عشرہ // موت

حماد نیازی: کوئی واج لگاتا جائے ایک ہی گیت سناتا جائے اکڑ بکڑ بھمبا بھو۔۔۔ اسی نوے پورا سو

عشرہ // دل ڈھونڈتا ہے

حماد نیازی: ایک منظر جو کسی بھی آنکھ نے دیکھا نہ ہو ایک دریا جس کے اندر کوئی بھی ڈوبا نہ ہو ایک لمحہ جو رواں ہو اور کبھی گزرا نہ ہو ایک دن جس دن سے پہلے رات کا سایہ نہ ہو

کولاج

حماد نیازی: سرگودھا یونیورسٹی میں گزرے ٧٩٠ دنوں کی طرح چائے کی پیالی سے میری نظم شروع ہوتی ہے

اکیسویں صدی کی غزل کا انفرادی و اجتماعی منظر نامہ

اکیسویں صدی کی غزل کا اگر اجتماعی سطح پر بغور مطالعہ کیا جائے تو اس معاصر منظر نامے میں جو نمایاں لوگ نظر آتے ہیں ان کے ہاں معاصر زندگی کے ذاتی تجربات و انکشافات کی تخلیقی شکل مختلف اسلوبیات کے ساتھ اور مختلف تہذیبی رنگوں کی آمیزش کے ساتھ واضح ہوتی ہے۔

اکیسویں صدی کی غزل کا انفرادی و اجتماعی منظر نامہ

اکیسویں صدی کی شاعری کا منطر نامہ اردو شاعری کے افق پر ایک ایسی تشکیل کے عمل سے گزر رہا ہے جس کی بنیادوں میں جہاں مابعد جدید عہد کا اجماعی لاشعور کار فرما ہے وہیں انفرادی انسانی جبلتوں کے نقوش بھی بدرجہ اتم دیکھے جا سکتے ہیں۔