[blockquote style=”3″]
راجکمار کیسوانی تقسیم ہند کے بعد سندھ سے ہجرت کر کے بھوپال میں سکونت اختیار کرنے والے ایک خاندان میں 26 نومبر 1950 کو پیدا ہوے۔ ان کی بنیادی پہچان صحافی کی ہے۔ 1968 میں کالج پہنچتے ہی یہ سفر ’’سپورٹس ٹائمز‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر شروع ہوا۔ ان کے لفظوں میں ’’پچھلے چالیس سال کے دوران اِدھر اُدھر بھاگنے کی کوششوں کے باوجود، جہاز کا یہ پنچھی دور دور تک اڑ کر صحیح جگہ لوٹتا رہا ہے۔‘‘ اس عرصے میں چھوٹے مقامی اخباروں سے لے کر بھارت کے قومی ہندی اور انگریزی اخباروں دِنمان، السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا، سنڈے، سنڈے آبزرور، انڈیا ٹوڈے، جَن ستّا، نوبھارت ٹائمز، ٹربیون، ایشین ایج وغیرہ اور پھر بین الاقوامی اخباروں (مثلاً نیویارک ٹائمز، انڈیپنڈنٹ) سے مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہے۔
2 اور 3 دسمبر 1984 کی درمیانی رات کو بھوپال میں دنیا کی تاریخ کا ہولناک ترین صنعتی حادثہ پیش آیا۔ کیڑےمار کیمیائی مادّے تیار کرنے والی یونین کاربائیڈ کمپنی کے پلانٹ سے لیک ہونے والی میتھائل آئسوسائنیٹ (MIC) نامی زہریلی گیس نے کم سے کم 3,787 افراد کو ہلاک اور اس سے کئی گنا بڑی تعداد میں لوگوں کو اندھا اور عمربھر کے لیے بیمار کر دیا۔ اس حادثے سے ڈھائی سال پہلے یہ گیس تھوڑی مقدار میں لیک ہوئی تھی جس میں دو افراد ہلاک ہوے تھے۔ راجکمار کیسوانی نے تب ہی تحقیق کر کے پتا لگایا کہ مذکورہ گیس نہایت زہریلی اور کمیت کے اعتبار سے ہوا سے بھاری ہے، اور کارخانے کے ناقص حفاظتی نظام کے پیش نظر اگر کبھی یہ گیس بڑی مقدار میں لیک ہوئی تو پورا بھوپال شہر بہت بڑی ابتلا کا شکار ہو جائے گا۔ انھوں نے اپنی اخباری رپورٹوں میں متواتر اس طرف توجہ دلانا جاری رکھا لیکن کمپنی کی سنگدلی اور حکام کی بےحسی کے نتیجے میں یہ بھیانک سانحہ ہو کر رہا۔ اس سے متاثر ہونے والوں کی طبی، قانونی اور انسانی امداد کے کام میں بھی کیسوانی نے سرگرم حصہ لیا جسے کئی بین الاقوامی ٹی وی چینلوں کی رپورٹنگ اور دستاویزی فلموں میں بھی سراہا گیا۔ 1998 سے 2003 تک راجکمار کیسوانی این ڈی ٹی وی کے مدھیہ پردیش چھتیس گڑھ بیورو کے سربراہ رہے اور 2003 کے بعد سے دینِک (روزنامہ) بھاسکر سے متعلق رہے۔ اب وہ اس اخبار میں ایک نہایت مقبول کالم لکھتے ہیں۔ انھیں بھارت کے سب سے بڑے صحافتی اعزاز بی ڈی گوئنکا ایوارڈ سمیت بہت سے اعزاز مل چکے ہیں۔
راجکمار کیسوانی ہندی کے ممتاز ادبی رسالے ’’پہل‘‘ کے ادارتی بورڈ میں شامل ہیں جو ہندی کے معروف ادیب گیان رنجن کی ادارت میں پچھلے چالیس برس سے زیادہ عرصے سے شائع ہو رہا ہے۔ 2006 میں کیسوانی کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’باقی بچے جو‘‘ اور اس کے اگلے سال دوسرا مجموعہ ’’ساتواں دروازہ‘‘ شائع ہوے۔ انھوں نے ’’جہانِ رومی‘‘ کے عنوان سے رومی کی منتخب شاعری کا ہندی ترجمہ بھی کیا ہے۔ کئی کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ ’’باجے والی گلی‘‘ ان کا پہلا ناول ہے جو ’’پہل‘‘ میں قسط وار شائع ہو رہا ہے۔
اس ناول کو اردو میں مصنف کی اجازت سے ’’لالٹین‘‘ پر ہفتہ وار قسطوں میں پیش کیا جائے گا۔ اس کا اردو روپ تیار کرنے کےعمل کو ترجمہ کہنا میرے لیے دشوار ہے، اس لیے کہ کہیں کہیں اکّادکّا لفظ بدلنے کے سوا اسے اردو رسم الخط میں جوں کا توں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بات آپ کی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ اسے ہندی میں پڑھنے والوں میں سے بعض نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ یہ دراصل ناگری رسم الخط میں اردو ہی کی تحریر ہے۔
تعارف اور پیشکش: اجمل کمال
[/blockquote] سانولی سی شام کا رنگ گہراتے گہراتے جب شیام رنگ ہو جاتا ہے تو شہربھر میں ان ویران پٹیوں پر آہستہ آہستہ ایک سماجی مجمع سا لگ جاتا ہے۔ دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد جو زندگی نے تھمنے کا موقع دیا تو سب ایک دوسرے سے ملنے کو مچلنے سے لگتے ہیں۔ ان پٹیوں کا اس شہر کی زندگی میں وہی مقام ہے جو آسمان کے وجود میں چاند کا ہے۔ دن بھر زندگی کی سلگتی بھٹی کی تپش سے باہر نکل کر ٹھنڈک کا احساس دیتے ان پتھر کے ٹکڑوں پر بیٹھ کر نہ جانے کتنی پیڑھیوں نے راحت پائی ہے۔ نہ جانے کتنے اتہاس کہے سنے اور نہ جانے کتنے اتہاس لکھے گئے ہیں۔ ایک صفت اور ہے یہاں کی۔ جدھر نکل جائیے گا، وہیں چائے اور ورقی سموسے پروستی چھوٹی چھوٹی ہوٹلیں پائیے گا۔ چائے بھی نمک والی چائے۔ سلیمانی چائے۔ اور وہ بھی فل بالائی مار کر۔ اب یہی تو ہے نا که یہاں دودھ کی ملائی ’بالائی‘ ہو جاتی ہے، ہرا دھنیا ’کوتمیر‘ ہو جاتا ہے، اروی ’گھئیاں‘، لوکی ’گڑیلی‘ اور سپاری کسی حسین دوشیزہ کا بھرم دیتی ‘چھالیہ‘ کہلاتی ہے۔ یہ سب اپنی جگہ، لیکن سب سے ضروری دو چیزیں جن پر سارا شہر اِتراتا ہے۔ ایک ہے یہاں کا بڑا تالاب اور دوسرا ہے بروکاٹ بھوپالی۔ اِترانا تو ٹھیک، میلوں میں پھیلے اس بڑے تالاب کو لے کر بھوپالیوں نے تو سارے زمانے کو چنوتی سی دے رکھی ہے: تالوں میں تال تو بھوپال تال، باقی سب تلیّاں
رانیوں میں رانی تو کملا رانی، باقی سب گدھیّاں کملا رانی بولے تو بھوپال کی گونڈ رانی کملاپتی، جس کو لے کر بھی ہزار داستانیں ہیں۔
اب رہی بات ’’بروکاٹ بھوپالی’’ کی تو اس کا ایسا ہے که یہ لقب اصل میں یہاں کے مُول نِواسیوں [اصل باشندوں] کے لیے ہے جنھوں نے چاروں اور پھیلے برو کے جنگل صاف کر کے شہر کی آبادی کے لیے میدان صاف کیا۔ لیکن آفرین بھوپال کے ان جیالوں کو جو بسے بسائے شہر میں آ بسے اور بے جھجک خود کو برو کاٹ بھوپالی کا تمغہ دے کر تیڑھے میڑھے ہوے پھرتے ہیں۔ کسی وقت پورا شہر پرکوٹے سے گھرا تھا اور شہر میں داخل ہونے کے لیے سات گیٹ تھے۔ کہتے ہیں رات میں شہر کوتوال خود ساتوں دروازوں پر تالا لگاتا تھا اور صبح خود اپنے ہاتھوں سے کھولتا تھا۔ پرکوٹا ٹوٹا تو گیٹ بھی غائب ہونے لگے، لیکن کچھ ابھی بھی زندہ ہیں۔ سو جہاں گیٹ ہیں یا تھے وہ علاقے اب بھی امامی گیٹ، پیر گیٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یوں تو بتانے کو ابھی پورا شہر ہی باقی ہے، بلکہ جو بتایا ہے اس کے بارے میں بھی پورا پورا بتانا پوری طرح سے باقی ہے۔ لیکن اس وقت میں ذرا واپس اپنی باجے والی گلی کو لوٹنا چاہتا ہوں۔ بلکہ اپنے گھر لوٹنا چاہتا ہوں، جس نے مجھے باجے والی گلی کا باشندہ ہونے کا فخریہ حق دیا ہے۔ اور یوں بھی اس کہانی کو شروع بھی تو وہیں سے ہونا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭ اس گلی میں، جہاں نواب جنرل عبیداللہ خاں صاحب کی خالی پڑی ایک ’’بہوت بائی بہوت‘‘ سائز کی لمبی چوڑی پائیگاہ ہے، وہاں باقی بچے حصے میں دونوں طرف زیادہ تر پتھر کی چنائی والی دیواروں پر دیسی کویلُو والی کھپریلوں سے ڈھکے مکانوں کی قطاریں ہیں۔ گلی کے بیچ کئی گلیاں ہیں۔ پتلی سی مگر خوب گہرے تک جاتی ہوئی۔ ان پتلی سی گلیوں کے آخر اور بیچ میں کچھ دروازے ہیں۔ دروازوں کے پیچھے پردے ہیں۔ ان پردوں کو کوئی ایک ہاتھ جب اوپر اٹھاتا ہے تبھی معلوم ہوتا ہے که وہاں بھی گھر ہیں۔ ایسے سخت پردے والی مسلم آبادی کی گھنی بستی کے گھروں کے بیچ چھتوں کی اونچائی کو لانگھ کر گلی میں جھانکتے کچھ پیڑ بھی ہیں۔ ان میں ایک جامن کا پیڑ، دو پیپل کے اور لگ بھگ چھ نیم کے پیڑ ہیں۔ یوں امرود کے پیڑ تو یہاں ہر گھر میں ہیں لیکن ان سبھی کا قد ان باقی پیڑوں کے سامنے اتنا ہی ہے جتنا یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کا شہر کے قدآور اور آسودہ لوگوں کے سامنے بیٹھتا ہے۔ اس گلی کے لوگوں کی زندگی میں ان پیڑوں کی ایک خاص جگہ ہے۔ جامن کا پیڑ جب اپنے شباب پر آتا ہے اور خوشی میں جامن کے چھوٹے چھوٹے، کالے کالے پھلوں سے لد جاتا ہے، تب یہ خوشی الگ الگ مقدار میں گلی کے کم و بیش ہر گھر تک پہنچ جاتی ہے۔ گلی میں کوئی آدھا درجن گھروں میں لگے نیم کے پیڑوں کے بیچ کچھ کچھ دوری تو ہے لیکن پھر بھی جب ہوائیں چلتی تو جھوم جھوم کر ناچتے گاتے، ایک دوسرے سے باتیں کرتے معلوم ہوتے ہیں۔ دانت مانجنے کے لیے ہر صبح جب لوگ ان کی شاخیں توڑتے تو اس چھیناجھپٹی میں شاخوں سے ٹوٹ کر زمین پر ڈھیر سارے ہرے اور پیلے پتے بکھر جاتے ۔ ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکوں کے ساتھ پوری گلی میں اڑتے گرتے پتے ایک بھینی سی مہک کے ساتھ ہی ساتھ ایک خوبصورت منظر بھی رچ دیتے۔ ایسا لگتا مانو کوئی پینٹر کینوس پر کام کر رہا ہے۔ اس سارے منظر کو ایک اَدبھُت گرما دینے کے لیے ہر صبح ایک آواز گونجتی ہے۔ یہ آواز ہے یہاں رہنے والے میواتی گھرانے کے گایک دو بھایئوں، گھسیٹا استاد اور مسیتا استاد کی۔ یہاں سے پاکستان کو ہجرت کر جانے والے تو چلے تو گئے لیکن اُن لوگوں کی حویلیاں یہیں رہ گئیں۔ ان حویلیوں میں سے ایک تھی اس شہر بھوپال کی مشہور ’نانی جی کی حویلی‘ جس کا ایک دروازہ باجے والی گلی کی طرف تو دوسرا دروازہ کوتوالی والی سڑک کی طرف کھلتا تھا۔ اس حویلی کی شان یہ تھی که اس حویلی میں یہاں کے نامور حکیم سلطان محمود اپنے پورے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ اور ماشاءاللہ، جتنا بڑا خاندان تھا اور اتنی ہی بھری پُری جگہ حویلی میں تھی۔ اس کے نزدیک ہی بنا بڑے بڑے کالے پتھروں والا وشال کائے تبّا میاں کا محل بھی سونا رہ گیا تھا۔
تقریباً آدھا فرلانگ لمبی اس باجے والی گلی کی ہمیشہ سے ایک بہت بڑی خوبی یہ رہی ہے که یہاں پر غریبوں کا بڑا دبدبہ رہا ہے۔ چار چھ حیثیت والے لوگ بھلے ہی اس گلی میں رہتے رہے ہوں لیکن محلے کی صحت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے که حیثیت والوں نے اپنی حیثیت کا وزن محلے پر ڈالنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ سو انسانی فطرت سے پیدا ہونے والے کچھ لاعلاج آپسی مسئلوں کے علاوہ یہاں اکثر امن چین قائم رہا ہے۔ اس گلی کی دوسری خوبی یہ ہے که یہاں آپ کو دہاڑی مزدور سے لے کر لُہاری اور پائپ فٹنگ، اخبار بانٹنے والے ہاکر سے لے کر الیکٹریشین جیسے طرح طرح کے پیشے کرنے والے لوگوں سے لے کر جنگل کے ٹھیکیدار اور کلاسیکل موسیقی کے استاد ایک ساتھ مل جاتے ہیں۔ گلی کے ایک مُہانے سے ایک موڑ بِرجیسیہ مسجد سے ہوتا ہوا اتوارا کی سبزی منڈی کی طرف جاتا ہے اور دوسرے ہاتھ والا موڑ جامع مسجد والے چوک کی طرف۔ یہاں پر چوک والی دِشا میں ایک لمبا چوڑا لکڑی کا ٹال ہے جو ’جلیل بھائی کا پیٹھا‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہی پیٹھا آگے چل کر میرا گھر بننے والا ہے۔ جلیل بھائی اس شہر کے خاصے معروف انسان ہیں۔ اس پیٹھے کے علاوہ آس پاس کے گاؤں میں خوب ساری زمینیں ہیں۔ ان میں ایک زمین وہ بھی ہے جہاں ہر سال راون کا وَدھ ہوتا ہے اور دشہرہ منایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ دشہرہ میدان کہلاتا ہے۔ پیٹھے کے بعد کوئی پانچ گھر چھوڑ کر اندر کی طرف ان کا گھر بھی ہے۔ ایک چھوٹے سے لکڑی کے دروازے کے پیچھے چھپے اس خاصے بڑے گھر کے اندر پورے دو درجن لوگ رہتے ہیں۔ آخر پورے سات بھایئوں کا کنبہ ہے، جن میں تین ابھی کنوارے ہیں۔
پیٹھے کے ٹھیک سامنے، ایک قدیمی انداز کے نام اور شکل صورت والا ایک گھر ہے – غریب خانہ۔ سیدھی سیدھی سفید چونے سے پتی ہوئی دیواریں، ایک گلی میں تو دوسرا سڑک کی طرف کھلتا ہوا دروازہ۔ سر پر وہی دیسی کویلُو کی چھت جو محلے کے زیادہ تر گھروں میں لگی ہے۔ اس غریب خانے کے مالک نصیب خاں ‘سوداگر‘ نہ جانے کتنے سودے نپٹانے کے بعد شہر کے بڑے سوداگروں میں شمار ہوتے ہیں۔ شہر کی معزز اولڈ بوائز کلب کے سیکرٹری ہیں۔ ہر شام وہاں پتے کھیلنے ضرور جاتے ہیں۔ نصیب خاں کی خوبی یہ ہے که سوداگر ہونے کے باوجود دل کے نیک اور طبیعت سے فیاض انسان ہیں۔ انھوں نے اپنے غریب خانے کے نام کو بامعنی کرتے ہوے باہر کی ایک چھوٹی سی کٹھریا گاؤں سے مزدوری کرنے آئی کھِمیا (شما) بائی کو بنا کرائے دے رکھی ہے۔ اسی سے لگا ایک کمرہ انھوں نے ایک نوجوان بیڑی مزدور صابر میاں کو دے رکھا ہے جس نے ایک چھوٹا سا چائے خانہ اور دو کیرم بورڈ لگا رکھے ہیں۔ یہ صابر میاں کنوارے ہیں۔ بڑے باغ و بہار انسان ہیں۔ انھوں نے اس کمرے کے باہر نکلے پتھر کے اوٹلے پر اپنے بیٹھنے کا ٹِھیا اور بغل میں ہی چائے بنانے کے لیے ایک سماوار لگا رکھا ہے۔ کیرم کھیلنے اور چائے پینے کی غرض سے اندر جانے یا باہر آنے کے لیے صابر میاں کو لانگھ کر ہی آنا جانا پڑتا ہے۔ صابر میاں اکثر کسی مداری کی طرح ایک ساتھ کئی کام کرتے ہوے نظر آتے ہیں۔ اپنی پیاری مونگیا رنگ کی کالر چڑھی مخملی جیکٹ اوڑھے وہ ایک لمحے پتی، تمباکو اور لال ڈوری والے گٹے سے بھرا سوپڑا گود میں لیے بیڑی بناتے دکھائی دیتے ہیں تو اگلے ہی پل وہ کیرم بورڈ پر بیٹھے اور چائے پی رہے گاہکوں پر نظر ڈالتے ہوے گیم اور چائے گنتے نظر آتے ہیں۔ اور جو اس سب سے من اُچٹا تو اندر رکھا بینجو نکال کر اس پر شروع ہو جاتے ہیں – ’’ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے، گورے گورے گالوں نے، کالے کالے بالوں نے۔‘‘ شاید انھیں ایک یہی گیت بجانا آتا تھا، کیونکہ انھیں دوسرا کوئی گیت کبھی بجاتے نہیں سنا گیا۔ یوں بھی یہ گیت ان کے کردار کے بہت قریب تھا۔ ان کی عادت میں ہر آتے جاتے کو کسی نہ کسی طرح ٹوکنا یا کوئی جملہ مارنا بےحد ضروری تھا۔ بنا مرد یا عورت کا فرق کیے، پہلا فقرہ اسمِ خاص میں ہی ہونا ہے۔ کسی ہم عمر کو سج دھج کر جاتے دیکھ لیا تو کہتے، "آئے ری، آج تو نبو میاں کی عید ہو گئی۔ اکنی زیادہ ملے گی۔‘‘ یا پھر کسی پر فقرہ کس دیا که ’’بھری جوانی، مانجھا ڈھیلا۔” غرض یہ که ہنسی ٹھٹھا چلتا ہی رہتا ہے۔ ان کے آگے والے گھر میں نگر پالیکا [میونسپلٹی] میں نل سدھارنے کی نوکری کرنے والے دو بھائی رہتے ہیں، جن کے کل جمع چھوٹے بڑے چار بیٹے بھی پرائیویٹ میں نل لگانے سدھارنے کا کام کرتے ہیں اور شام میں ہاکی سٹک لے کر کھیلنے نکل پڑتے ہیں۔ گھر کی عورتیں زیادہ تر زردوزی کا کام کرتی رہتی ہیں۔ ہاکی تو محلے کا کم وبیش ہر لڑکا کھیلتا ہے۔ کوئی لوکل تو نیشنل تو کوئی ’اولمپخ۔‘ غرض یہ که ’ہاکی ہے ایمان میرا‘ والی حالت ہے۔ اس گھر کے آگے والا گھر موسیٰ میاں کا، پھر چراغ حسین وغیرہ کے گھر، جن کے بارے میں ذرا بعد میں بات ہو گی۔ ابھی تو ذرا بس کچھ موٹی موٹی باتیں۔ مثلاً یہ که گلی کا سب سے زیادہ علاقہ کھانے والی چیز ہے جرنیل صاحب کی پائیگاہ۔ قاعدے سے تو پائیگاہ نوابوں کے ہاتھی گھوڑے باندھنے کے لیے ہوتی تھی لیکن سونگھنے پر بھی کبھی یوں نہیں لگا که یہاں کبھی کوئی جانور بھی رہا ہو گا، اور جو رہا ہو تو خدا جانے۔ اس وقت تو گلی کے ادھر والے حصے میں ایک بڑا سا دروازہ ہے جو ہمیشہ بند ہی رہتا ہے۔ البتہ اس کی پلٹ یعنی لیلیٰ برج والی سڑک کی طرف ضرور لڑکیوں کو سکول کالج لے جانے والی بسیں کھڑی ہوتی تھیں۔ پردے والی ان بسوں کو ہمارے صابر میاں نے ’حسینوں کا ڈبہ‘ کا نام دے رکھا ہے۔ ان میں سے سلطانیہ گرلز سکول والی ایک بس کے ڈرائیور صندل میاں اسی گلی میں رہتے ہیں۔ صابر میاں کے دوست بھی ہیں اور چائے پینے آتے تو صابر میاں ان سے چھیڑ میں لگ جاتے۔ پائیگاہ کی دیوار سے لگا اگلا مکان ہماری حویلی کے ٹھیک سامنے ایک مفلس شاعر کا گھر ہے۔ دو بھائی اور ہیں جو کچھ کام کرتے ہیں اور گھر چلاتے ہیں۔ شاعر صاحب، جن کا تخلص ’شرر‘ ہے، بس بچوں اور بڑوں کو فارسی اور اردو کے سبق سکھاتے ہیں اور حاصل رقم سے کچھ گھر والوں کو اور کچھ اپنی مرغیوں کو دے دیتے ہیں۔ شاید کچھ رقم وہ اپنے بالوں اور داڑھی میں مہندی لگانے میں خرچ کرتے ہوں گے، کیونکہ ان کے بالوں کا رنگ ہمیشہ کھلکھلاتا نظر آتا تھا۔ شرر صاحب صبح سے ہی اپنے مرغے اور مرغیوں کو گھر کے باہر لا کر دانہ ڈال دیتے تھے اور بڑے غور سے ان کو دیکھتے رہتے تھے۔ کمال یہ که وہ ان میں سے ہر ایک کو نام سے جانتے تھے اور انھیں بلاتے بھی نام سے ہی تھے۔ ہم بچوں کو اس بات پر ہنسی آتی تھی۔ ایک دن مرغے مرغیوں کو دانہ ڈالتے ہوے شرر صاحب نے سکھانے کی غرض سے پاس بلا کر ایک سوال پوچھا: "بتاؤ ان میں سے مرغے اور مرغی کو الگ الگ کیسے پہچانو گے؟” ہم بچوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور دبی دبی ہنسی کے ساتھ کھسیا کے، "ہمیں کیا معلوم” والی شکل بنا کر رہ گئے۔ شرر صاحب کو اس بات کا پہلے سے ہی اندازہ تھا۔ وہ مسکرائے اور مستی والے انداز میں بولے، "شکل سے پہچاننا ہو تو بڑی کلغی والا ہوا مرغا اور چھوٹی کلغی والی ہوئی مرغی۔ اور اگر اصل پہچاننا ہو تو ایک ہاتھ دل پہ اور دوسرا کان کے اوپر رکھو۔ کان سے سنو، دل سے پہچانو۔ مرغا ککڑوں کوں کرتا ہے اور مرغی صرف کوں کوں کرتی ہے۔” ہم سب کو بڑا مزہ آیا۔ ایک کھیل سا بن گیا۔ اپنے ہاتھوں کو ڈاکٹر کے سٹیتھسکوپ کی طرح استعمال کرتے اور مرغےمرغیوں سے آگے بڑھ کر بکرے بکریوں تک کی آوازیں سن کر الگ الگ پہچان کی کوشش میں ایک دوسرے کی عجب سی بنی ہوئی مُدرائیں دیکھ کر خوب ہنستے۔ شرر صاحب بھی بیٹھے بیٹھے خوب مزے لیتے، مسکراتے رہتے تھے۔ شاید یہ سوچ کر که کیسے انھوں نے مذاق مذاق میں بچوں کو کان کے ذریعے دل سے چیزوں کو پہچاننے کی سیکھ دے دی۔ ایک بےحد خداداد کردار اور ہے اس گلی میں۔ نام ہے ممتاز میاں۔ شہر کی اکلوتی کپڑا مل میں مزدور ہیں۔ گلی کے ٹھیٹھ دوسرے کونے پر مٹی کی چِنائی سے کھڑی دو دیواروں اور باقی ٹٹوں سے ڈھکا ہوا گھر انھی کا ہے۔ ممتاز میاں کی گردن ٹیڑھی ہے اور چلتے میں کافی ہلتے بھی ہیں۔ شہر کی روایت کے مطابق ان پر کئی سارے قصے اور ڈھیر سارے لطیفے بننے چاہیے تھے لیکن ایسا ہے نہیں۔ الٹے ممتاز میاں کو بےحد عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ وہ رمضان کے پورے مہینے صبح منھ اندھیرے اٹھ کر گلی اور آس پاس کی بستیوں میں گھوم گھوم کر سحری کے لیے جگانے کو آواز لگاتے ہیں: ’’ایمان والوں! اللہ کے پیاروں! جاگو! ۔۔۔ سحری کا وقت ہو گیا ہے۔ ایسے خوبصورت سے انسانوں کے بیچ ایک اور مزے کا کردار بھی ہے: ’لپک پٹھان۔‘ اصل نام تو راشد خاں ہے لیکن ان کی شخصیت میں پٹھانوں جیسی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ سنگل ہڈی فریم، ہر دم بکھرے بال، ساکیٹ سے باہر نکلتی آنکھیں، زبان سے ہر وقت خراش بھری آواز میں ہر دو لفظ کے بعد تازہ تازہ ایجادشدہ گالی ہوتی ہے۔ اپنے اسی لڑکھڑاتے جسم اور چلتے پھرتے اللہ واسطے کی لڑائیاں مول لینے کی عادت کی وجہ سے انھیں ’لپک پٹھان‘ کا یہ لقب حاصل ہوا تھا۔ حالانکہ بعد کو یہ نام بھی ٹکاؤ ثابت نہ ہوا۔ بعد کے برسوں میں رتن کھتری کے مٹکے والے سٹّے کا چلن ہوا تو اس کے پھیر میں بدنام ہو کر ’مما منڈی‘ کہلانے لگے۔ اب یوں تو یہاں میرے ڈھیر سارے دوست لتو پاگل، للن اور اس کی بہن ربّو، جنگل ٹھیکیدار شاہد میاں، ٹینٹ ہاؤس والے مجو میاں، دودھ والے نفیس بھائی، لائبریری والے سجاد صاحب اور ان کے دو بیٹے سلیم اور جاوید، اور نہ جانے کتنے لوگ ہیں،جن کا تذکرہ ابھی باقی ہے۔ ٭٭٭٭٭ میں آپ کو بتا دوں که میں کس طرح اس باجے والے گلی میں آیا۔ 1947 میں جس دن ہندوستان کے بٹوارے کا اعلان ہوا، اس دن تک تو میں وجود میں نہیں تھا لیکن میری کہانی کا پہلا منظر میری غیرحاضری میں ضرور لکھا جا رہا تھا۔ میرے خاندان کا شجرہ بتاتا ہے که اس کی جڑیں دیش کے جنوب مشرق میں بسے پرانت [خطّے] سندھ میں ہیں۔ ملک کے بٹوارے کے سودے کی شرطوں کے مطابق یہ پرانت ہندستانی مسلمانوں کے لیے بننے والے نئے ملک پاکستان کا حصہ طے ٹھہرا۔ اس فیصلے سے میرے خاندان کو دکھ بھلے ہی ہوا ہو، لیکن فکر بالکل بھی نہ ہوئی۔ صدیوں سے یہاں ساتھ رہنے والی آبادی میں ہندو مسلمان تو ضرور تھے لیکن وہ سب سندھی پہلے اور ہندو یا مسلمان بعد میں تھے۔ اسی کے چلتے کچھ عرصے تک یہاں کا ماحول لگ بھگ تناؤ سے خالی بنا رہا۔ پنجاب سے ہر روز آنے والی قتل غارت کی خبروں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی چِنتاؤں کو صدیوں سے ساتھ رہنے والے مسلمان کاندھے پر ہاتھ رکھ کر ہوا میں اڑا دیتے۔ ماحول ایک بار پھر سامانیہ [نارمل] ہو جاتا تھا۔ (جاری ہے) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

Leave a Reply