میں پھر اٹھوں گی

میں تاریخ کے شرمناک گھروندوں سے نکلتی ہوں اُس ماضی میں سے سفر شروع کرتی ہوں جس کی جڑیں دُکھ، درد اور تکلیف میں دبی ہوئی ہیں میں اُچھلتا، ٹھاٹھیں مارتا ہُوا، وسیع و عریض ایک تاریک سمندر ہوں جو اپنی لہروں میں بہتا جا رہا ہے

عورت کے کام

اے سورج، بارش، جھکے ہوئے آسمان! اے پہاڑو، سمندرو، پتو اور پتھرو! اے ستاروں کی چمک اور چاند کی چاندنی! صرف تمہی وہ سب ہو جن کو میں اپنا کہہ سکتی ہوں