گذشتہ اقساط کے مطالعہ کے لئے درج ذیل لنکس استعمال کیجئے (لنک نئے ٹیب میں کھلیں گے)
قسط نمبر 1, قسط نمبر 2، قسط نمبر 3، قسط نمبر 4, قسط نمبر 5 ، قسط نمبر 6 ، قسط نمبر 7
کیا نظری طبیعیات کا اختتام قریب ہے؟
میں ان صفحات میں اس امکان پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں کہ نظری طبیعیات کے مقاصد مستقبل قریب میں ہم حاصل کر چکے ہوں گے، عین ممکن ہے اس صدی کے اختتام تک۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ ہم شاید اشیاء کے باہمی تعامل کا ایک مکمل ، متوازن، اور مکمل نظریہ وضع کر پائیں، ایسا نظریہ جو تمام مشاہدات کوواضح کر پائے۔ یقیناً ایسی پیش گوئیاں کرتے ہوئے نہایت احتیاط سے کام لیا جانا چاہئے۔کم از کم دو مرتبہ (ماضی میں بھی) ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم ایک مطلق نتیجے کو پانے کے نہایت قریب پہنچ چکے ہیں ۔ اس صدی کے آغاز پر ہمارا یہ یقین تھا کہ ہر شے کو زمانی و مکانی میکانکیت کے اندر رہتے ہوئے سمجھا جا سکتا تھا۔
(ہمارےتیقن کے مطابق)ہمیں صرف لچک(elasticity)، چپچپاہٹ(viscosity)، اور ایصالی قوت (conductivity) کے عددی سروں (coefficients) کی کچھ تعداد ماپنے کی ضرورت تھی۔ یہ تیقن تب پارہ پارہ ہو گیا جب ایٹم کی ساخت اور کوانٹم میکانیات دریافت ہوئے۔ ایک مرتبہ پھر 1920 کی دہائی کے اواخر میں میکس بورن (Max Born) نے Gottingent کا دورہ کرنے والے سائنس دانوں کے ایک گروپ کو بتایا :”وہ فزکس جوہم جانتے ہیں وہ چھ ماہ کے اندر ختم ہو جائے گی”۔ یہ ڈائریک (Paul Dirac) ، جو کہ سابقہ لوکاسیَن پروفیسر آف میتھی میٹکس (Lucasian Professor of Mathematics) تھے, اُن کے ڈائریک مساوات وضع کرنے کے کچھ عرصہ بعد کا واقعہ ہے، ڈائریک کی مساوات الیکٹران کی حرکیات کا شمار کرتی ہے۔ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ پروٹان (proton) کی حرکیات بھی اس سے مشابہ مساواتوں سے متعین کی جا سکیں گی۔ اس پہ مستزاد یہ کہ الیکٹران اور پروٹان کے علاوہ اس وقت تک اور کسی ذرے کی دریافت نہ ہوئی تھی۔
تاہم ان امیدوں نے تب دم توڑ دیا جب نیوٹران (neutron) اور دوسری نیوکلیائی طاقتیوں کی دریافت ہوئی۔ (نہ صرف یہ بلکہ ) اب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پروٹان اور نیوٹران بھی ناقابلِ تقسیم ذرات نہیں ہیں بلکہ یہ بھی اپنے سے چھوٹے ذرات سے مل کر بنے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ہم نے بہت ترقی کی ہے، اور جیسا کہ میں واضح کروں گا، کہ ایک محتاط رجائیت بہرحال کچھ بنیادیں رکھتی ہے اتنی کہ عین ممکن ہے ان صفحات کو پڑھنے والوں کی زندگی میں ہی ہم ایک مکمل نظریہ وضع کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
اگر ہم ایک مکمل طور پر مضبوط نظریہ وضع کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تب بھی ما سوائے سادہ ترین امکانات کے ہم مزید پیش گوئیاں کرنے کے قابل نہیں ہوں پائیں گے۔ مثال کے طور پر ہم اُن طبعی قوانین سے پہلے ہی واقف ہیں جو ہماری روز مرہ کی زندگی کے تمام طبیعی قوانین متعین کرتے ہیں۔ جیسا کہ ڈائریک نے یہ نکتہ واضح کیا کہ اس کی وضع کردہ مساوات طبیعیات کے بہت سے اور علم کیمیاء کے تمام قوانین کی بنیاد تھی۔ تاہم اس مساوات کی مدد سے ہم محض سادہ ترین صورتیں حل کر پائے ہیں، جیسا کہ ہائیڈروجن ایٹم، جس کے مرکزے (nucleus) میں صرف ایک پروٹان اور ایک نیوٹران ہوتا ہے۔ایسے ایٹم جو زیادہ پیچیدہ ہیں اور زیادہ الیکٹران رکھتے ہیں اُن کے مطالعہ میں ڈائریک کی مساوات کی مدد سے ہم یا تخمینہ لگا سکتے ہیں یا وجدانی اندازے، جن کا درست ہونا شک سے مبرا نہ ہو گا۔اور یہاں ہم مالیکیولز کی بات ہی نہیں کر رہے جو ایٹم سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور ایک سے زیادہ مرکزوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسا مرئی (macroscopic) نظام جو 1023 ذرات پر مشتمل ہوتا ہے، ہمیں شماریاتی طریقہ ہائے کار استعمال کرنا پڑتے ہیں اور اس خود فریبی سے باہر آنا پڑتا ہے کہ ہم مساوات کو من و عن (exactly) حل کر پائیں گے۔اگرچہ ہم اصول میں اُن مساوات سے واقف ہیں جو حیاتیات کو مکمل طور پر واضح کر سکتی ہیں لیکن ہم انسانی رویوں کو اطلاقی ریاضیات (applied Mathematics) کی کسی ایسی شاخ تک محدود نہیں کر پائے جو ان کی توضیح کر پائے۔ فزکس کے ایک مکمل اور مربوط نظریے سے ہماری کیا مراد ہو گی؟ مکانی حقیقت (physical reality) کا ماڈل وضع کرنے کے لئے بالعموم دو درجات سے گزرنا پڑتا ہے۔
1۔ ایسے قوانین جن پر کمیتی مقداریں (physical quantities) پورا اترتی ہیں۔یہ قوانین بالعموم تفریقی مساواتوں کی مدد سے
2۔ ایسی boundary condition جو ہمیں کائنات کے کچھ حصوں کی (ایک مخصوص وقت پر) حالت کے بارے میں مطلع کرتی ہیں ، اور ان حالتوں پر دنیا کے باقی حصے کیا اثرات مرتب کرتے ہیں۔
بہت سے لوگ یہ دعویٰ کریں گے کہ سائنس کا کردار ان دونوں میں سے پہلے حصے کو محیط ہے اور نظری طبیعیات اپنا مقصد حاصل کرنے میں اس وقت کامیاب ہو گی جب ہم طبیعیات کے local قوانین کا مکمل سیٹ وضع کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ کائنات کی ابتدا میں اس کی حالت کو مابعد الطبیعیات اور مذہب سے جوڑیں گے۔ ایک طرح سے یہ رویہ اُن کے جیسا ہے جو گزشتہ صدیوں میں سائنسی تحقیقات کی یہ کہہ کر حوصلہ شکنی کرتے تھے کہ تمام قدرتی مظاہر خدا کے افعال ہیں اور ان کی تحقیق نہیں کی جانی چاہئے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ کائنات کی ابتدائی حالتیں سائنسی تحقیق کے لئے ویسا ہی موزوں موضوع ہیں جیسا کہ فزکس کے میکانکی قوانین۔ ہم تب تک ایک مکمل نظریہ وضع نہیں کر سکیں گے جب تک ہم یہ کہتے رہے کہ: “اشیاء موجودہ حالت میں اس وجہ سے ہیں کیونکہ یہ اس حالت میں تھیں۔”
نکاتِ آغاز کی یکتائیت کا سوال طبیعیات کے مروجہ قوانین کے جبری نفاذ کے باعث ہے: ہم (طبیعیات کے کسی بھی) نظریے کو مکمل نہیں کہہ سکتے جب تک وہ نظریہ ایسے خصائص پر مشتمل ہو جنھیں تبدیل کیا جا سکتا ہو۔ جیسا کہ کمیت یا کوئی اور غیر مبدل قدر، جسے تبدیل کیا جا سکتا ہو۔ درحقیقت، ایسامحسوس ہوتا ہے کہ نہ تو ابتدائی شرائط نہ ہی وہ اقدار جن پر نظریہ مشتمل ہوتا ہے وہ جبری نہیں ہیں بلکہ ان کا انتخاب نہایت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پروٹان اور نیوٹران کی کمیت الیکٹران سے دو گنا نہ ہوتی تو ایسا نا ممکن تھا کہ ہم سینکڑوں کی تعداد میں متوازن حالت میں پائے جانے والے عناصر دریافت کر پاتے، جو کیمیاء اور حیاتیات کی بنیاد ہیں۔اسی طرح اگر پروٹان کی کمیت (نیوٹران سے) مختلف ہوتی تو ایسے ستاروں کا وجود محال تھا جن میں یہ مرکزے تخلیق پاتے۔ یا اگر کائنات کا ابتدائی پھیلاؤ میں ذرا سی بھی کمی بیشی پائی جاتی، تو کائنات یا ایسے ستاروں کی تخلیق سے قبل ہی فنا ہو جاتی یا اتنی تیزی سے پھیلتی کہ ستارے gravitational condensation کے نتیجے میں نہ بن پاتے۔ کچھ لوگ تو ان تحدیدات کو اس سطح تک لے آئے ہیں کہ انھیں قانون سمجھا جانے لگا ہے، ایک بدیہی قانون جو کہ کچھ یوں ہے: “اشیاء جس حالت میں ہیں وہ اس وجہ سے ہیں کیوں کہ ہم ہیں” اس اصول کے ایک نکتۂ نظر کے مطابق، بہت سی مختلف کائناتیں پائی جاتی ہیں جن کی ابتدائی صورتیں اور متتقل اعداد کی value مختلف ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کائناتیں وہ صورتیں فراہم کرنے سے قاصر ہوں گی جو ان پیچیدہ ساختوں کو وجود بخش سکیں جو با شعور زندگی کی تخلیق کا باعث بن سکیں۔ صرف گنتی کی چند کائناتیں، جن کی کمیت اور قدر ہماری کائنات کے آس پاس ہوں گی اور وہاں ایسی زنگی تخلیق ہو پائے گی جو یہ سوال کر سکے گی: “کائنات ایسی کیوں ہے جیسی ہمیں نظر آتی ہے؟”اور اس کا جواب یقیناً یہی ہے کہ کائنات اگر ایسی نہ ہوتی جیسے کہ یہ ہے، تو کوئی یہ سوال پوچھنے والا بھی موجود نہ ہوتا۔
قانونِ بدیہیت (anthropic principle) یقیناً ان غیر معمولی روابط کی وضاحت کرتا ہے جو مختلف طبعی پیرامیٹرز کے مابین پائے جاتے ہیں تاہم، یہ مکمل طور پر تسلی بخش امر نہیں ہے، کیونکہ ہم یہ محسوس کئے بنا نہیں رہ سکتے کہ کوئی نہ کوئی گہری وضاحت ہنوز ابھی کی جانے کو ہے۔ مزید یہ کہ یہ وضاحت کائنات کی تمام جہتوں کو محیط (پھر بھی) نہیں ہو گی۔مثال کے طور پر ہمارا نظامِ شمسی ہمارے وجود کی شرطِ اول ہے۔ جیسا کہ ہمارے قریب پائے جانے والوں ستاروں کی گزشتہ پیڑھی، جن کی مرکزے کی تالیف و ترکیب کے نتیجے میں بھاری بھر کم اجزاء نے وجود پایا.یہ بھی ممکن ہے کہ شاید ہمارے وجود کی تخلیق کی خاطر تمام کی تمام کہکشاں کی ضرورت تھی۔ لیکن دوسری کہکشاؤں کے وجود کی ضرورت کسی صورت نظر نہیں آتی۔ اور باقی لاکھوں کہکشاؤں کا تو ذکر ہی کیا، ان کی تو (انسانی وجود کی تخلیق کی خاطر) قطعاً ضرورت نہ تھی۔اس عظیم تر سطح کی یکسانیت یہ یقین کرنا بہت مشکل بنا دیتی ہے کہ کائنات کی ساخت کی تعیین ایک چھوٹے سے سیارے پر موجود ایک ایسی ذیلی نوعیت کی مالیکیولر ساخت (انسان) کرے گی، جو سیارہ ایک بہت اوسط حجم کے ستارے کے گرد محوِ گردش ہے، اور یہ نظام (شمسی) ایک عام سی کہکشاں کے باہری کناروں پر پایا جاتا ہے۔
تعاملات اپنے مظاہر کی بنیاد پر چار درجوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔ طاقت کے اعتبار سے (ترتیبِ نزولی کے تحت) یہ: مضبوط نیوکلیائی طاقتیں (strong nuclear forces) ، جو صرف ہیڈرونز (Hadrons) کے ساتھ تعامل کرتی ہیں؛ برقناطیسیت جوچارج شدہ ہیڈرونز اور لیپٹونز سے تعامل کرتی ہے۔ کمزور نیوکلیائی طاقتیں جو تمام ہیڈرونز اور لیپٹونز سے تعامل کرتی ہیں اور سب سے آخر میں سب سے کمزور اور بہت زیادہ کمزور کششِ ثقل ہے، جو ہر ہر شے سے تعامل کرتی ہے۔ یہ تعاملات integer-spin کے ذریعے سے بیان کئے جاتے ہیں اور یہ Pauli exclusion principle پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ایک ہی حالت میں بہت سے ذرات رکھ سکتے ہیں۔ برقناطیسیت اور کشش ثقل کے معاملے میں، تعاملات زیادہ فاصلوں پربھی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مادی ذرات کی ایک بہت بڑی مقدار جمع ہو کر ایک ایسا میدان فراہم کر سکتی ہے جس کا مشاہدہ مرئی سطح پر کیا جا سکتا ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر ان پر نظریات سب سے پہلے وضع کئے گئے: نیوٹن نے سترہویں صدی میں کشش ثقل کا نظریہ پیش کیا، اور میکس ویل نے انیسویں صدی میں برقناطیسیت کا نظریہ پیش کیا۔تاہم یہ نظریات باہم متصادم تھے کیونکہ نظام (فریم آف ریفرینس۔ مترجم) کو حرکت دینے پرنیوٹن کا نظریہ جوں کا توں رہتا تھا جبکہ میکس ویل کا نظریہ ایک مخصوص رفتار کو ترجیح دیتا تھا، روشنی کی رفتار۔ لیکن آخرِ کار یہ معلوم ہوا کہ نیوٹن کا کشش ثقل کا نظریہ تبدیل کئے جانے کی جرورت ہے تاکہ اس کو میکس ویل کے نظریے کی غیر مبدل خصوصیات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ایسا آئن سٹائن کے عمومی نظریۂ اضافت کی مدد سے ممکن ہوا، جو اس نے 1915 میں وضع کیا۔
کشش ثقل کا عمومی نظریۂ اضافت اور میکس ویل کا برقناطیسیت کا نظریہ کلاسیکی نظریہ کہلاتے تھے؛ اس سے مراد یہ تھی کہ ان میں موجود مقداریں مستقلاً تبدیل ہوتی تھیں اور کم از کم اصولی طور پر انہیں اس وجہ سے درست طور پر ماپا جا سکتا تھا۔ تاہم ایک مسئلہ تب کھڑا ہوا جب ان نظریات کو استعمال میں لا کر ایٹم کا ماڈل وضع کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ دریافت کر لیا گیا تھا کہ ایٹم مثبت چارج کے حامل چھوٹے سے مرکزے پر مشتمل تھا، جو منفی چارج کے حامل الیکٹران کے بادلوں میں گھرا ہوا تھا۔ لیکن کلاسیکی نظریے نے یہ پیش بینی کی کہ الیکٹران برقناطیسی شعائیں بھی بکھیریں گے۔ قدرتی مفروضہ یہی تھا کہ الیکٹران مرکزے کے گرد ایسے ہی محوِ گردش تھے جیسے زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ شعاعیں توانائی کی حامل ہوں گی اور الیکٹران کو مرکزے کے گرد اندر کی طرف بتدریج لپٹتے ہوئے مرکزے میں گرا کر ایٹم کو تباہ کر دیں گی۔
اس مسئلے پر اس نظریے کی مدد سے قابو پایا گیا جو بلا شک و شبہ اس صدی کی نظری طبیعیات میں عظیم ترین کامیابی ہے یعنی کوانٹم نظریے کی دریافت۔ اس کا بنیادی مفروضہ ہائزن برگ کا نظریۂ غیر یقینیت ہے، جس کے مطابق کچھ مقداروں کے مجموعے، جیسا کہ ایک ذرے کی پوزیشن اور اس کی مقدارِ تحرک (momentum) مکمل تیقن کے ساتھ ماپی نہیں جا سکتی۔ ایٹم کے تناظر میں اس سے مراد یہ تھی کہ اپنی توانائی کی کم ترین حالت میں الیکٹران مکمل حالتِ سکون میں نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس صورت میں اس کی پوزیشن کی درست ترین تعیین ممکن ہو سکے گی (جو کہ مرکزہ ہو گا) اور اس کی رفتار کی درست طور پر معلوم ہو گی (یعنی صفر) اس کے برعکس پوزیشن اور رفتار دونوں مرکزے کے گرد ایک دوسرے کو مسخ کرتی ہوئی پائی جاتی ہیں۔اس حالت میں الیکٹران توانائی کا اخراج شعاعوں کی صورت میں نہیں کر رہا ہو گا کیونکہ الیکٹران کے لئے توانائی خارج کر کے موجودہ سے کم توانائی والی حالت میں جانا ممکن نہیں ہو گا۔ (طوالت کے باعث اس باب کو دو حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ مترجم)