Laaltain

سنگ میل پبلی کیشنز سے چند گزارشات

11 فروری، 2016
سنگ میل کی شائع کردہ کتب پڑھنے کے لیے آپ کو خصوصی طور پر مطالعے کی میز پر بیٹھنا پڑھتا ہے اور دوران سفر یا بستر میں لیٹ کر پڑھنے کی عیاشی ممکن نہیں۔
سنگ میل سے پہلا تعارف اخبار جہاں میں مستنصر حسین تارڑ کے ہفتہ وار کالم “کارواں سرائے“کے ذریعے ہوا۔ اپنے ایک کالم میں انہوں نے لاہور کے ایک ایسے اشاعتی ادارے کا ذکر کیا تھا جو نہ صرف مصنفین کو بروقت معاوضہ ادا کرتا ہے بلکہ ہر ایڈیشن کا معاوضہ بغیر تقاضہ کیے ادا کر دیتا ہے۔ ہمارے لڑکپن کا زمانہ تھا اور اس زمانے میں رسالوں اور زنانہ رومانی ڈائجسٹوں کے سوا کم ہی کچھ پڑھنے کو ملتا تھا مگر بھلا ہو کالج کی لائبریری اور میری پھپھو کا جو غزل کہتی تھیں اور اردو کے نامور ادیبوں سے واقف تھیں۔ ان کے بیاہ کے بعد ان کا کمرہ اور کتب کا ایک نادر ذخیرہ میرے ہاتھ آیا۔ رخصت ہوتے وقت وہ اپنی بیشتر کتابیں بھی میرے سپرد کر گئیں کہ انہیں پردیس سدھارنا تھا۔ ان کی اس الماری اور کالج کی لائبریری نے اردو کے بیشتر ادیبوں کے طلسم ہائے ہوشربا کے در مجھ پر کھولے۔ تارڑ صاحب نے بے حد متاثر کیا، پھر انتظار صاحب کی گلی کوچے ہاتھ لگی، کسی نے عبداللہ حسین کا باگھ بھی تھما دیا اور مجھے ایک ایسی چاٹ لگی جو اب تک نہیں اتری۔

 

اسی زمانے میں سنگ میل والوں سے تعارف ہوا اور پھر سنگ میل سے میرا تعلق گزشتہ سولہ برس استوار ہے۔ اسی زمانے میں ان کی جانب سے مجموعے چھاپنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ انتظار حسین، عبداللہ حسین، بیدی، احمد ندیم قاسمی۔۔۔۔غرض کس کا مجموعہ ہے جو انہوں نے نہیں چھاپا۔ سنگ میل نے مجھے اور مجھ جیسے ادب خوروں کو چٹورے پن کی حد تک حریص بنایا ہے۔ ایسے ایسے لوگ جنہیں سب جانتے تھے، مشہور تھے اور سب جنہیں پڑھنا چاہتے تھے، اور وہ بھی جنہیں “کلاسیک” کہہ کر کتب خانوں کی گردآلود الماریوں کے سپرد کر دیا گیا تھا سبھی کو سنگ میل نے چھاپا ہے اور داد پائی ہے۔ سنگ میل نے ایسے ادیبوں کا بھی چھاپا ہے جنہیں کوئی چھاپنے کو تیار نہیں تھا۔ پاکستان میں اردو ادب کی ترویج میں سنگ میل کا کردار بے حد اہم ہے لیکن ہر اچھے آغاز کی طرح شاید معاشی مجبوریوں یا انتظامی غیرذمہ داری کے باعث سنگ میل کی طباعت اور اشاعت کا معیار بھی گرنے لگا ہے۔

 

سنگ میل پبلی کیشنز سے ایک اور تکلیف دہ شکایت کتابوں کے بھدے اور بہت حد تک بدصورت سرورق ہیں۔
سنگ میل کے مستقل خریدار جانتے ہیں کہ سنگ میل پبلی کیشنز کے پاس ادیبوں اور دانشوروں کی سب سے روشن کہکشاں ہے، کسی اور ناشر یا اشاعتی ادارے کے پاس اس قدر بڑے نام اور کتابوں کی اس قدر طویل فہرست نہیں جیسی سنگ میل پبلی کیشنز کا اثاثہ ہے۔ احمد رفیق اختر، قرۃ العین حیدر، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، مستنصر حسین تارڑ، احمد ندیم قاسمی، گلزار، امجد اسلام امجد، عبداللہ حسین، انتظار حسین، راجنگدر سنگھ بیدی، ضمیر جعفری، مرزا ہادی رسوا، پریم چند، شفیق الرحمن اور بہت سے۔ لیکن اس سب کامیابی، پذیرائی اور نیک نامی کے باوجود گزشتہ دس برس کے دوران اس ادارے کی طباعت اور اشاعت کا معیار بتدریج انحطاط پذیر ہے۔

 

سنگ میل کی کتابوں پر مجھے سب سے بڑا اعتراض ان کے بے تحاشا مہنگا ہونے کی وجہ سے ہے۔ سنگ میل کی شائع کردہ کتب گو اچھے اور معیاری کاغذ پر چھپتی ہیں، اور وہ یقیناً ادباء کو معقول معاوضہ بھی دیتے ہوں گے لیکن ان کی کتب عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ پچھلے دنوں لاہور کی معروف کتابوں کی دکان ریڈنگز پر القاء پبلی کیشنز والوں کی کتب دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی۔ ان کی کتب سنگ میل کے مقابلے میں بے حد سستی اور معیاری معلوم ہوئیں۔ حال ہی میں انہوں نے اسد محمد خان اور ناصر کاظمی کو اس دیدہ زیب انداز میں چھاپا ہے کہ جی خوش ہو گیا۔ سنگ میل والے بھی کتب کی قیمت کم رکھنے کے لیے مجموعے چھاپتے ہیں لیکن مجموعہ اس قدر بھاری اور پڑھنے میں اس قدر دشوار ہوتا ہے کہ اسے خریدنا اور خرید کر پڑھنا بجائے خود ایک کار دشوار ہے۔ سنگ میل کی کتب کی قیمت زیادہ ہونے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ وہ سخت گتے کی جلد (Hard Binding)کے ساتھ کتب چھاپتے ہیں، اور شاید یہ بھی (بقول ایک غیر معروف پبلشر) کہ وہ منافع کی شرح بے حد زیادہ رکھتے ہیں۔ بعض دل جلے کتب فروشوں (جو عین ممکن ہے سنگ میل پبلی کیشنز کی کامیابی سے نالاں ہوں) سے یہ بھی سنا کہ “سنگ میل والے عام قاری کے لیے کتاب کہاں چھاپتے ہیں، وہ تو لائبریریوں کے لیے چھاپتے ہیں، لوگ مجبور ہیں سو خریدتے ہیں۔”

 

سنگ میل پبلی کیشنز اور ان سے لاہور کے دیگر ناشران کی چپقلش میں کوئی حقیقت ہے یا نہیں، یہ بہرحال درست ہے کہ سنگ میل کی چھاپی بیشتر کتب (خصوصاً مجموعے) قاری کی سہولت کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں چھاپی جاتیں۔ دنیا بھر میں ناشرانِ کتب، کتابوں کے دو طرح کے ایڈیشن چھاپتے ہیں ایک پیپر بیک کے ساتھ اور ایک ہارڈ بائنڈنگ کے ساتھ، عام قاری تک رسائی کے لیے پیپر بیک کتب چھاپتے ہیں جو قیمت میں کم اور پڑھنے میں سہل ہوتی ہیں یہ اہتمام پاکستان میں آج کے اجمل کمال اور القاء پبلی کیشنز سمیت آکسفورڈ والے بھی کر رہے ہیں لیکن سنگ میل پبلی کیشنز والے اس حوالے سے قاری کی سہولت کو مدنظر رکھنے کے قائل نظر نہیں آتے۔ ان کی کتب پاکستان بھر کی لائبریریوں کو فروخت کی جاتی ہیں اور شاید ان کی کاروباری حکمت عملی بھی یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کتب، کتب خانوں کو بیچی جائیں اور چوں کہ قاری کے پاس ان کی کتب خریدنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اس لیے کتب کی من مانی قیمت مقرر کر کے من چاہے انداز میں شائع کر کے انہیں اپنی مرضی سے بیچا جائے۔ سنگ میل کی شائع کردہ کتب پڑھنے کے لیے آپ کو خصوصی طور پر مطالعے کی میز پر بیٹھنا پڑھتا ہے اور دوران سفر یا بستر میں لیٹ کر پڑھنے کی عیاشی ممکن نہیں۔

 

ادیبوں کی اموات کا سب سے زیادہ فائدہ شاید ان ناشران نے ہی اٹھایا ہے، پہلے اشفاق صاحب، پھر عبداللہ حسین اور اب انتظار حسین کی کتب کی قیمتوں میں ان کی وفات کے بعد اضافے کا سوچ کر ہی دل کڑھتا ہے اور اس موقع پرستی پر حقیقتاً ماتم کرنے کو دل کرتا ہے۔
سنگ میل پبلی کیشنز سے ایک اور تکلیف دہ شکایت کتابوں کے بھدے اور بہت حد تک بدصورت سرورق ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک سنگ میل کی کتب کے سرورق بے حد دیدہ زیب اور کتاب کے موضوع اور مرکزی خیال سے مطابقت رکھنے والے ہوتے تھے۔ لیکن جب سے سنگ میل پبلی کیشنز نے کمپیوٹر پر سرورق ڈیزائن کرنے کا کام شروع کیا ہے تب سے جمالیاتی اعتبار سے اس قدر بھدے سرورق سامنے آ رہے ہیں کہ کتاب خریدنے یا پڑھنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ یوں معلوم ہوتا ہے گویا کسی نوآموز نے اپنے ڈیسک ٹاپ کے چار چھ پسندیدہ وال پیپر کورل یا ایڈوبی میں اکٹھے کر کے چھاپ دیئے ہیں۔ آپ سوچیے کہ اگر کسی کتاب کے سرورق پر بادل، گلاب، گاوں کا منظر، ایک ٹرین، سورج مکھی، ایک فرنگی دوشیزہ کا چہرہ، ایک مورت، ایک پرندہ، نہانے کا ایک ٹب اور ایک قلم اکٹھے کر دیئے جائیں یا مصنف کا چہرہ نہایت اناڑی پنے اور بدذوقی کے ساتھ چھاپ دیا جائے تو وہ کیوں کر خوب صورت معلوم ہو سکتا ہے، یا ایسی کتاب پڑھنے پر آپ اپنے دل کو کیوں کر مائل کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ سبھی کتابوں کے سرورق بھدے اور بے ڈھنگے ہیں کئی کتب جیسے گردش رنگ چمن، منہ ول کعبے شریف، نادار لوگ، اے غزال شب اور فریب جیسی کتب کے سرورق بے حد دیدہ زیب ہیں لیکن بیشتر کتب کے سرورق جمالیاتی اعتبار سے نہایت بدشکل قرار دیئے جا سکتے ہیں اور بدقسمتی سے ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک تجویز یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر سنگ میل پبلی کیشنز والے ہر کتاب کا علیحدہ سرورق ڈیزائن نہیں کر سکتے تو مجلس ترقی ادب کی طرح ایک ہی سرورق مختلف کتابوں کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیں۔

 

ایک اور نہایت افسوس ناک چلن بھی گزشتہ کچھ عرصے سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ہر نئے ایڈیشن پر کتب کی قیمتوں میں معمولی اضافہ تو قابل فہم ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے کسی بھی ادیب کی وفات کے بعد اس کی کتب کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جو ناصرف نامناسب بلکہ بدتہذیبی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ادیبوں کی اموات کا سب سے زیادہ فائدہ شاید ان ناشران نے ہی اٹھایا ہے، پہلے اشفاق صاحب، پھر عبداللہ حسین اور اب انتظار حسین کی کتب کی قیمتوں میں ان کی وفات کے بعد اضافے کا سوچ کر ہی دل کڑھتا ہے اور اس موقع پرستی پر حقیقتاً ماتم کرنے کو دل کرتا ہے۔ سنگ میل پبلی کیشنز سمیت تمام ناشران ہمارے ادب اور ادیب کو زندہ رکھنے کے لیے ہمارا اثاثہ ہیں لیکن ایسا غیر پیشہ ورانہ، غیر مہذبانہ اور صارف دشمن طرزعمل قطعی ناقابل قبول ہے۔ سنگ میل پبلی کیشنز ایک بڑا اشاعتی ادارہ ہے اور اسی وجہ سے اسے خوش ذوق اور مہذب طرزعمل اختیار کرنا چاہیئے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارا ادبی ورثہ آنے والی نسلوں تک دیدہ زیب اور قابل مطالعہ ڈھنگ سے منتقل کریں تاکہ ہم ان ادیبوں سے محض روپیہ کمانے اور انہیں کتب خانوں، الماریوں اور شیلفوں کی زینت بنانے کی بجائے اپنا رفیق اور ہم سفر بنا سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *