Laaltain

ٹریفک کی بتی والے سبھی خانے اور مصنوعی ذہانت کا دبستان

16 جنوری، 2025

کچھ دن قبل ایک غیر شاعر واقف آدمی نے مجھے ایک نثری نظم بھیجی اور ساتھ میں پیغام لکھا کہ میں آج سے آپ کو شعر میں اپنا استاد مانتا ہوں، اس عنایت کے بدلے میرا اتنا سا کام کر دیجیے کہ ذرا اِس نظم کے مصرعوں میں اوزان سیدھے کر کے اسے موزوں نظم بنا دیں، نیز ذرا عرضِ مضامین میں جہاں کہیں سکتہ واقع ہوا ہو، رواں کر دیجیے، اور باقی جو نوک پلک مناسب سمجھیے۔ میں نے اس نظم کی اصلاح کر کے بھیجی تو ویسی ہی ایک اور نظم آ گئی، یہاں تک کہ مجھے ان کے پیغامات نظر انداز کرنا پڑے، اور مجھے اس سلسلے کا ایک مربوط تر جواب دینے کا خیال آیا۔ یعنی آخر ان صاحب کے ہاتھ ایسی کیا جادوئی چھڑی آئی کہ راتوں رات نثری نظمیں کہنے لگے اور باقی کام کے لیے مجھ ناکارہ کے آگے زانو لپیٹ کے بیٹھ گئے، جو کہ خود ہی ایک مدت سے تخلیقی بلاک کی دیوار چاٹ رہا ہے۔ اس جادوئی چھڑی کی بابت میرا پہلا شبہ ٹیکنالوجی کے اس ابھرتے مظہر کی جانب گیا، جسے ہم مصنوعی ذہانت کہتے ہیں۔

عرصہ سے دنیائے میم میں ایک لطیفہ گردش کر رہا ہے۔ سوال: وہ کیا استعداد ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ انسان ہیں یا نہیں۔ جواب: دیے گئے تصویری جدول سے ٹریفک کی بتیوں والے سبھی خانے چن لینا۔ یہ بھی ارتقائے بشر کی مسافت میں حوادث کے قلمرو کا آدمی کے ساتھ کیا ہی دلچسپ مذاق ہے۔ البتہ اس سے یہ تسلی ضرور ملتی ہے کہ انسانوں کی آپسی تفہیم کے کچھ اختصاصی خانے ایسے ہوتے ہیں، جس سے ہم ایک دوسرے کو یقین دلا سکتے ہیں کہ ہم مشین یا روبوٹ نہیں، اور باہم فاصلاتی رابطہ کے دوران مشین کے درمیان میں حائل ہونے کے باوجود ہم پُراعتمار رہ کر انسانی نوعیت کا ابلاغ قائم کر سکتے ہیں۔

میرا اور آپ کا تعلق جس معاشرے سے ہے، میرے منہ میں خاک، اس کا سراپا ایک موجد سماج سے زیادہ ایک صارفِ محض معاشرے کی شناخت کے قریب تر ہے۔ ہمارے پاس کچھ ملکوتی سطروں اور یاس و امید کے کچھ گیتوں کے سوا شاید ہی کوئی گراں‌قدر شے ہو۔ مصنوعی ذہانت موجد معاشروں کے ہاں سے آنے والی دیگر مصنوعہ اجناس سے اس لیے مختلف ہے کہ اس کا عملی وظیفہ کسی جسمانی کام میں معاونت فراہم کرنا نہیں، بلکہ انسانی ذہن اور اظہارِ خیال کی نقالی کرنا ہے۔ جب سے یہ ایجاد ناگہاں ہمارے وجود کی ایک توسیع بن کر اس کے ساتھ نتھی ہوئی، سب سے پہلا خدشہ یہ ابھرا کہ کیا کمرۂ جماعت اور کیا بزمِ سخن، لو اب ہر کس و ناکس کو ہم پــچھڑے ہؤوں کے تمنا اور طلب سے ابھرے ننھے منے ارمانوں کی جعل سازی کی سہولت مل گئی۔ شعر کی بات کریں تو نثری نظم میں تو اس اختراع کے آتے ہی بیشتر شاعروں کا بوریا گول ہوتا نظر آ رہا تھا۔ لیکن ایک خودغرضانہ سی تسلی تھی کہ بھئی ہم تو پابند شعر کہنے والے ہیں، جیسے ایک بے وزنے اور باوزن شاعر کا فرق سیدھا سادہ ہے، ویسی ہی بات ہے۔ کہاں یہ اکڑ بکڑ الگوردم اور کہاں ہمارے لطیف الہامی آہنگ۔ لیکن یہ سب بھی ارکانِ بحر اور ماتروں کا ایک ریاضیاتی سا کھیل نکلا۔ ابھی اگر آپ مصنوعی ذہانت کے ماڈل چیٹ‌جی‌پی‌ٹی کو غزل کہنے کی فرمائش کریں تو سادہ بحور کے اوسطاً نصف سے زائد اشعار وزن میں ملیں گے۔ خودکار گہری آموزش کی بدولت اس ماڈل نے فقط چند ہی مہینوں میں اس گُر کو بڑی حد تک دسترس میں کر لیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں یہ نسبتاً پیچیدہ بحور کے مصرعے بھی بہت کم غلطی کے ساتھ موزوں کرنے لگے۔ اس موزونیت کے باوجود بیشتر مضامین کی لایعنیت کی حد تک ناپختگی، مصرعوں کا دولخت ہونا، کلیشے کی حد درجہ جگالی وغیرہ اس کے عام شناختی نشان ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے بنی اکثر تصویروں میں کسی شخص کو خواہ مخواہ لگے تیسرے چوتھے بازو کی طرح اکثر و بیشتر بہت سے بے تُک، بے محل اور لایعنی الفاظ اور تاثر نمودار ہوتے نظر آتے ہیں۔ لیکن بالکل اسی طرح جیسے ہم روزِ اول سے بے مزا اور بے تکے شعراء و شاعرات کے کلام میں دیکھتے آئے ہیں۔ پھر اکثریتی قاری اور سامع کے ہاں ان سلیقوں کی پہچان پہلے بھی کہاں تھی۔ صنائع اور بدائع کو بھی اساتذۂ فن کی دقیق رہنما زمرہ بندیوں نے ایک ودیعتی صلاحیت سے کم و بیش ایک مرئی منطقی نظام کی شکل دے رکھی ہے، یہ بھی کب تک ہم انسانوں کی امتیازی فنی صلاحیت رہیں گے۔گوناگوں منفرد شعری اسالیب کا تنوع – میری نظر میں – ابھی مصنوعی ذہانت کی گرفت سے ذرا باہر ہے، تاہم اپنی “ذات” سے مخصوص اس مصنوعی پن کے باعث یہ خود اپنا ایک قابلِ شناخت اسلوب رکھتی ہے، اور یہ بات غیر محفوظ ذہنی کیفیت سے دوچار کسی خلاق انسان کے لیے وقتی تسلی کا باعث ضرور ہے۔

لیکن ایک بے جان جملے میں حزن و الم، طنز و مزاح، کیف و نشاط وغیرہ جیسے تجریدی عناصر پر مصنوعی ذہانت کی روز افزوں گرفت دیدنی ہے۔ یہ آپ سے متعامل ہوتے ہوئے بڑی حد تک آپ کو ہنسا سکتی ہے، افسردہ کر سکتی ہے، اور بطور صارف آپ جو کہیں، آپ کی ظاہری جذباتی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک معقول ردعمل ظاہر کر سکتی ہے۔ دیکھیے اب ادب کے باب میں المیہ اور طربیہ وغیرہ جیسے اعلیٰ و ارفع جمالیاتی کمالات کب تک ہماری اختصاصی بشری سعادت رہیں گے۔

آپ نے دنیائے نطق و تفکر کے گرامی‌قدر پنڈتوں میں ضرور کسی کو مصنوعی ذہانت کے باوا آدم ٹیورنگ کا یہ خیال، کمال رجائیت سے مسترد کرتے سنا ہو گا کہ مشینیں سوچ سکتی ہیں۔ مان لیا کہ مشینیں سوچنے سے قاصر ہوتی ہیں، لیکن جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ وہ سوچ ہی کیا جو سماجی تعامل کی کسی ہیئت میں ابلاغ سے بہرہ مند نہ ہو۔

حضرتِ انسان نے مصنوعی ذہانت کو اس کے جملہ تعاملات جاری رکھنے کے لیے اپنے فراہم کردہ “ڈیٹا” کے آب و دانہ پر پالا پوسا ہے۔ ادبی تعاملات کی ذیل میں ہم ڈیٹا نامی اس خام مال کو “متن” کہیں گے، متن جو کہ انسانی شعور کے اب تک کے کل ترکہ کی ایک بنیادی ظاہری شکل ہے۔ نئی تنقید کے معاصر افق میں جبکہ فن‌پارے کو فن‌کار کی ذات سے جداگانہ اور بخود مکتفی قرار دیا گیا ہے، اور وقت کا یہ فیصلہ کہ “جو کچھ ہے، متن میں ہے، باہر کچھ نہیں”، اس عالم میں متن کو مشین میں کھپا کر مشین سے نیا متن برآمد کرنے کی اختراع کسی بھی تخلیق‌کار کے لیے ایک لرزہ خیز کابوس سے کم نہیں ہونی چاہیے۔

انسانوں کے انفرادی اسالیبِ اظہار و بیان کی گوناگونی کا ایک سبب تو اس کی یہ بشری تحدید بھی ہے کہ جس کسی نے دستیاب متون کے بسیط سمندر سے جس قدر پڑھا، اس سے متاثر ہوا یا تجرباتی سطح پر اس کے اثر میں آیا، اسی قدر متن کے معنوی جوہر کے چاک پر اس کے ذوقِ اظہار کی مٹی کسی اسلوب کے پیالے میں ڈھلتی گئی۔ جبکہ مصنوعی ذہانت اس قابل ہے کہ وہ انسانی تہذیب کے جملہ متون کو ایک وحدانیت کے طور پر جذب کر سکتی ہے۔ انسانی تہذیب میں جس متنی روایت کا ترکہ کسی دوسرے منطقہ کے متنی اثاثے کے مقابلے میں معنوی سطح پر جس قدر افلاس زدہ ہو گا، وجود اور حقیقت کے متعلق اس کے اجتماعی عرفان پر ایک جامع گرفت پانا کسی طاقتور مصنوعی ارادہ کے لیے اتنا ہی کم پیچیدہ اور قرینِ امکان ہو گا۔

اس طرح شاید یہ خطرہ پوری انسانیت کے لیے بہت قابلِ اعتنا نہ ہو، لیکن انسانی تہذیب و تمدن کی وہ کچی بستیاں جہاں اختراعی اور تنقیدی صلاحیت کے ہر میدان میں شکست خوردگی نمایاں ہو، وہاں یہ خطرہ پوری طرح حقیقی اور سر منڈلاتا آسیب ہے۔ جہاں نقالی، تصنع اور سطحی افادیت کا اقبال بلند ہو اور کَن رس اور نکتہ شناس اذہان سماج کے حاشیوں پر بیٹھ کر اپنے ہونے پہ شرمسار سی زندگیاں گزارتے ہوں۔ قحط الرجال کے عالم میں آدمی ہونے اور آدمی رہنے جیسا دشوار پسند منصب ہم میں سے اکثر کے لیے عملی طور پر فقط صوابدیدی ہو۔ جبکہ ہر گزرتا دن، آپ کو اس نحس عقیدہ پر پختہ کرتا رہے کہ اپنے انسانی شرف کے دوائر کے قریب رہنے والا جزائے خیر نہیں بلکہ تعزیر کا حقدار ہوتا ہے۔۔۔ مگر ایسا ہے تو مصنوعی ذہانت کے اس تازہ مظہر کو بھی بظاہر انسانوں جیسا بننے کی کچھ نہ کچھ سزا تو ملے گی؟! جی نہیں! یہ درد کے احساس سے ماورا ہے۔ اب کی بار موجد و خلاق انسان کی نوع کو آدمی ہونے کی تھکن سے تو شاید کچھ دیر فراغ ملے، مگر آدمی ہونے کا کرب فقط بڑھے گا۔

ابھی جبکہ اکثر صارفوں کے ہاں جہاں مصنوعی ذہانت کو ایک انشائی سہولت کے طور پر لیا جا رہا ہے، وہیں اس خدشے کی پشت پر سَو جواز ہیں کہ اس سے انسانی جذبوں کی جعلسازی، اور زندگی کی عظیم تر صداقتوں کو گرمئ بازار کی آنچ پر موڑنے کی راہ ہموار ہو گی اور پہلے ہی امید کے سہارے جیسے تیسے چل رہی اِس دنیا میں ایک قائم بالذات شناخت کے بوجھ کے ساتھ ارتقاء کی راہ چلتے آدمی کا دماغی توازن کچھ اور بگڑے گا۔ پھر جب ڈیجیٹل چِپ سے نکلا سخن، جنسِ بازار بن کر نہاں خانۂ دل سے اٹھی آہ پر بالادست ٹھہرے گا تو لامحالہ اُن چند بچے کھچے لوگوں کا، جنہیں زبانِ شعر میں اہلِ دل کہا جاتا تھا، حلقہ اور بھی سکڑے گا اور اہلِ نظر کی قلبی تنہائی اور بھی بڑھے گی۔

مولانا محمد حسین آزاد کی معرفت امام بخش ناسخ کے متعلق وہ حکایت آپ کی نظر یا سماعت سے گزری ہو گی جس میں ان کے پاس شائقینِ سخن آ آ کر شعر سنانے کی فرمائش کیا کرتے تھے۔ تو انہوں نے کچھ مہمل سے اشعار گھڑ رکھے تھے، جنہیں وہ سخن نافہموں کی کسوٹی کے طور پر سنایا کرتے تھے۔ اگر سامع نے سنتے ہی داد کے ڈونگرے برسانا شروع کر دیے تو سمجھ گئے کہ سننے والے کو شعر کا فہم نہیں:

آدمی مخمل میں دیکھے مورچے بادام میں
ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میں

جدید نظم کے آنے سے علامتیت اور تجریدیت کا چرچا ہوا تو اسی مہملیت کو ایسی آڑ ملی کہ وہ حضرات جنہیں کبھی ناسخ جیسے بزرگ ایک دو مہمل شعر سنا کر نتھار پھینکتے تھے، ویسے ہی اذہان اپنی طبع زاد نظموں کے مجموعے بیچنے لگے۔ انور مسعود کی “ایک جدید ترین نظم” اس ضمن میں ناسخ کے درجہ بالا شعر کے متبادل کے طور پر برتی جا سکتی ہے۔ پھر خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ روایتی اوزان کے آہنگ سے بھی کُوچ کا نقارہ بج گیا اور نثری نظم آ گئی۔ پھر تو دنیائے شاعری میں وہ شورِ محشر اٹھا کہ شاعروں کے انبوہِ عظیم میں اِکا دُکا سخن‌گستروں کی بات کان پڑنی محال ہو گئی۔ شعر پڑھنے والے کم پڑ گئے اور لکھنے والے بہت۔ بہت سے شاعروں کا رویہ تو یوں لگتا ہے کہ بھلا ہم کیوں شعر کی بُن و بَست رواں کرنے میں جان گھلائیں، دماغ کھپانے کو ذہین قاری ہے ناں۔ قاری جانے اور نظم کی تفہیم جانے۔ نیز ہماری بلا جانے۔ اور آتے آتے اب بٹن دبا کر بے شمار نظمیں نکالنے کی صلاحیت تک نوبت آ گئی ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

انگریزی شاعری کے ضمن میں تین ماہ قبل شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، مصنوعی ذہانت سے پیدا کی گئی شاعری اور حقیقی شعراء کے کلام کے مابین فرق کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ اکثر زمروں میں قارئین کے مثبت ردعمل کو دیکھیں تو مصنوعی ذہانت سے پیدا کی گئی شاعری کو فطری شاعری کی نسبت شماریاتی طور پر بلند تر درجہ ملا ہے۔ تاہم یہ تحقیق شعر پر ماہرانہ رائے نہ رکھنے والے عام قارئین سے ملنے والے جوابات پر کی گئی ہے اور اس نتیجہ پر پہنچنے کا ایک محرک مصنوعی ذہانت کی شاعری کا سیدھا سبھاؤ اور براہ راست پن ہے کیونکہ اس کی معنوی پرتیں انسانوں کی شاعری کی طرح پیچدار نہیں ہیں۔

مصنوعی ذہانت استعارہ، ایجاز، علامت، اور تجرید وغیرہ جیسے عناصر کی ادراکی سطح پر امکان بھری وسعت کا فائدہ لے کر صارف کی میز پر اپنا پانسہ پھینکتی ہے اور اکثر صورتوں میں اس کا جوا لگ جاتا ہے۔ تاہم اس کا طرزِ نگارش ابھی ایک مبتدی لکھاری کا سا ہے۔ اور اس کے ادبی اظہارات میں لسانی نشانات کے رشتے فی‌الحال ایک کمزور ارتقائی سطح پر ہیں۔ اس ضمن میں ایک کمزوری جو میرے قاریانہ مشاہدے میں آئی ہے وہ جملے یا مصرعے کی نحو کے پیچھے معنوی محور سے متعلق ہے۔

مثال کے طور پر تسلیم کا یہ شعر دیکھیے:

یوں پکارے ہیں مجھے کوچۂ جاناں والے
اِدھر آ بے، ابے او چاک گریباں والے

اِس مثال میں شعر، خصوصاً مصرعِ ثانی کے مفہوم اور اس کی تاثیر کا صدور، زیادہ تر متن کے افقی محور پر کارفرما ہے۔ اگر مصنوعی ذہانت ایسی نحو پر شعر پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ناصرف قوی امکان یہ ہے کہ وہ شعر معنوی اور تاثراتی طور پر ٹُھس ہو جائے گا، بلکہ ایک اوسط پڑھنے والا آسانی سے اس بات کو بھانپ بھی جائے گا۔

لیکن اب غالب کا یہ شعر دیکھیے:

عشرتِ قتل گہِ اہلِ تمنّا مت پوچھ
عیدِ نظّارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

اس مثال میں شعر کی تفہیم کی رو کا جھکاؤ اس کے عمودی محور کی طرف زیادہ ہے۔ ایسی نحو پر مشینی نقالی سے پیدا کیا گیا شعر بھی معنوی طور پر بے روح اور بے مزا تو ہو جاتا ہے، لیکن اس کا ادراک صرف زیرک اور ادبی طور پر مشّاق قارئین کو ہوتا ہے۔ اس نکتہ پر مصنوعی ذہانت صارفوں کی اکثریت کو چقمہ دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

مصنوعی ذہانت کا ظہور پہلی نظر میں انسانی تاریخ میں ویسی ہی تلاطم خیز ارتقائی جَست جیسا لگتا ہے جیسی کہ ذراعت کا آغاز اور صنعت کا ابھرنا۔ تاہم مصنوعی ذہانت کے اکثر ادبی اظہارات میں لسانی نشانات کے مابین تضاد و تفریق کے ساختی رشتے، میں نے عرض کیا کہ ابھی ایک کمزور ارتقائی سطح پر ہیں، اور انہیں ایک مانوس فطری لب و لہجہ سے ممیز کرنے والے ضعیف پہلوؤں کو سامنے لانا دقیق نگاہوں کے لیے ایک انتہائی مشکل کام نہیں ہے۔ ایک طاقتور میکانکی عمل میں لسانی مواد کی چھانٹی کر کے اس کے نئے متن پارے میں مرتب ہونے کا عمل، انسانی تفکر اور وجدانی واردات کے تحت تخلیقی عمل کے نتیجے میں ایک اظہاریہ کے معرضِ وجود میں آنے کے عمل سے ارادی اور عملیاتی سطح پر مختلف ہے۔ لیکن ابھی تک ہر دو طرح کے عمل سے پیدا ہونے والے متن‌پاروں کے مابین امتیاز کرنے کے ایک منظم اور قابلِ اعتبار مقیاس کے قائم کیے جانے پر بہت غور نہیں کیا گیا۔

وقت کی ضرورت ہے کہ مصنوعی ذہانت سے تیار کیے گئے متنی نمونوں کے اسلوبیاتی خصائص کی ایک منظم نشان دہی کر کے انہیں مستند فن‌پاروں کے ساتھ موازنے میں رکھ کر مصنوعی ذہانت کی تخلیقی حدود کے امکانات دریافت کیے جائیں، اور ان حدود کی وسعت میں روز افزوں پھیلاؤ پر ایک مستقل اور مستعد نظر رکھی جائے۔ جس کے نتیجے میں ایسی بصیرتیں حاصل ہو سکیں جو کسی ادب پارے کی تعبیر کا ایک انقلابی منہج اور ایک نئی شعریاتی کسوٹی وضع کر سکیں، جس کی بدولت ایک مہیب کائناتی تنہائی کے بیچوں بیچ آدمی اپنی نقالی کے طاقتور لیکن بیگانہ آلات کے شورِ پیہم میں اپنے ہم جنسوں کی حقیقی آواز کو پہچان سکتا ہو، اس آواز کا داد رس جواب دے سکتا ہو اور فن‌کار اپنے تمام تر بشری شرف کے ساتھ اپنا طبعزاد فن‌پارہ اپنے قدردانوں تک پہنچا سکے۔

One Response

  1. اسد فاطمی نے عہد جدید باالکل مستقبل قریب میں بدلتے شعری منظر نامے پر ایک اور ڈھائی جانے والی آفت کا اندازہ خوب لگایا ہے ۔وہیں اس بے روح جسم اور پیکر لفظی کی خام خیالی کو بھی عیاں کیا ہے ۔
    بہت کچھ نیا سیکھنے اور پڑھنے کو ملا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

  1. اسد فاطمی نے عہد جدید باالکل مستقبل قریب میں بدلتے شعری منظر نامے پر ایک اور ڈھائی جانے والی آفت کا اندازہ خوب لگایا ہے ۔وہیں اس بے روح جسم اور پیکر لفظی کی خام خیالی کو بھی عیاں کیا ہے ۔
    بہت کچھ نیا سیکھنے اور پڑھنے کو ملا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *