Laaltain

آدھی کھڑکی

16 جولائی، 2015

میری نظروں کے بالکل سامنے اس اونچی دیوار میں ایک کھڑکی ہے۔ میں جب بھی فائلوں سے سر اٹھاتا ہوں تو میری نظر کمرے کے سامنے والی دیوار پر پڑتی ہے جہاں چاچا رحمت بیٹھا ہے۔ رحمت کے پیچھے ایک دیوار ہے اور دیوار کے پار ایک وسیع لان جس کی انتہائی دیوار کی پرلی طرف وہ اونچی دیوار ہے جس میں ایک کھڑکی ہے۔ اس کھڑکی کے ایک حصے پر پردہ پڑا ہے اور یوں میری نظروں کے سامنے آدھی کھڑکی ہے۔

اس وقت میری میز پر اتنا کام نہیں اور میں دفتر میں آنے جانے والوں کا جائزہ لے رہا ہوں لیکن جب بھی میں نظر اٹھا کر سامنے دیکھتا ہوں تو میری نظر لان میں اگے پھل دار درختوں اور پھولوں سے ہوتی ہوئی اس کھڑکی پر جا رکتی ہے۔کبھی کبھی اس بڑی سی کوٹھی کے بڑے سے لان میں ایک بوڑھا مالی پودوں کی دیکھ ریکھ کرتا نظر آتا ہے۔ وہ ہمیشہ ملیشیے کی شلوار قمیص اور میلی سی صدری میں ملبوس ہوتا ہے۔ اس کا گنجا بیضوی سر دھوپ کی شدت سے سرخ یاقوت کی مانند نظر آتا ہے۔مٹی ملے ہاتھوں سے وہ اپنے سر اور منہ سے پسینہ پونچھتا ہے۔ کوٹھی میں رہنے والا کوئی بندہ بشر نظر نہیں آتا البتہ گھر کے گیراج میں کھڑی کالے رنگ کی بڑی سی گاڑی کی پچھلی بتیاں نظر آتی ہیں۔

لان میں گہری خاموشی ہے اور مالی بھی خاموشی سے کام کر رہا ہے۔ میں اس خاموشی سے اکتا کر اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی طرف دیکھتا ہوں جو اپنے اپنے کام کے ساتھ گپ شپ میں مشغول ہیں۔ میرے کام کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ کبھی بے تحاشا کام ۔۔دین دنیا بھلا داینے والا اور کبھی مکمل فراغت اور اس فراغت میں جب میں دفتر کے میکانکی ماحول سے چھٹکارے کے لیے نظریں اوپر اٹھاتا ہوں تو میری نظر کھڑکی پر جا پڑتی ہے۔ میں نے اپنے ایک ساتھی کارکن کو اس کھڑکی کے بارے میں بتانا چاہا تو اسے میری دماغی حالت پر کافی تشویش ہوئی۔ ایک اور نے تو مجھے اس کھڑکی کے سحر سے نکلنے کا مشورہ دیا۔ تیسرے نے بس ہنس کر ٹال دیا۔۔کھڑکی کچھ اس مضبوطی سے بند ہے کہ اسے کھولنا مشکل ہے۔

میں اپنی میز سے اٹھ کر چاچے رحمت کے پاس آ کھڑا ہوتا ہوں۔ اب مجھے لان میں اگے انار اور آم کے درخت صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اوپر تلے آنے والی موسمی آندھیوں کی وجہ سے کافی پھل ضائع ہو چکا ہے۔خشک پتے اور سوکھی لکڑیاں لان کے ایک کونے میں ڈھیر ہیں۔دیوار کے پار اب کھڑکی زیادہ صاف نظر آ رہی ہے۔میری نظریں کھڑکی کی طرف ہیں اور چاچا رحمت مجھ پر طنزیہ جملے پھینک رہا ہے لیکن میں ایک اور ہی نظارے میں گم ہوں۔ میرے سامنے کھڑکی کا آدھا پٹ کھلا ہے لیکن اندربہت اندھیرا ہے۔چیزوں کا عکس صاف نظر نہیں آ رہا۔ میں ذرا غور سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو کمرے کی ایک کونے سے دوسرے کونے تک ایک رسی بندھی نظر آتی ہے جس پر ایک مردانہ قمیص، بچوں اور عورتوں کے ایک دو کپڑے لٹکے ہیں۔ ایک طرف پیڈسٹل فین کا کچھ حصہ اور پانی کا ایک ڈرم نظر آ رہا ہے۔کمرے کی تاریکی کے ساتھ ساتھ اندر کا حبس بھی محسوس ہو رہا ہے۔اچانک ایک بچے کی قلقاری کی آواز کھڑکی میں میری دلچسپی بڑھا دیتی ہے۔ مہندی لگے دو سانولے ہاتھ نظر آتے ہیں جن کے ساتھ بازو میں پرانے فیشن کی موٹی چوڑیاں ہیں۔ آہستہ آہستہ موٹے اور بھدے نین نقش والی ایک عورت کا مہاندرہ نظر آتا ہے۔ بالکل کھڑکی کے سامنے۔۔ایک منٹ کے لیے اور پھر غائب۔۔۔

مجھے یاد آتا ہے کہ یہ چہرہ میں نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔میں اپنے ذہن پر زور دیتا ہوں۔ ہاں بالکل وہی چہرہ۔۔ وہی نین نقش۔۔ اپنے گھر میں، اپنے محلے میں، دفتر میں،اپنے دوست کے گھر۔۔۔سڑک پر۔۔۔گلی میں۔۔میری نظریں اس آدھی کھلی کھڑکی کے اندر گڑی ہیں اور میرا دماغ اس چہرے کی پہچان میں مصروف ہے۔چاچا رحمت بلاتکان باتیں بنائے جا رہا ہے۔ میرا دھیان اپنی جانب کرنے کے لیے وہ میری قمیص کھینچتا ہے۔ میں رحمت کی طرف متوجہ ہونے ہی لگتا ہوں کہ وہی چہرہ ایک بار پھر دکھائی دیتا ہے۔وہی ناک، وہی کان، وہی ماتھ، وہی ہونٹ، ہونتوں پر بے بسی اور افسردگی۔۔سخت چہرے پر پھیلا جبر۔۔بالکل وہی چہرہ ۔۔میں نے یہ چہرہ کئی بار دیکھا ہے۔باورچی خانے میں،بس سٹاپ پر،ریلوے سٹیشن پر، دفتر میں ، شہر کے بڑے چوک میں۔۔۔وہاں اس قسم کے اور بھی کئی چہرے تھے۔سب کے ہونٹوں پر جبر، آنکھیں اندر کو دھنسی۔۔ان کی زبانوں پر ان کے دل کی پکار۔۔مہندی لگے ہاتھوں نے ایک دوسرے کو پکڑ رکھا تھا۔۔ اپنے دوپٹے اپنی کمروں سے باندھے وہ ایک ہی سر تال میں دھمال ڈالے جا رہے تھے۔میں نے اس مہاندرے کو پہچان لیا ہے۔۔میں آنسو گیس کے شیل فائر ہونے کی آواز سن رہا ہوں۔ چہرہ زور سے چیختا ہے۔ میں چاچے رحمت سے پوچھتا ہوں کہ اس نے چیخ کی آواز سنی ہے ؟ وہ عجیب نظروں سے میری طرف دیکھتا ہے۔”چاچا چیخ کی آواز اس کھڑکی میں سے آئی ہے”میں اسے بتاتا ہوں۔۔اس آدھی کھڑکی سےجس پر پردہ پڑا ہے۔میں یہ پردہ گرا دینا چاہتا ہوں چاچا۔۔۔

“کوئی عقل کے ناخن لواچھے بھلے شریف آدمی ہو تم!!”چاچا کہتا ہے۔

یہ پردہ ضرور گرے گا ایک دن۔میں سوچتا ہوں لیکن چاچا رحمت مجھے دھکیل کر میری میز کی طرف لے جاتا ہے جہاں آج کی تازہ ڈاک رکھی ہے اور مجھے اسےآج ہی ڈسپوز آف کرنا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *