Laaltain

کہتے ہو “کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں”

17 نومبر، 2016

[blockquote style=”3″]

Virtual Textual Practical Criticism “قاری اساس تنقید” کی مجموعی تھیوری کے تحت وہ طریقِ کار ہے، جس میں طلبہ کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ کسی نظم یا نظمیہ فارمیٹ کے متن پر عملی تنقید کیسے لکھی جائے۔ اس کے لیے شاعر کے نام کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔ (اگر ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن اس کے نجی حالات، سیاسی یا مذہبی خیالات، ہم عصر شاعری کی نہج یا ہم عصر شعرا کا تتبع یا مخالفت وغیرہم کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جانا ضروری ہے، گویا کہ آپ کو علم ہی نہیں ہے کہ یہ نظم کس شاعر کی ہے)۔صرف سامنے رکھے ہوئے متن پر ہی انحصار کرنے کے لیے یہ طریق ِ کار اختیار کیا جائے۔ متن میں مشمولہ تمام Proper and Common Nouns اسماء کے ہم معنی الفاظ، یعنی homonyms یا ان کے متبادل الفاظ کی فہرست تیار کر لی جائے۔ اب ہر اس اسم (اسم، اسم ِ ضمیر، اسم معرفہ، نکرہ، آلہ، تصغیر، تکبیر، وغیرہ) کے سامنے بنائی گئی فہرست کے ہر ایک لفظ کو استعمال کیے گئے لفظ کی جگہ پر رکھ کر دیکھا جائے کہ کون سا لفظ شاعر کی منشا یا مطلب کو براہ راست یا استعارہ یا علامت کے طور پر زیادہ واضح طور پر پیش کر سکتا ہے۔ اب تنقید لکھتے ہوئے ان الفاظ کو زیر ِ بحث لایا جائے اور آخری پیرا گراف میں اپنی findings تفصیل سے لکھی جائیں۔ اس طریق کار کے تحت تنقید کا مضمون یورپ اور امریکہ میں پڑھایا جا رہا۔ یہ منظوم سلسلہ “خامہ بدست غالب” غالب کے کلام کو Virtual Textual Practical Criticism کے تحت سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ ستیہ پال آنند

[/blockquote]

غالب کے اشعار پر ستیہ پال آنند کی نظموں پر مشتل سلسلے ‘خامہ بدست غالب‘ میں شامل مزید نظمیں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

شعر

 

کہتے ہو “کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں”
گویا جبیں پہ سجدہ ءِ بت کا نشان نہیں!!

 

نظم

 

لمبی نہیں ہے سرنوشت، روداد عمر کی
قصّہ، کہانی، داستاں، نقشہ حیات کا
فہرست پاپ پُنیہ کے کرموں کی تا حیات
گویا ہو خود نوشت کوئی روزنامچہ!

 

اے منکر و نکیر، جو تم دیکھ رہے ہو
یہ ڈاری نہیں ہے مرے سہو و گناہ کی
خالی ہی اک ورق ہے، کوئی تذکرہ نہیں
میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں، لکھتا بھی تو کیا!

 

ہاں، سامنے زمیں پہ جو گہرے نشان ہیں
(شاید تم ان کو دیکھ نہیں پائے، فرشتو!)
یہ یادگار میرے ہی سجدوں کی ہے، حضور
سجدے صنم پرستی کی جو باقیات ہیں
اب بھی زبانِ حال سے کہتے ہیں داستان
اُن سجدوں کی جو کرتا رہا ہوں میں عمر بھر!
کافی نہیں ہے کیا مری سچی یہ سر نوشت؟
(اس نظم میں دو بحور کے امتزاج کا چلن روا رکھا گیا)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *