Laaltain

حسرت میں ملفوف ایام

7 نومبر، 2017

تارکول سڑک پہ تھکاوٹ
دھوئیں کے مرغولوں میں سے گزرتی
یونیفارم میں ملبوس چہروں پہ
مسکراہٹ اچھالتی
لفظوں اور شاعری کی گرہیں کھولتی
جامعہ کے مین گیٹ سے گزرتی ہے

بوجھ تلے دبا ناتواں وجود
کھڑے کھڑے جمع شدہ توانائی کھو کر
جب سیڑھیاں چڑھتا ھے
تقسیم علم کا معاوضہ اسے تھام لیتا ھے
ترازو میں تھکاوٹ کا پلڑا
بھاری ھو کر زمین چھو لیتا ھے
کتابوں کےحرف تتلیوں کا روپ دھار کر
تھکن بانٹتے ہیں۔

وہ کبھی پوری نیند نہیں سو پاتی
فاصلوں کو سمیٹتے پاوں
چلنے سے انکار بھی کر دیں
تو بھی
وہ چلتی رہتی ہے
صبح سے رات تک کا سفر نظمیں چھین لیتا ہے

وہ ایک جملہ لکھتی ہے
بچوں کی فی ووچر نظم پہ آ گرتے ہیں
وہ دوسرا لکھتی ہے
ونٹر یونیفارم نوٹیفیکیشن سامنے آتا ہے
الماری میں گرم کپڑے نہ پاکر
نظم کا سر کچلتی
وہ روتے روتے
کیلینڈر پہ دن گنتی ہے

ابھی تنخواہ ملنے میں
پورے پچیس دن باقی ہیں
نظم ابارشن کے مرحلے سے گزرتی ہے
وہ
خالی بٹوے کو دیکھتی
سڑکوں پہ بھاگتی
تھکاوٹ کو غصہ سے
روٹھی نظم کو حسرت سے دیکھتی ہے

Image: Irfan Gul

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *