنستے ہنستے
دھوپ کو جیسے ٹھیل رہا ہے

ایک قدیم عمارت جس کو
کھنڈر کہیں تو ٹھیک رہے گا
کھنڈر کہ جس نے
شکل بنا رکھی ہے ایسی
جیسے اک تصویر مکمل ہونا چاہے

کب سے ہے یہ کیفیت جو
خبر نہیں ہے
لیکن سچ ہے
اک عرصے سے

اشیا جو پامال ہوچکیں
مجھ کو وہ احساس سکوں ہیں
منظر جو ویران ہوچکے
ساماں ہیں تسکین نظر کا

کار نمو سے اوب چکا میں
ایک چٹان سے پیٹھ ٹکائے سوچ رہا ہوں

پامالی کا اپنا حسن ہوا کرتا ہے
پامالی کے ضبط پہ دنیا ٹکی ہوئی ہے

Leave a Reply