Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

جامعہ کراچی کے طلبہ کے لیے آواز کون اٹھائے گا

test-ghori

test-ghori

19 دسمبر, 2015

[blockquote style=”3″]

مدیر کے نام خطوط قارئین کی جانب سے بھیجے گئے خطوط پر مشتمل سلسلہ ہے۔ یہ خطوط نیک نیتی کے جذبے کے تحت شائع کیے جاتے ہیں۔ ان میں فراہم کی گئی معلومات اور آراء مکتوب نگار کی ذاتی آراء اور ذمہ داری ہیں جن سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ کسی بھی قسم کی غلط بیانی کی صورت میں ادارہ ذمہ دار نہ ہو گا۔

[/blockquote]

letters-to-the-editor-featuredجامعہ کراچی کے مرکزی دروازے سے جسے بالعموم سلور جوبلی کے نام سے جانا جاتا ہے، اگر داخل ہوا جائے تو فرلانگ بھر کے بعد سیدھے ہاتھ پر کلیہ سماجی علوم (Faculty of Social Science) شروع ہوجاتا ہے۔ جامعہ کا سب سے پرانا اور مشہور شعبہ بین الاقوامی تعلقات جو جامعہ کے چہرے کی مانند ہے وہ بھی اس ہی کلیہ میں شامل ہے۔ ہاکی گراونڈ کے مد مقابل زمینی قطبے پر سرخ پتھروں سے لکھا 1985 اس شعبہ کی عمر متعین کرتا ہے۔ درحقیقت اس شعبہ کی تاریخ سنہری حروف سے سجی ہے، جس نے پچھلی چھ دہائیوں میں اس ملک کو لازوال علمی سرمایہ اور مایہ ناز طالب علم فراہم کیے ہیں، جنہوں نے متعدد شعبہ ہائے زندگی میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا اور ملک کا نام روشن کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق امتحانات میں شرکت سے محروم کیے گئے طلبہ میں ایک نو مہینے کی حاملہ خاتون اور نفسیاتی مسائل کی بنا پر دو ماہ گھر سے نہ نکلنے والی ایک طالبہ بھی ہے۔
بدقسمتی سے پچھلے کچھ عرصے سے یہ شعبہ سماجی رابطوں کی مختلف سائٹس اور اخبارات کے بلاگز میں منفی خبروں کے حوالے سے زیرِ بحث رہا ہے۔ اس شعبہ کا طالب علم ہونے اور کچھ عرصے اس کے ساتھ بطور مدرس وابستہ رہنے کے ناطے ان خبروں کو پڑھ کر افسوس تو ہوا ہی مگر ساتھ ساتھ ان خبروں پر طلبہ ردِ عمل دیکھ کر حیرانی بھی ہوئی۔ عجیب صورتحال تھی کہ دل ایک طرف ان خبروں کے بے بنیاد ہونے اور اپنے محسن اساتذہ کے صادق اور رحم دل ہونے کے علاوہ کچھ اور ماننے کو تیار نہیں تھا۔ دوسری طرف دماغ ان ہی اساتذہ کے سکھائے ہوئے اصولوں اور لاتعداد احتجاجی شاگردوں کے تاثرات کے تناظر میں ہر چیز کو سرے سے رد کرنے کو بھی تیار نہیں تھا۔ کچھ عرصے پہلے اس شعبہ کے حوالے سے سامنے والی خبریں بھی نظر سے گزریں جن میں شعبہ میں موجود ان حیوانوں کی نشاندہی کی گئی جو شفقت کی آڑ میں اپنی شہوانی بھوک مٹاتے ہیں۔ اس ضمن میں خواتین کو بااختیار بنانا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں:

1۔ میں ذاتی حیثیت میں جنسی ہراسانی کے جرائم کم کرنے کے لیے عورت کو با اختیار بنانا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ وہ ایسے واقعات کے خلاف آواز اٹھا سکے اور ایسے واقعات میں قانونی چارہ جوئی کر سکے۔ ان حیوانوں کی نشاندہی کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ ان کا ظاہر بھی ان کے باطن کی طرح سیاہ ہوچکا ہے۔
2۔ ہمارے معاشرے میں عموماً متاثرہ فرد کی شنوائی کی بجائے مجرمان کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے کیوں کہ جنسی جرائم کی وجوہ عموماً متاثرہ خاتون یا فرد کے طرزعمل میں تلاش کی جاتی ہیں۔

ان سطور کو لکھنے کی وجہ جو اطلاع بنی ہے وہ کچھ اساتذہ کی طرف سے سالِ آخر کے طلبہ کو امتحانات میں نہ بیٹھنے دینا ہے۔ گو کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ طالبِ علم کی حاضری کے حوالے سے مفصل پالیسیاں موجود ہیں اور طالبِ علم خود بھی ان پالیسیوں کے ہوتے ہوئے لااوبالی پن اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق امتحانات میں شرکت سے محروم کیے گئے طلبہ میں ایک نو مہینے کی حاملہ خاتون اور نفسیاتی مسائل کی بنا پر دو ماہ گھر سے نہ نکلنے والی ایک طالبہ بھی ہے۔ اپنی باغی طبیعت کے پیش نظر اس سلسلے میں ذاتی ذرائع سے تھوڑی چھان بین بھی کی۔ ذاتی ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات حیران کن بھی ہیں اور تشویش ناک بھی۔ ایک لمحے کے لیے یقین نہ آیا کے بے حسی کا یہ مظاہرہ کچھ ایسے اساتذہ کی جانب سے تھا جو اپنی نرم گوئی اور مذہبی رجحانات کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ متعدد ذرائع سے جب ایک ہی جیسی معلومات ملیں تو یقین ہو چلا کہ اس واقعے میں طلبہ کتنے ہی غلط کیوں نہ تھے، اساتذہ کی جانب سے صریح زیادتیاں کی گئیں۔ شروع میں صرف ان دو خواتین سے ہمدردی تھی مگر آہستہ آہستہ یوں محسوس ہونے لگا جیسے طالبِ علموں سے ان کے کمزور ہونے کا انتقام لیا جارہا ہو۔

اچھنبے کی بات یہ ہے کہ چند اساتذہ نے غیرحاضری کی بناء پر متاثر ہونے والے طلبہ کے امتحانات لیے جب کہ باقی نے متاثرہ طلبہ کو امتحانات میں شریک ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ انتظامیہ سے کوئی یہ پوچھے کہ ایسی کون سی پالیسیاں ہیں جن سے کچھ اساتذہ تو واقف ہیں اور باقی نابلد ہیں۔ کیا متعلقہ ذمہ داران اس امر کی تشریح فرما سکتے ہیں کہ ان پالیسیوں کا اطلاق صرف ایک مخصوص جماعت کے طلبہ پر کیوں کیا جا رہا ہے؟ طلبہ کی حاضری لینے کا نظام بھی شفاف نہیں اور اس میں بعض طلبہ کو اساتذہ سے ذاتی روابط کی بناء پر فائدہ بھی پہنچایا جاتا ہے۔ کیا اس میں حقیقت نہیں کہ متعدد اساتذہ اپنی پیشاورانہ ذمہ داریاں بھی اپنے شاگردوں کو تفویض کرتے ہیں۔ اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ کمرہ جماعت میں بیٹھے ہوئے درجنوں طلبہ میں سے کون حقیقی ہے اور کون جعلی؟ جب طالبِ علم خود ہی حاضری لیں گے، تو کیا دوستی یاری، سیاسی وابستگیاں اور استاد کی پسند ناپسند حاضری شیٹ پر منتقل نہیں ہوگی؟ انتظامی امور ایک طرف، سوال یہ ہے کہ کیا آج کا استاد حاملہ عورت اور میڈیکل سرٹیفیکٹ لہراتی ایک مریضہ میں اور باقی طالبِ علموں میں تفریق نہیں کر سکتا؟ بے حسی کا یہ مظاہرہ کیا ایسی مریضہ کے لیے مزید نقصان دہ ثابت نہ ہوگا جو علاج اور ادویات کے زیرِ اثر ہے؟

اچھنبے کی بات یہ ہے کہ چند اساتذہ نے غیرحاضری کی بناء پر متاثر ہونے والے طلبہ کے امتحانات لیے جب کہ باقی نے متاثرہ طلبہ کو امتحانات میں شرکت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
جامعہ کے اساتذہ جو بلوغتِ فکر کی معراج پر فائز ہونے چاہیئں کیا ہم ان سے اس بات کی بھی امید نہیں کر سکتے کہ یہ حضرات اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے عملی پختگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے؟ ذاتی پسند ناپسند، مذہبی رجحانات اور دائیں اور بائیں بازو کی سیاست ایک طرف، کیا اب جامعہ کے استاد کو حاملہ عورت کی ظاہری حالت باور کرانی پڑے گی تاکہ وہ حاضری سے استثنیٰ حاصل کر سکے۔ ایک مریضہ کی بیماری کو قہقہوں اور چائے کی پیالی کی سیاست کی نظر کردیا جائے۔

اساتذہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کا جبر یہیں تک محدود نہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی موجودہ یا فارغ التحصیل طالب علم اگر اس کوتاہی کی نشاندہی کرتا ہوا پایا گیا تو ان کی اسناد یا تو ضبط کرلی جائیں گی یا رد کردی جائیں گی۔ گویا یہ طلبہ جو تمام قانونی تقاضے پورے کر چکے ہیں، انتظامیہ کی ہر طرح سے منت سماجت کر چکے ہیں اب ان سے احتجاج کا جمہوری حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ آپ کے رسالے کی توسط سے میں ارباب اختیار کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں اور یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ان طلبہ کا معاملہ ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔

شکریہ
فقط
ایک استاد