سرکار کے پُنرواس وبھاگ [بحالی کے محکمے] کے پاس ان لوگوں کو بسانے کے لیے یا تو خالی پڑی نوابی عمارتیں تھیں یا پھر بٹوارے کے بعد گھر چھوڑ کر پاکستان جا چکے مسلمانوں کے گھر تھے۔ یوں تو زیادہ تر مکان روایتی قسم کے رہائشی مکان تھے لیکن ان مکانوں کا واسطہ ایسے لوگوں سے تھا جو اس گلی، اس محلے میں برسوں سے آباد تھے اور وہ گھر اس گلی، محلے اور شہر میں ان کے چہروں کے ساتھ یہاں کے پرانے باشندوں کی یاد میں اب تک تازہ تھے۔ اس پر ایک ستم یہ ہوا کہ کچھ بےگھر سندھی پریواروں نے سڑک اور فٹ پاتھوں پر ٹھوکریں کھاتے کھاتے دن گزارنے سے تنگ آ کر ایک خالی پڑے شاہی محل میں ہی جا ڈیرا جمایا۔

اس شاہی محل کا نام ہے تاج محل۔ اس تاج محل کو 1874 میں بھوپال کی نواب شاہجہاں بیگم نے اپنی رہائش کے لیے بڑے شوق سے بنوایا تھا۔ اس محل میں شان و شوکت کی ہر ممکن چیز موجود تھی۔ محل کے بیچوں بیچ بنے ساون بھادوں کے فواروں سے ہر وقت عطرپھلیل کی دھاریں ہواوٴں میں خوشبو بکھیرتی رہتی تھیں۔ ہر کمرے کا الگ رنگ اور اسی رنگ کا فرنیچر، پردے اور تمام چیزیں ہوتی تھیں۔ محل کا مکھیہ دروازہ اتنا وشال تھا کہ نواب شاہجہاں بیگم کی بارہ گھوڑے کی بگھی بڑی آسانی سے یہاں داخل ہو کر چاروں دِشاؤں میں گھوم بھی جاتی تھی۔

لیکن وقت بدلا تو اسی تاج محل میں پہلے ہی وِدھوا ہو چکی بیگم، اپنی اکلوتی بیٹی اور وارث سلطان جہاں بیگم سے بھی رشتہ کھو بیٹھیں۔ زندگی کے آخری سالوں میں کینسر سے جوجھتے ہوے، اسی تاج محل میں تنہائی، درد اور آنسوؤں کے ساتھ شاہجہاں بیگم اس دنیا سے 1901 میں وداع ہو گئیں۔

ان کے وارث یہاں سے ہر قیمتی سامان اپنے نئے محل، احمدآباد کوٹھی میں لے گئے، سواے بیگم کی کراہوں اور سسکیوں کے۔ جب کچھ سندھی شرنارتھیوں نے اس جگہ آ کر ڈیرا جمایا تو ان آہوں کراہوں کا اکیلاپن دور ہو گیا۔

یہ بات کسی بھوپالی کو برداشت نہیں تھی۔ تاج محل ان کے لیے ادب اور احترام کا مرکز تھا، جہاں اس ریاست کی ایک ایسی بیگم رہتی تھی جسے عوام سے ہمدردی رکھنے والی، مذہب کی پابند اور دیانتدار عورت کی طرح یاد کیا جاتا تھا۔ اس بیگم کی جگہ ایسے لوگ رہنے لگیں جن کے بدحال چہرے، برتن اور کپڑے اس شاندار محل کی دیواروں کی خوبصورتی پر دھبے کی طرح نظر آتے ہوں، یہ کیسے ہو سکتا تھا؟

لیکن ایسا ہوا۔ تقریباً 100 سندھی پریواروں نے دیکھتے ہی دیکھتے الگ الگ رنگ کے ان کمروں میں ایک ہی وجہ سے اپنا گھر بسا لیا کہ ان کے پاس رہنے کو سوا اس ایک محل کے کوئی خالی جگہ دکھائی نہیں دی۔ لیکن اس کی ایک قیمت بھی تھی۔ مقامی لوگوں کے غم اور غصے کا اظہار سڑکوں پر چبھنے والے جملوں، چھینٹاکشی اور کبھی کبھار مارپیٹ کی شکل میں بھی پھوٹ پڑتا۔

لیکن وقت بڑا بادشاہ ہے۔ وہ انسان کو دھیرے دھیرے نئے سے نئے اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی جینا سکھا دیتا ہے۔ سو اب یہ لوگ ’رفیوجی‘ یا ’سالے سندھی‘ کے عادی ہو چلے تھے۔ ہر روز جینے کے لیے زندگی کے ہر گوشے میں اکیلے اکیلے سنگھرش کرتے ان لوگوں کے کردار نے نہ جانے کب نفرت کرنے والوں کے دل میں ذرا سی گنجائش نکال ہی لی۔

٭٭٭٭٭

میرا پریوار تو یہاں 1948 میں ہی پہنچ چکا تھا۔ آنے پر پہلے سٹیشن کے پاس ایک کیمپ میں کچھ دن گز رے۔ پُنرواس وبھاگ کے ادھیکاریوں نے کئی چکر لگوانے کے بعد بتایا کہ باجے والی گلی میں محمد غیاث الدین کی حویلی خالی ہے۔ حویلی کے نام سے پریوار کے سارے چہرے کھل گئے۔ ایسا لگا مانو انھیں اپنا کھویا ہوا سب کچھ واپس مل رہا ہو۔ مگر یہ خوشی اگلے ہی پل کافور ہونے والی تھی۔

’’سوچ لو۔ مسلمانوں کا علاقہ ہے۔ ایک بھی ہندو گھر نہیں ہے۔ اسی وجہ سے خالی پڑا ہے۔ وہاں جانے کو کوئی تیار نہیں ہے،‘‘ افسر نے چیتاونی بھرے انداز میں بتایا۔

’’تو کیا کر لیں گے؟‘‘ پتاجی اور داداجی نے ایک ساتھ کہا۔ ’’جو وہ کر چکے اس سے زیادہ اور کیا کر لیں گے؟ آپ تو ہمیں مکان الاٹ کیجیے اور چابی دیجیے۔ باقی ہم دیکھ لیں گے۔‘‘
سو بس دسمبر 1948 میں یہ پریوار آ کر یہاں اس حویلی میں بس گیا جس میں بٹوارے سے پہلے تک غیاث الدین پٹھان کا پریوار رہتا تھا۔ غیاث الدین پشاور کے اپنے پشتینی شہر جا چکے تھے۔ اب اس بڑی سی لیکن خستہ حال حویلی کے دو حصوں میں میرا پریوار رہنے لگا۔ میرے نانا کو جگہ ملی کچھ دور اتوارا کے ایک مکان میں، جس کی دیوار شہر کے ایک نامی گرامی دادا ککّو میاں کے گھر کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔

غیاث الدین کی حویلی کا سڑک کی طرف والا حصہ تو پکی چھت والا تھا لیکن اندر کے لمبے چوڑے کھلے آنگن کے دونوں طرف کے ہال نما کمروں پر دیسی کویلُو والی چھت تھی۔ میرے حصے یہی چھت آئی تھی۔ اس چھت کی خوبی یہ تھی کہ عمردراز ہو چکا بانس کی کھپچیوں والا چھپر کئی جگہ سے شہید ہو چکا تھا۔ نتیجے میں دوپہر کے وقت ان دراڑوں سے گھر کے اندر کم سے کم پانچ چھ جگہ بےحد لُبھاونی سی روشنی کی لکیریں بن کر کھڑی ہو جاتی تھیں۔ روشنی کے ان درّوں سے راستہ بنا کر گھر میں آتی ان دلکش لکیروں سے کھیلنے میں مجھے بہت مزہ آتا تھا۔ سکول سے لوٹ کر بستہ ایک طرف پھینک دیتا اور ایک لکیر سے دوسری لکیر کی طرف دوڑتا پھرتا۔ اپنے جسم کے ایک حصے بھر پر پڑتی روشنی کے مقابلے بنا روشنی والے شریر کو دیکھتا اور پھر منھ اوپر کر کے روشنی کے ان سوراخوں سے جانے کیا کہہ کر خوشی بھری کلکاری مارنے لگتا۔

مگر روشنی تو اتنی ہی آتی تھی جتنی آتی تھی۔ سو میں اس اتنی روشن لکیر میں پہلے ایک ہاتھ، پھر دوسرا ہاتھ، پھر شریر کے دوسرے حصوں کو نہ لانے کی کوشش کرتا۔ پتاجی اس وقت تو گھر پر نہیں ہوتے تھے، وہ تو صبح سے ہی کرائے کی سائیکل لے کر کام پر نکل جاتے تھے، لیکن ماں کی آواز ضرور آتی رہتی تھی: ’’لالہ! روٹی کھا لو۔‘‘

میں ہر بار کھیل میں خلل ڈالنے والی اس آواز سے خفا ہوکر کہتا، ’’رکو نا۔ آتا ہوں۔ دو منٹ۔‘‘

سردی گرمی تک تو ٹھیک، لیکن بارش کے دنوں میں یہی روشنی کے درّے قہر کی صورت اختیار کر لیتے تھے۔ حالانکہ پتاجی، جنھیں میں دادا کہہ کر بلاتا تھا، کباڑخانے سے ٹین کے پرانے ڈبے لا کر، انھیں کوٹ کر ان درّوں کے اوپر چادر کی طرح بچھا دیتے تھے اور کویلو کے چھپر چھوانے والوں سے اس کے اوپر کویلو بھی بچھوا لیتے تھے، لیکن پانی اپنی ترلتا کا پورا فائدہ اٹھا کر گھر میں گھس ہی آتا تھا۔

پہلی کچھ بوندوں کو ہاتھوں میں، منھ پر یا سر پر لینے میں تو بہت مزہ آتا تھا۔ ایک ہلکی سی گدگدی کا سا احساس ہوتا تھا۔ لیکن کچھ دیر بعد یہ مزہ مصیبت میں بدل جاتا تھا، خاص کر رات میں، جب پورا گھر بےطرح جگہ جگہ سے ٹپکنے لگتا تھا۔ نہ کوئی بستر اس سے بچ پاتا اور نہ ز مین پر بنا مٹی کا چولھا۔ اس مصیبت سے بچنے کے لیے پورا گھر جنگ کے میدان میں تبدیل ہو جاتا۔ اب یہاں اور اب وہاں ہوتے ٹپکوں کے نیچے بالٹیوں سے شروع ہو کر گھر کی چھوٹی چھوٹی کٹوریاں تک ان ٹپکوں کے نیچے بچھ جاتیں اور ایسے ہی جاگتے سوتے ساری رات گزر جاتی۔ جس دن آسمان کی ٹونٹی پوری کھل جاتی، اس دن چھت کا ایک ادھ کونا گھبرا کر دم توڑ ہی دیتا اور اس کھلے حصے سے جھرنا سا بہنے لگتا۔

حویلی کے کسی گھر میں تب تک لائٹ کا کنکشن بھی نہیں تھا۔ ہر شام سب سے پہلے گھر کے مندر کا دِیا، پھر داخل دروازے پر دو دیے، آنگن کی تلسی پر ایک دیا روشن ہوتا۔ پھر ٹین کی چھوٹی چھوٹی ڈِھبریاں اور دو ایک لالٹین جلائے جاتے تھے۔ بارش کے اس طوفان میں سب سے بڑی اور ناممکن سی چنوتی ہوتی تھی روشنی کے ان ذریعوں کو پانی سے بچانا۔ ٹمٹماتی روشنی والی ڈھبریاں باربار جلانے سے تھک کر آخر ایک لالٹین کی روشنی سے ہی کام چلانا پڑتا تھا۔

ماں کی طبیعت تو یوں بھی نرم ہی رہتی تھی، اوپر سے اس رت جگے سے ماں اگلے روز نڈھال ہو کر کھٹیا پکڑ لیتی۔ لیکن پھر بھی اگلے دن اس کی کپڑے سینے کی مشین کا پہیہ رکتا نہیں تھا۔ مجھے اس بات کی تب شاید اتنی سمجھ نہیں تھی کہ اس گھر کے پہیے اصل میں ایک سائیکل اور ایک سلائی مشین کے کل جمع دو پہیوں کے چلنے سے ہی چل رہے ہیں۔ لیکن عمر بڑھتے بڑھتے اسے سمجھنے لگا تھا۔

اس حویلی میں بعد کو آ کر بسنے والے باقی سندھی پریواروں کی بھی کم وبیش یہی کہانی تھی۔ شہر کی چھوٹی موٹی ریڈی میڈ کی دکانوں سے، محلے کی مسلم عورتوں اور آس پاس کے علاقوں کی مہیلاؤں کے کپڑے سینے کو مل ہی جاتے تھے۔ اس کی وجہ تھی ایک آنے اور دو آنے جیسے سستے ریٹ، نئے طرح کے ڈزائن اور کام کی صفائی۔ سو لگ بھگ ہر گھر سے سلائی مشینوں کے چلنے سے نکلنے والا سنگیت یہاں کی فضاؤں میں لگاتار گونجتا ہی رہتا تھا۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ایک پُتلی بائی کو چھوڑ کر محلے کی باقی عورتیں بھی اپنی اپنی سلائی مشینیں لے کر آ جاتیں اور ماں کے ساتھ سلائی کا کام بھی کرتی جاتیں اور باتیں بھی کرتی جاتیں۔ اس سے شاید کام کا بوجھ اور تھکن کم محسوس ہوتی تھی۔ مجھے ایسا اس لیے لگتا تھا کیونکہ ایسے موقعوں پر گھر کا اونگھتا سا ماحول ہنسی ٹھٹھے کی آوازوں سے بھر جاتا تھا۔ اور اس پر ایک جگہ، ایک ساتھ، لگ بھگ ایک ہی رِدم میں چلتی مشینوں کی آواز سے ایک عجیب سی لے پیدا ہونے لگتی۔ اب یاد کرتا ہوں تو لگتا ہے، سنسار کی ساری سمفنیز کا جنم ان سلائی مشینوں کی ہلکی، مدھم اور تیز رفتار سے جنمی آوازوں سے ہی ہوا ہو گا۔

ہمیں، میرے چچا زاد بھائی جے کو اور مجھے، یہ سب ایک بہت دلچسپ کھیل لگتا تھا، جسے ہم بھی کھیلنا چاہتے تھے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ایک بار مشین چلاتے چلاتے تھک چکی ماں نے آواز دے کر کہا تھا، ’’لالہ، ہاتھ دُکھ رہے ہیں۔ تو ذرا پہیہ گھما دے نا تھوڑی دیر۔‘‘ شاید یہ پہلا موقع تھا جب کسی نے، وہ بھی ماں نے، مجھے اتنا طاقتور مانا تھا کہ میں بھی ایک پہیہ گھما سکتا ہوں۔ اسی لاڈ میں میں نے پہلی بار میں پوری طاقت لگا کر اتنی زور سے پہیہ گھمایا تھا کہ ماں اتنے تیزی سے کپڑے کو آگے نہیں بڑھا پائی اور چلّائی تھی، ’’ارے! بس کر۔‘‘

بعد میں یہ بھی ایک کھیل ہو گیا۔ میرے شکتی پردرشن کے اس طریقے اور ماں کی ناراضگی میں ہم دونوں کو ہی مزہ آنے لگا تھا۔ دھیرے دھیرے پہیہ گھماتے گھماتے اچانک پوری طاقت سے پہیہ گھما دیتا اور ماں جھوٹ موٹ ناراض ہو کر ڈانٹتی اور آخر میں دونوں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتے۔ ایسے میں ماں مشین روک کر مجھے چوم لیتی اور میرا سر گود میں رکھ کر میرے سر سے جوئیں نکالنے لگتی۔ ایک ایک جوں نکال کر دکھاتی اور جھڑکتی کہ میں صفائی کا دھیان نہیں رکھتا اور مٹی میں کھیلتا رہتا ہوں۔

یہ ماں کے لاڈ کا ایک نمونہ تھا۔ ہم دونوں کو ہی اس میں مزہ آتا تھا۔ جس دن ماں کام میں بہت الجھی رہتی اور جوئیں نکالنے کے لیے نہ بلاتی تو میں خود ہی سر کھجاتا ہوا اس کے پاس پہنچ جاتا اور سب کام چھوڑ کر جوئیں نکلوانے کی ضد کرتا۔ میری ضد ہمیشہ کامیاب ہو جاتی تھی۔

٭٭٭٭٭

ماں اس گھر کی پاکیزگی اور پوتّرتا کی ضمانت تھی۔ بولتے ہوے بھی خاموشی کی مورت۔ حویلی میں ہر گھر سے آتی آوازوں کے شور کے بیچ اس کی آواز اکثر اسی کو سنائی نہیں دیتی تھی جسے مخاطب کیا گیا ہوتا۔ نتیجے میں ماں کو وہی بات دہرانا پڑتی۔ اس دہرانے کے عمل میں خود پر ہی ہنستی ہوئی اس کی ایک لاچار مگر معصوم سی مسکراہٹ بھی شامل ہو جاتی تھی۔

ایک جگہ ایسی بھی تھی گھر میں جہاں اسے اپنی بات اس طرح دہرانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وہ جگہ تھی دو فٹ موٹی چونے کی دیوار کے ایک آلے میں بنا مندر۔ شِوجی، لکشمی جی کے کانچ میں جڑے چِتر اور پیتل کی کچھ چھوٹی چھوٹی مورتیاں تھیں۔ ایک ننھا سا جھولا جس پر اس سے بھی ننھا سا کرشن گھٹنے گھٹنے چلنے والی مُدرا میں براجمان ہوتا تھا۔ اور ایک بڑا ترتیب والا گول سا چکنا پتھر جسے ماں شِو روپ شالگرام بتاتی تھی۔

ماں مندر کے سامنے پوجا کے لیے بیٹھ جاتی۔ پانی سے بھرا ایک لوٹا اور ایک خالی لوٹا۔ ایک تھالی جس میں سیندور، چانول، اگر بتی ہوتے۔ ماں ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ بدبداتی سی بولتی جاتی، جو میری تمام کوششوں کے باوجود پوری طرح سمجھ نہ آتا اور میں شردھا بھکتی بھاوٴ سے بھرے اس کے چہرے اور اس کے رِدم میں ہلتے ہونٹوں کو پڑھنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا۔ ایسا کرتے ہوے وہ ایک ایک مورتی کو باری باری سے اٹھا کر سنان کرواتی جاتی تھی۔ بھرے لوٹے کا پانی خالی لوٹے میں جاتا اور بھگوان جی کا سنان ہو جاتا۔ اس کے بعد نیم نرم و نازک انداز میں ان مورتیوں کو کپڑے پہنانا شروع کرتی۔ ان کپڑوں کو دیکھ کر اکثر میرے چہرے پر مسکان آ جاتی۔ دل میں عجب سی گدگدی ہونے لگتی۔ میں اپنی قمیض کی آستین پکڑ کر بھگوان کے ان کپڑوں سے ان کا ملان کرتا۔ اس کی وجہ بھی ماں ہی تھی۔ وہ ہمیشہ میرے لیے قمیض سینے سے پہلے اس میں سے کسی نہ کسی بھگوان، خاص کر کرشن، کے کپڑے سیتی تھی۔ میں جب حیرت سے دیکھتا تو وہ کہتی، ’’اب تیرے اور بھگوان کے کپڑے ایک ہو گئے نا؟ تو اب تو بھگوان کے کپڑوں میں ہے تو تیرا کوئی بال بھی بانکا نہیں کر سکتا۔‘‘

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

Leave a Reply