Laaltain

نکلسن لاٹ کی یاترا

26 اکتوبر، 2016
اسلام آباد سے ٹیکسلا جاتے ہوئے کچھ بیس منٹ کی دوری پہ جی ٹی روڈ کے کنارے مارگلہ کی ایک پہاڑی کی چوٹی پر تاریخ کے ایک قد آور کردار کی بلند تر یادگاری لاٹ کسی بے بازو سورما کی طرح سر بلند کیے ہوئے سن اٹھارہ سو اڑسٹھ سے ہر آتے جاتے کو مسلسل گھور ے جارہی ہے۔ تاہم بہت سالوں سے ہمارا اجتماعی چلن یہ صورت اختیار کرگیا ہے کہ ہم فوری متعلقہ اشیا کے علاوہ ہر شے سے نظر چرا کے چلتے ہیں۔ ایسے میں یہ لاٹ بھی ہماری بے اعتنائی کا شکار ہو کر آج یوں اجنبی سی ہو چکی ہے کہ لگتا ہے جیسے چالیس فٹ بلند پتھر کا یہ مینار کسی خلا میں بے سابقہ و لاحقہ معلق ہے۔ یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بریگیڈئیر جنرل جان نکلسن کی یادگاری لاٹ کا ذکر ہو رہا ہے۔ جان نکلسن سلطنت انگلیشیہ کے ان سپاہیوں میں سے تھا جو اپنے بعد آنے والے سپاہیوں کی کئی نسلوں کے لیے درجہ ء معیار کی حیثیت اختیار کر گئے۔ وہ محض سپاہی بھی نہ تھا۔ چیف کمشنر پنجاب سر ہنری لارنس کے ماتحت سول سرونٹس کے اس نوجوان ٹولے کا سرکردہ رکن بھی تھا جو ‘ لارنس کے جوان’ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اس حیثیت میں نکلسن نے پنجاب اور موجودہ خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں حکومتی بندوبست، امن و امان کے قیام اور روزمرہ زندگی کی بحالی میں نمایاں کردار ادا کیا۔

 

بریگیڈئیر جنرل جان نکلسن ایک عہد ساز سپاہی تھا
بریگیڈئیر جنرل جان نکلسن ایک عہد ساز سپاہی تھا
نکلسن سے میرا پہلا مختصر تعارف بچپن میں رضا علی عابدی کے سفرنامے جرنیلی سڑک سے ہوا تھا لیکن یہ سرسری تعارف نہاں خانہء خیال میں ہی دبا رہا یہاں تک کہ کچھ مدت پہلے ہندوستان کے نامور مصنف راج موہن گاندھی کی کتاب تاریخ پنجاب پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ گاندھی نے ہندوستان میں نکلسن کے تاریخی کردار پر کافی معلومات فراہم کی ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد میں کبھی کبھی نکلسن کے بارے میں کچھ نہ کچھ پڑھتا رہتا اور اسی دوران میں نے اس لاٹ کو دوبارہ سے دریافت کیا جس کا پہلا تعارف جرنیلی سڑک سے ہوا تھا۔ دو ماہ پہلے اسلام آباد نقل مکانی کی تو یہ خواہش پیدا ہوئی کہ نیت ہر چند عبرت نگاہی نہ سہی پر یہ لاٹ دیکھنی چائیے۔ منصوبہ بنتے بنتے بالآخر گذشتہ شب یہ طے پایا کہ علی الصبح نکلسن کی لاٹ یاتر ا پر نکلا جائے اور طلوع آفتاب اس سلطنت سے مستعار بلند یادگاری چبوترے سے ملاحظہ کیا جائے جس پر کبھی سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ پانچ بجے کا وقت مقرر ہوا اور نواز خان خٹک ٹیکسی ڈرائیور کے ذمہ لگایا گیا کہ وہ اس سفر پر ساتھ چلیں تو بہ مثل غالب ایک حج کا ثواب حضور کی نذر ہو گا۔ صنوبر سہیل، اسد رضا، شوذب عسکری اور راقم اس ٹولے کے جملہ ارکان تھے۔ صبح نواز خان کے آنے سے پندرہ منٹ پہلے مجھے جگایا گیا تو اس وقت مجھے سوئے کچھ نصف گھنٹہ بیت چکا تھا۔ ہڑبڑا کے اٹھا اور اکتا کے کہا ‘نام خدا! وقت معین پر تو مردے ہی اٹھائے جائیں گے اور ہم ٹھہرے زندہ۔ پس ہم اپنی بیداری کا فیصلہ دوران استراحت خود کرتے ہوئے اپنی مرضی سے ہی اٹھنا چاہیں گے”۔ اس بے جواب تکلم کے دوران جب ہم نے سامنے سے اسد رضا کو جاگتے دیکھا اور دفعتا” نواز خان کا بجایا ہارن کان میں پڑا تو ہوش آیا۔ لمحہ بھر میں صنوبر، اسد اور راقم تیار ہو کر گاڑی میں جا بیٹھے۔ شوذب عسکری نے عین اٹھائے جانے پر غم فراق کا بہانہ بناتے خود کو تکلیف سیر باغ سے عاجز بتایا اور بستر میں ہی رہ گیا۔ پو پھٹنے میں ابھی کافی وقت تھا۔ سڑکیں ویران پڑی تھیں اور چاند چمک رہا تھا۔ اس لمحے مجھے باہر جھانکتے یہ خیال آیا کہ یہ وقت اس یاترا کے لیے نہایت موزوں ہے کہ ہنگامہ امروز ابھی شروع نہیں ہوا لہذا ذہن کو حال سے ماضی کے سفر میں سہولت رہےگی۔ بیدار ہوتے ہی چونکہ میں نے چائے طلب کی تھی بصورت دیگر گاڑی میں سو جانے کی دھمکی دے ڈالی تھی سو اب راستے میں کہیں کسی ٹرک ہوٹل سے چائے نوش کرنے کا ارادہ بنا۔ نواز خان خٹک کہ ایک شرمیلے کم گو پشتون جوان ہیں ہمیں ایک ہوٹل پر لے گئےجہاں ہم نے چائے بنانے کا کہا اور چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر میں چائے آ گئی۔ صنوبر چونکہ چائے نہیں لیتیں سو ان کے حصے کا کپ بھی ہم باقی تین افراد نے بانٹ کر نوش کیا۔ اس دوران صنوبر تصاویر لیتی رہیں۔ فدوی کا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس موقع ان کا تصویریں لینا وہی جوش پیدا کررہا تھا جو اگلے زمانے کے لشکر وں میں دف بجاتی عورتوں کے رزمیے کیا کرتے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم دوبارہ سے عازم سفر ہوئے۔ اسد رضا موبائل پر گوگل کی وساطت سے نائب رہبر کا کردار ادا کر رہے تھے اور ہر پچاس گز بعد باقی ماندہ فاصلہ ازخود بتاتے جارہے تھے۔ دائیں طرف مارگلہ کے پہاڑ قریب سے قریب آ رہے تھے۔ جب اسد رضا نے آٹھ سو میٹر کا اعلان کیا تو دفعتہ ہماری نگاہ سڑک کے بائیں ہاتھ ایک چھوٹے پہاڑ کے سر پر گڑے اس مینار پر پڑی جو ہماری منزل تھا۔ نواز خان نے تائید کی۔ اس مقام پر جی ٹی روڈ ذرا سا خم کھاتی ہے اورلاٹ لگے پہاڑ کے پاس تھانہ مارگلہ اور تھانہ ترنول کی حدود ملتی ہیں۔ ہم لاٹ پر نظریں گاڑے اس پہاڑ کے ساتھ سے ہی گزر رہے تھے۔ اوپر جانے کا راستہ کسی کو معلوم تو نہ تھا پر نواز خان کا خیال تھا کہ وہ ذرا آگے ہے۔ اسی جگہ پولیس کا ایک ناکہ بھی ہے۔ ہم نے گاڑی وہاں کھڑی کی۔ میں اتر کر قریب ہی ایک دکان سے جوس وغیرہ لینے گیا۔ اس دوران صنوبر اور اسد نے ڈیوٹی پر موجود اہلکار سے اوپر جانے کا رستہ پوچھا تو اس نے جھٹ سے کامل لاعلمی کا اعتراف کرتے ہوئے رستے کے ”یہیں کہیں ہونے ”کا خیال ظاہر کیا۔ وہ دونوں وہاں سے ہٹ کر دکان پر میرے پاس آئے۔ بالکل سامنے ایک راستہ صاف اوپر کی طرف جا رہا تھا۔

 

نواز خان نے موقعہ غنیمت جانا اور نیند پوری کرنے گاڑی میں ہی لیٹ گیا۔ پشتونوں سے نکلسن کا سیر وتفریح کا سلسلہ ویسے بھی پہلی اینگلو افغان جنگ یعنی اٹھارہ سو بیالیس کے بعد سے منقطع ہے۔ نکلسن غزنی کی اس برطانوی سپاہ کا حصہ تھا جس نے افغان قبائلیوں کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے اور قیدی بنا لیے گئے تھے۔ تاہم اس جنگ میں نکلسن کی جانثاری کی متعدد روایات بھی موجود ہیں۔ بہرحال یہ اس کا پہلا باقاعدہ جنگی تجربہ تھا۔ اس واقعہ کے بعد وہ پشاور میں تعینات رہا اور پھر مرادآباد رہنے کے بعد اردو کا امتحان پاس کر کے دہلی کی اس فوج کا حصہ بنا جو پنجاب کی سکھ سلطنت کی تواضع کے لیے تیار کی جا رہی تھی۔ تین سال بعد ہی نکلسن پہلی اینگلو سکھ جنگ میں شریک ہوا اور بعد ازاں سرہنری لارنس کے ماتحت پولیٹیکل ایجنٹ اور ڈپٹی کمشنر رہا۔ بنوں اور کوہاٹ میں نکلسن اس قدر مقبول بھی ہوا کہ لوگ اسے ‘گورا پیر’ اور ‘نکل سائیں’ ماننے لگے۔ کہتے ہیں کہ مقامی داستانوں اور گیتوں میں بھی نکلسن کا سراغ ملتا ہے۔ یہ سب اس حقیقت کے باوصف تھا کہ نکلسن نہایت اناپسند، مستبد مزاج اور غصیلی طبیعت کا مالک تھا۔ اس حوالے سے اس کے قصے مشہور ہیں کہ کیسے ایک مقامی سردار اس وقت اس کے غیض کا نشانہ بنا جب اس نے نکلسن کے دفتر میں غلطی سے تھوک دیا۔ ملتان کی جنگ میں وہ سکھوں سے بہادری سے لڑا اور کرپان کا زخم کھایا۔ اسی علاقے میں سرکار کو مطلوب ایک شخص کو اس نے خود قتل کرکے اس کا سر تین ماہ اپنے دفتر کی میز پر مقامی ملاقاتیوں کی عبرت آموزی کے واسطے آویزاں رکھا۔ ملتان ہی سے نکلسن نے مقامی لوگوں پر مشتمل اپنے محافظوں کا تین سو کا دستہ بھرتی کیا تھا جو اس کے اشارے پر جان پر کھیل سکتے اور صرف اسی کو جوابدہ تھے۔ یہ دستہ جنگ آزادی میں دہلی پر یلغار کے وقت نکلسن کے ہمراہ تھا۔ تاہم وہ قدرشناس شخص تھا اور فہم و قیافہ کی بنیاد پر کئی مقامات پر اس کا سلوک مقامی لوگوں سے بہت اچھا رہا۔

 

صنوبر سہیل، اسد رضا اور ابو بکر، نکلسن لاٹ کی یاترا کے دوران
صنوبر سہیل، اسد رضا اور ابو بکر، نکلسن لاٹ کی یاترا کے دوران
خیر ہم اس راستے کی طرف چلنے لگے اورایک ٹوٹے ہوئے گیٹ سے اندر داخل ہو کر پتھر کی بھرائی سے بنے راستے پر چلنےلگے۔ یہاں گیٹ کے پاس ایک نیلے رنگ کابورڈ حکومت پاکستان کی جانب سے جی ٹی روڈ کے کوائف اس تمیز کے بغیر بتا رہا تھا کہ یہ مقام نہ تو پشاور نہ ہی کلکتہ تھا۔ گیٹ کے دونوں جانب اندر کی طرف پتھر کی دو موٹی سی برجیاں بنی ہیں جو جگہ جگہ سے ٹوٹ چکی ہیں۔ ان پر کوئی تحریر کندہ نہیں ہے البتہ برس ہا برس کی بارشوں، مٹی اور کائی کی آمیزش نے ان کا رنگ ناقابل شناخت سا کردیا ہے۔ چند قدم ہی چلے تو لاٹ کی جانب پہاڑ کی چوٹی کی طرف سیڑھیوں کا ایک راستہ جاتا دکھائی دیا۔ اندازہ یہی ہے کہ کچھ دو سو درجے ضرور ہوں گے۔ ان سیڑھیوں پر چڑھنا شروع کیا تو قرب و جوار نیچے ہوتے گئے۔ بجری بنانے والی بہت سی مشینیں اردگرد کے پہاڑوں کے سینے کاٹ کر ان کا مرقد ہموار کرنے میں مصروف تھیں۔ یہ ننھی سی پہاڑی ‘گورے پیر’ کی کرامت کے سبب اس انجام سے تو بچ گئی پر شاید اس کی تنہائی اور اس کے پس پردہ اجتماعی حالات کی شعوری کلیت سے ہمارا بیگانہ پن اس پہاڑی کانصیب رہے گا۔ تازہ دم تھے سو رفتار سے چڑھتے گئے۔ اس دوران صنوبر ذرا پیچھے رہ گئیں تو ہم ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے خود ہی رک گئے۔ ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا اور ہوا میں ٹھنڈک تھی۔ اب ہم سیڑھیوں کے درمیان تک پہنچ چکے تھے۔ اس دوران کیا دیکھا کہ نیچے سے ایک فربہ بدن شخص انسانی رفتار سے اس طرح اوپر چڑھ رہے ہیں جیسے کہ ہمیں بلانے آ رہے ہیں۔ اس وسوسے کی تحقیق میں ہم وہیں رک گئے تاآنکہ وہ حضرت ہمارے پاس سے گزرتے مزید بلند ہوتے اوپر چڑھ گئے۔ اس وقت یہ مفروضہ پیش ہوا کہ شاید یہ جناب ورزش کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ انہیں دعائے صحت دیتے ہوئے اسد اور میں نے سگریٹ سلگائے۔ اسی دوران یہ ذکر ہوا کہ نکلسن اپنے بہترین دوست ڈپٹی کمشنر بنوں ہربرٹ ایڈورڈ کے ساتھ صرف چند گھنٹے گزارنے کے لیے ہر ہفتے ایک سو بیس میل کا سفر گھوڑے پر طے کرتا تھا۔ نکلسن نے کبھی شادی نہیں کی۔ ایڈورڈ کے علاوہ اس کاایک اور دوست واہ کے علاقے کا سردار کرم خان تھا۔ کرم خان کے قتل کے بعد اس کاپسر محمد حیات خان نکلسن کی نگرانی میں آ گیا اور بعد ازاں اس کا سیکرٹری اور خاص آدمی بن گیا۔ دہلی پریلغار کے وقت جب نکلسن گولی لگنے کے باعث بستر مرگ پر تھا تو اس نے سرجان لارنس کو محمد حیات کی نگرانی سونپی۔ یہ محمدحیات ایک نامور شخصیت بنے اور یونینسٹ پارٹی کی طرف سے متحدہ پنجاب کے وزیر اعلی سر سکندر حیات کے والد تھے۔

 

اسی دوران ہم بھی چوٹی پر لاٹ کے پاس پہنچ گئے۔ پتھر کے ایک چبوترے پر بنی یہ لاٹ اپنی نوعیت کے حساب سے دنیا بھر میں منفرد ہے۔ نکلسن کے آبائی وطن آئر لینڈ اور دہلی میں لگے اس کے شمشیر بکف مجسمے بھی یادگار کا درجہ رکھتے ہیں۔ دہلی کے کشمیری دروازے کا مجسمہ آزادی کے بعد ہٹا کر برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ بنوں کے ایک چرچ میں بھی نکلسن کے لیے ایک یادگاری سلیٹ نصب ہے۔ اس چبوترے کے بھی درجے بنے ہوئے ہیں اور سب سے اوپر کے درجے پرلاٹ نصب ہے۔ ہم چبوترے کے چاروں طرف سے گھومنے لگے۔ یہاں پہاڑکا حصہ کافی کھلا تھا اور کچھ پتھر نہایت رومان پرور بے ترتیبی سے بکھرے پڑے تھے۔ ورزش کرنے والے حضرت چبوترےکے مستقل طواف میں مشغول تھے۔ ایک طرف سے چبوترے کے ساتھ آہنی سیڑھی بلند ہو کر ایک مقفل آہنی دروازے کے سامنے بے بس ہو کر ختم ہو رہی تھی۔ دروازہ نہ صرف بند تھا بلکہ لوہے کی باڑ تالے کو محفوظ کرنے کے واسطے اردگرد پھیلا دی گئی تھی۔ ایک جگہ سے دروازے کی آہنی جالی میں سوارخ پایا تو حسب عادت آنکھ لگا کر اندر دیکھنا چاہا۔ ایک راہداری تھی جو سامنے دو حصوں میں تقسیم ہو رہی تھی۔ یہ دو حصے کہاں جاتے ہیں اس کا علم دروازے کے کھلنے سے مشروط ہے۔ مجھے یہاں چوری کرنے کے لیے کچھ قیمتی نظر نہیں آ رہا تھا اس وجہ سے قفل بندی کی منطق سمجھ میں نہ آتی تھی۔ تب صنوبر نے بتایا کہ کہیں عوام اندر کے حصے کو بیت الخلا نہ فرض کر بیٹھیں یہی اشکال دور کرنے کے لیے یہاں تالہ لگایا گیا ہوگا۔ یہ سن کر تسلی بھری جھرجھری آ گئی۔ تسلی جواب ملنے کی اور جھرجھری تاریخ کے سلوک پر۔

 

برطانوی نوآبادیات میں نکلسن کی یاد میں متعدد مقامات پر مجسمے نصب کیے گئے
برطانوی نوآبادیات میں نکلسن کی یاد میں متعدد مقامات پر مجسمے نصب کیے گئے
یہی باتیں جاری تھیں کہ ورزش کرنے والا شخص کہ جو اپنے چکر موقوف کر کے چبوترے کی دوسری طرف کسی نادیدہ آسن میں مشغول تھا اس کے بارے میں دوسرا مفروضہ یہ پیش ہوا کہ ہو نہ ہو یہ شخص ایجنسیوں کا بندہ ہے اور آزادی کے بعد سے یہاں اس لیے متعین ہے کہ کہیں کوئی فرضی تحریک احیائے حکومت انگلیشیہ اس مقام کو اپنی سیاسی شورش کا مرکز نہ بنا لے۔

 

دلی پر لشکر کشی کے دوران نکلسن کشمیری دروازے سے تلوار لہراتے ہوئے شہر میں داخل ہوا
دلی پر لشکر کشی کے دوران نکلسن کشمیری دروازے سے تلوار لہراتے ہوئے شہر میں داخل ہوا
نکلسن کے باب میں فرضی ہی سہی سیاسی شورش کا ذکر ہو تو ذہن بلا کسی واسطے کے تاریخ ہند کے اس خونچکاں باب کی طرف مڑجاتا ہے جس کے تذکرے سے خطوط غالب سے لے کر بیگمات کے آنسو اور ایک جلاوطن بادشاہ کا دیوان لہو لہو ہے۔ نکلسن کے لیے یہ جنگ غدر تھی اور نکلسن کے قاتل کے لیے جنگ آزادی۔ میرٹھ کا ہنگامہ گرم ہوا تو ایسٹ انڈیا کمپنی کو تارکی سہولت حاصل ہونے کے سبب بغاوت کی اطلاع افسران تک باغیوں سے پہلے پہنچ گئی۔ نکلسن اس وقت پشاور میں تعینات اور افغان ہند بدلتے تعلقات کی بحرانی کیفیت میں گھرا ہوا تھا۔ پنجاب تازہ تازہ کمپنی کے زیرنگیں آیا تھا۔ نکلسن نے برق رفتاری سے پشاور سے نکل کر اپنی دستے کے ساتھ پورے پنجاب میں طوفانی دورہ کیا اور دیسی یونٹس کو غیر مسلح کرنے کے عمل کی نگرانی میں جان لارنس کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد باغیوں کے بکھرے ہوئے جتھے اور مختلف شہروں میں بغاوت کے بعد دہلی جاتی دیسی یونٹس کا شکاری کی طرح تعاقب کرکے اس نے پنجاب کو محفوظ بنایا اور یہاں سے فوج لے کر دہلی کی جانب روانہ ہوا۔ اس دوران جان لارنس توپخانےکے انتظام میں مصروف تھے جسے دہلی کی فصیل میں شگاف ڈالنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاریخ کا یہ باب نہایت سبق آموز ہے۔ پنجاب کے مقامی لوگ اور تازہ تازہ شکست کھائے سکھ گروہ جو صدیوں سے پنجاب سے پرے کے ہندوستان کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اس جنگ کو اپنی جنگ ماننے کو تیار نہ تھے اور نکلسن کی قیادت میں دہلی غارت کرنے پہنچ چکے تھے۔ وہ نکلسن کی قیادت میں اپنی ہم وطنوں کے خلاف تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ نکلسن نسلی طور پر آئرش تھا جو خود انگریزی راج سے تنگ تھے لیکن ہندوستان سمیت دیگر برطانوی نوآبادیات میں نکلسن جیسے بے شمار آئرش جوان اسی انگریزی راج کی آبیاری خون سے کرنے میں مصروف تھے۔ ہر امیر کے زیردست لشکر تھے اور ہر امیر کے اوپر ایک اور امیر تھا۔ تینوں بیک وقت باہم دگر بھی تھے۔ دہلی پہنچتے ہی نکلسن نے حوصلہ ہاری انگریز سپاہ کی قیادت فطری طور پر سنبھال لی حالانکہ وہ محض کپتان تھا۔ دہلی کے اندر جب توپخانہ آنےکی اطلاع پہنچی تو باغیوں کے چھ ہزار کے لشکر نے اس قافلے پر حملہ کرنا چاہا۔ نکلسن نے عددی طور پر قلت میں ہونے کے باوجود باغیوں کو زیر کیا اور توپخانہ دہلی کے سامنے نصب کر کے فصیل میں شگاف ڈالے۔کشمیری دروازے سے اندر آنے والے پہلے دستوں میں نکلسن گھوڑے پر سوار ہاتھ میں تلوار لیے آگے آگے تھا۔ یہیں اسے گولی لگی اور آٹھ دن بعد جب دہلی فتح ہو چکا تھا نکلسن نے اسی شہر کے ایک بنگلےمیں ۳۳ سال کی عمر میں اپنی آخری سانسیں لیں اور یہیں دفن ہوا۔

 

دلی میں نکلسن کی قبر
دلی میں نکلسن کی قبر
رضا علی عابدی نے اپنے سفرنامے میں یہاں نصب دو تعارفی تختیوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک برطانوی راج نے یادگار بناتے وقت نصب کی تھی دوسری آزادی کے بعد مقامی حکومت کی جانب سے نصب کی گئی۔ اس تختی کی تحریر یوں تھی۔

 

‘نکلسن کو ۱۸۵۷ میں دہلی میں مجاہد آزادی کالے خان نے مارا تھا۔’

 

اس وقت دونوں تختیاں یہاں نہیں ہیں۔ کوئی اور تعارفی بورڈ بھی نہیں ہے جو بتائے کہ یہ سب کیا ہے۔ کوئی اجنبی یہاں سے گزرے تو عین منطقی ہے کہ وہ پتھر کے اس مینار کو جنوں بھوتوں کی تعمیر سمجھے۔ انٹرنیٹ پر لاٹ کے ساتھ یونانی طرز تعمیر جیسی ایک چھوٹی سی عمارت کی تصاویر بھی ملتی ہیں جو یادگار کا حصہ تھی۔ ہمیں یہ عمارت وہاں کہیں نظر نہیں آئی۔ اللہ ہی جانے کون بشر ہے۔ اس تاریخ کے اندھیر ہونے اور تختیوں کی گمشدگی کا نوحہ لیے ایک تیسری تختی نصب کرنی کی ضرورت محسوس ہوئی پر یہ نہ سمجھ آیا کہ وہ نصب کہاں کی جائے۔

 

دور افق سے سورج برآمد ہو رہا تھا اور لاٹ اس نرم روشنی میں آنکھیں ملتی ایک ایسے دن کا سامنے کرنے والی تھی جس کا اس سے کوئی واسطہ باقی نہ بچا تھا۔

 

صنوبر کی ہدایت پر ہم نے بجھے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑے اور جوس کے خالی ڈبےلفافے میں ڈالے تاکہ نیچے جاکر مناسب جگہ پھینکے جائیں۔ الوداعی نظریں ڈالتے ہم سیڑھیاں نیچے اترنے لگے۔ اسی لمحے ورزش کرتے ان حضرت نے دوبارہ سے چبوترے کے مکمل چکر لگانے شروع کر دئیے۔

 

نیچے اترے تو نواز خان جاگ رہا تھا۔ گاڑی اسٹارٹ کی اور واپسی کا سفر شروع کیا۔ چاند ماند پڑ چکا تھا سڑکیں رش سے بھر گئیں تھیں۔ ہم وقت میں واپس آ گئے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *