میرے ہاتھ کی سختی آئی تھی کہ جسے احمد کمال (فرضی نام) کے ہاتھ میں دے بیٹھا۔ ممتاز قادری کے سچے عاشق چار دن سے میری پوسٹیں فیس بک پہ پڑھ رہے تھے لیکن خاموش تھے کہ ٹائپنگ سے انہیں چڑ ہے اور شائد یہ بھی سوچا ہو کہ اگلا منہ متھے تو لگتا ہی ہے تو گلے لگ کے گلہ کر لیں گے۔
“ممتاز قادری کے بارے میں بہتر یہی ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے کیونکہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ اب یہ اللہ کا معاملہ ہے”. میں نے پوچھا کیا یہی اصول سلمان تاثیر پر لاگو نہیں ہوتا
ہاتھ ملانا کیا تھا، دست درازی تھی۔ مٹھی میں انگلیاں بھینچ کر یلکخت اپنی طرف جو کھینچا تو بدن کے ہالے کی حد پار کر آئے۔ آنکھوں سے آنکھیں ٹکرائیں تو ان کے دیکھنے کا انداز غیر مانوس معلوم ہوا۔ صورتحال ابھی غیر واضح تھی کہ ایک سپاٹ آواز سماعت سے ٹکرائی۔ “ممتاز قادری کے بارے میں بہتر یہی ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے کیونکہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ اب یہ اللہ کا معاملہ ہے”. میں نے پوچھا کیا یہی اصول سلمان تاثیر پر لاگو نہیں ہوتا کہ وہ بھی اللہ ہی کے پاس ہیں”۔ انہوں نے لہجے کو مزید کرخت کر لیا اور ثابت کرنے لگے کہ سلمان تاثیر گستاخِ رسول تھا اور اس کا قتل بالکل جائز تھا۔ ان کی تشدد مائل نگاہوں اور سنسنی خیز اداؤں کے آگے میرے فیس بکی دلائل یکے بعد دیگرے دم توڑتے گئے اور کچھ ہی دیر میں میں ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگا۔
پچھلی عید قربان کے موقع پر بھی میں ایک ایسی ہی نازک صورتحال سے دو چار ہوا تھا جب دوستوں کے بیچ سرِ بازار بیٹھا ایک غیر رسمی گفتگو کے دوران بکروں کی ٹھوڑی کے بالوں کے لیے نادانستگی میں ڈاڑھی کا لفظ استعمال کر گیا، جسے شعائرِ اسلام کی تضحیک قرار دے کر ایک باریش عزیز ایسے بپھرے کہ “میں بھی سہم گیا انہیں خونخوار دیکھ کر”۔ رمشا میسح والا واقعہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا جس نے نعت کا لفظ لکھتے ہوئے “ن” کا نقطہ “ع’ کے اوپر لکھ دیا تو نوبت اس معصوم کا گھر جلانے تک جا پہنچی تھی۔
حامیانِ “عشق گردی” فرماتے ہیں کہ یہ ‘عشق’ کے ‘معاملات’ ہیں ان میں عذر و جواز، عقل و فہم، قانون و انصاف اور وضاحت و شہادت کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے۔ لیکن جب میں انہی “با خدا دیوانہ و با مصطفی ہوشیار” کے نعرے لگانے والے عاشقان و دیوانگان کو اپنی ذات کے تحفظ کے لیے اٹینشن ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں تو الجھ جاتا ہوں کہ یہ کون سی محبت ہے جس میں سب کچھ دوسروں کے ساتھ ہی جائز ہوتا ہے. اور اگر اپنی ذات کا سوال آ جائے تو ساری گنجائشیں پیدا ہو جاتی ہیں. وہ حنیف قریشی جو منبر پر اچھل اچھل کر قانون ہاتھ میں لینے اور گولی کی زبان میں بات کرنے کے دعوے کر رہے تھے، جب قانون کی گرفت میں آنے لگے تو حلفیہ بیان لکھ گئے کہ ان کا ممتاز قادری سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ہمیشہ محبت کا درس دیتے اور دہشتگردی کی مذمت کرتے ہیں۔
آج جب بحث کے دوران ایک آدھ بار دل میں خیال آیا کہ اپنے عاشق رسول بھائی کو کھری کھری سنا دیں تو یہ سوچ کر چپ ہو رہے کہ جو کچھ طالبان اور داعش لا الہٰ الا اللہ کے نام پر کرتے ہیں، وہی سب یہ عشاق محمد الرسول اللہ کے نام پر کر گزرتے ہیں۔
میرا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ 2010 میں لاہور کے ایک بازار کے تاجران آسیہ بی بی کی حمایت پر سلمان تاثیر کے خلاف احتجاج کر رہے تھے کیونکہ گورنر نے آسیہ بی بی کو معافی دلوانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا. لیکن علماء اور عوام کے نزدیک شانِ رسالت میں گستاخی ایسا جرم ہے کہ جس کے ارتکاب کے بعد وضاحت یا معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی (اور جرم کی تصدیق کا معاملہ تو ویسے ہی غیر ضروری چیز ہے)۔ ادھر بازار میں لٹکائے گئے بینرز میں سے ایک پر انتہائی گستاخانہ جملہ لکھا ہوا تھا۔ غلطی کتابت کی تھی. جملہ یوں لکھا جانا چاہیے تھا کہ ہم “رسول پاک کی ذاتِ اقدس کی توہین کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ لیکن فقرے میں لفظ “کی” کی تکرار کے باعث لکھنے والا چوک گیا تھا اور فقرے میں سے “توہین کی” کے الفاظ حذف ہو گئے. تاجران نے بینر کو بغیر پڑھے آویزاں کر دیا۔ کسی وکیل کے نشاندہی پر جب تاجروں کے علم میں یہ معاملہ آیا تو انہوں نے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔ بس چپ کر کے بینر اتار دیا اور زور و شور سے نعرے لگانے لگے “گستاخِ رسول کی سزا، سر تن سے جدا”. چند دن بعد گورنر تاثیر کو قتل کر دیا گیا۔
سو آج جب بحث کے دوران ایک آدھ بار دل میں خیال آیا کہ اپنے احمد کمال کو کھری کھری سنا دیں تو یہ سوچ کر چپ ہو رہے کہ جو کچھ طالبان اور داعش لا الہٰ الا اللہ کے نام پر کرتے ہیں، وہی سب یہ عشاق محمد الرسول اللہ کے نام پر کر گزرتے ہیں۔ اور پھر ہم کونسا جنید جمشید جیسے باریش، ٹخنوں سے اونچی شلوار والے ہیں کہ ہماری معافی قبول ہو گی۔