Laaltain

نجمِ اسود اور ننھی کائناتیں: قسط نمبر 5 (سائنس کی جانب عمومی رویہ)

20 مئی، 2021
Picture of طارق عباس

طارق عباس

گذشتہ اقساط کے مطالعہ کے لئے درج ذیل لنکس استعمال کیجئے (لنک نئے ٹیب میں کھلیں گے)

قسط نمبر 1قسط نمبر 2، قسط نمبر 3، قسط نمبر 4

سائنس کی جانب عوامی رویہ

 

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ جس دنیا میں ہم جی رہے ہیں وہ گذشتہ ایک صدی میں بہت حد تک بدل چکی ہے، اور اگلے سو برسوں میں مزید بدل جائے گی۔ کچھ لوگ یہ چاہیں گے کہ دنیا نہ بدلے اور وہ واپس اس سادہ لوحی کے دور میں چلے جائیں جو ماضی کی یادگار ہے۔ لیکن جیسا کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے، ماضی اتنا شاندار تھا نہ ہی اس قدر یادگارھا (جتنا تصور کیا جاتا ہے)۔ مقتدر اقلیت کے لئے تو یہ یقناً برا نہیں تھا اگرچہ انہیں بھی جدید دور کی ادویات و سہولیات میسر نہ تھی، اور (ان امراء کے ہاں بھی ) بچے کی پیدائش ایک عورت کی زندگی کیلئے شدید خطرہات سے دوچار رہتی تھی ۔ جبکہ جمہور عوام کے لئے زندگی تکلیف دہ، مظالم سے بھرپور، اور مختصر ہوتی تھی۔

بہرحال، چاہ کر بھی ہم ماضی میں دوبارہ داخل نہیں لوٹ سکتے۔ علم اور سائنسی طریقہ ہائے کار (scientific methods) اچانک ترک بھی نہیں جا سکتے، نہ ہی ہم مستقبل میں ہونے والی ترقی کو روک سکتے ہیں۔ اگر تمام حکومتیں تحقیقی کام کے لئے رقم مختص کرنا بند بھی کر دیں (جس میں موجودہ حکومت اپنی بھرپور کوشش رہی ہے) تب بھی مسابقت کی عمومی فضاء سے ٹیکنالوجی روز بروز ترقی کرے گی۔ مزید برآں، ہم متجسس اذہان کو بنیادی سائنسی تصورات و نظریات کے بارے میں سوچنے سے بھی نہیں روک سکتے، چاہے انہیں ہم انھیں اس کا معاوضہ بھی نہ دیں۔ ترقی کی راہ روکنے کا واحد راستہ ایک عالمی آمرانہ ریاست ہے جو کسی بھی نئے تصور، نئی نظریے کو بالجبر روک سکے، لیکن انسان کی آگے بڑھنے کی خواہش اور اختراعی قدرت کو شاید یہ آمرانہ ریاست بھی نہ روک پائے۔ یہ محض اتنا کر پائے گی کہ ترقی کی رفتار کو سست کر دے۔

اگر ہم اس بدیہی حقیقت کو قبول کر لیں کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کو دنیا میں انقلاب برپا کرنے سے نہیں روک سکتے، توکم از کم ہم اس امر کو ضرور یقینی بنائیں گے کہ سائنس درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں اس سے مراد یہ ہو گی کہ عوام سائنس کی مبادیات سے بھرپور واقفیت رکھتی ہو، تاکہ وہ معلوماتی بنیاد پر رائے سازی کر سکےاور سب کچھ ماہرین کے رحم و کرم پر ہی نہ چھوڑ دیا جاوے۔ سرِ دست عوام کا سائنس کی جانب رویہ متضاد جذبات کا شکارہے۔ اسے یہ توقع بھی ہے کہ ہمارا معیارِ زندگی سائنسی ترقی کی بدولت بتدریج بہتر ہوتا جائے گا مگر ساتھ ساتھ سائنس کے حوالے سے عدم اعتماد بھی پایا جاتا ہے کیونکہ عوام سائنس کا مطلوب فہم نہیں رکھتی۔ اور یہ عدم اعتماد اس کارٹون کے کردار میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو ایک پاگل سائنس دان کا ہے جو اپنی تجربہ گاہ میں فرینکن سٹائن (Frankenstein) تخلیق کرنے میں مصروف ہے۔ اور یہی عدم اعتماد گرین پارٹیز (Green Parties) کی عوامی سپورٹ کا محرک بھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی عوام سائنس میں بہت دلچسپی بھی رکھتی ہے، بالخصوص فلکیات (astronomy) میں۔، جیسا کہ ٹیلی وژن سیزیز Cosmos اور دوسرے سائنس فکشن پروگراموں کی پذیرائی سے واضح ہے۔

اس دلچسپی کوبڑھانے کرنے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے؟ اور ہم عوام کو ایسا سائنسی پس منظر فراہم کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں کہ وہ ایسے عوامل جیسے acid rain، گرین ہاوس ایفیکٹ، نیوکلیائی ہتھیار، اور جینیٹک انجینئرنگ وغیرہ پر مبنی بر معلومات فیصلے لے سکیں؟ یقیناً اس کی بنیاد سکول میں دی جانے والی تعلیم پر ہے۔ لیکن سکولوں میں سائنس کو ایک غیر دلچسپ اور خشک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ بچے رٹا لگا کر امتحان پاس کرنے کیلئے سبق یاد کر لیتے ہیں، اور اپنے اطراف میں انھیں (پڑھائی جانے والی) سائنس کی متعلقیت دکھائی نہیں دیتی۔ مزید برآں، سائنس بالعموم مساوات (equations)کی اصطلاح میں پڑھائی جاتی ہے۔ اگرچہ مساوات ریاضی کے تصورات کی منظر کشی کیلئے جامع اور بالکل درست طریقہ ہے، لیکن زیادہ تر لوگ اس طریق سے گھبرا جاتے ہیں۔ جب میں نے حال ہی میں ایک مقبول کتاب لکھی، مجھے یہ نصیحت کی گئی تھی کہ کتاب میں مساوات کم سے کم رکھوں کیونکہ ناشر کے مطابق ایک مساوات (equation) کا اضافہ کتاب کی فروخت میں پچاس فیصد تک کمی لے آتا ہے ۔( نصیحت کے بر خلاف) میں نے آئن سٹائن کی مساوات  کو شامل کیا۔ اگر میں اسے شامل نہ کرتا تو شاید دو گنا کتابیں فروخت کر پاتا۔

سائنس دان اور انجینئر حضرات اپنے تصورات کو مساواتی شکل ہی میں متعارف کراتے ہیں کیونکہ انھیں قابلِ پیمائش اشیاء کی درست مقدار جاننا ہوتی ہے۔ لیکن ہم عامیوں کے لئے (جو سائنس دان اور انجینئر نہیں ہیں) کسی بھی سائنسی تصور کا صفاتی فہم (qualitative grasp) کافی ہے، اور یہ فہم، مساوات استعمال کئے بغیر، صرف تصاویر اور الفاظ کی مدد سے قاری میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔

جو سائنس بچے سکول میں سیکھتے ہیں، وہ اس مطلوبہ فہم کے لئے بنیادی ڈھانچہ فراہم کر سکتی ہے۔ لیکن دورِ حاضر میں سائنسی ترقی کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ کسی کے سکول یا یونی ورسٹی پہنچنے تک بہت سے امور میں پیش رفت ہو چکی ہوتی ہے ۔ میں نے سکول میں مالیکیولر بائیالوجی اور ٹرانزسٹر کے بارے میں کچھ بھی نہیں سیکھا تھا، لیکن جینیاتی انجینئرنگ (genetic engineering) اور کمپیوٹر ، یہ دونوں اس نوعیت کی سائنسی پیش رفت ہیں کہ وہ مستقبل میں ہمارے طرزِ زندگی کو یکسر بدل ڈالیں گی۔ پاپولر کتابوں اور رسالوں میں سائنسی مضامین ترقی کی نئی شاہرائیں کھول سکتے ہیں ، لیکن معروف ترین سائنسی کتاب کا بھی آبادی کا نہایت قلیل حصہ مطالعہ کرتا ہے۔ صرف ٹی وی ایک ایسا ذریعہ ہے جو عوام کی کثیر تعداد تک پیغام پہنچا سکتا ہے۔ ٹی وی پر بہت سے عمدہ سائنسی پروگرام دکھائے جاتے ہیں لیکن کئی ایسے پروگرام ہیں جو سائنسی ایجادات کو اس طرز پر دکھاتے ہیں جیسے کہ وہ جادو ہو، نہ ہی ان آلات کی وضاحت کی جاتی ہے نہ ہی یہ دکھایا جاتا ہے کہ وہ سائنسی ڈھانچے میں کس طرح سے فٹ بیٹھتے ہیں۔ سائنسی پروگرامز کے ٹی وی پروڈیوسرز کو اس امر کا احساس کرنا چاہئے کہ ان کی ذمہ داری صرف عوام کو لطف اندوز کرانا ہی نہیں، انہیں تعلیم دینا بھی ہے۔

ایسے کون سے سائنسی معاملات ہیں جن پر عوام کو مستقبل قریب میں رائے زنی کرنا ہو گی؟ سب سے اہم اور جلد فیصلہ تو نیوکلیائی ہتھیاروں کی بابت کرنا ہو گا۔ دوسرے عالمی مسائل جیسا کہ خوراک کی ترسیل یا گرین ہاوس اثرات، نسبتاً کم اہمیت رکھتے ہیں لیکن نیوکلئیائی جنگ کا واضح مطلب انسانیت کے چند دنوں کے اندر اندر خاتمے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ مشرق اور مغرب کی باہمی تلخی سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی ٹھنڈی پڑ گئی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے شعور سے نیوکلئیائی جنگ کا خوف اب محو ہو گیا ہے۔ لیکن خطرہ ابھی تک قائم و دائم ہے جب تک تمام انسانیت کو ختم کر ڈالنے کے لئے زائد از ضرورت نیوکلئیائی ہتھیار موجود ہیں۔ سابقہ سوویت یونین اور امریکہ میں ، اب بھی نیوکلئیائی ہتھیار اس صلاحیت کے حامل ہیں کہ وہ شمالی ممالک میں موجود تمام بڑے شہروں کو تباہ کر سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کی ایک چھوٹی سی غلطی یا نیوکلئیائی ہتھیاروں کے محافظین میں سے کسی ایک کی بھی بغاوت عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔ اور مزید پریشانی کا باعث یہ امر ہے کہ نسبتاً چھوٹی طاقتیں بھی اب نیوکلئیائی ہتھیار حاصل کر رہی ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتوں نے مناسب حد تک ذمہ دارانہ رویہ دکھایا ہے لیکن ہم ایسا اعتماد لیبیا، عراق، پاکستان، یا آذربائیجان پر نہیں کر سکتے۔ وہ ہتھیار اصل خطرہ نہیں ہیں جو عنقریب ان ممالک کے قبضے میں ہوں گے، کیونکہ وہ بنیادی نوعیت کے ہتھیار ہوں گے، اگرچہ یہ بھی لاکھوں لوگوں کو مار ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ اصل خطرہ ان چھوٹی طاقتوں کا آمنا سامنا ہے، کیونکہ یہ بڑی طاقتوں کو بھی اپنی جنگ میں دھکیل لیں گے، اور بڑی طاقتیں جدید ترین اور بے بہا ہتھیاروں سے لیس ہیں۔

یہ امر بہت ضروری ہے کہ عوام کو اس خطرے کا احساس ہو اور وہ تمام حکومتوں پر بڑے ہتھیاروں کو ضائع کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں ۔ اگرچہ نیوکلئیائی ہتھیاروں کو مکمل طور پر ضائع کرنا ممکن نہیں ہے، لیکن ہم ہتھیاروں کی تعداد کم کر کے خطرات کو کم کر سکتے ہیں۔

اگر ہم ایک نیوکلئیائی جنگ سے بچنے میں کامیاب ہو گئے ، تب بھی ایسے خطرات موجود ہیں جو ہم سب کو تباہ کر سکتے ہیں۔ ایک نہایت بیمار ذہن کا وضع کردہ مذاق ہے کہ کسی خلائی مخلوق نے ہم سے اب تک رابطہ اس لئے نہیں کیا کیونکہ جب تک وہ ہماری (ذہنی) سطح تک پہنچتی ہے وہ تباہ ہو جاتی ہے۔ لیکن مجھے عوام کی اچھائی پر پورا بھروسہ ہے کہ ہم اس (مذاق میں پنہاں طنز)کو غلط ثابت کر سکتے ہیں۔

 

یہ تقریر Oviedo اسپین میں 1989 میں کی گئی جب ہاکنگ کو آسٹریا ہارمنی اور Concord پرائز دیا گیا۔ (یہ تقریر اپ ڈیٹ کی گئی ہے)

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *