[blockquote style=”3″]
پروفیسر رفعت مظہر کی یہ تحریر اس سے قبل روزنامہ نئی بات میں بھی شائع ہو چکی ہے، مصنفہ کی اجازت سے اسے لالٹین پر شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
جب ہم نے نیوز چینلز اور اخبارات میں منی بجٹ کی تفصیل پڑھی اور سُنی تو خود ہمارے ہاتھوں کے مینا، طوطے، سب اُڑ گئے اور پاپی پیٹ کے کُتے بھونکنے لگے کیونکہ ڈارصاحب نے سوائے جینے مرنے کے ہرشے پرٹیکس لگادیا تھا۔
دو دِن پہلے میرے میاں گھر آئے تو اُن کا موڈ بہت بگڑا ہوا تھا۔ وہ مُنہ ہی مُنہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے کمرے میں چلے گئے۔ تھوڑی دیربعد جب ہم کمرے میں داخل ہوئے تو اُنہیں پھر بڑبڑاتے پایا۔ ہم نے ہمت کر کے اِس “ناسازئ طبع” کی وجہ پوچھی تو وہ تیوریاں چڑھا کر بولے کہ اگر کوئی نواز لیگ کے زوال کا باعث ہوگا تو وہ صرف اور وزیرِ خزانہ صاحب ہی ہوں گے۔ ہم نے پوچھا “وہ کیسے”؟۔ جواب ملا “سگریٹ کا وہ پیکٹ جو پچھلے سال اسّی روپے میں ملتا تھا اب ڈار صاحب کی مہربانی سے ایک سو تیس کا ہو گیا ہے۔ ہماری زندگی تو اجیرن ہوکے رہ گئی ہے”۔ ہم جی ہی جی میں بہت خوش ہوئے کہ شاید اسی بہانے اِس “مَرجانی” سے چھٹکارا مِل جائے کیونکہ ہم نے تو جب بھی میاں کو سگریٹ چھوڑنے کا کہا اُن کا گھڑا گھڑایا جواب ملا “یہ رسمِ عاشقی کے خلاف ہے۔ اگر میں سگریٹ سے چالیس سالہ رفاقت چھوڑ سکتا ہوں تو تمہیں بھی چھوڑ سکتا ہوں”۔ اُن کے اِس جواب پر ہم ہمیشہ جَل بھُن کر “سیخ کباب” ہوتے رہے لیکن “وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں” کے مصداق ہم بھی سگریٹ ترک کرنے کا تقاضہ کرتے رہے۔ ڈارصاحب کے اِس دِل خُوش کُن اقدام پر وفورِ مسرت سے ہماری باچھیں کھلنے ہی والی تھیں کی ہم کھسک لیے کیونکہ میاں کے سامنے اِس کا اظہار جنگ و جدل سے بھرپور شاہکار کی صورت میں سامنے آتا جس کا فی الحال ہمارا کوئی ارادہ نہ تھا۔ جب ہم نے نیوز چینلز اور اخبارات میں منی بجٹ کی تفصیل پڑھی اور سُنی تو خود ہمارے ہاتھوں کے مینا، طوطے، سب اُڑ گئے اور پاپی پیٹ کے کُتے بھونکنے لگے کیونکہ ڈارصاحب نے سوائے جینے مرنے کے ہرشے پرٹیکس لگادیا تھا۔ ویسے ہمارے وزیرِخزانہ اسحاق ڈالر صاحب ہیں بڑے “مخولیے”۔ اُنہوں نے 40 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائدکرتے ہوئے یہ لطیفہ سنایا “اضافی ٹیکس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا”۔ جانتے وہ بھی ہیں کہ ٹیکس لگے نہ لگے حکومتی “حرکات” سے متاثر تو صرف عام آدمی ہی ہوتا ہے، ڈارصاحب جیسی اشرافیہ تو صاف بچ نکلتی ہے۔ ازلی، ابدی اور مسلمہ اصول یہی ہے کہ “خربوزہ چھری پہ گرے یا چھری خربوزے پر، نقصان توبیچارے خربوزے کا ہی ہونا ہوتا ہے”۔
وزیرِخزانہ نے 50 کروڑ ڈالر کی قسط لینے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈکی شرائط پوری کر دیں لیکن بہانہ یہ کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں بے گھرہونے والوں کے لیے 40 ارب روپے درکار ہیں۔۔۔۔ واہ ! ڈارصاحب واہ! کیا خوب بہانہ تراشاہے کہ
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
سوال مگریہ کہ کیا اربوں، کھربوں روپے کی “میٹروشیٹرو” اور “اورنج لائن” بنانا ضروری ہے یا مجبوروں، مقہوروں کے آتشِ شکم کی سیری؟ ہم میٹرو کے خلاف ہیں نہ اورنج ٹرین کے، اِن کی افادیت سے مفر ممکن نہیں لیکن یہ سب “چونچلے” تو ترقی یافتہ ممالک کے ہیں جن کے عوام کے لیے راوی عیش ہی عیش لکھتاہے۔ اگر کسی ایک “میٹرو منصوبے” کوبھی ملتوی کر دیا جاتا اور وہی رقم شمالی وزیرستان کے بے گھروں پر صرف کر دی جاتی تو حکومت کے خلاف “آگ اور پانی کے اَکٹھ” کی نوبت نہ آتی۔ یہ حکومت کی اعلیٰ کارکردگی ہی ہے جو پیپلزپارٹی، تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی “ایک صفحے” پر، باہم شیروشکر ہوتے نظر آ رہے ہیں حالانکہ کپتان صاحب کی زبان تو سیّد خورشید شاہ کو نواز لیگ کا “مُنشی” کہتے نہیں تھکتی تھی۔ آج یہ تینوں جماعتیں پارلیمنٹ کے جاری اجلاس کا بائیکاٹ کیے بیٹھی ہیں اور مطالبہ یہ کہ جب تک “مِنی بجٹ” اورپی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ واپس نہیں لیا جائے گا، اجلاس کا بائیکاٹ جاری رہے گا۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ سب کچھ سیاسی مفادات کے حصول اور نواز لیگ کو “ٹَف ٹائم” دینے کے لیے کیا جا رہاہے، پھربھی ہم خوش کہ شاید اسی طریقے سے حکومت ہوش کے ناخن لے لے۔
کیا اربوں، کھربوں روپے کی “میٹروشیٹرو” اور “اورنج لائن” بنانا ضروری ہے یا مجبوروں، مقہوروں کے آتشِ شکم کی سیری؟ ہم میٹرو کے خلاف ہیں نہ اورنج ٹرین کے، اِن کی افادیت سے مفر ممکن نہیں لیکن یہ سب “چونچلے” تو ترقی یافتہ ممالک کے ہیں جن کے عوام کے لیے راوی عیش ہی عیش لکھتاہے۔
ڈارصاحب نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا “40 ارب روپے اکٹھے کرنے کے لیے آئین اور قانون کے تحت قدم اٹھایا، اسے مِنی بجٹ نہ کہاجائے۔ اگرکسی نے اپنے کتے بلیوں کو درآمدشدہ خوراک کھلانی ہے تو اُسے ملک کوپیسے دینے دیں”۔ بالکل بجا ارشاد، یہ “مِنی” نہیں، پورا بجٹ ہے جو ایک ہی سال میں دوسری دفعہ لگا کر عوام کو وقفِ مصیبت کر دیا گیا۔ ویسے بھی حکومت جو کام بھی کرتی ہے آئین وقانون کے “دائرے” میں رہ کر ہی کرتی ہے جس میں مقہوروں کی رگوں سے خون نچوڑنا بھی شامل ہے۔ ڈار، المعروف ڈالر صاحب نے فرمایا “جو ٹوتھ پیسٹ استعمال کرتا ہے اُسے ٹیکس بھی دیناچاہیے”۔ بالکل بجا ہم ٹوتھ پیسٹ کی بجائے مسواک استعمال کر کے سنّتِ نبوی پر عمل کرلیں گے، ٹوتھ پیسٹ اُن کے خاندان اور اشرافیہ کے خاندانوں کو مبارک ہو لیکن اُنہوں نے توکنگھی چوٹی سے لے کرکھانے پینے اور اوڑھنے بچھونے تک، سبھی پر ٹیکس لگادیا لیکن ایک چیز جس کی پاکستان میں فراوانی ہے وہ ڈار صاحب کی نظروں سے بچ گئی، وہ “موت” ہے جو ہمارے ہاں مفت ملتی ہے۔ اگر ڈارصاحب اِس پربھی ٹیکس لگا دیں تو ہم اُنہیں یقین دلاتے ہیں کہ قومی خزانہ چھلکنا شروع ہو جائے گا۔ جہاں ساڑھے تین سو سے زائد اشیاء پر ٹیکس لگایا گیا، وہاں موت اور کفن دفن پر ٹیکس بھی ضروری ہے کیونکہ اِس ٹیکس کے نفاذ کے بعد شرح اموات بڑھنے کے روشن امکانات ہیں۔
شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ اگر ڈار صاحب ڈالر 96 روپے کا کر دیں تو وہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیں گے لیکن جب ڈارصاحب نے ہتھیلی پہ سرسوں جما کے دکھا دی اور ڈالر 96 روپے کا ہو گیا تو شیخ صاحب نے مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ وقتی ہے اگر ڈالر مستقل طور پر 96 روپے کا رہا تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ تب ہم نے شیخ صاحب کا جی بھرکے مذاق اُڑایا لیکن آج جب ڈالر 107 روپے کا ہو گیا تو ہمیں بھی تھوڑا تھوڑا یقین آنے لگا ہے کہ شیخ صاحب کی ساری باتیں غلط نہیں ہوتیں، ہزار میں سے ایک آدھ درست بھی ہو جاتی ہے۔ ماہرِ معاشیات وزیرِخزانہ سے یہ سوال توکیا جاسکتا ہے کہ جب ڈالر تیزی سے قلانچیں بھر رہا تھا تو اُن کی’’ معیشت دانی‘‘کہاں جا سوئی؟