Laaltain

انجانے خوف کی نفسیات – تالیف حیدر

16 اپریل، 2020
Picture of تالیف حیدر

تالیف حیدر

کسی رات آپ کو اگر اچانک محسوس ہو کہ آپ کی سانسیں رک رہی ہیں، دل کی دھڑکن دھیمی ہوتی چلی جا رہی ہے، بدن میں ایک جھنجھناہٹ ہے جو رہ رہ کہ اٹھتی ہے، اس بات کا احساس دلانے کے لیے کہ آپ کی زندگی کا چراغ گل ہونے والا ہے تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟ یقیناً اس سوال کا جواب دینا مشکل ہوگا یا تقریباً نا ممکن۔ پھر اس حالت سے گزرتے ہوئے آپ کسی ہسپتال کی طرف بھاگیں، گھر والوں کو لگنے لگے کہ اب ان کی دنیا اجڑنے ہی والی ہے اور ہسپتال تک پہنچنا بھی دشوار ہو جائے۔ پھر وہاں پہنچنے پہ نرسیں آپ کا بھاگ بھاگ کر چیک اپ کریں، ڈاکٹر آئے دل کی دھڑکن اور خون کی روانی جانچے اور چند ہی لمحوں میں آپ سے کہہ دے کہ کوئی بڑی یا گھبرانے کی بات نہیں ہے انہیں انزائیٹی ایشو ہے۔ آپ تو خود بھی حیران رہ جائیں گے کہ آخر یہ سب کیا تھا، چند لمحے پہلے جو آپ کو محسوس ہو رہا تھا کہ آپ اگلے کچھ لمحوں کے مہمان رہ گئے ہیں اس کی کوئی حقیقت نہیں، یہ سب بے معنی ہے، ایک طرح کا جھوٹ یا ذہنی بہکاوا۔

میں ان دنوں بالکل اسی طرح کی الجھن سے گذر رہا ہوں۔ وہ انگزائیٹی اٹیک جو اب سے تقریباً دو ماہ قبل مجھے پڑا تھا اس نے اب تک میرا پیچھا نہیں چھوڑا ہے۔ اس بات کا اعتراف کرنے میں کچھ برائی نہیں کہ میں ان دنوں ایک نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوں، مجھے خود نہیں پتا کہ یہ بیماری کیسے میرے وجود میں پیر پھیلانے لگی اور ایک دن اتنی بڑی ہوگئی کہ مجھے اس سے اپنی زندگی کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ گھر والوں، دوستوں، رشتے داروں اور چند ایک مخصوص لوگوں میں سے کسی کو یہ نہیں لگتا کہ یہ کوئی بیماری ہے، سب نے جب یہ سنا کہ میں ہسپتال گیا تھا وہ بھی رات کو تین بجے تو سب پریشان ہوئے، لیکن جوں ہی سب کو معلوم ہوا کہ مجھے ایک انزائیٹی اٹیک آیا تھا تو سب اس طرح نارمل ہو گئے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ پھر مجھے بھی کچھ دنوں میں یہ لگنے لگا کہ شائد یہ نفسیاتی بیماری کوئی بہت بڑی چیز نہیں ہے، بہن، بھائی نے سمجھایا کہ وہ کس طرح اس بیماری کا شکار رہے ہیں اور چند دنوں میں ٹھیک ہو گئے ، محبوبہ نے یقین دلایا کہ اس سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، ایک دور کی رشتے دار نے تو اپنا کئی دنوں کا تجربہ بیان کرتے ہوئے پوری کہانی سنا دی، کہ کس طرح وہ اس بیماری میں مبتلا ہو کر ہزاروں روپیہ صرف جانچ پہ خرچ کر بیٹھیں اور آخر میں معلوم ہوا کہ اصل میں کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا دماغی خلل ہے۔

عجیب خلل ہے صاحب۔ میں سوچتا ہوں کہ آخر میں کیوں روز رات کو اس عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہوں کہ میری زندگی کا چراغ گل ہونے والا ہے۔ میں اب نہیں بچوں گا اور بلا وجہ مجھے ہر طرف سے صرف موت کی خبر آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ذرا آنکھ میچی تو دم نکل جائے گا۔ گلے میں بلغم پھنسا تو سانس نہیں آئے گی۔ کھانسی آئی تو وہ آخری ہچکی میں بدل جائے گی یا اگر میں نے دیر تک اس بارے میں سوچا تو کہیں دل نہ رک جائے۔ پھر میں ڈاکٹروں، دواوں اور دعاوں کی طرف بھاگتا ہوں۔ ہمارے ایک عزیز نے بتایا تھا کہ اسے انجانا خوف کہا جاتا ہے جو شہری زندگی میں بے شمار لوگوں کو ہوتا ہے۔ ان کی بات سن کر میں حیران ہوا کہ آخر مجھے کس بات کا خوف ہے۔ میرے والد میرے دوست ہیں، بڑے بھائی نہایت شفیق، ایک جیون ساتھی جو ہمیشہ مجھ پہ مہربان رہتی ہے۔ ماں جو ہر تکلیف اپنے سر اوڑھنے کے لیے کمر بستہ رہتی ہے، بہن سے کبھی کبھی جھگڑا ہوتا ہے، مگر وہ اتنا بھی سنگین نہیں کہ میں اس سے ڈروں، دو چار بلٹیں کھا کھو کر سب ٹھیک ہی ہو جاتا ہے۔ پھر کس بات کا خوف ہے۔ تعلیم مکمل ہے، روپیہ، پیسہ جتنا ضروری ہے اتنا دستیاب ہے۔ مستقبل کے متعلق میں کبھی فکر مند رہا ہی نہیں۔ جو قسمت نے دیا اسے ہنس کے قبول کر لیا، پھر کس بات کا خوف ہے۔ تو یہ سوال قائم ہوا کہ کیا میں واقعی موت سے ڈرتا ہوں۔

مجھے معلوم ہے کہ کسی بھی شخص کو موت کبھی بھی آ سکتی ہے، لہذا اس سے ڈرنا کیسا، گھر میں ستتر برس کے والد اور ساٹھ برس کی والدہ ہیں وہ تو اس عمر میں بھی موت سے خائف نہیں تو میں کیوں ہوں۔ میں یہ سب جانتا سمجھتا ہوں،لیکن اس کے باوجود یہ انجانہ خوف ہر رات میرے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ ذرا سی گیس مجھے الجھا دیتی ہے۔ کوئی شوقین چیز کھالوں تو وہ عذاب بن جاتی ہے۔ نیند آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔ پڑھنے لکھنے پہ زور دوں تو میدہ خراب ہونے لگتا ہے۔ حتی کہ رات کے وقت یہ عذاب مجھ پہ ایسا نازل ہوتا ہے کہ میں زور سے ہنس بھی نہیں سکتا ہے۔ بڑے بھائی نے ایک رات سمجھایا کہ آخر موت آنی ہوگی تو کون روک لے گا، تو وہ رات اس خیال پہ گزر گئی۔ اگلی رات بہن نے کہا کہ تم اللہ کا نام لیتے رہو سب ٹھیک ہو جائے گا، اگلی اس پہ کٹ گئی۔ اس کے بعد والی میں والد نے آیت الکرسی پڑھ کے پھونک دی اور میں اس کے سہارے رہ لیا، اگلی رات والدہ نے دور کا ورد کرنے کی ہدایت دی تو کچھ اس سے بہل گیا۔ روز ایک بہانہ چاہیئے کہ اس سے میں خود کو سمجھاوں کہ ابھی آخری وقت نہیں آیا۔ دوا چل رہی ہے، مگر اس کا اثر بھی رات کے ایک لمحے کے بعد غائب ہو جاتا ہے۔ ڈر جب اپنا زور مارتا ہے تو یقین جانیئے کہ کسی شئے کی گنجائش نہیں رہتی۔

میں ایسے لمحوں میں صرف خود سے لڑتا رہتا ہوں۔ وہ ہی انجانا خوف جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، جس کے تعلق سے میں جانتا ہوں کہ وہ ایک لمحہ بن کر کبھی نہیں آئے گا۔ موت آئے گی لیکن کسی خوف کے ساتھ نہیں۔ انسان کا جینا، مرنا لگا ہوا ہے۔ لیکن ایک انجانے ڈر کے ساتھ زندگی گزارنا کسی عذاب سے کم نہیں۔ جس ہومیو پیتھک کے ڈاکٹر نے مجھے یہ بتایا تھا کہ شہر میں رہنے کا اسے ایک عذاب ہی سمجھنا چاہیے تو میں اس سے کیا کہتا میں سمجھ نہیں پایا۔ کیا میں نے اب تک کی زندگی شہر میں نہیں گزاری؟ کیا حقیقی پریشانیوں کا سامنا نہیں کیا ؟ پیسے کی تنگی، محبوباوں کی بے وفائی، گھر کی خستہ حالی، نوکری کی الجھنیں اور بیماریوں کے قہر کیا نہیں دیکھے۔ لیکن کبھی اس طرح ڈرا نہیں۔ تو اگر اب میں ڈر رہا ہوں کسی انجان سے خیال سے تو اسے شہری زندگی کا عذاب کیسے تصور کروں۔ ہو سکتا ہے کہ میں رات کو جلدی نہ سوتا ہوں، دن میں ٹھیک سے نہ کھاتا ہوں، جس طرح سے جینا ہو نہ جیتا ہوں تو کیا میں اس سے اتنا بڑا گنہ گار ہو جاتا ہوں کہ ایک ایسے خوف میں مبتلا رہوں۔ انجانے خوف کی نفسیات مجھے اب تک نہیں ہوئی تو اب کیوں ؟ میں خود کو آئینے میں دیکھ کر اب تک ہزاروں مرتبہ یہ خود سے پوچھ چکا ہوں کہ یہ بلا دن میں کہاں جاتی ہے۔ دن میں نہ کوئی ڈر ہوتا ہے اور نہ موت کی آہٹ۔ دل گھبراتا ہے تو خود بہ خود سنبھل جاتا ہے۔ الجھن ہوتی ہے تو خود رفع ہو جاتی ہے، لیکن رات تو جیسے ایک پہاڑ ہے اور یہ سوچ کر دل مزید گھبراتا ہے کہ یہ پہاڑ ہر بارہ گھنٹے بعدپھر نمودار ہو جاتا ہے۔

میں نے اپنی اب تک کی زندگی میں بے شمار نفسیاتی الجھنوں کے متعلق سنا ہے، ان کے اوپر بنی ہوئی فلمیں اور لکھی ہوئی کہانیاں پڑھی ہیں، لیکن اب جب کہ میں خود ایک بیماری میں مبتلا ہوں جو خالصتاً نفسیاتی ہے تو میں اس کی قوت کو محسوس کر پا رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میں اسے خود سے جیتنے نہیں دوں گا۔ ایک نہ ایک روز جب یہ مجھے بے انتہا ڈرا چکے گی تو خود بہ خود میری طاقت بن جائے گی۔ لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس وقت تک مجھے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں، ماں، بہن اور بھائیوں، شریک حیات اور ہمسائیوں کی مدد درکار رہے گی۔ نفسیاتی الجھن سے میں کب تک لڑوں گا یہ بھی میں نہیں جانتا، لیکن یہ جانتا ہوں کہ جب تک لڑوں گا، میں اکیلا نہیں ہوں، میرے ساتھ کچھ لوگ ہیں جو مجھے اس سے مل کر نکالنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی دوا ایسی نہیں جو اس سے زیادہ طاقت ور ہو جتنا ان کا ساتھ ہے۔ یہ انجانا خوف مجھے اس وقت تک ڈرا رہا ہے جب تک میں اس نفسیاتی الجھن سے لڑتے لڑتے اتنا سخت نہ ہو جاوں کہ یہ بیماری میری قوت مدافعت سے ٹکرا کر ہار جائے۔ میں اس وقت کے انتظار میں ہوں، اسی طرح کچھ ڈر اور کچھ ہمت کے درمیان جھولتا ہوا۔ لیکن اس حقیقت سے آشنا کہ کوئی بھی بیماری خواہ وہ دانت کا بھیانک درد ہی کیوں نہ ہو نفسیاتی الجھن سے بڑا ہرگز نہیں ہوتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *