Laaltain

بےحس

2 ستمبر، 2015
لندن ہمیشہ سے اپنی بے انتہاسردی کے لیے مشہور رہا ہے، سورج چندروز کے لیے جب اپنی دید کراتا ہے اور بھولی بھٹکی گرم ہوائیں جزائر برطانیہ کا رخ کرتی ہیں تو سردی سے بیزارانگریز فوراً ہی گھروں اور کپڑوں سے باہر نکل آتے ہیں۔اس روز بھی موسم خوشگوار تھا، سوچا بچوں کو پارک لے جاؤں، وہ جھولے جھول لیں گے اور میں کچھ وقت درختوں کے جھرمٹ میں بنے تالاب کے پانی میں پاؤں ڈال کر سستا لوں گا۔
میں کل ادھر سے گزر رہی تھی تو یہ تصویر دیکھی، دیکھو کسی کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ کوئی پھول لگا دیتا، ایسی ویران تصویر دیکھ کر میرا دل کل سے رو رہا ہے۔
میرے گھر اور پارک کے درمیان موٹر وے کا ابتدائی ٹکڑا ہے، سڑک عبور کرنے لگا تو پولیس کے نوٹس پر نظر پڑی۔ نوٹس میں دو دن پہلے ہونے والے ایک مہلک حادثے کے عینی شاہدین سے گواہی کی اپیل کی گئی تھی۔ فٹ پاتھ کے ساتھ غالباً ایک تصویر بھی لگی تھی اور ساتھ ایک سستے پھولوں کا گلدستہ بھی رکھا تھا۔ پہلے سوچا پاس جا کر دیکھوں، پھر خیال آیا ضرور یہ کوئی بے چارہ ہوگا جو صرف ایک ہی گلدستہ پڑا ہے ورنہ یہاں تو اجنبیوں کی حادثاتی موت کی جائے وقوعہ پر بھی لوگ پھولوں کے ڈھیر لگا جاتے ہیں، ہونہہ! تو واقعی کوئی بیچارہ ہی تھا۔
پارک سے واپسی پرمیں باقی اہل خانہ سے پہلے سڑک پارکر کے دوسری طرف آگیا تو سوچا کہ چلو اب ذرا تصویر کا معائنہ کر لوں۔ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے، سانولی رنگت کا جوان سال مرد۔۔۔ تصویر کسی تقریب کی تھی اور نیچے مرنے والے کا نام سندیپ شرما لکھا ہوا تھا۔”اوہ تو ہندو تھا کوئی۔۔۔ ہوں ہنہ!!!”
میں نے پھر ہنکارہ بھرا اور واپس جانے کے لیے مڑا۔
واپس مڑا تو کیا دیکھتا ہوں، دس پندرہ ضعیف العمر انگریز بوڑھوں اور بوڑھیوں کا ایک گروہ ہاتھوں میں گلدستے اور کارڈز اٹھائے میرے مڑنے کا منتظر کھڑا تھا۔
جیسے ہی انہوں نے مجھے مڑتے دیکھا، انہوں نے مجھ پر سوالات اور تعزیتی جملوں کی بوچھاڑ کر دی۔
” میں کل ادھر سے گزر رہی تھی تو یہ تصویر دیکھی، دیکھو کسی کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ کوئی پھول لگا دیتا، ایسی ویران تصویر دیکھ کر میرا دل کل سے رو رہا ہے”۔
”تمہارا دوست رشتے دار تھا کوئی؟”
”فکر نہ کرو ضرور وہ کمینہ ڈرائیور پکڑا جائے گا”
”کیا پیاری صورت تھی اس کی، یہ ظالم موت کسی کا لحاظ نہیں کرتی”
پتہ نہیں کوئی مقامی تھا یا بیرون ملک سے آیا تھا اپنے خاندان کی کفالت کے لیے، کیا گزرے گی ان پر اب؟؟؟”
میں جو اتنی گہرائی سے سوچنا تو درکنار،مکمل نظرانداز کر کے جا رہا تھا، اب ان کی چخ چخ سے جھنجھلانے لگا۔ جان چھڑا کر بھاگا، مگر گھر پہنچ کر بھی جھنجھلاہٹ ختم نہ ہوئی۔ جیسے کوئی چوری کرتے پکڑا جائے۔ لگتا تھا جیسے وہ سب بوڑھے انگریزمیری بے حسی پر ہی طعنہ زن تھے۔
مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں نے خود اپنے ارد گرد بے حسی کا جو ان دیکھا جال مدتوں سے بن رکھا تھا،وہ ان بوڑھوں کی زمانہ شناس آنکھوں نے دیکھ لیا ہے۔
مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں نے خود اپنے ارد گرد بے حسی کا جو ان دیکھا جال مدتوں سے بن رکھا تھا،وہ ان بوڑھوں کی زمانہ شناس آنکھوں نے دیکھ لیا ہے۔ جیسے جیسے مجھ پر احساس جرم کا بوجھ بڑھنے لگا، ویسے ویسے مجھے اپنا دم گھٹتا محسوس ہونے لگا۔
ً گھر پہنچتے ہی کھڑکیاں کھولیں مگر تازہ ہوا کے جھونکے سے بھی طبیعت میں کوئی بہتری نہ آئی۔ پنکھا چلایا تو ایسے لگا جیسے بہت سی چیخیں پنکھے کے پروں سے نکل کر فضا میں بکھر رہی ہیں۔ مقامی انگریزی چینل لگایا تو کراچی میں سینکڑوں افراد کے گرمی سے ہلاک ہونے کی خبر چل رہی تھی، ساتھ چلنے والی ویڈیو میں مردہ خانے میں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔
فوراً چینل بدلا تو پاکستانی چینل پر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی خبر چل رہی تھی اور ویڈیو کلپ میں خون میں لت پت ایک لاشہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے کیمرے کی آنکھ کو گھور رہا تھا۔
کیا بکواس ہے یار، میں بڑبڑایا اور ٹی وی کا سوئچ بند کرکے موبائل اٹھا لیا اور ٹویٹر پر اپنی ٹایم لائن دیکھنے لگا۔ ذہن ابھی تک جھنجھلاہٹ میں مبتلا تھا کوشش کے باوجود کوئی جملہ نہ بن پایا۔ سوچا کسی ٹرینڈ پر بات کروں تو شاید کوئی زیادہ فالورز رکھنے والا ری ٹویٹ کردے اور میرے فالورز میں بھی دوچار لوگوں کا اضافہ ہوجائے۔
دلچسپ ٹرینڈز چل رہے تھے اور متحارب گروہوں میں گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا، ہر ٹرینڈ لاجواب تھا مثلاً
”قوم عمران خان کے ساتھ ہے”
پہلے ہی چمچ پر ایسا لگا جیسے بہت سی خون آلود زخمی لاشیں اپنے سفید کفن پھاڑ کر باہر نکل آئی ہیں، جیسے ہر زخمی ٹکڑے کی دیدوں سے باہر نکلی ہوئی اپنی آنکھیں اور لٹکتی زبان ہے۔
”بھٹو زندہ ہے”
“we love Nawaz sharif”
”پاکستان آرمی میری جان”
”علماء انبیا کے وارث”
ایک دفعہ پھر ٹی وی پر چلنے والی خبریں اور تصویریں میری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگیں، کراہت کا شدید احساس میرے رگ و پے میں دوڑنے لگا۔
بیگم نے شیشے کے ایک شفاف پیالے میں ٹھنڈی ٹھنڈی سٹرابری کے پتلے قتلے اور رس بھریوں کو ملائی کی تہوں میں سجا کر صوفے کی بازو پر رکھ دیا تھا۔ سرخ رنگ کا جوس وینیلا کریم کے ساتھ مل کر ایک عجیب سا ماحول بنا رہا تھا۔ میں پہلی دفعہ اپنے اس پسندیدہ کھاجے کو دیکھ کر کیف و انبساط کے بجائے خوف محسوس کرنے لگا۔
موبائل زور سے صوفے پر پھینک کر میں نے پیالہ اٹھایا۔ پہلے ہی چمچ پر ایسا لگا جیسے بہت سی خون آلود زخمی لاشیں اپنے سفید کفن پھاڑ کر باہر نکل آئی ہیں، جیسے ہر زخمی ٹکڑے کی دیدوں سے باہر نکلی ہوئی اپنی آنکھیں اور لٹکتی زبان ہے۔ میں نے پیالہ اٹھا کر واپس صوفے کے بازو پر رکھ دیا اور ٹانگیں لمبی کر کے سر صوفے پر ٹکا دیا۔
پنکھے سے آنے والی آوازیں اب خوف اور درد میں لپٹی انسانی چیخیں بن کر فضاء میں بلند ہو رہی تھیں اور اور سٹرابریاں اور رس بھریاں کٹی پھٹی لاشیں بنی ہوا میں رقص کر رہیں تھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *