دو نظمیں (علی محمد فرشی)

آؤ تتلی کے گھر چلتے ہیں چلیں ! تنہائی کے اِس غار سے نکلیں کوئی رستہ بنائیں اِس گھنی، گاڑھی، سیاہی سے نکلنے کا اندھیرے، اندھے، زہریلے دھوئیں میں کاربن ہوتی ہوئی عمریں کہاں ہیرا بنائیں گی کسی نیکلس، ا...

پریس نوٹ

علی محمد فرشی: وہ کبوتر جو چھتری سمجھ کر فلک کی طرف اڑ گیا کس بصیرت نے دھوکا دکھایا اسے

بارود گھر

علی محمد فرشی: بہت دیر کر دی فرشتوں نے نیچے اترتے ہوئے فاختہ اپنی منقا رمیں کیسے زیتون کی سبز پتی دبائے جہنم سے پرواز کرتی؟ فلک دور تھا اور بارود گھر شہر کے وسط میں

وقت

علی محمد فرشی: تین چڑیلیں ککلی کھیلیں گھوم گھوم کے جھوم جھوم کے آئیں آدم زادوں کو بہکائیں

CYBERIA

علی محمد فرشی: مقدر کی سکرین پر رش نہیں تھا دعا کی ضرورت پرانی پڑی تھی محبت تو ویسے بھی فیشن سے باہر تھی

اشتہار سے باہر

علی محمد فرشی: رشتوں کی سلاخوں میں پروئی عورتوں اور گائے کے عمدہ گلابی گو شت کا بھاؤ ابھی تک ایک جیسا ہے