[blockquote style=“3”]
‘نقاط’ فیصل آباد سے شائع ہونے والا ایک موقر سہ ماہی ادبی جریدہ ہے۔ نقاط میں شائع ہونے والے افسانوں کا انتخاب قاسم یعقوب کے تعاون سے لالٹین پر شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
نقاط میں شائع ہونے والے مزید افسانے پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
ساتواں سبق
زیف سید
زیف سید
’بڑے میاں، تمہیں کس جرم میں دھر لیا سالوں نے؟‘ ڈیرل نے پوچھا۔
انصاری یہ سوال سن کر چونک گئے۔ حوالات کی نیم تاریک فضا میں سیمنٹ کی بنچ پر دیوار سے سر ٹیکے ہوئے خاموش ہیولے اور دور کہیں سے آنے والی ٹریفک کی مدھم گھن گھن انہیں غیر حقیقی معلوم ہو رہی تھی، جیسے وہ خود اس منظر کا حصہ نہ ہوں بلکہ باہر سے اس کا مشاہدہ کر رہے ہوں۔ عمارت کے اندر دور کہیں سے بھاری قدموں کی آواز گونج رہی تھی۔
“لگتا ہے پہلی بار اس طرف آنا ہوا ہے جناب کا؟” ڈیرل نے ان کی طرف رخ کرتے ہوئے پوچھا۔ “پریشان نہ ہو بڑے میاں،شروع شروع میں سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے لیکن دو چار روز میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، پھر لگے گا کہ جیسے یہیں پیدا ہوئے تھے۔” ڈیرل نے کہا اور اس کی ہنسی حوالات کی نیم تاریک فضا میں پھیل گئی، تاہم اس میں تمسخر سے زیادہ خوش دلی کا پہلو نمایاں تھا۔
انصاری یہ سوال سن کر چونک گئے۔ حوالات کی نیم تاریک فضا میں سیمنٹ کی بنچ پر دیوار سے سر ٹیکے ہوئے خاموش ہیولے اور دور کہیں سے آنے والی ٹریفک کی مدھم گھن گھن انہیں غیر حقیقی معلوم ہو رہی تھی، جیسے وہ خود اس منظر کا حصہ نہ ہوں بلکہ باہر سے اس کا مشاہدہ کر رہے ہوں۔ عمارت کے اندر دور کہیں سے بھاری قدموں کی آواز گونج رہی تھی۔
“لگتا ہے پہلی بار اس طرف آنا ہوا ہے جناب کا؟” ڈیرل نے ان کی طرف رخ کرتے ہوئے پوچھا۔ “پریشان نہ ہو بڑے میاں،شروع شروع میں سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے لیکن دو چار روز میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، پھر لگے گا کہ جیسے یہیں پیدا ہوئے تھے۔” ڈیرل نے کہا اور اس کی ہنسی حوالات کی نیم تاریک فضا میں پھیل گئی، تاہم اس میں تمسخر سے زیادہ خوش دلی کا پہلو نمایاں تھا۔
انصاری کو خود ٹھیک سے معلوم نہیں تھا کہ انہیں کس جرم میں پکڑا گیا ہے۔ انہوں نے ہوں ہاں کر کے اپنے ساتھی حوالاتی کو ٹالنے کی کوشش کی۔
’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ اگر تم نہیں بتانا چاہتے تو تمہاری مرضی۔ ویسے بھی جیل حوالات کا ان لکھا قانون یہ ہے کہ کسی سے اس کے جرم کے بارے میں نہ پوچھا جائے۔ ہاں کوئی خود اپنی مرضی سے بتا دے تو الگ بات ہے۔ وقت کٹ جاتا ہے اور دل کا بوجھ کم ہو جاتا ہے۔‘
انصاری ایک غیر مرئی نوالا سا نگل کر رہ گئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ڈیرل کو کیسے بتائیں کہ انہیں کس جرم میں اندر کیا کیا گیا ہے۔ حوالات کے ماحول نے انہیں ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ڈیرل کی باتوں میں انہیں تھوڑی اپنائیت محسوس ہوئی تھی، اور کئی گھنٹوں کے بعد انہیں اپنے وجود میں زندگی کے آثار دکھائی دینا شروع ہوئے تھے۔ ورنہ جب وہ یہاں پہنچے تھے تو اس وقت ان کا ذہن بالکل سن تھا، جیسے انسان کسی اجنبی بستر پر آنکھیں کھولتا ہے تو اسے کچھ لمحے اس بات کا تعین کرنے میں لگ جاتے ہیں کہ وہ کہاں ہے۔ لیکن ان کے ساتھ یہ سب کچھ جاگتے میں ہو رہا تھا۔
انصاری ایک غیر مرئی نوالا سا نگل کر رہ گئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ڈیرل کو کیسے بتائیں کہ انہیں کس جرم میں اندر کیا کیا گیا ہے۔ حوالات کے ماحول نے انہیں ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ڈیرل کی باتوں میں انہیں تھوڑی اپنائیت محسوس ہوئی تھی، اور کئی گھنٹوں کے بعد انہیں اپنے وجود میں زندگی کے آثار دکھائی دینا شروع ہوئے تھے۔ ورنہ جب وہ یہاں پہنچے تھے تو اس وقت ان کا ذہن بالکل سن تھا، جیسے انسان کسی اجنبی بستر پر آنکھیں کھولتا ہے تو اسے کچھ لمحے اس بات کا تعین کرنے میں لگ جاتے ہیں کہ وہ کہاں ہے۔ لیکن ان کے ساتھ یہ سب کچھ جاگتے میں ہو رہا تھا۔
انصاری نے گردن گھما کر حوالات کے کمرے کا جائزہ لیا۔ گرفتاری کے بعد پولیس والا انہیں لے کر اس عمارت لایا تھا اور پولیس کی سیاہ وردی میں ملبوس سفید بالوں والے ایک شخص کے حوالے کر کے خود باہر چلا گیا تھا۔ اس شخص نے انصاری کی جیبوں سے سارا سامان اور جوتوں سے تسمے نکال لیے، موبائل فون، بٹوا، گاڑی کی چابیاں۔ ایک فارم پر ان سے دستخط لینے کے بعد وہ انہیں ایک اور کمرے میں لے گیا اور ایک آہنی بنچ پر بٹھا دیا۔ بنچ سے ہتھ کڑیاں زنجیروں کے ساتھ منسلک تھیں، لیکن اس نے انصاری کو وہ ہتھ کڑیاں پہنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کمرے کے بیچوں بیچ ایک میز پر ایک ٹیوب اور ایک چھوٹا سا رولر پڑا ہوا تھا۔ اس پولیس والے نے ٹیوب دبا کر اس میں سے سیاہ رنگ کی کریم نکالی اور اسے ایک آہنی تختے پر لگا دیا اور پھر رولر سے دبا کر اسے سارے تختے پر یکساں ہموار کر دیا۔اس کے بعد اس نے قریب ہی ایک شکنجہ نما چیز میں کاغذ پھنسائے اور پھر انصاری کو قریب بلا کر ان کے داہنے ہاتھ کا انگوٹھا مضبوطی سے پکڑلیا۔ انگوٹھا پکڑ کر اس نے پہلے سیاہی ملے ہوئے تختے پر دبایا، پھر اسے کاغذ پر خوب زور سے دبایا۔ اب جا کر انصاری پر کھلا کہ وہ ان کی انگلیوں کے نشان لے رہا ہے۔ پہلی دو کوششیں ناکام ہو گئیں، کیوں کہ عین وقت پر انصاری کا ہاتھ ہل جاتا تھا، یا ہاتھ اکڑ جاتا ہے۔ آخر اہل کار نے سخت لہجے سے ان سے کہا کہ اپنے ہاتھ کو بالکل بے جان کر کے مکمل طور پر اس کے حوالے کردیں،تب جا کر کہیں چوتھی کوشش پر کامیابی نصیب ہوئی تو انصاری نے سکھ کا سانس لیا۔دسوں انگلیوں کے نشانات لینے کے بعد اس نے انصاری کو قریبی دیوار سے لگے سنک سے ہاتھ دھونے کی ہدایت کی۔ ساتھ میں مائع صابن کا ڈبا بھی لگا تھا۔ انصاری نے رگڑ رگڑ کر ہاتھوں سے سیاہی دھونے کی کوشش کی۔ اتنی دیر میں پولیس والا کیمرا لے کر آ گیا اور انہیں ایک دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے سامنے اور سائیڈ سے انصاری کی تصاویر لیں۔ ان کاموں سے فراغت کے بعد اس نے انصاری کو ایک اور شخص کے حوالے کیاجو انہیں اپنے ساتھ لے کر کسی ہسپتال کی طرح صاف ستھری راہداریوں سے گزارنے کے بعد اس نیم تاریک ہال میں لایا اور سلاخوں والا بھاری دروازہ بند کر کے باہر چلا گیا۔ انصاری کے انگوٹھوں پر اور ناخنوں کے نیچے سیاہی کے دھبے تھے اور آنکھیں ابھی تک فلیش کی چکاچوند سے چندھیائی ہوئی تھیں۔ وہ خاصی دیر تک کمرے میں کھڑے رہے۔ کچھ دیر کے بعد جب ان کی آنکھیں نیم تاریکی کی عادی ہو گئیں تب انہیں کمرے میں تین دیواروں کے ساتھ ساتھ لمبائی میں بنی ہوئی سیمنٹ کی لمبی بنچ نظر آئی جو دیواروں کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلی گئی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے قدم گھسیٹتے ہوئے ایک دیوار کی طرف گئے اور بنچ پر ٹک کر اپنا سر بازوؤں پر رکھ دیا۔
ہاشم علی انصاری کا پولیس سے کچھ زیادہ واسطہ نہیں پڑا تھا۔ پاکستان میں تو ان کا کبھی ٹریفک چالان تک نہیں ہوا تھا، جس کی سادہ سی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے وہاں کبھی گاڑی چلائی ہی نہیں تھی۔ کراچی میں ان کے پاس سکوٹرہوا کرتا تھا۔ ان کا مزاج شروع ہی سے ایڈونچر پسند رہا تھا۔ کبھی کبھار دل میں ترنگ جاگتی تھی تو ادھیڑ عمر میں بھی کراچی کی سڑکوں پر نہایت تیز رفتاری سے سکوٹر چلایا کرتے تھے۔ گھومنے پھرنے کا شوق حد سے زیادہ تھا۔ اسی سکوٹر پر بیگم کو جگہ جگہ لیے لیے پھرتے تھے۔ کلفٹن، پیراڈائز پوائنٹ، ہاکس بے، گارڈن، چڑیا گھر تو خیر آس پاس تھے، کئی بار وہ اسی سکوٹر پر مکلی ، منچھر جھیل اور حیدرآباد بھی چلے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ تو سکھر بھی ہو آئے تھے۔ وطن میں تین چار دفعہ ٹریفک سارجنٹ نے اگر روکا بھی تو دس پانچ روپے لے کر جانے دیا۔ البتہ امریکہ میں پولیس نے انہیں دو بارجرمانہ کیا تھا۔ ایک بار وہ ’سٹاپ‘ کے نشان پر رکے بنا آگے بڑھ گئے تھے۔ دوسری دفعہ تو ایسا ہوا کہ ڈاک میں ان کی گاڑی کی تصویر اور سو ڈالر ہرجانے کا نوشتہ آ گیا کہ آپ نے سرخ بتی کی خلاف ورزی کی ہے۔ انصاری نے پولیس سٹیشن جا کر بحث کرنے کی کوشش کی کہ جس وقت وہ چوک سے گزر رہے تھے اس وقت بتی سرخ نہیں ہوئی تھی، لیکن خاتون پولیس افسر نے سے انہیں کمپیوٹر سکرین پر ویڈیو دکھا دی جس میں صاف نظر آ رہا تھا کہ انصاری اگرچہ نارنجی بتی پر چوک پار کر رہے تھے لیکن چوک کے وسط تک پہنچتے پہنچتے بتی سرخ ہو گئی تھی۔ ثبوت ناقابلِ تردید تھا اس لیے انصاری کو نہ صرف جرمانے کی پوری رقم دینا پڑی بلکہ بیس ڈالر اوپر سے بھی بھرنا پڑے کہ یہ پولیس کے فیصلے کو غلط طور پر چیلنج کرنے کی فیس تھی۔
انصاری کی ڈیرل سے ملاقات اسی حوالات میں ہوئی تھی۔ گذشتہ کئی گھنٹوں میں ان کا واسطہ جتنے لوگوں سے پڑا تھا ان میں وہ سب سے مہربان نظر آیا تھا۔ یہ نہیں کہ پولیس والوں نے ان کے ساتھ کوئی بدتمیزی کی ہو۔ لیکن ان کا انداز بے حد خشک اور سرد تھا، اور دوسری طرف خود انصاری بھی صدمے کی حالت میں تھے، اس لیے وہ مشینی انداز میں ان کے سارے احکامات پر بے چوں و چرا عمل کرتے چلے آئے تھے۔ حوالات میں نہ جانے کتنی دیر گزری کہ ان کے کانوں میں کسی اجنبی زبان میں گفتگو کی آواز آئی۔ انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ چھت پر ایک کم طاقت والا بلب جل رہا تھا، جس کی روشنی میں معلوم ہوا کہ وہ یہاں اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ یہاں کئی ہیولے موجود ہیں۔ ایک کونے میں دیوار کے ساتھ ٹیلی فون لگا ہوا تھا اور ایک شخص اس کے آگے کھڑا ہسپانوی زبان میں باتیں کر رہا تھا۔ اس کے لہجے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ شدید جھلاہٹ کے عالم میں ہے۔ انصاری کو ہسپانوی نہیں آتی تھی، لیکن پچھلے دو عشروں کے دوران امریکہ میں میکسیکو سے آئے ہوئے تارکینِ وطن کی تعداد میں بے تحاشا اضافے کے باعث دیکھتے ہی دیکھتے ہسپانوی امریکہ کی دوسری بڑی زبان بن گئی تھی۔ انصاری کے گھر میں صفائی کرنے والی عورت بھی ہسپانوی تھی، جسے انگریزی کا ایک لفظ نہیں آتا تھا۔ اس سے بات چیت کرنے کے لیے ان کی بیگم ریحانہ کو ہسپانوی کے چند جملے سیکھنا پڑے تھے۔
حوالات کی سرد بنچ پر بیٹھے بیٹھے انصاری کی تشویش بڑھنے لگی۔ یہاں مختلف عمر و نسل کے لوگ موجود تھے، جن میں سے کچھ اونگھ رہے تھے۔ ایک کونے سے تو باقاعدہ خراٹوں کی آواز آ رہی تھی۔ ایک طرف دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کئی کالے بیٹھے تھے، جن کو ایک زمانے میں نیگرو کہا جاتا تھا مگر اب نسل پرستی کے خلاف تحریک اور انسانی حقوق کی مہم کے باعث انہیں افریقی امریکی کہا جاتا ہے، کیوں کہ بقول امریکیوں کے، لفظ ’نیگرو‘ کے تاریخی پس منظر کے باعث اس سے نسل پرستی کی بو آتی ہے۔
داہنی دیوار کے ساتھ دو ہسپانوی نژاد مرد بیٹھے ہاتھ ہلاتے ہوئے آپس میں اونچی آواز میں گفتگو کر رہے تھے۔ انصاری اٹھ کر ٹیلی فون کی طرف بڑھے۔ انہوں نے سکہ ڈالنے کی جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن کہیں وہ درز نظر نہیں آئی جہاں عام پبلک ٹیلی فونوں میں سکہ ڈال کر گفتگو کی جاتی ہے۔ پھر انہیں یاد آیا کہ حوالات میں بند کرنے سے پہلے پولیس والے نے ان کا بٹوا، موبائل فون، گھڑی، حتیٰ کہ پتلون کی بیلٹ تک اتروا کر تحویل میں لے لی تھی اور ان تمام اشیا کا اندراج کمپیوٹر میں کر کے رسید پر ان کے دستخط لے لیے تھے۔ انہوں نے ریسیور اٹھایا تو اس میں سے نمبر ڈائل کرنے کی ہدایات سنائی دیں۔ لیکن انصاری کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ فون کیسے استعمال کیا جائے۔ ہدایات میں کوئی نمبر مانگا جا رہا تھا۔ انہوں نے بے بسی کے عالم میں ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
تھوڑی دیر بعد ایک سیہ فام نوجوان اٹھا اور ٹیلی فون کے پاس جا کر نمبر ملانے لگا۔ انصاری نے غور سے اس کی حرکات و سکنات دیکھیں کہ شاید کچھ اشارہ مل جائے اور انہیں فون کرنے کے لیے کچھ مدد مل سکے۔ نوجوان نے جلدی جلدی ڈائل پر چند نمبر دبائے اور تھوڑی ہی دیر میں گفتگو شروع کر دی۔ انصاری اٹھ کر کھڑے ہو گئے کہ وہ اپنی بات مکمل کر دے تو وہ اس سے مدد کی درخواست کر سکیں۔ نوجوان چند منٹ تک بات کرتا رہا، پھر جب اس نے ’بائے‘ کہہ کر ریسیور رکھا تو انصاری تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس کے قریب پہنچ گئے۔ نوجوان نے بڑی حیرت سے ان کی طرف دیکھا، جیسے کوئی عجوبہ دیکھ لیا ہو۔ نوجوان نے ایک بنیان پہن رکھی تھی، جو کسی زمانے میں سفید رہی ہو گی۔ اس نے سر کے بالوں کو چھوٹی چھوٹی چوٹیوں میں گوندھا ہوا تھا جو برگد کی جٹا دھاری جڑوں کی طرح اس کے چہرے کے دائیں بائیں لٹک رہی تھیں۔ انصاری نے نہایت لجاجت سے فون کرنے کا طریقہ پوچھا تو نوجوان یوں بے پروائی سے کندھے اچکا کر دیوار کے پاس جا کر بیٹھ گیا، جیسے اسے انگریزی میں نہیں بلکہ چینی زبان میں مخاطب کیاگیا ہو۔ انصاری اپنی جگہ پر کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔
وہ دیر تک فون کے پاس ہی دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے رہے۔ اتنی دیر میں ایک سیاہ فام شخص اٹھ کر ان کے پاس آ گیا۔ اس کی عمر پچاس پچپن کے قریب ہو گی۔ جسم بھاری بھرکم اور قد لمبا تھا۔ اس کے ماتھے پر یکساں فاصلے پر بنی ہوئی گہری شکنیں تھیں،جیسے کسی نے بڑی احتیاط سے بنائی ہوں۔ اس نے گہری سرخ ٹی شرٹ اور ہلکے نیلے رنگ کی میلی جینز پہن رکھی تھی جس کے پائنچے ادھڑے ہوئے تھے۔ تاہم جب اس نے سیاہ فام امریکیوں کے مخصوص بے تکلف لہجے میں بات شروع کی تو آواز خاصی کھردری ہونے کے باوجود انصاری کو خوش گوار لگی۔ سب سے پہلے تو اس نے اپنا تعارف کرایا۔
’ہائے، میرا نام ڈیرل ہے۔ کیا کسی کو فون کرنا ہے؟‘
’ہائے، میرا نام ڈیرل ہے۔ کیا کسی کو فون کرنا ہے؟‘
’ہاں، بہت شکریہ۔ فون کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن یہ فون کرنے کے لیے کوئی نمبر مانگ رہے ہیں۔ میرے پاس تو یہ نمبر نہیں ہے۔‘
’اپنی کلائی دکھاؤ، اس پر تمہارا نمبر درج ہے۔ لاؤ میں نمبر ملاتا ہوں۔‘
انصاری کو یاد آیا کہ تصویریں لینے کے بعد ایک اہل کار نے ان کی کلائی پر نیلے ربڑ کا رسٹ بینڈ پہنا دیا تھا۔ انہوں نے اپنی کلائی ڈیرل کے سامنے کر دی۔
’جی بڑے میاں، ٹیلی فون نمبر کیا ہے جس پر بات کرنی ہے؟‘
انصاری اس سوال پر تھوڑا گڑبڑا گئے۔ کس سے بات کرنی ہے؟ بیگم سے، اور کس سے۔ لیکن آج جو کچھ میرے ساتھ ہوا، اس کے بعد کس منھ سے اس سے بات کروں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھائی صدی قبل جب انصاری خاندان کا امریکی ویزا منظور ہوا اس وقت ان کا بیٹا سرمد چھ سال کا تھا۔ ریحانہ کے بڑے بھائی بہت زمانے سے کیلی فورنیا میں مقیم تھے۔ انہوں نے شہریت ملتے ہی اپنی بہن اور اس کی فیملی کے لیے سپانسر شپ کی درخواست دی تھی، جو کئی برس کے بعد اس وقت منظور ہوئی جب ریحانہ اور انصاری دونوں اسے قریب قریب بھلا بیٹھے تھے۔ اس وقت انصاری کراچی بلدیہ میں ملازمت کے چوبیس سال پورے کر چکے تھے۔ انہوں نے فوراً ہی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی۔ ہمیشہ ہی سے سنسنی خیزی کے متلاشی انصاری بھلا یہ نادر موقع ہاتھ سے کہاں جانے دیتے۔ ریحانہ نہیں آنا چاہتی تھیں۔ انہیں اپنے ماں باپ، رشتے داروں، عزیزوں، سہیلیوں سے بچھڑ کر ایک اجنبی ملک میں آباد ہونے کے خیال ہی سے وحشت ہوتی تھی، لیکن انصاری نے یہی کہا کہ بس چار پانچ سال ہی کی تو بات ہے، تھوڑی سیر و تفریح ہو جائے گی، کچھ پس انداز کر لیں گے، واپس آ کر اپنا مکان خرید لیں گے اور ایک چھوٹی سی گاڑی۔ یہاں کے حالات تو تمہارے سامنے ہیں، مہینے کے شروع میں جو ملتا ہے، وہ بیس تاریخ آتے آتے ہوا ہو جاتا ہے۔ اور پھر سرمد کی ابتدائی تعلیم وہاں سے ہو گی تو اسے مستقبل میں بڑا فائدہ ہو گا۔یہ آخری دلیل ایسی تھی جس کے آگے ریحانہ کو ہتھیار ڈالتے ہی بنی۔ چناں چہ گھر کا سامان اونے پونے بیچ یا ہمسایوں اور رشتے داروں میں بانٹ، تین نفوس پر مشتمل خاندان امریکی ریاست ورجینیا میں آن بسا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’جی بڑے میاں، کیا نمبر بھول گئے ہو؟‘ ڈیرل نے دوبارہ پوچھا۔
’نہیں، نہیں، یاد ہے۔‘ انصاری نے بوکھلا کر کہا اور تیزی سے اپنے گھر کا نمبر بتا دیا۔
’تم چاہو تو اس نمبر پر کلکٹ کال کر سکتے ہو۔ یعنی اس کا بل دوسری پارٹی کو جائے گا، لیکن بات سے پہلے ان کی رضامندی ضروری ہے۔‘
’تم چاہو تو اس نمبر پر کلکٹ کال کر سکتے ہو۔ یعنی اس کا بل دوسری پارٹی کو جائے گا، لیکن بات سے پہلے ان کی رضامندی ضروری ہے۔‘
’ٹھیک ہے۔ کلکٹ کال ہی کر لو۔‘ انصاری نے بے دھیانی سے کہا۔
’کوئی فون اٹھا نہیں رہا۔‘ ڈیرل نے نمبر ملانے کے بعد کہا۔ ’چلو دوبارہ کوشش کرتے ہیں۔‘ لیکن دوسری بار بھی گھنٹی بجتی رہی اور آخر آنسرنگ مشین آن ہو گئی۔ کالے نے ریسیور انصاری کو تھما دیا۔ دوسری طرف خود انصاری بول رہے تھے: فون کرنے کا بہت شکریہ۔ ہم معذرت خواہ ہیں کہ اس وقت گھر میں موجود نہیں ہیں، لیکن اگر آپ اپنا نام اور نمبر ریکارڈ کرا دیں تو ہم آپ کو پہلی فرصت میں فون کرنے کی کوشش کریں گے، شکریہ۔ انصاری کو اپنی ہی آواز اتنی اجنبی اور نامانوس لگی کہ پیغام ریکارڈ کروانے کی ٹَون سننے کے بعد الفاظ ان کے گلے میں اٹک گئے اور کوشش کے بعد بھی منھ سے کچھ نہ نکلا۔ انہوں نے ریسیور رکھ دیا۔ نمبر نہ ملنے پر مایوسی تو تھی، لیکن ساتھ ہی ساتھ ذہن کے کسی کونے کھدرے میں چھپا ہوا اطمینان بھی تھا کہ اچھا ہے کال نہیں ملی، ورنہ وہ بیگم سے کس طرح اور کیا بات کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ مواقع کی سرزمین سہی، لیکن عملی طور پر یہاں رہنا بہت دشوار ثابت ہوا۔ سب سے بڑا مسئلہ نوکری کا تھا۔ انصاری جہاں درخواست جمع کرواتے تھے، جواب ملتا تھا کہ امریکی تجربہ چاہیئے۔ ان کی ڈگریاں، طویل تجربہ، اور ملازمت کا اعلیٰ ریکارڈ یہاں پر صفر ہو کر رہ گئے تھے۔ پاکستان سے لائی ہوئی رقم ڈالروں میں منتقل ہو کر ویسے بھی سکڑ گئی تھی، اب وہ تیز دھوپ میں پڑے برف کے ڈھیلے کی طرح پگھلنے لگی۔ ریحانہ کے بھائی سے مدد مانگنے کا سوال نہیں تھا۔ آخر انصاری کو مجبوری کی حالت میں ایک سٹور میں تین ڈالر فی گھنٹا کی نوکری کرنا پڑی۔ کہاں پاکستان میں سرکاری نوکری کے ٹھاٹ باٹ، چپراسی، خاکروب اور کلرک، جونیئر سٹاف سے ملنے والی تعظیم و تکریم، اور کہاں یہ عالم کہ انصاری سارا دن کاؤنٹر پر کھڑے گاہکوں کو بھگتاتے رہتے تھے۔ اوپر سے سپروائزر مسلسل ان پر یوں نگاہ رکھتے تھے کہ انہیں سر اٹھانے تک کا موقع نہیں ملتا تھا۔ اگر گاہک نہیں ہیں تو کاؤنٹر کی صفائی، شیلفوں پر سامان کی ترتیب یا اس طرح کے دوسرے کام ان کے سپرد کر دیے جاتے تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ پورے سٹور میں کوئی کرسی، صوفہ یا تپائی قسم کی چیز نہیں تھی۔ شروع کے ہفتے میں تو ایسا لگتا تھا جیسے ان کے گھٹنے کسی بھی وقت جواب دے جائیں گے اور وہ ریت کے بت کی طرح زمین پر ڈھیر ہو جائیں۔ پھر کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ چمڑے کے جوتوں کی بجائے نرم اور لچکیلے تلووں والے جوگرز پہنیں۔ کچھ تو جوگرز کی وجہ سے اور پھر شاید کسی حد تک عادت بن جانے کے باعث تین چار ہفتوں بعد انصاری کو کسی قدر آسانی ہو گئی تھی۔ البتہ وہ اب بھی آنکھ بچا کر کسی ستون یا شیلف کے ساتھ کندھا ٹیک کر دو تین منٹ سستا لیتے تھے۔ گھر واپس جا کر وہ صوفے پر ڈھیر ہو جاتے تھے، اور اس دوران سرمد کی چھوٹی موٹی شرارتیں بھی ان کے اعصاب پر گراں گزرتی تھیں۔
سٹور میں کام کرتے ہوئے انصاری پر انکشاف ہوا کہ امریکہ میں محض کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے ہو کر لوگوں سے رقم وصول کرنا اتنا آسان نہیں تھا جتنا انہوں نے سمجھ رکھا تھا۔ کچھ گاہک ان کے ساتھ بڑی بدتمیزی سے پیش آتے تھے۔ بعضے ایسے بھی تھے کہ سٹور سے، ڈبل روٹی، دودھ، سبزی وغیرہ لے جاتے تھے اور استعمال کر کے اگلے دن واپس کرنے آ جاتے تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ لوگ آدھی پی ہوئی دودھ کی بوتل یا ادھ کھائے پھل اگلے دن واپس لے آئے کہ وہ ان کے معیار سے مطمئن نہیں ہیں اور انہیں پوری رقم واپس کی جائے۔ سٹور کے مینیجر نے انصاری کو ہدایت کر رکھی تھی کہ گاہک کے ساتھ کوئی بحث نہیں کرنی، اس لیے ایسے موقعوں پر انصاری تلملا کر رہ جانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے باوجود ایک بار ایک گاہک نے شکایت کر کے انہیں سٹور سے نکلوا دیا۔ تاہم خوش قسمتی سے انہیں جلد ہی ایک اور بڑے سٹور میں نوکری مل گئی۔ اب ان کے پاس امریکی تجربہ آ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’تو کیا تم بتانا پسند کرو گے کہ تمہیں کس جرم میں پکڑا گیا ہے؟‘ انصاری نے پوچھا۔ انہیں ڈیرل کی قربت سے کسی قدر تسلی ہو رہی تھی اور وہ اس سے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے تھے۔
’ارے بڑے میاں، یہ تو اپنا دوسرا گھر ہے،بلکہ دوسرا کیا، پہلا ہی سمجھو، کیوں کہ باہر تو اپنا کوئی مستقل ٹھکانا تو ہے نہیں۔ بس جب گھومنے گھامنے سے دل اکتا جاتا ہے تو یہاں چلے آتے ہیں۔ ویسے اس بار شاید یہ مجھے لمبے عرصے تک اندر رکھنے کی کوشش کریں۔‘
یکایک حوالات میں ہل چل سی پیدا ہو گئی اور کچھ لوگوں نے بلند آواز سے بولنا شروع کر دیا۔ انصاری نے دیکھا کہ سامنے کی دیوار پر خاصی بلندی پر ایک ٹیلی ویڑن نصب ہے، جس کی آواز بند ہے، لیکن شاید کوئی خبروں کا چینل لگا ہوا ہے۔ اس پر امریکی صدارتی امیدوار براک اوباما کی تصویر نظر آ رہی تھی، جو ڈائس کے پیچھے کھڑے خاصے بڑے مجمعے سے خطاب کر رہے تھے۔ سٹیج کے پیچھے اوباما کی صدارتی مہم کا نیلا اور سرخ لوگو آویزاں تھا، جس میں ایک شاہراہ کے اوپر چڑھتے ہوئے سورج کا تاثر دیا گیا تھا۔
ڈیرل بھی ٹیلی ویڑن سکرین کی طرف دیکھ رہا تھا۔’ بس تم ذرا اوباما کو آنے دو، وہ گن گن کر سب کے بدلے لے گا۔‘
انصاری کو یاد آیا کہ ان دنوں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہو رہے تھے۔ وہ بڑے شوق سے انتخابی مہم کی تفصیلات دیکھتے چلے آئے تھے۔ انہیں بھی اوباما سے خاصی امیدیں تھیں کہ وہ اقتدار میں آ کر بش کا پھیلایا ہوا گند صاف کر دے گا۔ وہ بڑی شدت سے اس دن کے انتظار میں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریحانہ نے پہلا سال تو گھر ہی میں رہیں، لیکن انصاری کی کم تنخواہ کی وجہ سے ہاتھ اس قدر تنگ رہتا تھا کہ وہ بھی کام تلاش کرنے میں جٹ گئیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اردو کر رکھا تھا اور زمانہ? طالب علمی میں رسالوں میں افسانے اور مضامین لکھتی رہی تھی، جس کا بعض اوقات معمولی معاوضہ بھی مل جایا کرتا تھا، لیکن انہوں نے باقاعدہ ملازمت کبھی نہیں کی تھی۔ اس لیے ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب انہیں واشنگٹن کے ایک سرکاری ادارے میں امریکی سفارت کاروں اور دوسرے ملازمین کو اردو پڑھانے کی نوکری مل گئی۔ تنخواہ معقول، میڈیکل انشورنس اور دوسری کئی سہولتیں۔ اب گھر میں سرمد کے لیے نت نئے کھلونے اور پہننے کے لیے عمدہ سے عمدہ لباس آنے لگے۔ اس کے منھ سے جو فرمائش نکلتی تھی، وہ اگلے ہی دن پوری ہو جاتی تھی۔ انصاری کہتے رہتے کہ فضول خرچی ہے، سرمد تو کسی بھی کھلونے سے دو تین دن کھیلنے کے بعد اس کی طرف آنکھ تک اٹھا کر اٹھا کر نہیں دیکھتا، لیکن بیگم نے ان کی بات کی پروا نہیں کی، اور گھر کی الماریاں کھلونوں سے بھرتی چلی گئیں۔ کچھ عرصے بعد ریحانہ نے اپارٹمنٹ کی تنگی کی شکایتیں کرنا شروع کر دیں۔ انصاری نے کہا بھی کہ ہمارا کون سا بڑا خاندان ہے اور نہ ہی ہمارے گھر بہت زیادہ مہمان آتے ہیں، لیکن ریحانہ نے خود ہی ایک پاکستانی پراپرٹی ڈیلر سے معاملات طے کر کے فیئر فیکس کے ایک سرسبز و شاداب علاقے میں تین کمروں کے گھر کے کاغذات پر دستخط کر دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’اچھا تو تم اپنی گرفتاری کے بارے میں کچھ کہہ رہے تھے؟ ‘ انصاری نیڈیرل سے پوچھا۔
’ارے بڑے میاں، جرم ورم کیا، سب سے بڑا جرم تو میری رنگت ہے۔ میں ایک پارٹی میں گیا ہوا تھا۔ سب نے چڑھا رکھی تھی، میں نے بھی تھوڑی بہت پی لی۔ پھر ہم سب ایک دوست کے ساتھ واپس گاڑی میں جا رہے تھے کہ کسی نے چرس کا سگریٹ سلگا لیا اور سب باری باری کش لینے لگے۔ پھر اچانک پولیس نے روک لیا، اور بس۔ دوسرے چھوٹ گئے، ہمیں دھر لیا گیا۔ وجہ یہ کہ پہلے نقب زنی وغیرہ کی چند واردات میں ہمارا نام تھا، جیل اور پولیس ریکارڈ موجود تھا۔ بس پھر انہیں اور کیا چاہیئے تھا۔‘
’ارے بڑے میاں، جرم ورم کیا، سب سے بڑا جرم تو میری رنگت ہے۔ میں ایک پارٹی میں گیا ہوا تھا۔ سب نے چڑھا رکھی تھی، میں نے بھی تھوڑی بہت پی لی۔ پھر ہم سب ایک دوست کے ساتھ واپس گاڑی میں جا رہے تھے کہ کسی نے چرس کا سگریٹ سلگا لیا اور سب باری باری کش لینے لگے۔ پھر اچانک پولیس نے روک لیا، اور بس۔ دوسرے چھوٹ گئے، ہمیں دھر لیا گیا۔ وجہ یہ کہ پہلے نقب زنی وغیرہ کی چند واردات میں ہمارا نام تھا، جیل اور پولیس ریکارڈ موجود تھا۔ بس پھر انہیں اور کیا چاہیئے تھا۔‘
’ارے یہ تو بڑی غلط بات ہے۔‘
’اب تو میں یہی بھول گیا ہوں کہ کیا غلط ہے کیا صحیح ہے۔ جانتے ہو مجھے سب سے پہلے کس جرم میں اندر کیا گیا تھا؟ بغیر ٹکٹ خریدے ریل میں سفر کرنے پر۔ ادھر ہماری ضمانت دینے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ چناں چہ ہم بھی حوالات میں پڑے سڑتے رہے اور غلط صحبتوں میں پڑ گئے۔‘
’بہت افسوس ہوا یہ سن کر۔ مجھے کچھ کچھ تو اندازہ تو تھا لیکن ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں تھاکہ حالات اس حد تک خراب ہیں۔‘
’یہی تو میں کہہ رہا ہوں بڑے میاں۔ دور مت جاؤ، اسی حوالات کو دیکھ لو۔ گنو، تمہیں یہاں بارہ لوگ نظر آئیں گے۔ ان میں سے کالے کتنے ہیں؟ سات۔ ایک تم ایشیائی، آٹھ۔ دو ہسپانوی لگتے ہیں، دس۔ صرف دو گورے یہاں موجود ہیں۔ حالاں کہ آبادی کے تناسب سے یہاں کم از کم آٹھ گورے ہونے چاہیئے تھے۔‘
انصاری نے گردن گھما کر اردگرد بیٹھے ہوئے لوگوں کا جائزہ لیا۔ ڈیرل کی بات دل کو لگتی تھی۔ انہیں یاد آیا کہ انہوں نے جہاں جہاں کام کیا تھا، وہاں جونیئر سٹاف کی بھاری اکثریت سیاہ فام افراد پر مشتمل ہوتی تھی، جب کہ بڑے عہدوں پر کلی طور پر گورے تعینات تھے، حالاں کہ واشنگٹن اور اس کے نواح میں کالوں کی خاصی بڑی آبادی تھی۔
ڈیرل اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور نسبتاً اونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا۔ دوسرے لوگ اس کی متوجہ ہو گئے۔ ڈیرل نے کسی کہنہ مشق مقرر کی طرح باقاعدہ تقریر شروع کر دی:
“میرے دوستو: جیسا کہ آپ جانتے ہیں، الیکشن میں چند ہی دن رہ گئے ہیں۔ یہ تاریخ کا ایسا موڑ ہے جو ہزار سال بعد بھی یاد رکھا جائے گا۔ میری بات کان کھول کر سن لو۔ کچھ طاقتیں کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ باہر سے کوئی آ کر صدر بن جائے۔ اس لیے کہ جو کام امریکہ کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں نہیں ہوا، وہ اب کیسے ہو سکتا ہے؟ اس موقعے پر سازش کے تحت مخصوص رنگت کے لوگوں کی پکڑ دھکڑ میں ضرورت سے زیادہ تیزی دکھائی جا رہی ہے۔ ہمیں چن چن کر اندر کیا جا رہا ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے، ہمیں اس موقعے پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرمد کی موت کے بعد ریحانہ نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ ان کی صحت اب نوکری کے قابل نہیں تھی۔ پہلے تو ان کے گھٹنوں کا آپریشن ہوا، جس کی وجہ سے وہ کئی ماہ تک بستر سے لگ کر رہ گئیں۔ پھر انہیں شوگر تشخیص ہو گئی اور کچھ عرصے بعد گردوں کا مسئلہ شروع ہو گیا۔ جوں جوں ان کی صحت بگڑتی گئی،ان کے دل میں وطن کی یاد بڑھتی گئی۔ پھر وہ وقت آیا کہ ان کی زبان پر ایک ہی رٹ ہوتی تھی،’واپس چلو، واپس چلو۔‘
انصاری بڑے تحمل سے انہیں سمجھاتے۔ ’بھئی، کیسے چلے جائیں؟ روز کوئی نہ کوئی معرکہ مارا جاتا ہے۔ جعل سازی، دھوکے بازی،کرپشن، جھوٹ۔ اور اوپر سے جو آج کل کے حالات ہیں تو بھی تمہارے سامنے ہیں۔‘
انصاری بڑے تحمل سے انہیں سمجھاتے۔ ’بھئی، کیسے چلے جائیں؟ روز کوئی نہ کوئی معرکہ مارا جاتا ہے۔ جعل سازی، دھوکے بازی،کرپشن، جھوٹ۔ اور اوپر سے جو آج کل کے حالات ہیں تو بھی تمہارے سامنے ہیں۔‘
انصاری کو ہمیشہ سے اخبار پڑھنے کی عادت تھی، اور وہ پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے اور اس پر دل ہی دل میں کڑھتے رہتے تھے، یا کبھی کسی پاکستانی سے ملاقات ہوتی تو مشرف اور اس کے کارندوں کو گالیاں دے کر دل کا غبار اتارا کرتے تھے۔ادھر ریحانہ نے کبھی سیاست میں دل چسپی نہیں لی تھی اور شاذ و نادر ہی اخبار پڑھا کرتی تھیں۔ ٹیلی ویڑن پر پاکستانی چینل آنا شروع ہوئے تو وہ صرف بالی وڈ کی فلمیں یا ڈراموں والے چینل ہی دیکھا کرتی تھیں۔
’ہمیں حالات سے کیا غرض، میری دونوں بہنیں فیڈرل بی ایریا میں رہتی ہیں، ہم بھی وہیں کوئی اچھا سا مکان لے کر سکون سے رہیں گے۔ تمہارے بھی کئی جاننے والے کراچی میں ہیں۔‘
’ہونہہ، کراچی میں سکون سے رہیں گے؟ وہ اکرم صاحب کی بیگم کا واقعہ یاد نہیں؟ دن دہاڑے ٹیکسی روک کر ڈاکوؤں نے ان کا زیور اتروا لیا تھا۔ اور وہ ورلڈ بینک والے فواد صاحب۔ دو ہفتے کے لیے پاکستان گئے تھے، جس گلی میں ان کی ساری زندگی گزری تھی، وہیں انہیں پستول کی نال پر لوٹ لیا گیا! نا بھئی نا، مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو گا کہ اس عمر میں کوئی مجھے راہ چلتے ہوئے ہینڈز اپ کروا لے۔‘
’ہونہہ، کراچی میں سکون سے رہیں گے؟ وہ اکرم صاحب کی بیگم کا واقعہ یاد نہیں؟ دن دہاڑے ٹیکسی روک کر ڈاکوؤں نے ان کا زیور اتروا لیا تھا۔ اور وہ ورلڈ بینک والے فواد صاحب۔ دو ہفتے کے لیے پاکستان گئے تھے، جس گلی میں ان کی ساری زندگی گزری تھی، وہیں انہیں پستول کی نال پر لوٹ لیا گیا! نا بھئی نا، مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو گا کہ اس عمر میں کوئی مجھے راہ چلتے ہوئے ہینڈز اپ کروا لے۔‘
’تو یہ زندگی کون سی جنت ہے۔ پہلے تو سرمد کی تعلیم اور پھر اس کی نوکری کی وجہ سے زندگی کا سہارا تھا۔ اب اس کی یادیں ہر دیوار، ہر دراز، ہر الماری سے نکل کر مجھے ستاتی ہیں۔ تم صبح سویرے کام پہ چلے جاتے ہو اور شام کو واپس آ کر ڈھائی سیر کا اخبار لے کر بیٹھ جاتے ہو۔ پاکستان میں کم از کم کوئی بات کرنے والا تو ہو گا۔‘ ریحانہ نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔
’ریحانہ، سمجھنے کی کوشش کرو۔ اب وہ پچیس سال پہلے والا پاکستان نہیں رہا۔ اب وہاں بھی کسی کے پاس فالتو وقت نہیں رہا۔ کسی سے ملنے کے لیے جاؤ تو پہلے فون کر کے ٹائم لینا پڑتا ہے۔ اور پھر تم بیمار ہو۔ یہ بھول جاؤ کہ تمہارے رشتے دار تمہارا خیال رکھیں گے۔ یہاں ہر روز فزیکل تھراپسٹ گھر آ کر مفت تھراپی کر جاتا ہے۔ ڈایالسس کے لیے ایمبولنس خود گھر آ کر تمہیں ہسپتال لے جاتی ہے۔ وہاں تو حالت یہ ہے کہ ایمبولنس ٹریفک جام میں تین تین گھنٹے پھنسی رہتی ہے اور مریض تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے۔ ہسپتالوں میں بجلی نہیں، آلات نہیں، ڈاکٹر نہیں۔‘
’اور تمہاری فیملی؟‘ انصاری نے پوچھا۔
’ہاہا، فیملی ویملی کوئی نہیں۔ باپ کا تو پتا نہیں کہ کہاں ہے، کیوں کہ وہ تو میری پیدائش سے پہلے ہی میری نوعمر ماں کو چھوڑ کر کہیں بھاگ گیا تھا یا مر کھپ گیا تھا۔ ماں بھی ہر وقت نشے میں اس قدر دھت رہتی تھی کہ اسے خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔‘
’کوئی بھائی بہن؟‘
’کوئی بھائی بہن؟‘
’ایک چھوٹا بھائی ہے، جس سے آخری بار کوئی دس سال پہلے آخری بار بات ہوئی تھی۔ وہ نیویارک میں وکیل ہے، کسی فرم میں کام کرتا ہے۔ اسے ہم جیسوں سے تعلق رکھنے میں شرم آتی ہے، اس لیے میں نے بھی اس سے ملنا ملانا چھوڑ دیا۔‘ ڈیرل کے لبوں پر ایک افسردہ مسکراہٹ بکھر گئی۔
’شادی وادی نہیں کی تم نے؟‘
’شادی؟‘ ڈیرل نے اپنے ماتھے کی شکنوں کی مزید گہرا کرتے ہوئے مصنوعی حیرانی سے پوچھا، جیسے اسے اس لفظ کے معنی سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہو۔ ’نہیں نہیں، ہم نے کبھی یہ جھنجھٹ پالا ہی نہیں۔ ہاں کسی زمانے میں ایک گرل فرینڈ تھی، اس سے کچھ عہد و پیماں بھی ہوئے، لیکن ظاہر ہے کہ میرے طرزِ زندگی میں کوئی طویل رشتہ پالنا ناممکن ہے۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انصاری کا ایک اور مسئلہ بھی تھا، جسے وہ ریحانہ کو بتاتے ہوئے گھبراتے تھے۔ وہ جب الہ آباد سے اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے اس وقت ان کی عمر دس سال تھی۔ انہوں نے چوتھی جماعت کا امتحان پاس کر لیا تھا اور پانچویں میں جانے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ والدین نے انہیں سکول سے اٹھا لیا، کیوں کہ حالات روز بہ روز بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں گھر سے باہر نکلنے پر بھی پابندی لگ گئی، کیوں کہ شہر سے لوٹ مار اور فساد کی خبروں پہنچ رہی تھیں۔ انصاری کو بہت کوفت ہوئی، کیوں کہ ان کے سارے دوست چھوٹ گئے تھے۔ وہ سارا دن اکیلے گھر میں پڑے رہتے۔ حالات کسی قدر بہتر ہوئے تو یہ خاندان پاکستان چلا آیا۔ نئے وطن میں آنے کے بعد انصاری کو نئے سرے سے ساری دوستیاں بنانی پڑی تھیں، سکول میں بھی اور کراچی کی پیر الٰہی بخش کالونی میں واقع اپنیمحلے میں بھی۔ باقی رشتے دار ہندوستان ہی میں رہ گئے تھے۔ ان کے ساتھ شروع میں خط و کتابت رہی لیکن والدین کے انتقال کے بعد تمام رابطے ٹوٹ گئے۔ اب تو یہ عالم تھا کہ انصاری کو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ان کی دو پھوپھیاں ابھی زندہ ہیں یا نہیں۔ دوسری ہجرت اختیاری تھی، جب وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ چھاڑ کر امریکہ آن بسے تھے۔ یہاں تو صورتِ حال یہ تھی کہ شروع کے کئی مہینے انہیں گھر سے باہر اردو میں بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا، کیوں کہ کوئی تھا ہی نہیں جس سے اپنی زبان میں بات کی جا سکے۔ پھر سالہا سال گزرتے رہے اور رفتہ رفتہ وہ یہاں کی زندگی کے عادی ہو گئے تھے۔ صبح سے شام سٹور میں، شام کو گھر میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اخبار یا کسی کتاب کا مطالعہ۔ اختتامِ ہفتہ پر کسی پاکستان کے گھر چلے جانا، یا کسی کو اپنے گھر بلا لینا۔ یہ ان کے معمولات بن گئے تھے۔ اب انہیں ایک بار پھر اس بنی جمی زندگی اکھاڑ کر ایک اور ہجرت کرنا سوہانِ روح لگتا تھا۔ لیکن یہ ساری باتیں بیگم کو کون سمجھائے؟ انصاری اور بیگم کے درمیان اسی قسم کی نوک جھونک روز کا معمول تھی۔ لیکن کچھ عرصے سے بیگم کی باتوں کی کاٹ میں تیزی، اور انصاری کے دلائل کی شدت میں کمی آ گئی تھی۔ بیگم کو معلوم تھا کہ انصاری اپنی ہٹ کے پکے ہیں۔ ادھر انصاری بھی اپنی بیگم کا دکھ سمجھتے تھے، لیکن اس کا کوئی حل ان کے پاس نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے بڑے میاں، تم بھی بڑی چیز ہو، مجھ سے تو ساری باتیں اگلوا لیں، خود صاف گول کر گئے کہ تمہیں کس جرم میں پکڑا گیا ہے۔‘ ڈیرل نے کہا۔ ’شکل سے عادی مجرم تو نظر نہیں آتے تم مجھے۔‘
انصاری نے ڈیرل کو اپنی کہانی سنانے کے لیے اپنے ذہن میں خیالات ترتیب دینا شروع کر دیے۔
’کوئی ایسی بڑی بات نہیں تھی۔ بس ذرا بیگم سے لڑائی ہو گئی۔ اوپر سے پولیس پہنچ گئی، اور اب میں تمہارے سامنے ہوں۔‘ انصاری نے ایک ہی سانس میں یہ کہہ کر گویا کوئی بوجھ اپنے سر سے اتارنے کی کوشش کی۔
’کوئی ایسی بڑی بات نہیں تھی۔ بس ذرا بیگم سے لڑائی ہو گئی۔ اوپر سے پولیس پہنچ گئی، اور اب میں تمہارے سامنے ہوں۔‘ انصاری نے ایک ہی سانس میں یہ کہہ کر گویا کوئی بوجھ اپنے سر سے اتارنے کی کوشش کی۔
’نہیں، نہیں، شروع سے سناؤ۔ فکر نہ کرو، میرے اور تمہ
ارے پاس بہت وقت ہے۔ کل اور پرسوں تو ویسے بھی چھٹی ہے۔ اگر تمہیں لینے کے لیے کوئی آیا تو پیر کے دن ہی آئے گا۔’
انصاری کو وقت کا خیال آیا۔ ان کی گھڑی پولیس والوں نے ضبط کر لی تھی اس لیے انہیں وقت کا اندازہ نہیں تھا۔ انہوں نے تخمینہ لگایا کہ ان کو ہتھ کڑیاں لگے کم از کم تین گھنٹے گزر گئے ہیں۔ ان کے ذہن میں وہ منظر گھومنے لگا جب پولیس والے نے پھرتی اور مہارت سے ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا کر انہیں کلک کی آواز کے ساتھ بند کر کے چابی جیب میں ڈال لی تھی۔ اس کے ساتھی نے اپنے بٹوے میں سے پیلے رنگ کا چھوٹا سا کارڈ نکالا اور اسے سیاہ فام امریکیوں کے مخصوص لہجے میں باآوازِ بلند پڑھنا شروع کر دیا تھا:
انصاری کو وقت کا خیال آیا۔ ان کی گھڑی پولیس والوں نے ضبط کر لی تھی اس لیے انہیں وقت کا اندازہ نہیں تھا۔ انہوں نے تخمینہ لگایا کہ ان کو ہتھ کڑیاں لگے کم از کم تین گھنٹے گزر گئے ہیں۔ ان کے ذہن میں وہ منظر گھومنے لگا جب پولیس والے نے پھرتی اور مہارت سے ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا کر انہیں کلک کی آواز کے ساتھ بند کر کے چابی جیب میں ڈال لی تھی۔ اس کے ساتھی نے اپنے بٹوے میں سے پیلے رنگ کا چھوٹا سا کارڈ نکالا اور اسے سیاہ فام امریکیوں کے مخصوص لہجے میں باآوازِ بلند پڑھنا شروع کر دیا تھا:
’تمہارے پاس خاموش رہنے کا اختیار ہے۔ تم جو کچھ کہو گے وہ تمہارے خلاف عدالت میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تمہیں اپنے وکیل سے بات کرنے کا اختیار ہے۔ اگر تم وکیل کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے تو تمہیں سرکار کی طرف سے وکیل فراہم کیا جائے گا۔‘
انصاری سکتے کی حالت میں سنتے رہے۔ پولیس والے نے جب دوسری بار اپنی بات دہرائی ’تمہیں اپنے حقوق کی سمجھ آ گئی ہے؟‘ انہوں نے کچھ کہنا چاہا لیکن خشک ہونٹ تھرا کر رہ گئے۔ انہوں نے سر ہلا دیا۔
یہ کارروائی مکمل کرنے کے بعد پولیس والا انہیں شانے سے پکڑ کر قریب ہی کھڑی ہوئی پولیس کار کی طرف لے گیا اور پچھلی نشست پر انہیں بٹھا کر ساتھ خود بیٹھ گیا۔ کار کی چھت پر سرخ اور نیلی بتیاں جل بجھ رہی تھیں، البتہ سائرن بند تھا۔ گاڑی کی کھڑکیوں پر سیاہ آہنی جالی لگی ہوئی تھی۔ پچھلی سیٹ اور ڈرائیور والی سیٹ کے درمیان بھی باریک سلاخیں نصب تھیں۔ دوسرے پولیس والے نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔ انصاری کو ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کی آنکھ اس ڈراؤنے خواب سے جلد ہی کھل جائے گی۔ پولیس کی گاڑی، دونوں پولیس والے، سڑک پر چلنے والی دوسری گاڑیاں انہیں غیر حقیقی معلوم ہو رہی تھیں۔ قریب سے سرخ رنگ کی کھلے چھت والی کار گزری۔ گاڑی میں دو لڑکیاں کسی بات پر بے تحاشا ہنس رہی تھیں۔ ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھی ہوئی گھنگریالے بالوں والی ایک لڑکی کی نظریں ایک لمحے کو انصاری سے ملیں، تو انصاری نے گھبرا کر فوراً منھ دوسری طرف پھیر دیا۔ انہوں نے سوچا، کیا اس لڑکی کو معلوم ہو گا کہ انہیں کس قدر تحقیر کے عالم میں ایک انتہائی معمولی سی بات پر گھٹیا مجرموں کی طرح ہتھ کڑی لگا کر لے جایا جا رہا ہے؟ انہوں نے شکر کیا کہ گاڑی کا سائرن آن نہیں کیا گیا تھا ورنہ اور شرمندگی ہوتی۔ پولیس والے نے ہتھ کڑیاں اتنی کس کر باندھی تھیں کہ وہ بری طرح سے ان کی کلائیوں کی ہڈیوں میں چبھ رہی تھیں۔ دوسری طرف ہاتھ پشت پر کیے ہوئے سیٹ پر بیٹھنا الگ سے تکلیف دہ تھا، لیکن انہوں نے منھ سے ایک حرف نہیں نکالا اور خاموشی سے بیٹھے رہے۔
پولیس کی انصاری کو لیے ہوئے گاڑی کیپیٹل بیلٹ وے کے نیچے سے گزری، پھر الیگزینڈریا نیشنل قبرستان کے پاس سے ہوتی ہوئی کنگ سٹریٹ کے علاقے میں داخل ہوئی اور پھر ڈیوک سٹریٹ کے قریب سفید رنگ کی ایک عمارت کے قریب ایک جھٹکے سے جا رکی۔ عمارت کی پیشانی پر ’الیگزینڈریا نیبرہْڈ واچ‘ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ پولیس والے نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور منھ سے کچھ بولے بنا انہیں سر سے اشارہ کیا۔ انصاری بڑی مشکل سے گاڑی سے باہر اترے، کیوں کہ ہتھکڑیوں کی وجہ سے ہاتھ کا سہارا نہیں لے سکتے تھے۔ انہوں نے پولیس والے کے مشورے پر پہلے دونوں ٹانگیں باہر نکال کر زمین پر جمائیں، پھر باقی دھڑ گاڑی کی نشست سے بلند کیا، اس دوران وہ لڑکھڑا گئے، لیکن پولیس والے نے انہیں سہارا دے کر اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا۔ انصاری شروع ہی سے چھریرے بدن کے مالک تھے، لیکن پچھلے آٹھ دس سال میں ان کا وزن خاصا بڑھ گیا تھا۔ شروع میں تو انہوں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی، کیوں کہ ساری زندگی دبلے پتلے رہنے کی وجہ سے انہیں یقین سا ہو گیا تھا کہ کبھی موٹے نہیں ہو سکتے جب پتلونیں چھوٹی پڑ گئیں اور توند نکل آئی تب انہیں احساس ہوا، لیکن شاید اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی، اس لیے انہوں نے “تن بہ تقدیر” کے کلیے پر عمل کرتے ہوئے اس طرف توجہ دینا ہی چھوڑ دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالات کا بھاری دروازہ پرشور طریقے سے کھلا اور ایک اہل کار ٹرالی گھسیٹتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔ ٹرالی میں سفید پلاسٹک کی پلیٹیں تھیں، جن میں خانے بنے ہوئے تھے۔ اس نے ایک پلیٹ انصاری کو بھی تھما دی۔ پلیٹ میں ایک کچا کیلا اور المونیم کے ورق میں لپٹا ہوا سینڈوچ تھا۔ ڈیرل نے پلیٹ اپنے گھٹنوں پر رکھ دی اور ورق میں سے سینڈوچ نکال کر کھانے لگا۔ انصاری کا خیال تھا کہ وہ شاید کھانا نہیں کھا پائیں گے لیکن حیرت انگیز طور پر انہیں احساس ہوا کہ انہیں خاصی بھوک تھی۔ معلوم نہیں کس چیز کا سینڈوچ تھا، لیکن انصاری نے پروا کیے بغیر کھانا شروع کر دیا۔ ڈیرل نے بھی بہت رغبت سے اپنا کھانا ختم کیا اور پھر نیپکن سے منھ پونچھتے ہوئے انصاری کی طرف مڑا۔
’ہاں تو بڑے میاں، تم کہہ رہے تھے کہ بیوی سے لڑائی ہو گئی۔۔۔؟‘
انصاری اپنی کہانی سناتے رہے۔ اس دوران دو تین بار دروازہ کھلا اور یا تو کچھ لوگ اندر لائے گئے یا کچھ اندر سے باہر لے جائے گئے۔ ڈیرل نے آنکھیں بند کر کے سر جھکا لیا تھا، تاہم اس کے کان پوری طرح انصاری پر مرکوز تھے۔
انصاری اپنی کہانی سناتے رہے۔ اس دوران دو تین بار دروازہ کھلا اور یا تو کچھ لوگ اندر لائے گئے یا کچھ اندر سے باہر لے جائے گئے۔ ڈیرل نے آنکھیں بند کر کے سر جھکا لیا تھا، تاہم اس کے کان پوری طرح انصاری پر مرکوز تھے۔
’میں نے کہا نا کہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں تھی۔‘ انصاری انصاری ذاتی باتیں خود تک محدود رکھتے تھے۔ پاکستان میں بھی ان کے دوست بھی ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔ اور ان دوستوں کے ساتھ بھی کچھ زیادہ بے تکلفی نہیں تھی، اور ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جسے وہ تم کہہ کر مخاطب کرتے ہوں۔ لیکن آج وہ جس ذہنی صدمے سے گزرے تھے اس سے ان کی شخصیت کے گرد قائم مضبوط فصیل میں دراڑیں پڑ گئی تھیں۔ نے فیصلہ کر لیا کہ ڈیرل کو تفصیل بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے، حالاں کہ اس سے ملے ہوئے ابھی شاید ایک گھنٹا بھی نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے کہانی سنانا شروع کر دی۔
’آج صبح موسم بہت اچھا تھا۔ میں بیوی کو لے کر نکلا کہ باہر کسی ریستوران میں کھانا کھائیں گے، اور پھر دریا کے کنارے پارک میں بنچ پر بیٹھ کر سہ پہر گزاریں گے۔ لیکن ریستوران جاتے جاتے گاڑی ہی میں توتو میں میں ہو گئی۔‘
’رکو نہیں، بولتے جاؤ۔‘
’رکو نہیں، بولتے جاؤ۔‘
میں نے ایک گاڑی کو اوورٹیک کرنے کی کوشش کی تو بیوی اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکی۔ کہنے لگی کہ تم نے گاڑی لہرا کر کیوں اوورٹیک کی ہے۔ میں نے بہت سمجھایا کہ اگلی گاڑی میں ایک بوڑھی عورت تھی جو گاڑی کو مقررہ حد سے دس میل کم رفتار پر چلا رہی تھی، لیکن بیوی کا پارہ چڑھتا گیا، اور جو اس کے منھ میں آیا وہ کہتی گئی۔ حتیٰ کہ ریستوران کے قریب پہنچ کر ہم گاڑی سے اتر آئے، پھر بھی اس کے لعن طعن کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔‘
’تو تم طعنے سنتے رہتے، یہ تو دنیا کے ہر مرد کے نصیب میں لکھا ہوا ہے۔‘ ڈیرل نے دھیرے سے کہا۔
’میں بھی سنتا ہی رہا۔ پھر میں نے گاڑی پارک کرنے کے بعد دوسری طرف جا کر بیگم کو باہر نکلنے میں مدد دی۔ جب سے اس کے گھٹنے کا آپریشن ہوا تھا، اسے گاڑی میں بیٹھتے اترتے بہت دقت ہوتی تھی۔ لیکن وہ گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے بھی مسلسل بڑبڑاتی رہی۔ ’بڑھیا تھی وہ؟ کم بخت بڑھیا تھی؟ تم بھی عمر میں اس سے کم نہیں ہو، شاید دو چار سال زیادہ ہی ہو گے۔ لیکن گاڑی اس طرح چلاتے ہو جیسے موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلا رہے ہو۔‘
’بولتے جاؤ، میں سن رہا ہوں،‘ ڈیرل نے کہا۔
’بولتے جاؤ، میں سن رہا ہوں،‘ ڈیرل نے کہا۔
’میں نے اسے بہت کہا کہ بھول بھی جائے اس بات کو، جانے دے، لیکن وہ تو جیسے ہتھے ہی سے اکھڑ گئی تھی۔ بولتی گئی بولتی گئی۔’
’پھر؟‘ڈیرل نے آنکھیں موند کر دیوار سے سر ٹیکتے ہوئے پوچھا۔
’بس اس کے بعد اس نے گفتگو کا سلسلہ میری ڈرائیونگ کی طرف موڑ دیا۔ کہنے لگی کہ میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ مجھے تمہاری تیز ڈرائیونگ سے خوف آتا ہے، لیکن تم نے کبھی میری بات سنی۔ زندگی بھر تم نے من مانی کی ہے۔ جو تمہارے دل میں آتا ہے تم وہی کرتے ہو۔ یہ کہتے کہتے اس کی آواز اونچی ہو گئی۔ دو تین لوگ گاڑیوں سے نکل رہے تھے، انہوں نے بھی گردنیں موڑ کر ان دونوں کی طرف دیکھا، لیکن بیوی کا قصیدہ جاری رہا۔‘
’ٹھیک ہے۔ آگے؟‘
’ٹھیک ہے۔ آگے؟‘
’خیر یہاں تک تو کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی، لیکن جب اس نے یہ کہا کہ سرمد کو بھی تم ہی نے زندگی کو رَیش طریقے سے گزارنے کی پٹی پڑھائی تھی اور تمہارے ہی نقشِ قدم پر چل کر وہ آج قبرستان میں منوں مٹی کے نیچے سو رہا ہے، تو میرا دماغ پھر گیا۔
’سرمد کون؟‘
’سرمد کون؟‘
’ہمارا بیٹا۔‘
’کہاں ہے وہ؟‘
’کیا بتاؤں۔‘ انصاری نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔ ’فوت ہو گیا چار سال پہلے۔‘
’ارے؟‘ ڈیرل اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ’کیسے؟‘
’ارے؟‘ ڈیرل اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ’کیسے؟‘
’بس کیا کہوں کیسے؟‘ انصاری نے کہا۔ ’پتا نہیں اسے کہاں سے موٹر سائیکلوں کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ اپنی ساری آمدنی موٹر سائیکلوں پر خرچ کرتا تھا۔ چھٹیوں میں دوستوں کے ساتھ نکل جاتا تھا اور جانے کہاں کہاں گھومتا رہتا تھا۔ ایک شام کو بارش ہو رہی تھی کہ اس کے دوست آ کر اسے ساتھ لے گئے۔ تین لڑکے تھے، اور ایک عورت۔ چمڑے کی جیکٹیں، چمڑے کی پتلونیں، اور چمڑے کے دستانے۔ بے ہنگم شکلیں، بڑی بڑی مونچھیں اور بے ترتیب داڑھیاں۔ میں نے منع بھی کیا لیکن اس نے کہا کہ بس گھنٹے بھر میں واپس آ جاؤں گا۔ گھنٹے سے پہلے ہی ہسپتال سے فون آ گیا۔‘
’اوہو، بہت افسوس ہوا۔ اور کوئی بچے؟‘
’اور کوئی نہیں۔‘
’اور کوئی نہیں۔‘
’اوہ۔‘ تھوڑی دیر تک خاموشی رہی۔
’اچھا پھر پارکنگ لاٹ میں کیا ہوا؟‘ ڈیرل نے پوچھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالات کا دروازہ ایک بار پھر کھلا اور ایک سارجنٹ نے بلند آواز سے پکارا۔
’این سیری، این سیری۔‘ انہیں امریکہ میں اسی نام سے پکارا جاتا تھا۔ نام کے بعد بھی کچھ کہا گیا لیکن انصاری کو اس کی سمجھ نہیں آئی۔ وہ اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ سارجنٹ نے اندر آ کر انہیں اور دو دوسرے قیدیوں کو پھر سے ہتھ کڑیاں لگا دیں اور پھر ہتھ کڑیاں ایک زنجیر کی مدد سے ایک دوسرے سے منسلک کر دیں۔ اب ان تینوں کی ہر حرکت ایک دوسرے کے تابع ہو گئی تھی۔پولیس والے نے تینوں کو لا کر عمارت سے باہر کھڑی وین میں بٹھا دیا۔ وین کے اندر آمنے سامنے سیٹیں تھیں۔ کھڑکیوں پر سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ شیشے سیاہ تھے جس کی وجہ سے باہر کا منظر دکھائی نہیں دے رہا تھا اور ویسے بھی اس وقت تک گہرا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ انصاری اور دونوں قیدی ایک طرف جب کہ سامنے والی سیٹ پر دو پولیس والے بیٹھ گئے۔ سفر خاصی دیر تک جاری رہا۔ انصاری نے گاڑی کی رفتار سے اندازہ لگایا کہ شاید وہ ہائی وے پر سفر کر رہے ہیں۔ پتا نہیں انہیں کہاں لے جایا جا رہا ہے؟ انہوں نے پولیس والوں سے پوچھنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے صرف اتنا کہہ کر خاموش کرا دیا کہ ’خود پتا چل جائے گا۔‘
کم از کم دو گھنٹے کے سفر کے بعد انصاری کو ایک بار پھر لمبی چوڑی کاغذی کارروائی سے گزارنا پڑا۔ انگلیوں کے نشان، تصاویر، معلومات کا اندراج۔ تاہم ایک فرق یہ تھا کہ اب کی بار انہیں پلاسٹک کے بیگ میں کچھ سامان بھی تھما دیا گیا۔ ایک جوڑا، کپڑے، ہوائی چپل، ایک ننھا سا ٹوتھ برش، ٹوتھ پیسٹ کے تین چار چھوٹے چھوٹے پیکٹ اور ٹافی کے سائز کا چوکور صابن۔ یہ حوالات نہیں بلکہ باقاعدہ جیل تھی۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں ایک کمرا اور بستر بھی الاٹ کر دیے گئے۔ جیل کے داخلے سے پہلے تلاشی کے ایک بے حد ناخوش گوار بلکہ شرم ناک عمل سے گزرنا پڑا، جسے انصاری مرگِ مفاجات کے تحت چپ چاپ سہہ گئے۔ پھر ان کا میڈیکل ہوا، بیماریوں کی تفصیل پوچھی گئی۔ آخر میں انہیں ایک کمرے میں لا کر چھوڑ دیا گیا جہاں چھ بستر تھے، لیکن کمرے میں ایک ہی شخص موجود تھا۔ اس کی عمر بیس سے زیادہ دکھائی نہیں دیتی تھی۔اس کا چہرہ سوجا ہوا تھا جیسے کسی نے اسے تھپڑوں کا نشانہ بنایا ہو۔ وہ ویت نامی تھا اور اسے انگریزی نہ آنے کے برابر آتی تھی۔ چناں چہ اس کے ساتھ گفتگو ہیلو ہائے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ انصاری اپنے بستر پر لیٹ گئے اور سونے کی کوشش کرنے لگے۔ ساری رات دوسرے کمروں سے قہقہوں اور باتوں کی آوازیں آتی رہیں۔ انہیں لگا جیسے بار بار بلند آواز سے نعرے بلند کیے جا رہے ہوں، جس کے بعد تالیاں اور سیٹیاں بجائی جاتی تھیں۔ ایک بار تو قریب ہی کسی وارڈ میں ہنگامہ سا پھوٹ پڑا اور درجنوں لوگ بلند آواز سے ’اوباما، اوباما‘ کی گردان کرنے لگے۔ یہ ہنگامہ اس وقت اور زور پکڑ گیا جب غالباً کسی محافظ نے آ کر سخت لہجے میں گالیاں دے کر انہیں چپ کرانے کی کوشش کی۔ جواب میں گالیوں کا طوفان آیا اور ساتھ ہی ’اوباما، اوباما‘ کی گردان بھی جاری رہی۔ نہ جانے کب تک یہ ہلڑ بازی چلتی رہی۔ رات کے کسی پہر انصاری نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
کم از کم دو گھنٹے کے سفر کے بعد انصاری کو ایک بار پھر لمبی چوڑی کاغذی کارروائی سے گزارنا پڑا۔ انگلیوں کے نشان، تصاویر، معلومات کا اندراج۔ تاہم ایک فرق یہ تھا کہ اب کی بار انہیں پلاسٹک کے بیگ میں کچھ سامان بھی تھما دیا گیا۔ ایک جوڑا، کپڑے، ہوائی چپل، ایک ننھا سا ٹوتھ برش، ٹوتھ پیسٹ کے تین چار چھوٹے چھوٹے پیکٹ اور ٹافی کے سائز کا چوکور صابن۔ یہ حوالات نہیں بلکہ باقاعدہ جیل تھی۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں ایک کمرا اور بستر بھی الاٹ کر دیے گئے۔ جیل کے داخلے سے پہلے تلاشی کے ایک بے حد ناخوش گوار بلکہ شرم ناک عمل سے گزرنا پڑا، جسے انصاری مرگِ مفاجات کے تحت چپ چاپ سہہ گئے۔ پھر ان کا میڈیکل ہوا، بیماریوں کی تفصیل پوچھی گئی۔ آخر میں انہیں ایک کمرے میں لا کر چھوڑ دیا گیا جہاں چھ بستر تھے، لیکن کمرے میں ایک ہی شخص موجود تھا۔ اس کی عمر بیس سے زیادہ دکھائی نہیں دیتی تھی۔اس کا چہرہ سوجا ہوا تھا جیسے کسی نے اسے تھپڑوں کا نشانہ بنایا ہو۔ وہ ویت نامی تھا اور اسے انگریزی نہ آنے کے برابر آتی تھی۔ چناں چہ اس کے ساتھ گفتگو ہیلو ہائے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ انصاری اپنے بستر پر لیٹ گئے اور سونے کی کوشش کرنے لگے۔ ساری رات دوسرے کمروں سے قہقہوں اور باتوں کی آوازیں آتی رہیں۔ انہیں لگا جیسے بار بار بلند آواز سے نعرے بلند کیے جا رہے ہوں، جس کے بعد تالیاں اور سیٹیاں بجائی جاتی تھیں۔ ایک بار تو قریب ہی کسی وارڈ میں ہنگامہ سا پھوٹ پڑا اور درجنوں لوگ بلند آواز سے ’اوباما، اوباما‘ کی گردان کرنے لگے۔ یہ ہنگامہ اس وقت اور زور پکڑ گیا جب غالباً کسی محافظ نے آ کر سخت لہجے میں گالیاں دے کر انہیں چپ کرانے کی کوشش کی۔ جواب میں گالیوں کا طوفان آیا اور ساتھ ہی ’اوباما، اوباما‘ کی گردان بھی جاری رہی۔ نہ جانے کب تک یہ ہلڑ بازی چلتی رہی۔ رات کے کسی پہر انصاری نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
اگلے دن ناشتے میں گتے کے کپ میں کڑوی کافی اور ساتھ دو توس ملے۔ بعد میں قیدیوں کو ورزش کے لیے لے جایا گیا۔ انصاری کے سر میں شدید درد تھا، لیکن دو بار محافظ سے درخواست کرنے پر بھی انہیں ڈسپرین یا ٹائیلینول نہ مل سکی۔ وہ سارا دن اپنے کمرے میں لیٹے رہے۔ اگلے سر کا درد تو رفع ہو گیا لیکن وہ کھانے اور ورزش کے اوقات کے علاوہ کمرے سے باہر نہیں نکلے اور اپنے بستر پر لیٹے رہے۔
پیر کی شام کو وہ ٹیلی ویڑن کے کمرے میں گئے تو کسی نے اچانک پیچھے سے ان کے کندھے پر دَھول مارا۔ مڑ کر دیکھا تو ڈیرل تھا۔
’ہے بڑے میاں، تمہارا خیال تھا کہ تم مجھ سے بچ نکلو گے۔ دیکھو کہاں آ کر پکڑ لیا میں نے تمہیں۔‘
’انصاری کو ایسا لگا جیسے ان کا کوئی پرانا بچھڑا ہوا عزیز مل گیا ہو۔
’ارے بھئی، تم یہاں کیسے؟‘
’ارے بھئی، تم یہاں کیسے؟‘
’بس دیکھ لو۔ یہ لوگ ہمیں ایک جگہ ٹکنے نہیں دیتے، ادھر ادھر گھماتے پھراتے رہتے ہیں۔‘
انصاری اور ڈیرل ایک طرف کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر تک پولیس اور جیل کی انتظامیہ کو مغلظات سے نوازنے کے بعد ڈیرل نے کہا۔
انصاری اور ڈیرل ایک طرف کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر تک پولیس اور جیل کی انتظامیہ کو مغلظات سے نوازنے کے بعد ڈیرل نے کہا۔
’وہ تمہارا قصہ بیچ ہی رہ گیا تھا۔ تم کہہ رہے تھے کہ بیوی سے لڑائی ہو گئی۔ مگر کیسے؟‘
انصاری خود پورا واقعہ سنانے کے متمنی تھے اور انہیں کسی قدر کوفت ہوئی تھی جب انہیں اچانک بیچ میں اٹھا دیا گیا۔ ’اوہ ہاں۔ میں نے تمہیں کہاں تک بتایا تھا؟ جب میں بیگم کے ساتھ ریستوران کے پارکنگ لاٹ میں پہنچا؟‘
انصاری خود پورا واقعہ سنانے کے متمنی تھے اور انہیں کسی قدر کوفت ہوئی تھی جب انہیں اچانک بیچ میں اٹھا دیا گیا۔ ’اوہ ہاں۔ میں نے تمہیں کہاں تک بتایا تھا؟ جب میں بیگم کے ساتھ ریستوران کے پارکنگ لاٹ میں پہنچا؟‘
’ہاں، پھر کیا ہوا؟‘ ڈیرل نے پوچھا۔
’میں نے ساری زندگی ایک ہی کام سیکھا تھا، اپنے جذبات پر قابو رکھنا۔ لیکن جب اس نے سرمد کا ذکر کیا اور اس کی موت کے لیے مجھے قصوروار ٹھہرانا چاہا تو مجھے پتا نہیں چلا کہ میرا ہاتھ گھوم گیا۔ دوسرے لمحے دیکھا تو وہ پارکنگ لاٹ کے فرش پر بیٹھی ہوئی زور زور سے چیخ رہی تھی۔‘
’ہوں۔ پھر؟‘
ہماری شادی کو چالیس سال ہو گئے ہیں، لیکن میں نے کبھی اس پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ لیکن پتا نہیں میرا دماغ بالکل سن ہو گیا تھا، مجھے یہ بھی خیال نہیں آیا کہ وہ بیمار اوربے حد لاغر تھی۔‘
’ہاں لیکن جو حالات تم بتا رہے ہو اس میں یہ بعید بھی نہیں۔ تو پھر پولیس کیسے پہنچی؟‘
’پتا نہیں۔ میں بیوی کو اٹھانے کے لیے نیچے جھکا تو دیکھا کہ ادھر ادھر سے چند لوگ قریب آ گئے ہیں، اور مدد کی پیش کش کر رہے ہیں۔ ان میں سے کسی نے فون ملا کر کسی سے بات کرنا شروع کر دی۔ میں نے بیوی کو کندھے سے پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی تو اس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ میں نے کہا بھی کہ تماشا نہ بناؤ، لیکن اس نے میری بات نہیں سنی۔‘
’تو کیا ان سالوں میں سے کسی نے پولیس کو فون کر دیا؟‘
’ہاں لیکن جو حالات تم بتا رہے ہو اس میں یہ بعید بھی نہیں۔ تو پھر پولیس کیسے پہنچی؟‘
’پتا نہیں۔ میں بیوی کو اٹھانے کے لیے نیچے جھکا تو دیکھا کہ ادھر ادھر سے چند لوگ قریب آ گئے ہیں، اور مدد کی پیش کش کر رہے ہیں۔ ان میں سے کسی نے فون ملا کر کسی سے بات کرنا شروع کر دی۔ میں نے بیوی کو کندھے سے پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی تو اس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ میں نے کہا بھی کہ تماشا نہ بناؤ، لیکن اس نے میری بات نہیں سنی۔‘
’تو کیا ان سالوں میں سے کسی نے پولیس کو فون کر دیا؟‘
’یہی ہوا ہو گا، کیوں کہ تین چار منٹ کے اندر اندر پولیس کار پہنچ گئی اور انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، مجھے پکڑ کر ہتھکڑی لگا دی۔ ‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انصاری کوئی بہتر گھنٹے اس جیل میں رہے۔ اس دوران انہوں نے امریکی جیلوں کی زندگی کے بارے میں چھ بے حد اہم سبق سیکھے:
1۔جیل میں تمام لوگ معصوم ہوتے ہیں، انہیں کسی نہ کسی غلط فہمی یا کسی دشمن کی سازش، پولیس کی چال، نسل پرستی یا اس جیسے کسی اور ناکردہ گناہ کی سزا کے طور پر گرفتار کیا جاتا ہے۔
2۔جیل سے دو سب سے زیادہ پوچھے جانے والے سوال: تم یہاں کس جرم میں بند ہو، اور پہلے کتنی بار جیل کاٹ چکے ہو؟
3۔جیل کے محافظ، جنہیں اصلاحی آفیسرز کہا جاتا ہے، دنیا کی سب سے گھٹیا، ذلیل اور قابلِ نفرت مخلوق ہیں۔ اور ان میں بھی خواتین اہل کار خاص طور پر بدتر ہیں۔
4۔جیل کے اندر جوا، منشیات، سود خوری، غرض ہر قسم کا کالا دھندا دھڑلے سے ہوتا ہے۔
5۔جیل میں ہر کوئی ہر کسی کو گالی دے کر مخاطب کرتا ہے۔ سب سے عام گالی نِگر ہے۔
6۔جیل کسی ناکارہ ٹائم مشین کی طرح کام کرتی ہے۔ یہاں گزارا ہوا ایک دن باہر کی زندگی کے ایک ہفتے کے برابر ہوتا ہے۔
2۔جیل سے دو سب سے زیادہ پوچھے جانے والے سوال: تم یہاں کس جرم میں بند ہو، اور پہلے کتنی بار جیل کاٹ چکے ہو؟
3۔جیل کے محافظ، جنہیں اصلاحی آفیسرز کہا جاتا ہے، دنیا کی سب سے گھٹیا، ذلیل اور قابلِ نفرت مخلوق ہیں۔ اور ان میں بھی خواتین اہل کار خاص طور پر بدتر ہیں۔
4۔جیل کے اندر جوا، منشیات، سود خوری، غرض ہر قسم کا کالا دھندا دھڑلے سے ہوتا ہے۔
5۔جیل میں ہر کوئی ہر کسی کو گالی دے کر مخاطب کرتا ہے۔ سب سے عام گالی نِگر ہے۔
6۔جیل کسی ناکارہ ٹائم مشین کی طرح کام کرتی ہے۔ یہاں گزارا ہوا ایک دن باہر کی زندگی کے ایک ہفتے کے برابر ہوتا ہے۔
اسی شام انصاری کو اطلاع ملی کہ ان کی ملاقات آئی ہے۔ وہ ملاقاتی کمرے میں گئے تو دیکھا کہ ریحانہ کرسی کا سہارا لیے مسکراتی ہوئی انہیں دیکھ رہی ہیں۔ ساتھ ہی گرے کوٹ اور سکرٹ پہنے ایک دراز قامت سنہرے بالوں والی عورت ہاتھ میں فائل تھامے کھڑی تھی۔ اس نے بڑی گرم جوشی سے انصاری سے ہاتھ ملایا۔
’میرا نام سلویا ہے۔ میں آپ کی وکیل ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ کو اس قدر وقت یہاں گزارنا پڑا۔ لیکن ہم ہر صورت میں کل آپ کو عدالت میں پیش کر کے ضمانت حاصل کر لیں گے۔‘
انصاری نے بیگم کی طرف دیکھا۔ ان کے چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ انہوں نے مسکرانے کی کوشش کی، لیکن ان کے پتلے پتلے ہونٹ کپکپا کر رہ گئے۔ ان کے منھ سے صرف اسی قدر بات نکل سکی۔ ‘کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟‘
انصاری نے بیگم کی طرف دیکھا۔ ان کے چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ انہوں نے مسکرانے کی کوشش کی، لیکن ان کے پتلے پتلے ہونٹ کپکپا کر رہ گئے۔ ان کے منھ سے صرف اسی قدر بات نکل سکی۔ ‘کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟‘
اسی دوران ایک محافظ نے آ کر ملاقات کا وقت ختم ہونے کی اطلاع دی۔ سلویا نے اپنی فائل میز سے اٹھا کر بغل میں دبا دی اور جاتے جاتے وکیل انصاری کو چند ہدایات دیں۔ انصاری خالی الذہنی کے عالم میں سنتے رہے۔ تاہم ایک بات پر وہ چونک گئے۔ سلویا کہہ رہی تھی۔
’ہر ممکن طریقے سے دوسروں سے الگ تھلگ رہیں۔ خاص طور پر کسی بھی ایسے شخص سے بات نہ کریں جو اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ ہمدرد بنا کر پیش کرے۔ دس میں سے نو ایسے لوگ مخبر ہوتے ہیں اور سگریٹ کی ایک ڈبیاکے عوض آپ کے راز پولیس تک پہنچانے میں ذرا بھر دریغ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں سے بچ کے رہیں کریں۔ آپ سمجھ گئے ہیں نا؟‘ وکیل نے انصاری کا تاثرات سے عاری چہرہ دیکھ کر پوچھا۔
’ہر ممکن طریقے سے دوسروں سے الگ تھلگ رہیں۔ خاص طور پر کسی بھی ایسے شخص سے بات نہ کریں جو اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ ہمدرد بنا کر پیش کرے۔ دس میں سے نو ایسے لوگ مخبر ہوتے ہیں اور سگریٹ کی ایک ڈبیاکے عوض آپ کے راز پولیس تک پہنچانے میں ذرا بھر دریغ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں سے بچ کے رہیں کریں۔ آپ سمجھ گئے ہیں نا؟‘ وکیل نے انصاری کا تاثرات سے عاری چہرہ دیکھ کر پوچھا۔
’بالکل، بالکل، مجھے کیا ضرورت پڑی ہے۔’ انصاری نے جلدی سے کہا اور دروازہ کھول کر محافظ کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔
یہ جیل کی زندگی کے بارے میں ان کا ساتواں اہم ترین سبق تھا۔