Laaltain

اولاد (محمد عباس)

28 ستمبر، 2020

بات بابے کی ٹھیک تھی۔ اس نے بابے کا نام چمکا کے رکھ دیاتھا۔ یوں آج کسے معلوم تھا کہ یہ بڈھا لاٹھی ٹیک جھِیلا جوانی میں کیا چیز تھا مگراس کے ہم نام کی وجہ سے نئی نسل کو بھی اندازہ ہو چکا تھاکہ باباجھِیلاکیا کیا کمال رکھتا ہو گا۔
٭٭٭
باباجھِیلا، ظاہر ہے کہ شروع سے ہی بابا نہیں تھا۔ جوانی میں اس کا نام پورے علاقے میں فخر سے لیا جاتا تھا۔ جھِیلا پہلوان۔ کبڈی کا نامور کھلاڑی۔ نڈر اور مقابلے کا شوقین۔ زور اور پھرتی میں ایک سا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ وارا بھی کرتا تھا اور جاپھا بھی۔ جس ٹیم میں وہ ہوتا، اس کو آدھے پوائنٹ توجھِیلا لے دیتا تھا۔ جب وہ میدان میں اترتا تو سارا میدان اس کے نام کے نعروں سے گونج اٹھتا تھا۔ ایک مدت تک اس نے راج کیا۔ جس میدان میں اُس نے اترنا ہو، وہاں ہزاروں کا مجمع اسے دیکھنے پہنچ جاتا تھا۔ دور دراز کے کھلاڑی بھی بڑے چاؤ سے اس کے مقابلے پہ کھیلنے آتے۔ وہ بھی پتا نہیں کتنی جگہوں پر کھیلنے گیاتھا۔ جب اس نے فیصل آباد، لاہور، گوجرانوالہ اور ساہیوال کے بڑے بڑے نامی پہلوانوں کو نیچا دکھایا تو اس کا نام پورے پنجاب میں مشہور ہو گیا تھا۔ بڑے بڑے کبڈر اس کا نام سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ جتنی مدت وہ کبڈی کھیلا، سوائے دو چار وارے جاپھے ناکام ہونے کے، کبھی سر جھکا کر میدان سے باہر نہیں نکلا۔ اِتنی ٹرافیاں اس نے جیتی ہوئی تھیں کہ گاؤں کے چوہدری کے گھر میں اُتنے برتن بھی نہیں ہو ں گے۔ اس کی وجہ سے برموٹ گاؤں کا نام پورے پنجاب میں بولتا تھا۔ پورے گاؤں کو اس پر فخر تھا۔

جب اس کا نام اتنا مشہور ہو گیا تو اس کو بڑی بڑی ٹیموں کے لیے بلا یا جانے لگا تھا۔ وہ کبھی راولپنڈی ڈویژن کی طرف سے کھیل کے آتا، کبھی پنجاب کی ٹیم میں شامل ہو تا۔ اپنے علاقے کی تو جب بھی کوئی ٹیم بنتی، وہ اس میں ضرور شامل ہو تا تھا بلکہ ٹیم کا مان بن کر جاتا تھا۔ دوسری ٹیم کو جب مرعوب کرنا ہوتا تو اسے بتایا جاتا کہ ہمارے پاس جھِیلا بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا نام ہی اس قدر تھا کہ دوسری ٹیم میچ سے پہلے ڈول جاتی تھی۔ کھیل کی بنا پر اسے فوج اور واپڈا کی طرف سے کئی بار نوکری کی پیش کش بھی ہوئی تھی لیکن اپنی آزاد طبیعت کی وجہ سے وہ ایسی کوئی پابندی قبول نہ کر سکا تھا۔

آٹھ دس سال اس نے کبڈی کے میدان پر راج کیاتھا۔ شادی، بچے اور زندگی کی ذمہ داریاں کندھوں پر آ لدیں تو اس کا بدن ماند پڑنے لگا۔ جب مسلسل چار جاپھے ناکام گئے تو اس نے جاپھا کرنا چھوڑا اور صرف وارا کرنے لگا۔ اپنی پھرتی کی بنا پر وہ وارا بھی کمال کرتا رہا مگر ایک بار جب ایک تنو مند جاپھی کا کان پر پڑنے والا ہاتھ اس کے دماغ کی چولیں تک ہلا گیا تو اسے اندازہ ہو گیا کہ کبڈی اب اس کے بس کی بات نہیں رہی۔ یہ ضرب پڑی بھی بہت زوردارتھی۔ اس کا کان سُن اور دماغ جھنجھنا گیا تھا لیکن اس نے تب ظاہر نہ کیا اور کسی ایسی ناکامی سے بچنے کے لیے جو عمر بھر اس کے ماتھے پر سجی رہتی، اس نے چپکے سے میدان کو الوداع کہہ دیا۔ کبھی میدان کا رخ ہی نہ کیا۔ اس ضرب سے وہ عمر بھر کے لیے دائیں کان سے سننے کو معذور ہو گیا تھا۔ برسوں بعد بابے کی سماعت کی یہ معذوری سب جان گئے تھے لیکن وجہ کسی کو معلوم نہ تھی۔

اب تو وہ دمے کا مارا، ستر سال کا کھانستا ہوا بوڑھا تھا۔ سیدھی طرح چلنے پھرنے سے بھی معذور۔ صرف کھُنڈی کے سہارے چل پاتا تھا۔ اس کی بیوی مر چکی تھی۔ دو بیٹے تھے۔ اس کی پوری خواہش کے باوجود کہ وہ بھی کبڈی میں اُسی کی طرح نام پیدا کریں، وہ دونوں صرف مزدور ہی بن سکے تھے۔ آج کل اٹلی میں مقیم تھے۔ وہ اکیلا پاکستان میں رہ گیا تھا اوراپنے بیٹوں کی بنوائی کوٹھی میں رہتا تھا۔ کھانے اور دوا دارو کا خیال رکھنے کے لیے ایک بھانجی کی اولاد تھی۔ اسی کے گھر سے کھانا آ جاتا، اگر بیمار پڑتا تو اسی کے بچوں میں سے کوئی مستقل اس کے پاس رہنے لگتا۔ کھاٹ توڑنے اور کھُنڈی ٹھکورنے کے علاوہ اسے اور کوئی کام نہ تھا۔ گرمی کے موسم میں اکثر اس کی کوٹھی میں ہم عمر دوستوں کی محفل جمتی تھی۔ جہاں سب اپنی اپنی جوانی سنایا کرتے تھے۔ بابے کے پاس کہنے کو بہت کچھ تھا۔ جب شروع کردیتا تو پھر سارا دن باتیں ختم نہ ہوتیں۔

گو کہ وہ کب کا کبڈی کے میدان سے نکل چکا تھا لیکن اس کے باوجود اس کا نام ایک مثال تھا۔ جھِیلے کا نام علاقے کے حافظے پر نقش ہو گیا تھا۔ مائیں جب اپنے بچوں کو پھرتی کا مظاہرہ کرتے دیکھتیں تو انہیں جھِیلا پہلوان کہتیں۔ باپ اپنے بیٹوں کی تابدار جوانی اور طاقت دیکھتے تو انہیں جھِیلا پہلوان کے نام سے پکارتے۔ اس کا نام ایک داستانوی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ اس کے گاؤں کے لوگ خواہش کرتے تھے کہ کاش گاؤں میں پھر کوئی ایسا ہی جوان پیدا ہو جو کبڈی میں ان کا نام جھِیلے کی طرح روشن کرے۔

بابا جو اَب کسی کام کا نہ رہا تھا، جب اپنی جوانی کے قصے سنا سنا کے تھک جاتا تو پھر ایک ٹھنڈی اور لمبی آہ بھر کے افسوس سے کہتا کہ کاش اس کے بیٹے بھی کبڈی کے میدان میں اترتے اورجھِیلے کا نام آج بھی چلتا رہتا۔ اس کے دوست بھی جانتے تھے کہ عمر میں جھِیلے کو ایک ہی دکھ رہا ہے کہ اس کی اولاد اس جیسی نہیں ہو سکی، حالانکہ جب اس کے ہاں پہلا بیٹا ہوا تھا تو وہ خوشی سے چیخ پڑا تھا کہ ایک اورجھِیلا پیدا ہو گیا ہے۔ دوسرے کی پیدائش پر تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ وہ پاگلوں کی طرح قہقہے لگاتا اور کہتا کہ اپنے بیٹوں کو بھی کبڈی کے میدان میں اتارے گا۔ شیر ہوں گے، شیر۔ آخر بیٹے کس کے ہیں۔ اس کے دوستوں کو بھی یقین تھا کہ اس کے بیٹے اس کا نام آگے بڑھائیں گے۔ باپ کی ناف برابر ہوئے توجھِیلے نے انہیں کبڈی کی طرف لگا دیا تھا۔ روزانہ ان کی دوڑ کراتا۔ ڈنڈ بیٹھکیں لگواتا۔ پھر کھانے کو ایسی چیزیں دیتا جن سے بدن میں طاقت اور چستی آجاتی ہے۔ وہ خودبتاتا تھا کہ اس نے کبھی اپنے بیٹوں کو بھینس کا دودھ نہیں پینے دیا کہ اس سے بندے کا جسم تھلتھلا ہو جاتا ہے۔ ان کو چست رکھنے کے لیے ہمیشہ گائے کا دودھ پلایا کہ بچھڑے کی طرح اَتھرے رہیں۔ لیکن پتا نہیں کیا ہوا، ماں نے انہیں اندر ہی اندر اس پٹڑی سے ہٹا دیا تھا یا وہ خود اس قابل تھے ہی نہیں کہ جوانی میں پاؤں رکھنے تک وہ کبڈی سے متنفر ہو چکے تھے۔ میدان میں اترتے تو بالکل اناڑیوں کی طرح ہاتھ پاؤ ں مار کے اس کا نام ڈبو آتے۔ جھِیلے نے کچھ ہی دن انہیں آزمایا، جب جان گیا کہ یہ پھوکے گنّے ہیں تو انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ پڑھائی سے توپہلے ہی فارغ تھے، کھیل سے بھی گئے۔ آخر بنے تو محض مزدور بنے، خود بابے نے ہی کوشش کر کے اور چار بیگھے زمین بہا کر انہیں اٹلی بھجوادیا تھا اور پھر جب وہ وہاں سیٹل ہو گئے تو خود ہی اُس نے کہا تھا کہ اپنے بیوی بچے بھی ساتھ لے جاؤ۔ جب انہوں نے پوچھا کہ آپ کا اکیلے کیا بنے گا تو، باباخود بتا تا ہے، اس نے صاف کہہ دیا کہ مجھے زندہ رہنے کے لیے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ میری کسی طرح گزر ہی جائے گی۔ تم لوگ اپنے بچوں کی زندگی بناؤ۔

بابا جب اپنے بیٹوں کی طرف سے مایوس ہو گیا تو اس نے دوسروں کی طر ف توجہ دینا شروع کر دی تھی۔ ابھی جوانی کی کچھ چنگاریاں باقی تھیں۔ شوق پر دھیان دے سکتا تھا۔ بابا خود ہی کسی کے کہے بغیر میدان میں چلا جاتا اور کبڈی کے شوقین لڑکوں کو تربیت دیتا۔ بارہا بابے نے کبڈی کے میدان میں بالکل نئے لڑکے اتارے جن کا نام بھی پہلے کسی نے نہ سنا ہوتا۔ بابے کے تیار کیے ہوئے لڑکے آسانی سے کسی کے قابو میں نہیں آتے تھے۔ اس کا نام کبڈی کے میدان میں بولتارہا۔ لیکن وہ خود مطمئن نہیں تھا۔ کہا کرتا تھا کہ کبڈر تو بہت ہیں، میرے ہاتھوں کے سکھائے اچھا کھیل لیتے ہیں لیکن ان میں کوئی جھِیلا نہیں بن سکا۔ بہت بعد میں جب دوستوں کی ایک محفل میں اسے یہ طعنہ سننے کو ملا کہ اس کی ساری تربیت کے باوجود آج تک گاؤں میں اس کے پائے کا کوئی کبڈر نہیں بن سکا، شاید وہ ہی دوسروں کو سکھانے میں کوئی کمی رکھ دیتا ہے،تو اس نے کہا تھا کہ جھِیلابنایا نہیں جاتا، بنا بنا یا آتا ہے۔ کسی پر جتنی بھی محنت کرلی جائے،وہ جھِیلا نہیں بن سکتا۔ جب جھِیلے کے اپنے خون سے بھی ایک جھِیلا نہیں نکل سکا تو پھر میں کسی اور کو جھِیلا کیسے بنا سکتا ہوں!!

٭٭٭
بر موٹ، جھِیلے کا گاؤں بالکل پہاڑی سلسلے کے نیچے تھا۔ کوہستانِ نمک کے اس سلسلے میں جھِیلے کے گاؤں سے اوپر پہاڑیوںمیں بہت بڑاجنگل تھا۔ اس جنگل میں تیتر، بٹیر، جنگلی کبوتر، بھگیاڑ، گیدڑ، ہڑیال،سیہہ، خرگوش، لومڑ، ہرن اور سٔور بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔ پوری تحصیل کے لوگ کھنچ کھنچ کر ادھر شکار کھیلنے کو آتے تھے۔ ہر ہفتے، کوئی نہ کوئی ٹولی اپنے کتوں، بندوقوں، جالوں،پھندوں، ٹارچوں اور دُوربینوں کے ساتھ پہاڑیوں پر ہڑل ہڑل کررہی ہوتی تھی۔

ویسے تو وہاں ہر قسم کے شکاری آتے تھے۔ کوئی خرگوش مارکھاتا، کوئی ہرن لیکن سبھی شکاریوں میں یہ بات مسلم تھی کہ اصل شکار تو سٔور کا ہے۔ یہ واحد شکار ہے جو نہ زبان کے چسکے کے لیے کیا جاتا ہے نہ کسی مالی منفعت کے لیے۔ شکار برائے شکار۔ حوصلے اور ہمت کے ساتھ ساتھ پوری لگن کا کھیل۔ جس میں شکار کوصرف گھیر مارنے پر توجہ ہوتی ہے، مصالحے لے کر اسے بھوننے کی فکر نہیں ہوتی۔

سٔور کے شکار کا وہاں بڑ اشہرہ تھا۔ بے قاعدہ قسم کے مقابلے ہوتے تھے۔ آپس میں کسی تنظیم کے بغیر ہی یہ طے تھا کہ جس سیزن میں جو ٹولی زیادہ نر پکڑ کر لائے گی، وہی اس سال کی بہترین ٹولی کہلائے گی۔ گرمی کا پورا موسم شکار نہیں کھیلا جاتا تھا حتیٰ کہ اس موسم میں کتے کھولے ہی نہ جاتے۔ یہ شکاریوں کی اپنی اخلاقیات تھی کہ اس موسم میں سٔورنی بچے دیتی ہے، اس موسم میں شکار کا مطلب یا تو بچہ سٔور کو مارنا ہے، یا سٔورنی کو مار کر اس کے دودھ پیتے بچوں کی بلاوجہ موت کا سبب بننا تھا، اس لیے وہ گرمی کے موسم میں شکار کا نام بھی نہ لیتے تھے مگر جب سردیاں آ جاتیں تو ٹولیوں کی ٹولیاں خون گرمانے کے لیے سٔوروں کے پیچھے ہو لیتیں۔ اس دوران جنگل میں شاید ہی کوئی سٔور بچتا ہو جس کے پیچھے کسی کتے کے پاؤں نہ پڑتے ہوں۔ شام ہوتے ہی ٹولیاں للکار کر نکل جاتیں اور ساری رات جنگل کتوں کی بھونکاروں اور شکاریوں کے نعروں سے گونجتا رہتا۔

سٔور کا شکار اس علاقے میں صرف کتوں سے کیا جاتا تھا۔ بلکہ اگر کوئی شکاری، سٔور کے شکار پر جاتے وقت اپنی حفاظت کے لیے رائفل ساتھ لے کر جائے تو اسے ڈراکل اور ہیجڑا کہا جاتا تھا۔ یارُو کا مشہور قول تھا کہ’’ رائفل تو زنانہ سہارا ہے، مردوں کے کھیل میں لطف بگاڑ دیتا ہے، اگر اپنی جان بچانے کی اتنی ہی فکر ہے تو مارو خرگوش اور کھا کے جان شان بناؤ۔ سٔور مردوں کے مارنے کے لیے رہنے دو۔ ‘‘اسی رِیت کی وجہ سے باوجود اتنی شکاری ٹولیوں کی آمد کے علاقے میں کبھی سٔور ختم نہیں ہوئے۔ اوبڑ کھابڑ علاقے اور گھنے درختوں، جھاڑیوں کی وجہ سے شکاری ٹولیاںاکثر ناکامی کی تھکن سے چور ہی لوٹتی تھیں۔ اکثر تو رات رات بھر پوری ٹولی ذلیل ہوتی رہتی، کتے بھی کٹ پھٹ جاتے اور سٔور کا بال تک نہ ملتا۔ علاقے کی جو نامی ٹولیاں تھیں، یارُو، حیدری اور خضرے کی، انہیں بھی ابھی تک صرف چھ یا سات نر پکڑنے کا اعزاز ہی حاصل تھا۔ وہ لوگ بھی بیشتر صرف شکار کی سنسنی ہی لُوٹ کر لاتے تھے۔

شکار کا ایک سادہ سا ضابطہ تھا۔ ہر شکاری ٹولی اس ضابطے سے واقف تھی۔ صرف دو شرطیں تھیں، پہلی یہ کہ سٔور کا شکار اس وقت ہی مانا جائے گا جب قتلیوں والانر سٔور ہاتھ آئے گا، مادہ سٔور کسی گنتی میں نہیں۔ دوسری یہ کہ کسی بھی ٹولی کا شکار تب ہی گنا جائے گا جب نر کو زندہ پکڑ کر گاؤں میں لایا جائے گا۔ اگر جنگل میں مر گیا تو وہ شکار نہیں گنا جائے گا۔ بس یہ سادہ سی شرطیں تھیں۔ کتے جب کسی نر کو ادھ موا کر کے گھیرے میں لے آتے توشکاری مختلف حربوں سے اسے بے بس کر لیتے۔ اس کے بعد لوڈر یا ٹرالی میں ڈال کر اپنے گاؤں( جس گائوں کی ٹولی ہو) میں لے جاتے۔ باقاعدہ ڈھول اور باجوں کے ساتھ اسے لے جا کر گاؤں کے مرکزی چوراہے پر باندھ دیتے اور ڈھول کی تھاپ کے ساتھ اس پر کتے چھوڑ دیتے۔ وہ کتے، جو ابھی نئے ہوں اور انہیں سٔور کے شکار پر لگانا ہو۔ اس طرح کتوں کے دل سے سٔور کا خوف نکل جاتا اور انہیں سٔور کے گوشت کا ایسا چسکا پڑتا کہ جہاں سٔور نظر آتا،اس پر ٹوٹ پڑتے تھے۔

کوئی ٹولی جب نر پکڑ لاتی تو پورا گاؤں اکٹھا ہو کر اسے بوٹی بوٹی ہوتے دیکھتا تھا۔ ڈھول بجتے، جوان بھنگڑا ڈالتے، اپنے اپنے کتوں کی ہلا شیری کی جاتی، میراثی شغل میں اس تنو مند کی ناگہانی موت پر بین کرتے۔ پلید ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ کسی کی ہمدردی نہ جاگتی تھی بلکہ خون کے ہر چھوٹتے فوارے پر داد، شاباش کا غلغلہ بلند ہوتا۔ اتنے مجمع کا یہ فائدہ ہوتا تھا کہ ٹولی کا شکار گنتی میں آ جاتا تھا۔ اگر کبھی کسی خاص سٔور کے شکار کا چیلنج ہو تو پھر اسے برموٹ گاؤں میں پکڑ لانے کا اعلان ہوتا تھا جو علاقے کا مرکزی گاؤں تھا۔ جیسا کہ جھِیلے کے لیے اعلان ہوا تھا۔

٭٭٭

سب سے پہلے وہ ایک قریبی گاؤں کی شکاری ٹولی کو نظر آیا تھا۔ یہ لمبا چوڑا اور تازی کتے سے بھی تیز۔ وہ صرف ایک ہی بار ان کی ٹارچ کے گھیرے میں آیا تھا، اس کے بعد دکھائی بھی نہ دیا۔ لیکن اس کا جثہ اس قدر گٹھیلا اور پھرتی کچھ ایسی تھی کہ وہ ٹولی حیران رہ گئی تھی۔ اگلی صبح انہوں نے یارُو کی بیٹھک میں الوداعی ملاقات کے وقت اس سٔور کا ذکر کیا اور پوچھا کہ ایسا چھلاوہ انہوں نے دیکھا ہے کیا؟ لیکن یارُو لوگوں کو کیا پتا کہ یہ کس سٔور کی بات ہو رہی ہے۔ دیکھا ہوتا تو کچھ بتاتے۔ یونہی سر ہلا کر رہ گئے، کہ ہوگا کوئی ذرا شُرتا قسم کا سٔور، گھبرا کر بھاگا ہو گا تو زیادہ تیز لگا ہوگا۔ ورنہ ایساکوئی خاص سٔور تو ہماری نظر میں نہیں ہے۔

کچھ ہی دنوں بعد خود یارُو کی ٹولی کا سامنا اس سے ہو گیا۔ اپنے دوستوں اور کتوں کی چار جوڑیوں کے ساتھ وہ شکار پر تھا۔ سرچ لائٹ کی روشنی میں ایک سٔور نظر آیا۔ لیکن روشنی پڑتے ہی وہ کچھ ایسی تیزی سے غائب ہو گیا کہ باوجود اپنے ہزار تجربے کے، یارُو کی ٹارچ اسے دوبارہ دیکھ ہی نہ پائی، بس بھٹک کے رہ گئی۔ اس کی جھلک دیکھ کے یارُو کے منھ سے بے ساختہ ’اوئے ہوئے ‘نکلا تھا۔ یہ وہ پہلا توصیفی اظہار تھا جو اس کے بارے میں ادا ہواتھا۔ اس کے بعد تو جس نے بھی دیکھا، ایسی ایسی تعریف کی کہ اس پہ سٔور کا نہیں، کسی ’باہر کی چیز‘ کا گمان ہوتا تھا۔

یارُو کو اسی ایک ہی جھلک میں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کوئی عام سٔور نہیں ہے بلکہ کسی ’کُتی نسل کا سٔور‘ ہے۔ اس نے سٔور کا ہیولا ذہن میں رکھ لیا۔ اگلی بار بھی یہ یارُو کے نصیبوں میں ہی تھا کہ اس سے ملاقات ہوتی یا شاید کسی اور ٹولی نے بھی اسے دیکھا تو ہو مگر پرکھ نہ سکے ہوں کہ یہ کوئی نئی بلا ہے۔ یارُو تو دیکھ چکا تھا، سو پہچان گیا۔ اب کی بار یارُو پوری طرح چوکنا تھا۔ سو اس نے اپنے کتوں کو اس کے پیچھے پوری مہارت سے لگا دیا۔ لیکن بے سود، بہت جلد وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ اس دوسرے ٹاکرے سے یارُو اور اس کی ٹولی کے سب جوان جان چکے تھے کہ اب کے سال کوئی ایسا سٔور میدان میں آیا ہے جس کا شکار،شکاریوں کی مہارت کی دلیل ہو گا۔ سب نے مل کے تہیہ کیا کہ اگلی رات زیادہ کتے اور بڑی ٹارچیں لے کے آئیں گے اور صرف اسی سٔور کو گھیرنے کی کوشش کریں گے۔

اس سے اگلی رات ان کے پاس پانچ جوڑیاں تھیں۔ ان میں دو بوہلی وہ تھے جن کا علاقے میں چرچا تھا۔ جب وہ اسی کی جستجو میں نکلے تھے تو بہت جلد اسے پا بھی لیا۔ دیوانوں کی طرح کتوں کو کھول دیاگیا۔ پوری رات کتے اس کے پیچھے لپکتے رہے لیکن اس کے نقشِ رفتار کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ الٹا ایک تازی کتا جو شاید اپنی تیز رفتاری سے اس کے پاس جا پہنچا تھا، پیٹ میں قتلی کا گھاؤ لیے پڑا تھا۔ اسے وہیں مار دینا پڑا۔ باقی ساری ٹولی بے مرا دواپس آ گئی۔ یارُو لوگوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود وہ سٔور ہاتھ نہ آیا بلکہ ٹولی میں دولوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے اسے اپنی آنکھ سے دیکھا تک نہ تھا۔ وہ سب اس ٹاکرے کے بعد اسی نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ کسی عام طریقے سے مرنے والا سٔور نہیں ہے۔ اس کے لیے کوئی خاص قسم کے دائو اپنانے پڑیں گے۔

یارُو کے بارے میں لوگ جانتے تھے کہ کسی سٔور سے ڈرنے والی مٹی اس میں لگائی ہی نہیں گئی۔ وہ توسٔور کے شکار پر جاتے وقت محض اپنی دلیری کی بنا پر کبھی کوئی ہتھیار لے کر نہیں جاتا تھا۔ رائفل سے لے کر خنجر تک، کسی بھی قسم کا ہتھیار ساتھ لے جانا اس کے آئین سے باہر تھا۔ ایسا شخص جس سٔور کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جائے، اس کی موت یقینی تھی اور اگر پکڑ کر لا نہ بھی سکے، پھر بھی وہ اتناکچھ کر آتا تھا کہ اگلی دفعہ کسی اَور کے لیے آسان شکار ثابت ہوتا۔ ان سب خوبیوں کے باوصف جب اس کی ٹیم جان توڑ کوشش کے باوجود ناکام لوٹی اور اس سٔور کے گن گاتی رہی تو ان کی باتوں سے دوسری ٹولیوں میں بھی شوق پیدا ہوا۔ اس کا رنگ اور قد وغیرہ تفصیل سے رٹ لیے گئے۔ مزیدایک خاص نشانی یہ تھی کہ تازی کتوں کے علاوہ کوئی اور کتا جس سٔور کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکے، سمجھ لینا کہ وہی ہمارا مطلوبہ سٔور ہے۔

اب تو کئی ٹولیوں کو جنون ہوا کہ وہ اس سٔور کو مار لائیں۔ ظاہر ہے کہ ایک تو ایسا پھنے خان سٔور مارنے کا اعزا ز بھی مل جاتا اورپھر یارُو کی ٹیم کو بھی نیچا دکھایا جا سکتا تھا۔ کئی ٹولیاں اس کی تلاش میں نکلیں، کچھ کو نظر ہی نہ آیا، کچھ کو نظر تو آیا، لیکن محض ہیولہ ہی، اس کے بعد ان کے کچھ کر سکنے سے پہلے ہی وہ غائب ہو گیا۔ دو تین ٹولیاں اس کے پیچھے بھاگنے کا تمغہ بھی لے چکی تھیں لیکن کسی کے ہاتھ کچھ نہ آیا تھا۔ الٹا اپنے ہی کچھ کتے زخمی کرا کے لے آئے تھے۔ یارُو لوگوں کے ساتھ مسابقت کی وجہ سے خضرے اور حیدری کی پوری تمنا تھی کہ یہ شکار ان کے ہاتھ سے ہی مارا جائے تا کہ ان کی ٹولی یارُو سے بہتر ثابت ہو سکے۔ جب وہ علیحدہ علیحدہ کچھ نہ کر سکے تو پھر دونوں کی ٹولی نے مل کر بھی دو راتوں تک کوشش کی۔ کوئی بھی اور سٔور نظر آتا تو اس کے طرف دیکھتے بھی نہ تھے۔ صرف اپنے خاص شکار کی تلاش میں ہی رہتے۔ دوسری رات کی ہی بات ہے جب وہ ان کے گھیرے میں آ گیا۔ انہوں نے ٹارچیں جلا کرہر طرف سے اس پر روشنی کا تمبو تان دیا کہ کسی طرح ان کی نظروں سے بچ کے نہ بھاگ سکے۔ درجنوں نظریں اس پہ جمی تھیں اور سولہ کتے اس کے پیچھے پڑے تھے۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ گھیرے میں آ گیا ہے تو شاید پہلی دفعہ کسی ٹولی کے کتوں پہ سیدھا حملہ کرنے لگا۔ اس کی رفتار اور طاقت اتنی تھی کہ بوہلی کتے کو بھی قتلیوں پہ اٹھا کے پوری رفتار سے کئی فرلانگ تک بھاگتا چلا جاتا۔ گھنٹوں یہ تماشا جاری رہا۔ اس کا بدن کافی حد تک سرخ ہو چکا تھا، لیکن نہ خضرے اور نہ ہی حیدر ی کی ٹولی کا کوئی آدمی وثوق سے کہہ سکتا تھا کہ یہ اس کا اپنا ہی لہو تھا۔ اس نے دونوں ٹولیوں کے اتنے کتے لمبے لٹا دیے تھے کہ اگلے سیزن تک وہ شکار پر نکلنے کے قابل نہیں رہی تھیں۔

صبح کا اجالا جب پھیلنا شروع ہوا توزندہ بچ جانے والے کتے اپنی دمیں ہلاتے ہوئے اپنے اپنے مالکوں کے قدموں میں گھس رہے تھے۔ حلق سے چاؤں چاؤں کی خوفزدہ آواز نکل رہی تھی۔ وہ سٔور گو کہ تھکا ہو ا لگتا تھا، پھر بھی اپنی پہلی شاندار فتح کے غرور میں اطمینان سے آہستہ آہستہ چلتا ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ حیدری بعد میں بھی اکثر کہا کرتا تھا کہ اس رات اسے اتنا دکھ ہوا تھا کہ اگر وہ رائفل ساتھ لے کر گیا ہوتا تو اسے گولی سے مار دیتا۔ بھلے سارے اصول کی ایسی تیسی ہوجاتی، اپنے کتوں کے مرنے کا دکھ تو کم ہو جاتا۔ واپسی پر دونوں ٹولیوں کے پاس کل پانچ کتے ایسے تھے جو اپنے پیروں پر چل کر ان کے ساتھ آ سکے تھے۔ دو کو اٹھا کر لایا گیا اور باقی مردہ کتے ساتھ لا کے کرنے بھی کیا تھے۔

٭٭٭

وہ سیزن تو یوں ہی گزر گیا۔ مزید کسی ٹولی کا اس سے ایسا بھر پورسامنا نہ ہوا لیکن ایک سال بعد جب پھر شکار کاسیزن آیا تو اس سٔور کی شہرت جاگ اٹھی۔ خاص طور پہ جب ایک دور کی ٹیم کو اس کے ہاتھوں ناقابلِ یقین گزند پہنچا۔ بے چارے ہفتے بھر کا شکارکھیلنے آئے تھے لیکن پہلی رات کے بعدہی پانچ میں سے تین کتے مروا کر، ایک خود ہی ناقابل علاج سمجھ، ٹھکانے لگا کے فقط ایک سہمے، لرزتے کتے کی زنجیر تھامے واپس چلے گئے۔ انہوں نے سٔور کا جو جثہ اور جس طرح کی رفتار بتائی تھی، یارُو، بلکہ اس کے گاؤں کے اکثر شکاری سمجھ گئے تھے کہ یہ وہی سٔور ہے۔ اتنا پھرتِیلا اور جسیم سٔور ان کے علاقے میں او رکوئی تھا ہی نہیں۔ سب شکاریوں نے آپس میں گویا یہ طے کر لیا کہ یہ سٔور اگلا سیزن نہ دیکھ پائے۔ البتہ یارُو نے،سب سے اچھا شکاری ہونے کے زعم میں،اس کے شکار کو ایک بڑے مقابلے کی حیثیت دے دی اور سب کے اتفاقِ رائے سے اس کو پکڑنے کے لیے کچھ اصول بنا دیے۔ پہلا اصول تو وہی تھا کہ کوئی شخص بھی اسے سوائے کتوں کے کسی اور طریقے سے نہیں مارے گا۔ دوسرے،اس کو پکڑنے کے لیے کوئی دو ٹولیاں اکٹھی نہیں ہوں گی۔ پکڑے گی تو کوئی ایک ہی ٹولی اور جس ٹولی نے مار لیا، وہ آئندہ سب سے اعلیٰ ٹولی سمجھی جائے گی۔ تیسرے، اس کا شکار صرف سردیوں میں ہی کرنا ہے۔ اگر سردیوں میں نہ ہو سکا تو پھر گرمیوں کی بجائے اگلے جاڑے میں۔ گرمیوں میں حسبِ معمول کوئی اس کا شکار نہیں کرے گا۔ چوتھے، دن کے وقت اس کے پیچھے کسی نے نہیں بھاگنا، اگر جانا ہے تو صرف رات کوکہ شکار کا اصل لطف رات کو ہی ہے۔ پانچویں جو ٹولی بھی اسے پکڑے گی، برموٹ گاؤں میں ہی لائے گی۔ کسی اور جگہ لے جانے پراُس کے شکار کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ان اصولوں کے طے ہو نے کے بعد تمام ٹولیوں میں اس سٔور کو پکڑنے کا ایک عجیب طر ح کا جوش پیدا ہو گیا تھا۔ گویا وہ سٔور نہ تھا، کوئی ٹرافی تھی جو جسے مل جاتی وہ چیمپئن کہلاتا۔ اس سال سبھی شکاریوں کو سٔوروں کے شکار کی بجائے صرف اِسی کے شکار کی دھن تھی۔ خاص طور پر یارُو لوگوں نے تو تہیہ کر لیا تھا کہ دوسرے سٔور تو مارتے ہی رہتے ہیں اور مارتے ہی رہیں گے،اِس بارکوئی اَور سٔور نہیں مارنا بلکہ اِسی نَر کو باندھ کے لانا ہے۔ یارُو کی ٹولی شام ہوتے ہی نکل پڑتی پھر کسی اور سٔور کی چھایا پر دھیان نہ دیے آگے بڑھتی رہتی۔ انہوں نے کئی باراسے دیکھا بھی تھا لیکن اس کا کچھ اُکھاڑ نہ پائے۔

ایک دن شاید وہ ان کی اس مسلسل مڈبھیڑ سے تنگ آ کر خود ہی سامنے آگیا۔ یارُو لوگوں کے کتے اس پر کھول دیے گئے۔ وہ اپنی پوری جھپٹ سے اس پر ٹوٹ پڑے لیکن وہ بھی کچھ اس رفتار سے خود ان کی طرف بڑھا کہ ایک گلٹری کو اپنی قتلی پہ پروئے خود یارُواور اس کے ساتھیوں تک بھاگتا آیا۔ انہوں نے فوراً اپنے بچاؤ کا سوچا، حتیٰ کہ یارُو نے بھی لیکن سٔور ان کی طرف دیکھے بنا رُکا، گھوم کرپلٹا اور اپنے پیچھے آنے والے دوسرے کتوں کو اپنے بھاری وجود سے روندتا آگے بھاگتا چلا گیا۔ یہی کھیل کافی دیر تک جاری رہا۔ جب اس کی دھاڑ رُکی تو سب کتے صاف تھے اور وہ خود اپنی جان بچانے کے لیے ایک طرف دبکے ہوئے تھے۔ سٔور بھی شاید انسانوں سے پنگا لینے کا خواہش مند نہ تھا اس لیے واپس پلٹ گیا۔ گو کہ ناکامی کا بوجھ اٹھانا پڑا تھا مگر ایک بات یارُو جان گیا تھا۔ بعد میں جب بھی اس کے کتے پھاڑے جاتے تو وہ اپنے آپ کو کوستا تھا۔ اس سٔور کا دایاں کان کٹا ہوا تھا۔ یارُو کو اچھی طرح یاد تھا کہ تین سال پہلے اس کے ہتھے اسی رنگ کا ایک بچہ سٔور لگ گیا تھا۔ اس نے ترس کھاکر اسے آزاد کر دیا تھالیکن آزاد کرنے سے پہلے نشانی کے طور پر اس کا دایاں کان کاٹ دیا تھا۔ اس سٔورکا دایاں کان کٹا ہواتھا اور یقیناًیہ وہی تھا۔ ہر ناکامی پر خود کو کوستے ہوئے وہ یہی کہتا کہ کاش اسی دن اسے اپنے کتوں کو کھلا دیتا، آج ہمیں اتنا ذلیل تو نہ کرتا۔

یارُو کی ٹولی دوسری بار ناکام اور پھر اس بری طرح کٹ کر واپس آئی تھی۔ تمام شکاریوں میں اُس کی شہرت پھیلتی گئی اور ہر جگہ سے آپہنچنے والے شکاری ارمان کرنے لگے کہ کاش وہ اس کا شکار کر سکیں۔ اس سال بھی اسی سٔور کا شہرہ رہا۔ ہر ٹولی اس کا سامنا ہونے کی دعا کرتی۔ پورے سیزن کے دوران وہ کئی ٹولیوں کے ساتھ نپٹ چکا تھا۔ جب سب نے ایک بار اس کی طاقت چکھ لی تو کئی کمزور دل سکھاڑیوں نے اس کے شکا ر کا ارادہ ہی ترک کر دیا اور کوشش کرنے لگے کہ اگر اس کا سامنا ہو بھی جائے تو کنی کترا کے نکل جائیں، خواہ مخواہ اپنے کتے مروانے کا کیا فائدہ۔ مگر جنہیں شکار کا اصل ٹھرک تھا،وہ اسی ’حرامی‘ کو ادھیڑنے کی خواہش میں مرتے تھے۔ بہت بھاگتے، بہت دوڑتے مگر وہ کبھی ہاتھ نہ آتا۔ اس سال اس نے کل انیس کتے ہلاک کیے۔ وہ تھا بھی تو ایسی ہی بلا،سیاہ رنگ کا ایسا بھرا بھرا جثہ جیسے خوفناک کالی رات اپنی پوری ہیبت کے ساتھ مجسم ہو گئی ہو۔ بڑی بڑی قتلیاں اور ان میں اتنی طاقت کہ سر جھکائے، قتلیاں زمین میں گڑو کرگزوں دور تک پوری رفتار سے زمین ادھیڑتا چلا جاتا تھا۔ اس اندھے زور کے ساتھ وہ اس قدر چَھٹ رکھتا تھا کہ تین تین چار چار کتوں کے گھیر ے سے نکل جانا اس کے لیے عام سی بات تھی۔ ایک ہی رفتار سے پوری پہاڑی چڑھ جاتا۔ بلکہ خضرا تو حیرت سے کہتا تھا کہ ’ہے تو سٔور لیکن لگتا نہیں ہے۔ پوری رفتار سے بھاگتا ہوا یک دم رکتا ہے، اور پھرپلٹ کر اسی رفتار سے پیچھے کو دوڑ پڑتا ہے۔ کتے ابھی اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے آدھے راستے میں پہنچے ہوتے ہیں کہ وہ واپس مڑ کر انہیں روندنے کے لیے لوٹ رہا ہوتاہے۔ ‘

اس کی اصل مہارت ایک ہی ہلے میں دو کتوں کو پھڑکا جانا تھی اور سب سے بڑی خوبی، کہ دس دس کتے بھی مل کر اسے گھیر کے روک سکے اور نہ ہی اسے ہراساں کر سکے۔ وہ بڑے اعتماد کے ساتھ ان سے نپٹتا، جیسے کتے نہ ہوں، چھوٹے نوالے ہوں جنہیں وہ نگل جائے گا۔ یہ اسی سیزن کی بات ہے کہ اس کا ذکر ’’جھِیلے‘‘ کے نام سے کیا گیا۔ اس کی پھرتی اور طاقت کے لحاظ سے وہ عین مین اسی جھِیلے کی طرح لگتا تھا جس کے قصے نوجوانوں نے اپنے بڑوں سے سن رکھے تھے،اس لیے جس نے بھی اس کا یہ لقب سنا، اسے موزوں جانا۔ علاقے کے جن لوگوں نے بابے جھِیلے کو جوانی میں دیکھ رکھا تھا، اس سٔور کے اس نام کو پسند کیا اور اب وہ ہر ایک کے لیے جھِیلا تھا۔ خود بابے جھِیلے کو بھی یہ خبر مل گئی کہ اس سٔور کو لوگ جھِیلا کہہ کے پکارتے ہیں۔ اس نے بھی اس کے قصے سن رکھے تھے۔ ہنس کر بولا’شکر ہے، قدرت نے جھِیلے کا نام زندہ تو کیا۔ ‘ تب سے اسے جھِیلا ہی کہا جانے لگا۔

اس سے اگلے سال صرف آٹھ ٹولیاں رہ گئیں جو جھِیلے کو مارنے کی خواہش رکھتی تھیں۔ باقی سب لوگ دِل چھوڑ گئے تھے۔ لیکن یہ ٹولیاں بھی اپنے کئی کتوں کو کٹوا دینے کے باوجود جھِیلے کو قابو نہ کر سکیں۔ باہر سے آنے والے شکاری بھی جب یہاں آتے تو اس کا شہرہ سن کر اسی کا پیچھا کرنے کی کوشش کرتے۔ ایسے ہی کسی شکاری نے حیدری سے جھِیلے کی نشانی پوچھی تو حیدری نے زہر خند سے کہا تھا: ’’نشانی پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب تمہارے سب کتے مر جائیں تو سمجھ لینا کہ مقابل جھِیلا ہی تھا۔ ‘‘

اس بار تو اس نے واقعی تباہی مچا کے رکھ دی تھی۔ ایک اور حیران کن بات شکاریوں نے یہ دیکھی کہ جو شکاری کتے ایک بار پہلے جھِیلے سے لڑ چکے ہوں، وہ جھِیلے کے سامنے جاتے ہی نہ تھے۔ بس دور کھڑے اس پہ بھونکتے ر ہتے۔ یہ واقعی تعجب کی بات تھی۔ ورنہ شکاری کتے تو ایسے سٔور کو، جو انہیں پہلے کبھی زک پہنچا چکا ہو، زیادہ غضب سے چیرنے کو دوڑتے تھے۔ لیکن جھِیلے کے سامنے معاملہ الٹ ہو گیا تھا۔ وہ اس کی طاقت سے دہشت زدہ ہو چکے تھے۔ اس سیزن میں بھی سب ٹولیوں کی کوششیں ناکام گئیں۔ جھِیلا سبھی کے بس سے باہر تھا۔ کتوں کے بس میں وہ آ نہیں سکتا تھا۔ بندوق کے متعلق سوچنا بھی شکاریوں کے خلافِ شان تھا۔ جھِیلا جواں مردوں کی طرح جیے جا رہا تھا۔
اس سیزن کے بعد علاقے کے دو تین چوہدریوں نے جھِیلے کو مارنے کا اچھا خاصا انعام مقرر کر دیا تھا۔ ان دنوں یارُو وغیرہ سب اسی تمنا میں جیتے تھے کہ اب کے سال اسے رگڑ ڈالنا ہے۔ یارُو، جو تاڑ گیا تھا کہ جھِیلے کے سامنے پرانے کتے یرَک جاتے ہیں، خاص طور پہ جھنگ گیا تھااور وہاں کے کسی وڈیرے دوست سے تین جوڑیاں؛ دو بوہلی، ایک گل ٹریا کتوں کی، لے آیاتھا اور اب انہیں چھ الگ الگ گڑھوں میں رکھ کر پال رہا تھاتا کہ جھِیلے کے شکار کے لیے خاص طور پرخونخوار ہو جائیں۔ تمام ٹولیوں کے ساتھ اس نے شرط باندھی تھی؛ اس دفعہ میں اسے مار کے ہی رہوں گا۔ ان دنوں جھِیلے کو مرتے دیکھنے کا جنون تمام برموٹ بلکہ پورے علاقے میں تھا۔ مرد عورت، بچے، بوڑھے اسی پہ بحث کرتے کہ کون سی ٹولی اس قابل ہے کہ جھِیلے کو مار سکے۔ جب بحث کہیں نہ پہنچتی تو آخر شرطیں بدنے لگتے۔ ’تو جس ٹولی کا کہہ رہا ہے، اگر جیت جائے توتمہاری ٹانگ کے نیچے سے گزر جاؤں گا‘۔ ’خضرے کی ٹولی اس کا ایک بال بھی نہیں لا سکتی۔ جس دن وہ اسے پکڑ لائے، میں اپنی مونچھیں مُوت سے مُنڈوالوں گا۔ ‘لیکن سب جانتے تھے کہ اس بحث اور ان شرطوں کا کوئی مقصد نہ تھا۔ جھِیلا کسی کے ہاتھ آنے والا نہیں تھا۔

گرمی کے اس موسم میں جھِیلا بہت ہی اکڑ خان بن گیا تھا۔ اپنے آپ کو شاید علاقے کا تھانیدار سمجھنے لگا تھا اور تھانیدار کی طرح ہی گھومتا ہوا عین آبادی میں آجاتا تھا۔ گائوں کی گلیوں میں اس طرح گھومتا، گویا اس کے اپنے باپ کی بنائی گلیاں ہیں۔ ایک مستانی چال سے اپنی تھوتھنی کے ساتھ گلیوں میں گند پھرولتا وہ ایک شان سے چلتا جاتا۔ لیکن کبھی ایک جگہ پر ٹھہرتا نہیں تھا۔ شاید ٹھہرنا اس کااصول تھا بھی نہیں۔ ایک طرف سے آتااور ایسے اعتماد کے ساتھ چلتاہوا، جو سب سے طاقتور ہونے کا احساس ہی دے سکتا ہے،دوسری طرف نکل جاتا تھا۔

جب وہ پہلی بار گاؤں میں آیا تھا تو ایک دہشت تھی جو گاؤں کے اس کونے سے اس کونے تک پھیل گئی تھی۔ ایسا کبھی ہوا تھا اور نہ کبھی ایسا ہو سکتا تھا۔ بھلا سٔور جیسانجس جانور گائوں کا رُخ کیسے کر سکتا تھا۔ برموٹ کے علاوہ کوئی بھی اَورگاؤں ہوتا تو اُس کی بوٹیاں اڑا دی جاتیں لیکن یہ خضرے، حیدری اور یارُو کا گاؤں تھا۔ یہاں شکار کے اصول پر سبھی عمل کرتے تھے۔ اسے مارنے کی بجائے اس کا پِیچا دیکھنے کے لیے کچھ شکاری اس سے بہت آگے چِّلاتے ہوئے گاؤں والوں کو خبردار کرتے گئے کہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں گھس کرد روازے بند کر لیں،جھِیلا گاؤں کے اندر آ رہا ہے۔ یارُو، حیدری اور دوسرے کچھ شکاری بندوق لے کر نکل آئے اوراس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے کہ اگرکسی آدمی کے لیے کوئی خطرہ بنا تو اس’ماں کے یار‘کو اُڑادیں گے۔ اصول وَڑ گئے کھڈے میں۔ گاؤں کے باسیوں سے ہمارے اصول اہم تو نہیں۔ لیکن جھِیلا جس نے آج تک شکار کے دوران بھی کسی انسان پر حملہ نہ کیا تھا، کسی گھر کو چھیڑے بغیر آرام سے چلتا ہوا گلیوں سے گزرتا رہا۔ صرف جہاں کسی چاردیواری کے پیچھے شکاری ٹولی کے کوئی کتے بندھے ہوتے، وہاں کتوں کی سہمی ہوئی آوازیں بلند ہوتی سن کر وہ کچھ دیر ٹھٹک جاتا تھا، لیکن جب کسی کتے کو اپنے مقابل نہ پاتا تو پھر چل پڑتا۔ یا رو اور دوسرے سبھی شکاری حیرت سے اسے دیکھتے رہے۔ آج تک سننے میں نہ آیا تھا کہ کوئی سؤر انسان کو دیکھ کر سامنے کھڑا بھی رہا ہواور یہ جھِیلا کم بخت بھرے پُرے گاؤں میں آ کر انسانوں کے بیچوں بیچ آرام سے گھوم رہا تھا۔ کیا اسے انسانوں سے خوف نہیں آتا؟ کیا اسے معلوم ہے کہ ہم لوگ اسے یوں مارنا نہیں چاہتے یا اسے یقین ہے کہ ہم لوگ اسے مار نہیں سکتے؟جھِیلا ان کی حیرت سے بے نیازکافی دیر گلیوں میں گھومتا رہا اور پھر اسی اطمینان کے ساتھ گاؤں سے نکل گیا جو وہ شکار کے وقت بھی اوڑھے رکھتا تھا۔

اس دن کے بعد شکاریوں کی ٹولیاں ایک بار پھر مل کر بیٹھیں اور اس کے شکار کے لیے بنائے گئے اصولوں پر نظرِ ثانی کی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اب وہ بہت دیدہ دلیر ہو چکا ہے، جس بھی طرح بن پڑے اسے مار دینا چاہیے۔ بندوق سے مارنے میں ہمارا کیا جاتا ہے، جب وہ گاؤں کے لوگوں کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ آج تو اس نے کچھ نہیں کیا لیکن آئندہ اُس نے کسی آدمی کو چیر دیا تو اس کے مجرم ہمی ہو ں گے جنہوں نے اپنی جوانمردی ثابت کرنے کے لیے اسے چھوٹ دی ہوئی ہے۔ اس کے جواب میں ان لوگوں نے جن کا کئی دفعہ رات کو اس کے ساتھ ٹاکرا ہو چکا تھا، واضح کیا کہ وہ آدمیوں پر حملہ نہیں کرتا۔ یارُو نے پورے تیقن سے کہا کہ وہ کبھی کرے گا بھی نہیں اس لیے ہم بھی اسے بندوق سے نہیں ماریں گے۔ یہ ہمارے شکاری ہونے پر ایک گالی ہے۔ ماریں گے تو کتوں کی مدد سے ہی۔ ہاں اگر وہ آئندہ بھی کبھی گاؤں آیاتو ہم لوگ اس کے پیچھے آج کی طرح پہرا دیں گے،کوئی خطرہ محسوس کیا تو فائرٹھوک دیں گے، نہیں توکوئی بھی شخص اس کو گولی نہیں مارے گا۔ کافی دیر کی بحث کے بعد وہ اس پہ متفق ہو گئے۔

جھِیلا دیدہ دلیری پر اتر آیا تھا۔ وہ کئی بار گاؤں میں آ چکا تھا۔ عین دن کے وقت جب سب لوگ اپنے اپنے کام میں مصروف ہوتے، وہ کہیں سے گھومتا گھامتا نکل آتا، گاؤں کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مردانہ وار چلتاجنگل کی طرف لوٹ جاتا۔ گاؤں کے لوگ اس کے آتے ہی اپنے اپنے گھروں میں گھس جاتے۔ جو لوگ شکاری نہ تھے اور اس کے قصے سن سن کے اس کی طاقت اور پھرتی کے قائل ہوچکے تھے، وہ اسے دیکھنے کے سخت خواہش مند تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جس دن اسے پکڑ کر لایا گیا تب دیکھ لیں گے مگر اب جو وہ خودگاؤں آ جاتا تھا تو وہ اپنے گھروں کی منڈیروں سے جھک جھک کراسے دیکھتے، مرعوب ہوتے اور اس کی تعریف کیا کرتے، کہ واقعی صحیح معنوں میں ’جنا‘ ہے اور پورا حق دار ہے جھِیلا کہلانے کا۔

اس کے انداز سے کبھی یہ ظاہر نہیں ہوا تھاکہ وہ گاؤں میں کسی کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ شاید وہ وہاں کے شکاریوں کو یہ دکھانے آتا تھا کہ یہ میں آ رہا ہوں، اگر میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو تو بگاڑ لو۔ شکاریوں نے کیوں کہ طے کیا ہوا تھا کہ ا س کا شکار سردیوں میں کرنا ہے، اس لیے وہ اسے کچھ نہیں کہتے تھے۔ صرف سیزن کے انتظار میں تھے۔ جب بھی وہ اسے گاؤں میں دیکھتے، انہیں آگ سی لگ جاتی تھی، یارُو تو ہرروز جھنگ سے لائے اپنے کتوں کو جتاتا تھا کہ اب کی بار سیزن میں اس کے ٹکڑے کر کے چھوڑنے ہیں۔ بڑا آیا سٔور کا بچہ، ہمیں ہمارے ہی گاؤں میں آ کے للکارتاہے۔

٭٭٭

اَسا ڑھ کے مہینے کی بات ہے۔ ایک دن بابا جھِیلاگرمی سے گھبرایا ہوا تھا۔ کچھ دوست اس کے پاس گپ ٹھپ کے لیے آئے تو اس نے ان سے کہہ کر اپنی چارپائی باہر گلی میں شہتوت کے نیچے بچھوا لی، جہاں چھاؤں تازہ اور ہوا ٹھنڈی تھی۔ سب وہیں بیٹھ کے گپیں ہانکنے لگے۔ بابے کی جوانی کی باتیں شروع ہو گئیں تو حسبِ معمول ختم ہونے میں نہ آئیں۔ اسی دوران گلی میں شور مچ گیا کہ جھِیلا اس طرف آ رہا ہے۔ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگے۔ بابے جھِیلے کے پاس بیٹھے دوست اٹھ کر اس کی کوٹھی میں داخل ہو نے لگے۔ بابے جھِیلے کو انہوں نے کہا بھی کہ وہ سٔور آ رہا ہے، تم بھی اٹھ کے اندر آجاؤ، خواہ مخواہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھوگے۔ لیکن بابا ان کے جواب میں ہنس دیا۔ ’مذاق مت کرو۔ اگر جھِیلا آرہا ہے تو کیا، اصل جھِیلا تو میں ہوں۔ مجھے کیا پروا‘۔ دوست اس کی ضدی طبیعت سے واقف تھے کہ جو بھی کام کرے گا، اپنی مرضی سے کرے گا، ان کے کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ وہ اسے وہیں چھوڑ کے خود کوٹھی میں گھس گئے۔ باباجھِیلا وہیں اپنی چارپائی پہ بیٹھا رہا۔

کچھ دیر بعد جھِیلا گلی کی نکڑ پہ نمودار ہوا۔ اسی مطمئن اور باوقار چال کے ساتھ چل رہا تھاجو اس کی صفت تھی۔ آہستہ آہستہ وہ گلی کے اندر آتاچلا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے گلی میں بابے کی موجودگی کو محسوس کر لیا۔ شاید حیران ہو ا ہو گا کہ آج کوئی آدمی اس کے راستے میں کیسے آ گیا۔ وہ چال تھوڑی تیز کر کے بابے کی طرف بڑھا۔ محلے والے حسب معمول اپنی چھتوں پر کھڑے تھے۔ البتہ آج انہوں نے دم سادھ لیا تھا۔ جب جھِیلے نے بابے کی طرف رخ کیا تو کئی عورتوں کے حلق سے مارے خوف کے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ پتا نہیں کتنی آوازوں نے بابے کو پکارا، ’اندر چلے جاؤ، اُٹھو،بھاگو! ‘ لیکن بابے کو کچھ پروا نہ تھی۔ وہ بڑی دلچسپی سے جھِیلے کواپنی طرف بڑھتے دیکھ رہا تھا۔ صرف ایک بار اس کی توجہ بٹی، جب اس نے جھِیلے کے پیچھے حسبِ معمول پہرہ دیتے، یارُو اور اس کے ساتھیوں کو بندوقیں اٹھائے گلی کی نکڑ پر نمودار ہوتے دیکھا۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر انہیں کچھ بھی نہ کرنے کا اشارہ کیا لیکن یارُو اور اس کے ساتھی جھِیلے کو بابے کی طرف بڑھتے دیکھ چکے تھے، وہ تیزی سے آگے بڑھنے لگے،ان کی بندوقیں فائر کرنے کی پوزیشن میں آنے لگی تھیں۔ جھِیلا چلتا چلتا بابے کے پاس آ کے رُک گیا۔ کافی دیر وہیں ٹھہرا رہا، اتنی دیر میں یارُو اور اس کے ساتھی اسے اپنی شِست میں لے چکے تھے۔ چھتوں پر کھڑ ے لوگ اس انتظار میں تھے کہ پہلے یارُو لوگوں کی بندوق چلتی ہے یا جھِیلا اپنا وار کرتا ہے۔

جھِیلے نے اپنا سر جھکایا اور فرمانبرداری سے پہلے بابے کے پاؤں کو سونگھا اور پھر چاٹنے لگا۔ بابے نے بلند آواز سے پکار کر یارُو کو فائر نہ کرنے کا کہا اوریارُو اور اس کے ساتھیوں کی انگلیاں حرکت میں آتے آتے رک گئی۔ ان سب کی آنکھوں میں بھی چھتوں پہ کھڑے لوگوں کی طرح حیرت تھی۔ بس انگلیاں ٹریگروں پر ٹھہرائے بُت بنے کھڑے دیکھتے رہے۔ جھِیلے نے پہلے تو کافی دیر بابے کا پیر چاٹا پھر بھولے بچوں کی طرح اپنا سر بابے کی چارپائی کی پٹی پر رکھ دیا، انداز ایسا تھا گویا کسی بزرگ سے سر پہ ہاتھ پھروانا چاہتا ہو۔ بابابڑ ے دلار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اس کا کٹا ہوا دایاں کان دیکھ کر بابے کو اپنی چوٹ یاد آ گئی۔ بابا اس کے کان والی جگہ کو پیار سے یوں سہلانے لگا جیسے کٹاؤ کا درد کم کرنا چاہتا ہو۔ کافی دیر بعد جب جھِیلے نے اپنی نگاہیں کچھ اوپر اٹھائیں اور بابے کی طرف یوں دیکھا گویا جانے کی اجازت مانگ رہا ہو تو بابے نے اس کے بائیں کان کی طرف ذرا آگے جھک کربڑے لاڈ سے کہا: ’’شاباش پتر! حق ادا کر دیا ہے۔ مگر دیکھ، ہار کبھی نہیں ماننی۔ جب تک میدان میں ہے، تب تک نہیں۔ جب ہارنظر آنے لگی تو پھر میدان میں اترنا بھی مت۔ پکا چھوڑ دینا۔ اب جا میرا پتر، موجاں کر۔ ‘‘

جھِیلے نے یوں سر ہلایا جیسے پوری بات سمجھ گیا ہو۔ آرام سے سیدھا ہوا، ایک بار پھر بابے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں اجازت چاہی اور بابے کا اشارہ پا کراپنی پہلی چال سے آگے چل دیا۔ بابا اسے گلی کا موڑ مڑنے تک ایسے فخر سے دیکھتا رہا جیسے اس کا اپنا بیٹاہو،جس کا نام جگ میں بولا جاتا ہو۔

اس کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی یارُو اوراس کے ساتھی، جو اَب تک اپنی حیرت پر قابو پا چکے تھے، اپنی ڈیوٹی نبھانے کو بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے لپکے۔

کچھ دیر بعد بابے کے دوست بھی کوٹھی سے نکل کے دوبارہ اس کے گرد جمع تھے۔ سب کے چہرے اور زبان پہ ایک ہی سوال تھا ’یہ جھِیلے نے کیا کِیاہے؟ ‘

بابے نے مان بھرے انداز میں انہیں جواب دینے کی کوشش کی۔ ’’ میری بڑی مدت سے خواہش تھی کہ جھِیلے سے ملاقات ہو، شکر ہے کہ خود ہی آ کے مل گیا۔ ‘‘

کچھ دوستوں نے اس کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ آخربابے نے جھِیلے کو پتر کیوں کہا تھا۔ ’ ’شرم نہیں آئی کہ ایک سٔور کو اپنا پتر کہہ دیا۔ اس کا نام لینے سے زبان چالیس دن پلید رہتی ہے اور تم ہو کہ اسے پتر کہہ دیا ہے۔ کوئی ایمان کی رتّی بھی ہے تم میں؟‘‘

بابا کافی دیر ان کی باتیں سنتارہا۔ وہ سب اپنی اپنی سمجھ کے مطابق شور مچاتے رہے۔ آخر تنگ آ کر بابے نے انہیں ایک ہی جواب سے خاموش کر دیا۔ بابا بے بسی کے سے انداز میں چہرے پر مسکرا ہٹ لا کر بولا تھا:
’’اوئے جھلیو!پتر تو وہی ہوتا ہے جس سے باپ کا نام روشن ہو۔ اس نے میرا نام علاقے میں ایک بار پھر مشہور کر دیا ہے۔ میری اصل اولاد تو وہی ہے نا۔ ‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *