[blockquote style=“3”]
لالٹین پر یہ افسانہ “عالمی ادب کے اردو تراجم” کے تعاون سے شائع کیا جا رہا ہے۔ ہم یاسر حبیب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اس افسانے کی اشاعت کی اجازت دی۔
[/blockquote]
افسانہ نگار: او ہنری
ترجمہ: صغیر ملال
ترجمہ: صغیر ملال
وہ زمانہ گزر گیا جب جہنم کے ذکر پر ہمارے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھیں اور ہاتھ ٹھنڈے پسینے سے بھیگ جاتے تھے۔ سائنس دانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ جسے ہم خدا کہتے ہیں، وہ وقت ہے یا خلا ہے یا زمان و مکان کا مشترکہ نام ہے اور گناہ گاروں کو زیادہ سے زیادہ کسی کیمیائی ردِعمل کا سامنا کرنا ہو گا۔ یہ جدید عہد کا خوش گوار منطقی نتیجہ ہے لیکن قدیم عقیدے بھی بہرحال کہیں گہرائیوں میں اپنا اثر چھوڑ جاتے تھے۔
دنیا میں دو چیزیں ایسی ہیں جن کا نام لے کر، آپ بلا خوف تردید جو چاہے کہہ سکتے ہیں۔ یہ کہ آپ نے خواب میں کیا دیکھا اور یہ کہ آپ نے کسی طوطے کو کیا بولتے سُنا۔
تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں نے خواب میں کیا دیکھا۔
صورِ اسرافیل کی گونج کائنات کے طول و عرض میں پھیل چکی تھی اور ہم میدانِ حشر میں آخری فیصلے کے منتظر تھے۔ ایک فرشتے نے مجھے بازو سے پکڑا اور اُس طرف گھسیٹا جہاں دولت مند اور خوش حال دکھائی دینے والے چند انسانوں کا ایک گروہ فیصلے کا منتظر تھا۔
“غالباً تم اِن میں سے ہو۔” فرشتے نے اُس گروہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا۔
“غالباً تم اِن میں سے ہو۔” فرشتے نے اُس گروہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا۔
“یہ کون ہیں؟” میں نے پوچھا۔
“فرشتہ مجھے غور سے دیکھتے ہوئے بولا۔ “یہ وہ لوگ ہیں جو۔۔۔۔۔”
لیکن یہ مکالمہ بلا وجہ بات کو طول دے رہا ہے۔ مجھے اصل کہانی بیان کرنی چاہیے۔
لیکن یہ مکالمہ بلا وجہ بات کو طول دے رہا ہے۔ مجھے اصل کہانی بیان کرنی چاہیے۔
ڈولی ایک سُپر مارکیٹ میں کام کرتی تھی۔ وہاں وہ برتن بیچتی تھی۔ دودھ کے ڈبے بیچتی تھی، کھلونے بیچتی تھی۔ ہفتے کے اختتام پر اُسے اس کی تنخواہ کا نصف ادا کرکے پوری تنخواہ کی رسید پر دستخط لیے جاتے تھے۔ بقیہ تنخواہ کاغذات پر ڈولی کے نام ہونے کے باوجود کوئی اور لے جاتا تھا۔
ابتدا میں ڈولی کو نصف سے بھی کم تنخواہ ملتی تھی۔ آپ جاننا چاہیں گے کہ وہ نصف سے کم تنخواہ میں کیسے گزارہ کرتی تھی؟ کیا؟؟؟ آپ نہیں جاننا چاہتے! میرے خیال میں آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو صرف بڑی رقوم میں دل چسپی لیتے ہیں۔ تو چلیں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ نصف تنخواہ میں کیسے گزارہ کرتی تھی۔
ایک دوپہر سپر مارکیٹ سے نکلتے وقت ڈولی نے لباس کی شکنیں درست کرتے ہوئے ساتھی سیلز گرل کا بتایا کہ “خبیث” نے اُس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے اور آج شام وہ خبیث کے ساتھ ایک مشہور ہوٹل میں کھانا کھانے جائے گی۔
“تم بہت خوش قسمت ہو۔” اس کی سہیلی نے رشک آمیز لیجے میں کہا “خبیث بڑا زبردست آدمی ہے۔ وہ لڑکیوں کو زبردست جگہوں پر لے جاتا ہے۔ گرینڈ کلب جیسی جگہ۔ جہاں زبردست موسیقی اور زبردست لوگ ہوتے ہیں۔ تم خبیث کے ساتھ زبردست وقت گزارو گی۔
اس دن ڈولی جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتی تھی۔ اُسے شام کے لیے تیار ہونا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں چمک اور رُخساروں پر ہیجان کی گلابی رنگت تھی۔ اُس کے بٹوے میں گزشتہ ہفتے کی تنخواہ کے بچے ہوئے چند سکے تھے، سکے چھنکتے تو اُس کا چہرہ مزید نکھر جاتا تھا۔
شاہراہوں پر لوگوں کا ہجوم ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ سیکڑوں، ہزاروں یا شاید لاکھوں انسان سڑکوں پر دوڑتے چلے جارہے تھے۔ ڈولی اپنے بدن پر اَن گنت آنکھوں کا بوجھ محسوس کرتی چلتی رہی۔ رات کے وقت رنگ و نور سے لبریز ہو جانے والا مخصوص علاقہ آہستہ آہستہ جاگ رہا تھا۔ اس علاقے کی گلیاں پھول کی پنکھڑیوں کی طرح کھلنا شروع ہو گئی تھیں۔
شاہراہوں پر لوگوں کا ہجوم ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ سیکڑوں، ہزاروں یا شاید لاکھوں انسان سڑکوں پر دوڑتے چلے جارہے تھے۔ ڈولی اپنے بدن پر اَن گنت آنکھوں کا بوجھ محسوس کرتی چلتی رہی۔ رات کے وقت رنگ و نور سے لبریز ہو جانے والا مخصوص علاقہ آہستہ آہستہ جاگ رہا تھا۔ اس علاقے کی گلیاں پھول کی پنکھڑیوں کی طرح کھلنا شروع ہو گئی تھیں۔
ڈولی نے اپنے کمرے میں پہنچ کر چاروں سمت دیکھا۔ یہ قرینے سے سجا ہوا ایک کمرہ تھا۔ یہ کمرہ عام گھروں کے کمروں سے اس طرح مختلف تھا کہ اس کے مکین کے بھوکے سو جانے کی کسی کوخبر نہیں ہو سکتی تھی۔ ایک چھوٹا پلنگ، ایک میز، ایک کرسی، ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی ہوئی ایک لپ اسٹک اور پاؤڈر کا ڈبہ، دیوار سے آویزاں سالِ رواں کا کلینڈر، بستر پر پڑی کتاب جس کے سرورق پر جلی حروف میں “آپ کے خواب اور اُن کی تعبیریں” درج تھا۔ نمک اور کالی مرچ کی شیشیاں اور پلاسٹک کے بنے چند پھل جو ایک سرخ ریشمی ڈوری سے بندھے تھے۔ آئینے کے عین اوپر ایک فوجی کی تصویر رکھی تھی۔ جنرل مردانہ وجاہت کا نمونہ تھا۔ ڈولی اکثر تنہائی میں اس سے گفتگو کرتی تھی اور اسے پیار سےجنرل صاحب کہتی تھی۔
خبیث اُسے سات بجے لینے آئے گا۔ جب تک وہ تیار ہوتی۔ ہم منہ دوسری طرف کرکے خبیث کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔
اس کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ شہر کی لڑکیوں نے اس کا نام خبیث رکھا ہے۔ اُس کا بدن بہترین انسانوں جیسا اور روح درندوں کے مانند ہے۔ وہ نفیس کپڑے پہنتا اور مہنگے کھانے کھاتا ہے، اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فاقہ زدہ لوگوں کو فوراً پہچان لیتا ہے خاص طور پر لڑکیوں کے بارے میں تو اُس کا اندازہ کبھی غلط نہیں ہوتا۔ وہ کسی بھی لڑکی کو دیکھ کر بتا سکتا ہے کہ اس نے کتنے دنوں سے سوائے چائے اور روٹی کے کچھ نہیں کھایا ہے، وہ اکثر مہنگے بازاروں اور ڈیپارٹمنٹل اسٹوروں میں گھومتا نظر آتا ہے اور مجبور و محروم لڑکیوں کو شاندار جگہوں پر کھانے کی دعوت دیتا ہے۔ مختصراً یہ کہ وہ خبیث ہے۔ اُس کے متعلق زیادہ بات نہیں کروں گا میرا قلم آگے چلنے سے انکار کر دیتا ہے۔
ڈولی فی الوقت سب کچھ فراموش کر چکی ہے۔ اسے صرف یہ یاد ہے کہ وہ ایک خوبصورت لڑکی ہے۔ اور زندگی کے روشن پہلو اس پر عیاں ہونے والے ہیں۔ اُسے آج سے پہلے کسی خوش حال شخص نے اپنے ساتھ وقت گزارنے کی دعوت نہیں دی تھی۔ اب وہ بھی ان جگہوں کے لطف سے آشنا ہونے والی تھی۔ جہاں فقط مالدار لوگ جا سکتے ہیں۔ لڑکیاں بتاتی ہیں کہ خبیث بہت شاہ خرچ ہے۔ وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے صرف درجے اوّل ہی کی چیزیں خریدتا ہے۔ اور ایسے کھانے کھلاتا ہے جن کے نام لیتے ہوئے لڑکیوں کی آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے۔
کسی نے دروازے پر دستک دی۔ ڈولی نےدروازہ کھولا تو سامنے مالکِ مکان کو معنی خیز انداز میں مسکراتے پایا۔ “کوئی تمہیں ملنے آیا ہے۔” اُس نے آنکھ مار کر کہا۔ “اپنا نام مسٹر ڈکنس بتا رہا ہے۔” جو لوگ خبیث کو ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے وہ اسے اُس کے اصلی نام سے یہ پکارتے تھے۔
کسی نے دروازے پر دستک دی۔ ڈولی نےدروازہ کھولا تو سامنے مالکِ مکان کو معنی خیز انداز میں مسکراتے پایا۔ “کوئی تمہیں ملنے آیا ہے۔” اُس نے آنکھ مار کر کہا۔ “اپنا نام مسٹر ڈکنس بتا رہا ہے۔” جو لوگ خبیث کو ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے وہ اسے اُس کے اصلی نام سے یہ پکارتے تھے۔
ڈولی اپنا رومال اُٹھانے کے لیے کے لیے گھومی اور اچانک ٹھٹک گئی اس نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا لیا۔ آئینے میں نظر پڑتے ہی اسے محسوس ہوا کہ وہ پرستان میں ہےاور سو سال تک سوئی رہنے والی پری کی طرح اب آہستہ آہستہ آنکھیں کھول رہی ہے۔ آئینے کے اوپر سے اُسے وہ دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ جو اسے کسی بھی کام کا حکم دے سکتا تھا اور کسی بھی کام سے روک سکتا تھا۔۔۔ جنرل صاحب۔۔۔۔ آج جنرل صاحب کے دل کش چہرے اداسی کی جھلک نمایاں تھی۔ وہ ناراض لگ رہے تھے۔ ڈولی کچھ دیر تک جنرل کے چہرے کو غور سے دیکھتی رہی اور پھر روہانسی آواز میں بولی، “میں نہیں آ سکتی۔۔۔ کہہ دو میں بیمار ہوں۔۔۔ یا کچھ بھی کہہ دو۔۔۔ میں نہیں جاؤں گی۔”
جوں ہی دروازہ بند ہوا، ڈولی بستر پر منہ کے بل لیٹ کر رونے لگی۔ وہ دیر تک روتی رہی پھر خاموش ہو کر وقفے وقفے سے ہچکیاں لینے لگی۔ جنرل اس کا واحد دوست تھا۔ وہ ڈولی کے لیے مثالی مرد کی حیثیت رکھتا تھا۔ ڈولی اکثر اس سے خوابوں میں گفتگو کرتی تھی۔ اُس کے ساتھ دنیا کی سیر پر روانہ کھولنے پر اُسے جنرل کھڑا نظر آئے گا۔ وہ قدم پڑھائے گا تو اُس کے سینے پر سجے بہادری کے تمغے سرشار کر دینے والی آواز میں چھنکتے جائیں گے۔ اس جھنکار کی گونج میں وہ ڈولی کا بازو تھام کر اسے اس کی تنہائی اور گھٹن سے نجات دلائے گا۔ ایک بار تو اُسے گلی میں جنرل کے تمغے چھنکنے کی آواز سُنائی بھی دی تھی لیکن جب اُس نے کھڑکی کھول کر دیکھا تو محلے کا ایک لڑکا بجلی کے کھمبے سے لوہے کی زنجیر ٹکرا رہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ سب اُس کے ذہن کا فتور ہے۔ اُسے معلوم تھا کہ جنرل اس وقت جاپان میں ترکوں کے اپنی فوج کی قیادت کر رہا ہے اور وہ کبھی بھی اُس کے دروازے پر دستک نہیں دے گا۔ اُس کے باوجود جنرل کی ایک نظر نے اُس روز خبیث کو بھگا دیا تھا۔ کم از کم ایک رات کے لیے اُسے پسپا کردیا تھا۔
جب اُس کے آنسو خشک ہوئے تو وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ نیا لباس اُتار کر اس نے گھر کے سادے کپڑے پہنے، اور اس دوران اپنے پسندیدہ گانوں کے بول دہراتی رہی۔ اسے کھانے کی کوئی خواہش نہیں رہی تھی۔ اچانک آئینے میں اُسے اپنی ناک کے کونے پر ایک چھوٹا سا سرخ دھبا نظر آیا۔ کچھ دیر تک وہ اس دھبے کو غور سے دیکھتی رہی۔ یہ ایک بے ضرر داغ تھا۔ اس نے کندھے اچکائے اور سرخ نقطے سے لاتعلق ہوگئی۔ پھر اُس نے کمرے کی واحد کُرسی پر بیٹھ کر گود میں تاش کے پتے پھیلائے اور اپنی قسمت کا حال معلوم کرنے کے لیے کھیل میں مصروف ہو گئی۔
نو بجے کے قریب ڈولی نے چائے بنائی اور ڈبے سے بسکٹ نکال کر مزے سے کھانے لگی۔ ایک بسکٹ اس نے جنرل کی جانب بھی بڑھایا۔ لیکن جنرل اُسے یوں دیکھتا رہا۔ جیسے مصر کے اہرام اپنی آنکھوں کے سامنے منڈلاتی تتلی کو دیکھتے ہوں گے۔۔۔۔ اگر صحراؤں میں تتلیاں وجود رکھتی ہیں۔
“۔۔۔ نہیں کھانا تو کھاؤ” ڈولی نے اٹھلا کر کہا اور جنرل کی جانب بڑھایا ہوا بسکٹ اپنے منہ میں ڈال لیا۔” اور یہ تم اس طرح گھورنا چھوڑ دو جنرل صاحب۔ اگر میری طرح تمھیں بھی نصف تنخواہ ملے تو میں دیکھوں تم کتنا اتراتے ہو۔ چھ ڈالر میں ہفتہ گزار سکتے ہو؟”
ساڑھے نو بجے ڈولی نے آئینے پر رکھی تصویر پر آخری نظر ڈالی۔ بتی بجھائی اور بستر پر دراز ہو گئی۔ تنہائی اور دکھ کی زندگی میں جنرل کو شب بخیر کہنا آسان کام نہ تھا۔
یہ کہانی اصل میں کہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس کا بقیہ حصہ بعد میں آتا ہے، اس وقت جب خبیث ایک بار پھر ڈولی کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دیتا ہے اور اس مرتبہ پہلے سے کہیں زیادہ اکیلی اور اُداس ہے۔ اور اُسے پیٹ بھر کر کھانا کھائے کئی دن ہو چکے ہیں اور جنرل صاحب دوسری جانب دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔”
میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ میں نے خواب میں خود کو قیامت کے روز ایک گروہ کے قریب کھڑے پایا تھا۔ گروہ کے افراد نہایت خوش حال دکھائی دیتے تھے اور ایک فرشتے نے مجھے بازو سے پکڑ کر کہا تھا۔ “غالباً تم ان میں سے ایک ہو؟”
“یہ کون لوگ ہیں؟” میں نے پوچھا تھا۔
“یہ؟” فرشتے نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ “یہ وہ لوگ ہیں جو مجبور لڑکیوں کو ملازمت دے کر انہیں نصف تنخواہ ادا کرتے ہیں ۔ کیا تم ان یہ میں سے ہو؟”
“نہیں۔ نہیں۔ تمہاری لافانی زندگی کی قسم۔ میں ان میں سے نہیں ہوں۔”
میں نے گھبرا کر جواب دیا۔ “میں نے تو بس ایک یتیم خانے کو آگ لگائی تھی اور ایک اندھے فقیر کو اس کی رقم کی خاطر قتل کر دیا تھا۔”