(١)
گھروں میں بند بچے ورد کرتے ہیں خموشی کا
کہ زنداں خیریت سے ہیں
وہاں زنجیر میں جکڑے ہوئے خوابوں کی آوازیں
سرِ رہ آ کے ٹکراتی ہیں کانوں سے
تو گھر کے در دریچے بند کر کے اپنا ہونا بھولنے کی مشق رہتی ہے
ہوا کی ناگہاں دستک سے ڈر کے بند دروازے لرزتے ہیں
تو دہشت اور بڑھتی ہے
سرِ شام آئیں گے تھک ہار کر جب باپ ، ماؤں کی نگاہوں میں
تو بچے کانپ جائیں گے
جنہیں امید تھی لائیں گے برگ و بار موسم کے ۔۔۔
سندیسے دیکھ کر غم کے
وہ رو دیں گے ۔۔۔ ذرا تھم کے
جو رستہ سوئے زنداں جا رہا ہے کوئی بھی اس پر نہیں جاتا
کہ سب ڈرتے ہیں خود کو یاد آنے سے
اگر اس اور اٹھے پاؤں زمانے کانپ جائیں گے
گھروں میں بند مائیں خامشی کا ورد کرتی ہیں
انہیں اندیشۂ معنیٰ نے خوابِ لفظ سے باہر نکالا تھا
کبھی معنٰی کی خواہش میں دمکتی ان جبینوں پہ
ابھی دہشت کا موسم ہے
ابھی زنجیر ان دیکھی ہواؤں میں
ابھی بچوں کا گریہ ان کے سینے میں
سو دہشت سے بھرے ایسے مہینے میں
درِ زنداں پہ ویراں راہ چپ کا ورد کرتی ہے
ابھی دہشت کا موسم ہے
(٢)
ہمیں دہشت کی رُت میں پھول کفنانے کی عادت نے
کہیں کا بھی نہیں چھوڑا
ابھی گزری بہاراں میں کھِلے پھولوں کے لاشوں پہ ہماری آنکھ گریاں ہے
مسلسل دفن ہوتے ہیں
کہ اپنی حاشیوں میں بٹ کے کٹتی ہر رگِ جاں سے
زمیں کا خوں چھلکتا ہے تو ہم بینائی کھو دینے کی خواہش سے لپٹتے ہیں
فراموشی کی راتیں خواب ہوں جیسے
کہ بے خوابی کی راتوں میں ہمیں درکار نیندیں دفن ہوتی ہیں
مگر کچھ کہہ نہیں سکتے
رگوں میں خامشی کا ورد رہتا تھا بہت پہلے
جو پہلے خواب گاہوں میں کسی آسیب سا نکلا
پھر اس کے بعد کھڑکی پھاندتا رستے پہ آ بھٹکا
سو اب ہونے کا یہ کھٹکا
لہو میں بین کرنا چاہتا ہے اور ہم خاموش رہتے ہیں
ہمیں وحشت بھری راتوں میں چلّاتی ہوئی مائیں
اور ان کے بین سن کر بھول جانے کی یہ عادت مار ڈالے گی
کہ راتوں نے بتایا ہے فراموشی بس اب اک لفظ ہے معنی سے بے پروا
مسلسل دفن ہوتے ہیں
مسلسل خامشی کا ورد رہتا ہے
ابھی دہشت کا موسم ہے
ابھی کلیوں کو جانے اور کتنے دن بکھرنا ہے
نجانے کون رت تک پھول چہروں کو اُسی لُو کے تھپیڑے سہہ کے مرنا ہے
کہ اب کفنانے والے ہاتھ جھڑتے ہیں
لہو میں خامشی کا ورد رہتا ہے
مگر یہ ورد بھی کب تک
بھلے دہشت کا موسم ہو ۔۔۔