Laaltain

دو نظمیں (اسد رضا)

26 جون، 2021
Picture of اسد رضا

اسد رضا

[divider]آئینہ خانے میں ایک پتھر[/divider]

ایک عجیب خواب سے جاگ جاگ جاتا ہوں
آئینوں کے گھر میں، آئینوں کے شہر میں
اپنے نام کا اک آئینہ جو پاتا ہوں
یہ عکس سارے میرے ہیں یا میں بھی ایک عکس ہوں
سایہ ہوں، خیال ہوں یا میں دوسرا ہی شخص ہوں
دِکھ رہے ہیں ایک سے سارے اور ایک ہی منظر دکھا رہے ہیں
یہ سارے ایک سمت کیوں دوڑے جا رہے ہیں
ہنس رہے ہیں دیکھو سارے ایک ہی بات پر
چونک چونک اٹھتے ہیں ہر نئی آہٹ پر
یہ منظر بھر رہا ہے کون، کون آئینہ خانہ چلا رہا ہے
آئینے میں جو خیال اُبھرا ہے یہ خیال کون بنا رہا ہے
کون آوازیں بُن رہا ہے کون بازگشت بنا رہا ہے
یہ نیا ٹرینڈ کون چلا رہا ہے، اس کے پیچھے کون چلا آ رہا ہے
یہ بوڑھا سوداگر جو قصہ سُنا رہا ہے
اس میں کچھ نیا رہا ہے؟
یہ دانش گرد راہ بھی کوئی دکھا رہا ہے یا صرف پٹاری ہلا رہا ہے
ٹرینڈ جب چلائے گا دانش کہاں سے لائے گا
نمبر ہی بڑھائے گا
آئینوں کے شہر میں یہ آئینہ دکھائے گا؟
سایوں کی دنیا ہے نمبروں سے چلتی ہے
لائیکس اور کمنٹس کا خون پی کے پلتی ہے
ہم آئینوں میں جب اپنا چہرہ صاف کرتے ہیں کچھ پیٹرن سے بنتے ہیں
یہ پیٹرن ہی بکتے ہیں، یہ پیٹرن ہی چلتے ہیں
سمجھتے ہیں ہم نے پا لی آزادی
خیال کی آزادی ہے خیالی آزادی
زبان کسی اور کی بیان کسی اور کا
منہ ہی چلا رہے ہیں
اس جگالی کی ہم نے بنا لی آزادی
ہم کنزیومر اپنے وجود کے ہیں جو وجود صرف شہود کے ہیں
آئینوں میں جانے ہم کیسی مارکیٹنگ کرتے ہیں
ہم میں کچھ تو سپیکر ہیں جو آواز کسی اور کی سناتے ہیں
باقی سب وولیم ہی بڑھاتے ہیں
کیا کوئی نتشے آئے گا مژدہ سنائے گا اور دُکھ سے مر جائے گا
انسان مرچکا ہے اور ہم نے اس کی فوٹو کاپیاں کروا لی ہیں
ان آئینوں پہ پہلا پتھر کون اٹھائے گا
یہ پتھر کہاں سے آئے گا
یہ شہرِِ سحر کون مٹائے گا
کب مارکیٹ میں اس سے بڑا جن آئے گا
آئینوں کی دنیا سے باہر نکل بھی پائیں گے
یہ نظام ہم کبھی بدل بھی پائیں گے
میری اس نظم پر آخر کتنے لائکس آئیں گے

[divider]ایک پلیٹ فارم کا خواب !![/divider]

اونگھتا جھولتا پیلٹ فارم
ایک پھوڑے کی طرح نیند میں بہہ نکلا ہے
جس میں خواب ٹیس کی صورت اٹھتے ہیں
جو افق کی کسی کہکشاں سے اترتے ہیں
اور منظر بننے سے قبل زیرِزمین کھو جاتے ہیں
معانقے کی خواہش لیے پٹڑیاں کبڑی ہوئی چلی جاتی ہیں
پٹڑیوں کے درمیان ایک نامعلوم سا تار
جس پہ ابُھر آتے ہیں ہزارہا صدیوں کے خواب
کتنی نسلوں کے کتنی انواع کے جیون جس تار سے لپٹے ہیں
اسی تار سے موصول ہوتے ہیں سارے دھندلے خواب
شکاری کئی جنموں سے اسی تعاقب میں چلا آتا ہے
اک جست بھری ہے خواب نے وحشت سے
شکار بھی چھپتا ہوا آ نکلا ہے
خواب پناہ گاہ ہیں دہشت سے
ایک پٹڑی پہ ہے دہشت اتری ایک نے وحشت پائی
یہ چنگھاڑتا ہے غراتا ہے
وہ روتی ہے کُرلاتی ہے
کوکھ پلیٹ فارم کی پھٹتی چلی جاتی ہے
ریل کی سیٹی بجتی چلی جاتی ہے
انہیں ڈوروں کو سلجھاتا ہوں ڈھونڈ نہیں پاتا ہوں
اپنے حصے کا خواب
زنگ خوردہ خواہشیں ہولے سے کسمساتی ہیں
میں اپنی وحشت کو سنبھالوں کہ دہشت سے نکالوں تجھ کو
مرد و زن کی اس تفریق میں کس سمت میں ڈالوں تجھ کو
تھرتھرانے لگی خواب کی زمیں، انجن نے انگڑائی بھری
گارڈ نے جھنڈی ہلا دی ہے، اسٹیشن بوائے نے ندا دی ہے
اسٹیشن ماسٹر ابھی کھولے بیٹھا ہے صدیوں کا حساب
آرٹسٹ تو محض قُلی ہے جو سارے ڈبوں کی طرف لپکا ہے
کاندھے پہ دھرے موہوم خوابوں کا حساب
وہ کیا جانے کہاں کس کا ٹھکانہ ہے
خوابوں نے ابھی بہت نیچے تلک جانا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *