وہ نظم جو میں تمہیں پچاس سال بعد سنانا چاہتا تھا

اسٹوو پر دھری کیتلی کی بھاپ اور سیٹی
کمرے میں پھیلتی چلی جاتی ہے
بزرگ آنکھوں سے چشمہ سرکنے لگتا ہے
نیند کا بوجھ، زندگی کی تھکن کو مات دینے لگتا ہے
کتابوں کے میلے میں
جس کا بچپن گم چکا ہے

اونگھنے لگتا ہے
راوی کہانی پھر بھی روکتا نہیں
سنائے چلا جاتا ہے
گاؤں کا خستہ گھر
(جس کی دیواروں کا رنگ سیلن چاٹ چکا ہے )
رات کے آخری پہر تک
جاگتا ہے
کمرے میں اسٹوو پر دھری
کیتلی کی سیٹی رک جاتی ہے
راوی کی دھیمی آواز رکتی نہیں

اندھی نظمیں

مرا فقط تم سے مکالمہ ہے
تمہیں خبر ہے ؟؟؟
کہ وقت بھی تو اک دائرہ ہے
دائرہ، جس میں اک تسلسل سے گھومنا ہے
دائرہ جس میں ایک نقطہ
کسی بھی نقطے سے ایک نقطہ بھی آگے آ کر، اگر بڑھا تو
یہ حادثوں میں شمار ہو گا
پھر اس کے بعد
اک طویل انتظار ہو گا
وقت پھر، اس ابتدا سے شمار ہو گا
جو
قدیم روحوں پے بار ہو گا
اس لیے،
انتظار کے دکھ سے نم
ادھار جذبوں، ادھار لفظوں سے معتبر
میں نے نظمیں کہیں
جن کی آنکھیں نہیں تھیں!

Leave a Reply