قصہ قائد کے عقیدے کا

جب بھی پاکستان کا کوئی قومی تہوار آتا ہے تو قلم کے مزدور قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر اور ان کے عقیدے پر اپنی اپنی آراء ، تبصروں اور تشریحات کے تیشے تاریخ کے سینے پر چلانے لگتے ہیں ۔

مذہب کے نام پر خونریزی

چند روز پہلے خبر نشر ہوئی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین رسالت کے مقدمے میں قید آسیہ بی بی کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے دی گئی سزائے موت پر عمل درآمد سے روک دیا ہے ۔

آئیے آخرت سنواریئے مجرب ، مفید ، آزمودہ نسخہ جات وٹوٹکے

اگر آپ زانی ، شرابی اور بدکردار سیاست دان ہیں، ووٹ چور، ٹیکس چور یا دلیل خور ہیں، بدکردار امام مسجد ہیں اور دین فروشی کے پیشے سے وابستہ ہیں، بے ایمان تاجر ہیں ، لالچی سپاہی ہیں ، انسانی خون سے نچڑتی بند بوریوں کے سوداگرہیں ، بھتہ خوراور حرام خور ہیں، جاگیر داروں ، قبضہ مافیا اور رسہ گیروں کی پشت پناہی کرتے ہیں ،قتل وغارت اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں، حج اور عمرے کی ٹکٹوں میں دھوکہ دہی کرتے ہیں، ٹی وی پر سرعام دین بیچتے ہیں، قربانی کی کھالوں کے لیے انسانی کھال کی قیمت لگاتے ہیں

مقامات مقدسہ کا انہدام اور مجرمانہ خاموشی

ہرسال حج کے لیے آنے والے یاتریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر " تقدس اور روحانیت میں ملبوس صحرائی شہر" اب فلک بوس عمارتوں ، شاپنگ مالز اور پرتعیش شاندار ہوٹلوں پر مشتمل ایک جدید شہر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے ۔

مجلس احرار سے مولوی عبدالعزیز تک

آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاست دانوں کے عوامی بیانات و تقاریر پر بہت زیادہ حساسیت پائی جاتی ہے ؟ان کے ایک ایک لفظ کو حب الوطنی کی چھلنی میں سے انتہائی باریک بینی سے گزارا جاتا ہے جب کہ دوسری طر ف نام نہاد دین فروشوں کے بدترین اور متنازعہ ترین بیانات بھی عوامی احتجاج کو اکسانے میں ناکام رہتے ہیں۔