[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
شکاری چینل
[/vc_column_text][vc_column_text]
فضاؤں میں بارود اور فاسفورس کی بو تحلیل ہو کر
مٹیالے غبار کی صورت اوپر کو اٹھتی ہے
جمے ہوئے خون اور جلتے گوشت کی چراند
کہیں سے آ رہی ہے جیسے یہ باس دماغ میں بس گئی ہے
کچھ دن سے کسی خود کش بمبار نے دھماکا نہیں کیا ہے
کوئی نئی اور سستی سنسنی خیز خبر کے انتظار میں
سادیت پسند شہری جماہی لیتے ہوئے چینل بدل رہا ہے
شکاری چینل کو اپنی ریٹنگ کی فکر ہے
کسی مارننگ شو کی پریزنٹر کی بے ہنگم ہنسی کا تسلسل
کراہتے چیختے زخموں کو چھیلیتی سی محسوس ہوتی ہے
لہجوں میں تھکن اترتی چلی جاتی ہے
مگر طوفان ہاؤ و ہو میں شل ہوتے اعصاب کا پتا نہیں چلتا
جیسے کسی جنگل میں جا نکلے
گیڈر وں کی اونچی آوازیں
اور بھی تیز اور تیز ہوگئی ہوں
جھینگروں کا شور اور بہتے جھرنوں کی مدھم لہریں مٹ چکی ہیں
بس سرسراتے سانپوں کی لپلپاتی زبانیں
تہذیب کے سینے سے گرتا لہو چاٹ کر
اور بھی توانا ہوتی جا رہی ہیں
پھر خاموشی سی چھا جاتی ہے
گہرا سکوت جیسے طوفان کی آمد سے پہلے شور تھم جائے
یکایک
سناٹا تڑاخ کی آواز سے چٹخ جاتا ہے
زناٹے دار تھپڑ کی بازگشت فضاء کو چیر جاتی ہے
ایکبارگی ہر طرف سکتہ چھا گیا ہے
مگر سرگوشیاں پھر سے تیز ہونے لگتی ہیں
کانٹوں بھری زبان
یہی ہونا چاہئے تھا اس کے ساتھ
نہیں نہیں کچھ بھی ہے
چہرہ تو پھول جیسا ہے
، عورت پر ہاتھ نہیں اٹھاتے
پھر سب کچھ گڈ مڈ ہونے لگتا ہے
سادیت پسند شہری
تھپڑ والا منظر ریوائنڈ کر کے دیکھتا ہے
شکاری چینل کو خبر مل گئی ہے
تہذیب و تمدن گلے مل کے روتے ہیں
اور اسمارٹ ریموٹ کے بٹن دبا کر
قدیم دیو مالائی چینل دیکھنے لگتے ہیں
مٹیالے غبار کی صورت اوپر کو اٹھتی ہے
جمے ہوئے خون اور جلتے گوشت کی چراند
کہیں سے آ رہی ہے جیسے یہ باس دماغ میں بس گئی ہے
کچھ دن سے کسی خود کش بمبار نے دھماکا نہیں کیا ہے
کوئی نئی اور سستی سنسنی خیز خبر کے انتظار میں
سادیت پسند شہری جماہی لیتے ہوئے چینل بدل رہا ہے
شکاری چینل کو اپنی ریٹنگ کی فکر ہے
کسی مارننگ شو کی پریزنٹر کی بے ہنگم ہنسی کا تسلسل
کراہتے چیختے زخموں کو چھیلیتی سی محسوس ہوتی ہے
لہجوں میں تھکن اترتی چلی جاتی ہے
مگر طوفان ہاؤ و ہو میں شل ہوتے اعصاب کا پتا نہیں چلتا
جیسے کسی جنگل میں جا نکلے
گیڈر وں کی اونچی آوازیں
اور بھی تیز اور تیز ہوگئی ہوں
جھینگروں کا شور اور بہتے جھرنوں کی مدھم لہریں مٹ چکی ہیں
بس سرسراتے سانپوں کی لپلپاتی زبانیں
تہذیب کے سینے سے گرتا لہو چاٹ کر
اور بھی توانا ہوتی جا رہی ہیں
پھر خاموشی سی چھا جاتی ہے
گہرا سکوت جیسے طوفان کی آمد سے پہلے شور تھم جائے
یکایک
سناٹا تڑاخ کی آواز سے چٹخ جاتا ہے
زناٹے دار تھپڑ کی بازگشت فضاء کو چیر جاتی ہے
ایکبارگی ہر طرف سکتہ چھا گیا ہے
مگر سرگوشیاں پھر سے تیز ہونے لگتی ہیں
کانٹوں بھری زبان
یہی ہونا چاہئے تھا اس کے ساتھ
نہیں نہیں کچھ بھی ہے
چہرہ تو پھول جیسا ہے
، عورت پر ہاتھ نہیں اٹھاتے
پھر سب کچھ گڈ مڈ ہونے لگتا ہے
سادیت پسند شہری
تھپڑ والا منظر ریوائنڈ کر کے دیکھتا ہے
شکاری چینل کو خبر مل گئی ہے
تہذیب و تمدن گلے مل کے روتے ہیں
اور اسمارٹ ریموٹ کے بٹن دبا کر
قدیم دیو مالائی چینل دیکھنے لگتے ہیں
Image: Sabir Nazar
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]