[blockquote style=”3″]
ایروٹیکا ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں بڑے فنکارانہ انداز کوئی جنسی کہانی یا قصہ تحریر کیا جاتا ہے، دوسری بعض بڑی اصناف کے ساتھ یہ بھی مغرب سے ہمارے یہاں درآمد ہوئی۔ اس صنف میں لیکن بدقسمتی سے سنجیدگی کے ساتھ کچھ زیاده نہیں لکھا گیا جبکہ اردو میں پھوہڑ اور غیر دلچسپ جنسی کہانیوں کی بہتات ہے، پہلی سنجیده اور قابل ﺫکر ایروٹیکا اردو کے اہم افسانہ نگار بلراج مین را نے لکھی جس کا عنوان تھا، ‘جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے’، اس کے بعد ابھی تک ایسی کوئی سنجیده کوشش نہیں دیکھی جا سکی ہے۔ تصنیف حیدر نے اسی صنف میں ایک ناولٹ لکھنے کا اراده کیا ہے جسے قسط وار لالٹین پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے
[/blockquote]
باب-5
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
انتباہ: اس تحریر کے مندرجات صرف بالغ افراد کے لیے ہیں۔
میں کمرے کی چوکورپستانوں سے جھانکتا ہوا ایک واحد گواہ، بجھا اور اندیشوں سے بھرا اپنی آغوش میں سمٹا بیٹھا ہوں۔ باہر بہتی ہوئی ہواؤں، تڑختی ہوئی بوندوں اور بھائیں بھائیں کی آوازوں نے میرے کان سن کردیے ہیں، پیٹھ تر کردی ہے اور پانی اب رینگ کر میرے پیٹ اور منہ میں سیلن کی جھپکیاں لیتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔میں ٹھنڈ سے سکڑ گیا ہوں، اتنا کہ مجھ کو پہنائی گئی پلستر کی چادر پر کچھ شکنیں ابھر آئی ہیں۔کہانی دو کرداروں سے شروع ہوئی تھی، وہ دونوں اس وقت میری نگاہوں سے غائب ہیں۔لیکن میں ابھی ان کے بارے میں نہیں سوچ سکتا، یہ ایک تھکی ہوئی، بوجھل اور زنگ آلود رات ہے، جس میں میری رانیں بوندوں سے تر ہیں، میں اپنی نسوں میں چڑھتے ہوئے تاروں کی جھمک اور دھمک دونوں کو سن اور محسوس کررہا ہوں۔یہ رات آواز کے سارے موسموں پر کسی رقص کرتے ہوئے بگولے کی طرح حاوی ہوتی جارہی ہے۔انسانی ہاتھوں کے تراشے ہوئے لیمپ جل بجھ رہے ہیں، ان کی گرمیاں اپنے ٹھنڈے دائروں میں رقص کرتے کرتے ماند ہوئی جارہی ہیں اور ڈم اور بے جان اجالے کی یہ لہر اب گرتی پڑتی کسی طرح وجود کی رسیوں کو تھامے ہوئے کھڑی ہے۔
وقت دھیرے دھیرے آگے کی جانب پھسل رہا ہے، جیسے بالکنی میں زمین پر ڈھیر پانی کی لکیر آہستہ آہستہ خود کو آگے کی جانب دھکیل رہی ہے۔یہ دائرہ بڑھتے بڑھتے اس پورے فلیٹ کو اپنی نم مٹھیوں میں جکڑ لے گا۔ڈرائنگ روم میں پڑا ہوا صوفہ غنودگی میں ہے، اس نے اپنے اندر بھری ہوئی کترنوں اور روئیوں کو تھپک تھپک کر سلادیا ہے مگر ہوا کا آسیبی وجود چھوٹے چھوٹے چھیدوں سے اس کے پیٹ میں اتررہا ہے، صوفے کے پانئچے بھیگ گئے ہیں۔اس کی کڑھتی اور ٹھنکتی آوازوں نے کمرے کے اندر موجود تمام چیزوں کو ہوا کی اس بے رحم گدگدی کا احساس دلادیا ہے، جس سے بے دم ہوجانے والی تمام اشیا آج اپنے گلے چھیلنے پر مجبور ہوجائیں گی۔دروازے کا لوک کھر کھر کی مانوس صداؤں سے بھرا پڑا ہے، برتن بج رہے ہیں، گلک میں رکھی ہوئی ریزگاری کی جھنکار تیز ہوئی جارہی اورہے اس پورے ماحول میں ایسا لگتا ہے جیسے کوئی تیز بو ہم سب کے وجود میں سرایت کرتی جارہی ہے۔یہ کھراند ہے، بو کی ایک ایسی شکل جو تیزابی ہوا کرتی ہے، جس کے اندر بھرا ہوتا ہے پیلاپن، دھوا ں اور وہ گاڑھا جذبہ جو نتھنوں کی ہڈیاں نچوڑنے کا ہنر جانتا ہے۔ ہلکے ہلکے باریک پردے پینگیں بھر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے چھت کو چھو لینے کی ہڑک اچانک ان کے دل میں جاگ گئی ہو، اس پورے منظر میں صرف دو چیزیں ہیں، پانی اور ہوا۔پانی اور ہوا، جیسے کچ اور صدر۔دونوں نے لگتا ہے غائب ہوکر ان صورتوں میں اپنے آپ کو اجاگر کیا ہے،صدر کا ڈھلتا، ڈوبتا اور تیرتا، اچھلتا وجود اگر پانی ہے تو کچ کا انگڑائیاں لیتا، اٹھکیلیاں کرتا، دھکیلتا اور بھرتا ہوا وجود ہوا کی طرح ابل رہا ہے۔جوانیوں کے اس عظیم نشے میں دونوں کی طاقتیں اور اختیار بڑھ کر خدا کا روپ دھار چکے ہیں، وہ ایک دوسرے میں ضم ہوئے جارہے ہیں اور اپنے بوسوں، تھپکیوں، ناخنوں اور نکیلے دانتوں سے خود کو گھائل کیے جارہے ہیں۔مگر وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ اب ان کا کوئی بدن نہیں ہے، بس وہ ایک دوسرے کے اندر اتر سکتے ہیں، کچ جب صدر کے سینے پر پاؤں رکھتی ہے تو اس کی آنکھوں میں چمکتے ہوئے بلبلے روشن ہوجاتے ہیں، صدر جب کچ کی ہتھیلیوں کو پکڑنا چاہتا ہے تو اس کی ماورائی، چکنی اور سرد جلد مجبوراً اس کے اپنے ہاتھ کو شرمگاہ کی عمق تک لے جاتی ہے۔کانچ پر، چمڑے پر، برف پر، چونے کی ایک پتلی چادر پر ہرجگہ ان کا حیوانی جنون جنگلی قبائل کے سیاہ خون میں لتھڑے ہوئے نوالوں کی طرح چبتا ہوا محسوس ہورہا ہے، جیسے داڑھیں چچڑی ہوئی کسی ہڈی کو دبا دبا کر سارا رس نکال رہی ہوں۔تمام جگہیں ان کے نشانات سے بھر گئی ہیں۔وہ کبھی سیلنگ فین کے اوپر، کبھی گدوں کے اندر، کبھی فرج کے پیچھے تو کبھی برتنوں کے بیچ اپنے جنسی عمل کو انجام دے رہے ہیں۔وقت کے اس تیز پہیے میں انہیں بس اس ایک لذت سے سروکار ہے، جس کے لیے انہوں نے اچانک ایک سوتے ہوئے چمکدار چاقو جیسے شانت منظر پر دھاوا بول دیا ہے۔انہوں نے کپڑوں سے اس حد تک بغاوت کی ہے کہ جلد کو بھی درمیان سے ہٹادیا ہے،مگر اب بھی ان کی پیاس کا صحرا جوں کا توں، بچھوؤں کے رینگتے ہوئے کانٹے دار قدموں، مکڑیوں کے گول گھومتے ہوئے وجود اور ہرنوں کے کریدتے ہوئے پنجوں سے آباد ہے۔میں اب اس منظر کی تاب نہیں لا سکتا، ان کے لعاب کی چھینٹیں میرے منہ پر بھی اڑتی ہوئی آئی ہیں۔اور میرا باہر کو جھکا ہوا منہ اب اس ذلت پر کچھ لٹک گیا ہے، آنکھوں میں دھندلاہٹ بھر گئی ہے، کچھ صاف نظر نہیں آرہا، بس ایک ترش احساس اپنی شکست کا ہے،اپنے بے جان اور جکڑے ہوئے ہونے کا، اپنی بے قدمی اور بے جگری کا۔پھر بھی میری آنکھیں کھلی ہوئی ہیں، اس انجام کو دیکھنے کے لیے جو اس کمرے میں قید رات کا مستقبل ہے۔کڑھے ہوئے سینوں کے اندر شاید ایک آگ ہوتی ہے، میرے اندر بھی وہی آگ موجود ہے، کیونکہ میں اس وقت اپنی بینائی پر پانی کا پہرا دیکھ رہا ہوں، ایک ایسی گیلی چادر، جس نے میری آنکھوں میں موجود روشنی کو اپنے پیٹ میں اتار لیا ہے اور میری بینائی اس بڑے سے گول اور چکنے، پھیلے منظر سے باہر کی ہر ایک شے کو دیکھنے سے قاصر ہے،بس کچھ نشانات سے نظر آرہے ہیں، جن کو میں اندازے کے طور پر استعمال کررہا ہوں اور کہانی کو جوڑ توڑ کر اپنے لفظوں میں بیان کرنے کی ادھوری سی کوشش۔میری بینائی اگر چلی بھی جائے تب بھی میں اس روایت کو بیان کرنے سے دستبردار نہیں ہوسکتا، جب تک میری سماعتوں کا بھی وہی حشر نہ ہو، جو میری آنکھوں کا ہوا ہے۔کچ اور صدر اب زمین پر لیٹے ہوئے نہ جانے کیوں پنجے چلا رہے ہیں، ایسے میں اڑتا ہوا پانی میری آنکھوں پر مزید موٹی پرت بنارہا ہے۔میرے ہاتھ سے اندازوں کی شیشیاں بھی چھوٹتی جارہی ہیں اور میں انہیں اٹھانے سے قاصر ہوں۔
اس گیلے منظر میں چرمراہٹ کی سوکھی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا، میں جانتا تھا کہ آنے والا جو بھی ہے وہ کچ اور صدر میں سے ایک ہے، مگر کون ہے، یہ بتانے سے قاصر ہوں،شاید وہ اندر داخل ہوکر کہیں بیٹھ گیا ہے، صوفے پر یا کہیں اور۔۔۔میرے خیال میں اسے صوفے پر ہی بیٹھنا چاہیے کیونکہ زمین تو اس وقت بہت بھیگی ہوئی ہے، وہ اینڈا بینڈا انسانی ہیولا بیڈ پر بھی نہیں گیا تھا۔پتہ نہیں اس نے جلتی بجھتی روشنی کے تپتے ہوئے زخموں کو ابھی تک ہاتھ کیوں نہیں لگایا تھا۔کچھ وقت یونہی بیت گیا، اتنا ہی اداس، بے جان، بے ضمیر اور روکھا۔جیسے اس وقت کو پانی کی کوئی بوند نہ چھو پائی ہو، سوکھے ہوئے گلے کی طرح اس کے اندر کی رگیں چٹخ رہی ہوں اور اس سرد،پراسرار اور دھندلے اجالے میں بھی ا س کے اندر کی حرارت برف سے تھپے ہوئے منظر میں جلتی ہوئی چمنیوں کی طرح روشن ہو۔وہ ہیولا کچھ دیر بعد اٹھا اور مرے بدن کے پاس آکر ایک تصویر کو گھورنے لگا، اس کی انگلیاں میرے جسم پر رینگ رہی تھیں، میں انگلیوں کی دبازت کو محسوس کررہا تھا مگراس سن جسم کے اندر آنچ کی شناخت کرکے اس شخص کا نام بتاسکنا اس وقت میرے لیے ممکن نہیں تھا۔میرے بدن سے ادھڑے ہوئے پلاستر کو اس نے کہیں کہیں سے نوچ کر پھینک دیا۔ میں اس وقت اس کی جسامت، لطافت اور کثافت کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اندرون اور بیرون کی ہرچیز پھیلتی اور سکڑتی جارہی تھی۔نہ جانے کتنی دیر تک وہ انگلیاں میرے بدن پر مختلف قسم کی لکیریں کھینچتی رہیں، ان کی تپن مرے اندر ذرا بھی حرارت نہ پیدا کرسکی۔پھر وہ ہٹ گئیں، شاید میرے ماتھے پر سجی ہوئی تصویر کا سارا رس پی لینے کے بعد اس ہیولے کو کسی اور بات کا خیال آگیا تھا۔اچانک میرے نیند میں ڈوبے ہوئے دماغ کے کسی گوشے میں چنگاری کی طرح ایک سوال سلگ کر پھر ماند ہوگیا، کہیں یہ کوئی چور تو نہیں۔جو سیاہ رات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مالک مکان کی عدم موجودگی میں اس وقت یہاں آپہنچا ہو۔میں نے بہت غور کیا کہ کیا میں نے چابیوں کے کھنکنے کی کوئی آواز سنی تھی، مگر ایسا نہیں تھا، پھر مجھے خیال آیا کہ صدر دروازے کو تالا لگا کر گیا تھا یا اس نے محض آٹو لوک کی مدد سے جز وقتی طور پر دروازے کو بھیڑ دیا تھا۔ کچھ دیر بعد مجھے باتھ روم سے آتی ہوئی شرر شرر کی آوازیں محسوس ہوئیں، اس ٹھنڈک میں نہانے کا خیال برسات میں بھیگے اور کپوئے ہوئے کسی بدن کو ہی آسکتا ہے، ٹنکی کی حبس زدہ آنتوںمیں موجود پانی ضرور اتنا گنگنا تو ہوگا جس سے بدن کی سرد شکنوں کو واپس سوئی ہوئی موجوں میں تبدیل کیا جاسکے۔شاید اسی طرح اس کپکپکی کا احساس کم کیا جاسکتا ہے، جو سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے، جسم کو سنسان اور برفیلے پہاڑوں میں تبدیل کردیتی ہے، بدن کا سارا پانی شرمگاہوں سے ہوتا ہوا رانوں کے طشت کو بھگونے پر آمادہ ہو جاتا ہے، گھٹنوں کی کٹوریاں بجنے لگتی ہیں، پنڈلیاں لڑکھڑانے لگتی ہیں اور انسان اپنے دونوں بازو وؤں کو خود سے لپٹائے ضرب کے نشان کی صورت اس سرد و سفید احساس میں گھل کر خود اندھیرے کا نمائندہ بنتا چلا جاتا ہے۔
کوئی چور باتھ روم نہیں جاسکتا، کم از کم نہانے کی غرض سے تو بالکل نہیں۔اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا۔وہ سردی کی دھوپ کی طرح جلد باز ہوتا ہے، جو زمین پر بکھرے رنگ برنگے تماشے چرا کر تیزی سے مغرب کی طرف چھلانگ لگادیتی ہے اور اندھیرے کی غلام گردشوں میں چکر لگاتے سپاہیوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے پیٹھ پیچھے کب صبح آئی، دوپہر تک رکی اور شام ہونے سے پہلے ہی رخصت ہوگئی۔مجھے محسوس ہوا کہ ابھی اندازے کی کچھ شیشیاں میرے ہاتھ میں ہیں، جو اتنی بھی بے کار نہیں ہیں، جتنا کہ میں سمجھ رہا تھا۔بہرحال، ایک بدن، سائے کی صورت ہلکے سے دوڑتا ہوا بیڈروم میں پہنچا،دھاڑ سے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی، میں بے انتہا دھندلی نظر کے باوجود دیکھ سکتا تھا کہ دروازے کی نچلی درار سے نکلتی ہوئی روشنی نے ایک بے نام رنگ کی چادر میں دیواروں پر بہت سے سیاہ قد اگادیے ہیں، وہ سیاہ قد کن چیزوں کے تھے، یہ میں نہیں بتا سکتا۔کچھ دیر بعد پانی کی لہریں ختم ہوگئی تھیں،نظر دھندلی ضرور تھی، بدن سرد ضرور تھا، مگر دیوار میں زندہ دفن کردیے جانے والے ایک قیدی کی طرح میری ایک ہی خواہش تھی کہ میں دیکھوں کہ ان دونوں میں سے وہ کون سا کردار ہے، جو پلٹ آیا ہے۔اس معاملے میں اندازے کی کوئی شیشی میرے کام نہ آئی تو میں نے جھلا کر انہیں سامنے کے آئنے سے دے مارا، اس میں چٹاخ کی آواز کے ساتھ ایک ہلکی سی خراش پیدا ہوگئی۔صبح اب اپنے جلو میں ایک نم اور افسردہ اجالے کو لے کر بہت آہستگی سے تھکے ہوئے جنسی حیوانوں اور سوتے ہوئے دربانوں کی موجودگی میں مختلف رنگ کے تماشوں کو سمیٹنے کی خواہش لیے اس طرف بڑھنے کا ارادہ کررہی تھی، اس نے کرنوں کے ایک بہت چھوٹے سے وفد کو زمین کے گھنگھور اور گہرے غصے کا اندازہ کرنے کے لیے بھیجا تھا، جن میں سے دو چار کرنیں، شانت اور ڈوبے ہوئے پانی کی سطح پر بیٹھیں چھپ کر بیٹھی ہوئی کرنوں کو اشارے سے بلارہی تھیں۔کہیں کوئی خطرہ نہ تھا۔ہوا کا سائرن کافی دھیمے انداز میں اب بھی بجے رہا تھا۔میں اس پورے تماشے میں بری طرح تھک گیا تھا، اب میرے بدن پر اگ آنے والے چھالوں نے مجھے اور زیادہ زخمی ہونے کا احساس دلایا۔ایسے میں کمرے سے ہلکی موسیقی میں ابھرتی ہوئی آواز کی کچھ لہریں دروازے کی نچلی درار سے تیرتی ہوئی باہر نکل رہی تھیں۔
راہ تکے من ہارے نہیں
اب کوئی کہیں ہے، کوئی کہیں
کیوں راہ تھکے من ہارے نہیں
جب ان سے آمنا سامنا تھا
تب چنچل دل کو تھامنا تھا
کیوں پریم کے بھید ابھارے نہیں
اب راہ تکے من ہارے نہیں*
اب کوئی کہیں ہے، کوئی کہیں
کیوں راہ تھکے من ہارے نہیں
جب ان سے آمنا سامنا تھا
تب چنچل دل کو تھامنا تھا
کیوں پریم کے بھید ابھارے نہیں
اب راہ تکے من ہارے نہیں*
بھیدوں بھرے ان بولوں کو سنتے سنتے میری پلکیں بوجھل ہونے لگیں، بدن تو نہ جانے کب سے سن تھا، دھوپ اب کمرے میں گھس آئی تھی، میرے پیروں سے لپٹا ہوا پانی اب معلوم ہوتا تھا پنجوں کی سنکائی کررہا ہے۔دھوپ زخموں اور چھالوں پر مرہم لگانے لگی۔آخری منظر جو میں نے دیکھا وہ سلائڈنگ میں اڑتی ہوئی ایک بھنبھیری تھی۔ہرے رنگ کی، پھرپھر کرتی، تیز اور آزاد، بالکل کچ اور صدر کی طرح۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*میرا جی کا گیت