ناول “سرخ شامیانہ” کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
راشد نے کافی کا طویل گھونٹ لیا اور مانیٹر سکرین پر توجہ کرنے کی کوشش کی۔ اسے چند ہفتوں میں پراجیکٹ مکمل کرنا تھا اور اس کا دماغ کسی نقطے پر مرکوز ہونے سے قاصر تھا۔ تین مہینوں سے وہ شدید بکھراؤ کا شکار تھا، دانیئلا کے ساتھ گزرا وقت، ان دونوں کی طویل ہوتی ای میلز، کلاڈیا کا بجھتا چہرہ، اور راحیل کے معصوم قہقہے ایک گرداب کی صورت اس کی ماہر انگلیوں میں گردش کرتے ہندسوں کے مرکبات کو تحلیل کر رہے تھے۔ اچانک میز پر پڑے موبائل فون کی خاموش تھرتھراہٹ نے اسے چونکایا، کچھ دیر تک وہ اس آلے کو شیشے کی ہموار سطح پر تھرتھراتے بے زاری سے دیکھتا رہا، پھر اسے فون اٹھانا ہی پڑا۔ اس نے فلوریڈا سے اپنے پرانے دوست عرفان کی آواز سنی، اس کی آواز رندھی ہوئی تھی، وہ ٹوٹے پھوٹے جملوں میں اسے بتا رہا تھا کہ شاہد ان سے ہمیشہ کے لیئے بچھڑ گیا تھا، لاہور میں موٹرسائیکل پر جاتے ہوئے کسی نے اس پر گولی چلائی تھی، عرفان اسی شام لاہور کے لیے روانہ ہو رہا تھا، خاور نے اسے فون کیا تھا۔
راشد نے فون رکھا اور دونوں ہتھیلیوں میں کنپٹیاں دبا کر مانیٹر سکرین کو گھورتا رہا۔ ان سب کو ایک دوسرے سے بچھڑے کئی برس ہوچکے تھے۔ لیکن فون پر ان کا بے قاعدہ رابطہ رہتا تھا۔ چھوڑے ہوئے ملک کی حالت، دہشت گردی، جرائم،عدم تحفظ اور افراتفری کی خبریں اسے ملتی رہتی تھیں لیکن اس کے گمان میں بھی کبھی یہ بات نہ آئی تھی کہ کوئی شاہد جیسے نفیس اور محبتی انسان پر گولی چلا سکتا تھا۔
اس کی حالت دیکھتے ہوئے فرم کے افسرِ اعلی نے اسے بادلِ نخواستہ ایک ہفتے کی چھُٹی دی۔ لاہور کے لیے براہِ راست پرواز اسے نہ مل سکی لیکن دفتر چھوڑنے سے پہلے وہ اسلام آباد کے رستے اگلی صبح تک لاہور پہنچنے کا بندوبست کرچکا تھا۔
کلاڈیا جو اس سے اس کے بچھڑے دوستوں اور کالج کے دنوں کے معرکوں کے بارے سنتی رہی تھی، وہ ان تین چار پرانے دوستوں کی ایک دوسرے کے لیے گہری محبت سے آگاہ تھی۔ راشد سے لپٹے وہ بہت دیر تک اس کا غم بانٹتی اور حوصلہ دیتی رہی۔ راحیل جس نے پہلی بار اپنے باپ کی آنکھوں سے آنسو بہتے دیکھے تھے، سہما ہوا ان کی ٹانگوں سے لپٹا رہا۔
“تم کل ہی پاکستان جانے کا کہہ رہی تھیں کلاڈیا، لیکن مجھے اکیلا جانا پڑے گا، یہ ماتمی موقع تم دونوں کے لیے مناسب نہیں”۔ راشد نے راحیل کو اٹھاتے ہوئے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھلتے دن کی مدھم ہوتی روشنی میں ہاسٹل کی چھت پر گدا بچھائے راشد، توفیق اور عرفان تاش کھیل رہے تھے، شاہد ان کے پاس منڈیر سے ٹیک لگائے سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا۔ وہ پچھلے کئی دنوں سے باقاعدگی کے ساتھ ہر شام گرلز ہاسٹل جاتا، چوکیدار اسے دیکھ کر سر ہلاتا اور ناہید کو اس کی آمد کی اطلاع دے آتا۔گھنٹہ بھر باہر انتطار کرنے کے بعد شاہد شکستہ دل اور مایوس لوٹ آتا۔
“ختم شد”، اس نے ہزارویں بار دہرایا۔
“ ورد کرنے سے دل میں یقین اور آنکھوں میں روشنی پیدا ہوتی ہے، جاری رکھو!” راشد اسے گردش کرتا چرس کا سگریٹ بڑھاتے ہوئے بولا۔ شاہد نے سگریٹ لے کر خاموشی سے کش لگایا، اور دونوں ہاتھوں میں دبے سگریٹ دیکھتا رہا۔”مر جانے میں کیا حرج ہے؟” اس نے سوچا۔
یکایک سیڑھیوں سے لوگوں کے بھاگنے کی آواز آئی،چار پانچ باریش لڑکے رائفلیں اور کلاشنکوفیں اٹھائے نمودار ہوئے اور بھاگتے ہوئے چھت کے دوسرے سرے پر بنی پانی کی ٹنکی پر چڑھ گئے۔ فائرنگ ہاکی کے میدان کے پار واقع دوسرے ہاسٹل کی چھت سے شروع ہوئی، چند سیکنڈ میں دونوں جانب سے گولیوں کا تبادلہ ہو رہا تھا۔شاہد منڈیر سے ٹیک لگائے سگریٹ کے کش لگاتا رہا، تاش کھیلنے والوں نے تھوڑی دیر کے لئے ہاتھ روک کر ہوا میں ادھر ادھر دیکھا پھر وہ دوبارہ اپنے کھیل میں مشغول ہوگئے۔منڈیر ان کے سروں سے چند انچ اونچی تھی،کچھ اوپر سے گولیاں شائیں شائیں کرتی گزر رہی تھیں، وقفے وقفے سے کلاشنکوف کی آواز آتی۔
“اگر میں اٹھ کر کھڑا ہو جاؤں تو ابھی کام ختم ہو جائے”، شاہد نے سوچا،” مکمل ختم شد”۔
پھر اسے اپنے باپ کا شفیق چہرہ نظر آیا جسے روزگار کی مشقت نے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا،اس کی ماں چھاتی پیٹ پیٹ کر بین کر رہی تھی، اس کے بھائی بہن رو رہے تھے، ان کے بچے رو رہے تھے۔
“آج توبہت گولیاں خرید لائے ہیں یہ لوگ”،توفیق کی آواز آئی
اچانک شاہد نے اپنی ٹانگ پر قریب بیٹھے عرفان کی گرفت محسوس کی۔ “اٹھنا نہیں”، عرفان پتوں پر نظریں جمائے بڑبڑایا۔
وہ تینوں کئی دنوں سے شاہد کے ٹوٹے دل کو جوڑنے کی کوشش کر رہے تھے، محبت سے، بحثوں سے، چرس سے، گالیوں سے، اور یہ اندیشہ بڑھ رہا تھا کہ ان کا جذباتی دوست اپنی یک طرفہ، خاموش محبت کی ناکامی پر خودکُشی نہیں تو شدید ڈپریشن کی نذر ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا۔
بے نعرہ شروع ہونے والی فائرنگ اچانک بغیر چیخوں کے رک گئی، باریش رائفل بردار تیزی سے ٹنکی سے اترے اور تاش کھیلنے والوں پر استہزائی نظر ڈالتے سیڑھیوں میں غائب ہو گئے۔ وہ اِنہیں جانتے تھے، سیلے ہوے کارتوس جو ڈبوں میں پڑے ضائع ہو چکے تھے، ریٹائرڈ انقلابی جو اپنے خوابوں سے ہاتھ دھو کر اب کالج کے کونوں کھدروں میں چرس پیتے تھے۔
“دوسرے تیسرے سال کے لڑکے ہیں”،راشد بولا،”یہ لوگ جو بندوق کی سنسنی اور ایمان کے اندھے جوش کے نشئی ہیں،کیا کبھی کسی اور طرح جی سکیں گے؟”
“نہیں”، توفیق نیفے میں اْڑسے پستول کو تھپتھپا کر قطعی لہجے میں بولا۔
“یہ پستول تھوڑا ہی ہے، ہرنیا ہے تمہارے تو، آپریشن ہو گا”،شاہد تمسخر سے ہنسا۔
“چلو تم ہنسے تو”،توفیق بولا۔
“پٹاخوں نے جگا دیا”،شاہد بولا،”کیا کروں اب؟”
“لسی پینے چلتے ہیں”،توفیق پتے پھینکتا ہوا بولا۔
ہاسٹل کی شام بارود کی بو میں اپنے معمول سے جاری تھی،لوگ کھانے کے لئے میس کی جانب روانہ تھے، چند لڑکے ٹولیوں میں کھڑے فائرنگ پر تبادلۂ خیال کر رہے تھے۔اْنہیں دیکھ کر چند جونیئرلڑکے وقوعہ کے بارے گفتگو کرنے اشتیاق سے ان کی طرف لپکے، سنسنی اور ہیجان ان کے چہروں سے عیاں تھا۔وہ چاروں انہیں بے تکے جواب دیتے ہوے شہر کی سمت روانہ ہوگئے۔
دو کلومیٹر لاری اڈہ، باجے بجاتی، دن میں روشنیاں چمکاتی لاریوں کی طوفانی مستیوں سے اٹھتے گرد اور لید کے دبیزبادل جن میں ہنہناتے گدھے اپنی اپنی گاڑی کھینچے بھاگے پھرتے تھے۔ اس سے آگے گھنٹہ گھر جہاں برتنوں، جوتوں، مویشیوں اور رکشوں سے لبریز آٹھ بازار کھلتے تھے۔ ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر جس کی ثقافت خوردونوش کی تین دوکانوں اور بیاہ شادیوں کی تقریبات پر مشتمل تھی دراصل ایک بہت بڑا گاؤں تھا جہاں بجلی آگئی تھی۔
کالج شہر کے ایک سرے پر پھیلی عمارتوں کا وسیع سلسلہ تھا جس میں درسگاہ، کینو کا باغ، تالاب،کھیل کے میدان، طالبعلموں اور اساتذہ کی اقامت گاہیں تھیں۔ عین درمیان سے سرگودھا جانے والی سڑک گزرتی تھی جس پر سواریوں سے لدی لاریاں فراٹے بھرتی تھیں۔ کالج کی اندرونی سیاسی لڑائیوں میں یہ لاریاں اغوا کر لی جاتیں، ہاسٹل کے باہر میدان میں، درختوں کے نیچے، سابق مسافر کاہلی سے ادھر ادھر بیٹھے رہتے۔
کالج شہر کے ایک سرے پر پھیلی عمارتوں کا وسیع سلسلہ تھا جس میں درسگاہ، کینو کا باغ، تالاب،کھیل کے میدان، طالبعلموں اور اساتذہ کی اقامت گاہیں تھیں۔ عین درمیان سے سرگودھا جانے والی سڑک گزرتی تھی جس پر سواریوں سے لدی لاریاں فراٹے بھرتی تھیں۔ کالج کی اندرونی سیاسی لڑائیوں میں یہ لاریاں اغوا کر لی جاتیں، ہاسٹل کے باہر میدان میں، درختوں کے نیچے، سابق مسافر کاہلی سے ادھر ادھر بیٹھے رہتے۔
یہ ان لوگوں کا کالج میں آخری سال تھا۔ ان کے اولیں عروج کا زمانہ گزر چکا تھا جب ان کی بائیں بازو کی جماعت نے کالج کی فضا تشکیل دی تھی۔ اس صنعتی شہر میں اکلوتے میڈیکل کالج کی بنیاد رکھنے والا جمہوری وزیرِاعظم شراب کے نشے میں مومنین کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی سزا بھگت چکا تھا۔ دیواروں پر سے سوشلزم کی ممکنہ اور غیرممکنہ صورتوں کے وعدے مٹا دیے گئے تھے اور ان کی جگہ دوبارہ نامردی کے خلاف جہاد کے اشتہاروں نے لے لی تھی۔ جہاد بیشمار سروں، ٹانگوں، جبڑوں اور خصیوں والا ایک واحد جان دار تھا جو ایک تاریک عفریت کی صورت، برسوں سے مسلط اس جمودی بلیک ہول میں پھنکارتا سنائی دیتا تھا۔ روس کی ہیبت ہندوکش کے بنجر پہاڑوں میں پٹ رہی تھی۔امریکہ کا بھیجا ہوا اسلحہ، روسیوں سے چھینا ہوا اسلحہ، امیرالمومنین کی ذاتی بھٹیوں میں ڈھلا اسلحہ سرحدیں پھلانگتا کالجوں، یونیورسٹیوں میں پہنچ رہا تھا۔طاقت کا مظاہرہ کرنے میں مکوں، ڈنڈوں اور زنجیروں کا زمانہ گزر چکا تھا۔ ملک گیر رجعت پسند اور بنیاد پرست مذہبی جماعتوں اورسرکاری سرپرستی میں پروان چڑھتے مذہبی رضاکار لشکروں کے نمائندے ہر تعلیمی ادارے کی فضا پر قابض ہو چکے تھے۔ گرم دوپہروں میں،سفید اوورآل پہنے، کالج کی لیب میں مینڈکوں، خرگوشوں اور لاوارث لاشوں کی چیر پھاڑ کرتے لڑکے لڑکیوں کے لیے وقتاً فوقتاً کلاشنکوف کی تڑتڑ سننا معمول بن چکا تھا۔
ہیبت، تشدد اور کرختگی کی اس فضا میں جہاں لیکچر ہال سے باہر ہم جماعت لڑکی لڑکے کا ایک دوسرے سے ہمکلام ہونا ایک انقلابی قدم تھا، شاہد اپنی شدید محبت کا اظہار کرنے کی بجائے ناہید سے سالہاسال ادھرادھر کی ہانکتا رہا تھا۔ بالآخر جب اس نے دل کی بات کہہ دینے کی ٹھانی تو اسے معلوم ہوا کہ وقت گزر چکا تھا، ناہید نے اس سے ملنے سے قطعاً انکار کر دیا تھا۔ انکار کی وجہ بتانا ضروری نہ سمجھا گیا تھا۔
فائنل امتحان کے دن قریب آگئے، آٹھ دس لڑکوں کے اس گروہ نے سر منڈوا لئے تھے،یہ بھکشو دور کا آغاز ہونے کی علامت تھی، اس دور میں کتابیں رٹی جائیں گی، شہرگردی اورنقاب پوش خواتین سے اشارہ بازی کا زمانہ ختم ہوا، کھانے کے لئے میس تک جانا بھی متروک رہے گا۔ وقتاً فوقتاً کوئی نیم برہنہ صابن پکڑے غسلخانے کی سمت جاتا نظر آتا جسے ہر کمرے سے مشت زنی کے نئے طریقے باآوازِ بلند گوش گزار کیئے جاتے۔
انہی دنوں راشد کو خبر ملی کہ اس کا باپ گزشتہ چار دنوں سے لاپتہ تھا، خاندان کے افراد نے ہر ممکن ٹھکانہ چھان ڈالا تھا، پروفیسر جمیل احمد کا سراغ نہیں ملا تھا۔ راشد اگلی صبح چند کتابیں کپڑے سمیٹ کرلاہور کے لیے روانہ ہوا۔ مسافروں سے لدی بس دھول دھواں ایک کرتی شہر سے نکلی، ختم ہوتی گرمی اپنے آخری جلوے دکھا رہی تھی،پسینہ، بیزاری، بیقراری اور بچوں کی آ ہ وزاری کو بس کے کھلے شیشوں سے آتی ہوا نے بتدریج سکون دیا۔
بچپن میں ایک بارراشد میلہ چراغاں میں گم گیا تھا، قتلموں، غباروں اور انسانوں کی ریل پیل میں وہ بہت دیر روہانسا اپنے باپ کو ڈھونڈتا رہا۔مٹی کے کھلونوں کی ایک دکان کے پاس کھڑا وہ رو رہا تھاجب اس کے باپ نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور اسے اٹھا کر گلے سے لگا لیا، پھر وہ باپ کے کندھوں سے نیچے نہیں اترا تھا۔ اور اب اس کا باپ گم گیا تھا، دنیا کے میلے میں جس کی کوئی حد نہیں تھی، جہاں اصلی جادوگر اورشعبدہ باز پھرتے تھے اور موت صرف کنویں تک محدود نہیں تھی۔
امکان یہ بھی تھا کہ وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر چلا گیاہو۔ پروفیسر جمیل احمد، معروف و محترم ریاضی دان اور استاد ایک عرصے سے سائنسی شعبدوں سے اکتا چکا تھا۔ عقل کے محدود زاویے اس کی متلاشی روح کو پناہ دینے میں ناکام رہے تھے۔ آئن شٹائن اورمیکس پلانک کی جگہ کشف المحجوب، یوگ وید اور تذکر ۃالاولیاء نے لے لی تھی،پچھلے کچھ عرصہ سے اس نے فقیروں اور ملنگ نما لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا تھا جسے خاندان والوں نے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا تھا۔
لاری ایک ڈرائیور ہوٹل پر رُکی اورلوگ ٹانگیں سیدھی کرنے اور چائے پانی کے لئے باہر نکلے۔ راشد کچھ پینے اور سگریٹ خریدنے کے لئے ایک کھوکھے کی سمت بڑھا،ایک فقیر نُما، میلا کُچیلا آدمی ارد گرد کی گہماگہمی اور افراتفری سے لاتعلق کھڑا بڑبڑا رہا تھا،راشد اس کے قریب سے گزرا تو فقیر نے لحظہ بھر کو اس کی آنکھوں سے آنکھیں ملائیں، اُن آنکھوں میں ایک دیوانی چمک تھی جو اس کی بے طرح بڑھی داڑھی اور سر کی غلیظ لٹوں کے بیچ فوارے کی طرح پھوٹ رہی تھی۔
“وہ گیا، اسے رستہ مل گیا، اسے کیوں پکڑتے ہو،پاگل ہو”۔ یکساں آواز میں بڑبڑاتے ہوے اس نے فقرے کے اختتام پرایک بچے کی مسرت سے بلند آہنگ قہقہہ لگایا۔
راشد لحظہ بھر کو ٹھٹھکا، کیا اسے مخاطب کیا گیا تھا؟ کیا فقیر اسے کوئی پیغام دے رہا تھا؟ راشد نے دیکھا وہ دیوانہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا اور آنکھیں نیم وا کئے دھیمی آواز میں بے جوڑ فقرے بڑبڑا رہا تھا۔ راشد کے جی میں آئی کہ وہ رک کر اس سے استفسار کرے۔ پھر اسے اپنے ارد گرد کھڑے، کھاتے پیتے معزز لوگوں کا خیال آیا جو اسے اس میلے کچیلے دیوانے سے باتیں کرتا دیکھیں گے، اس اچانک وارد ہوتی توہم پرستی پر شر مندگی محسوس ہوئی اوربے ہمتی کی ایک لہر میں وہ آگے بڑھ گیا۔ کھوکھے پر اس نے سگریٹ خریدے،پیپسی کولا کی ایک بوتل پی اور کنکھیوں سے فقیر کو دیکھتا رہا۔
“اس طرح کے دیوانے جگہ جگہ مل جاتے ہیں، اس شخص میں کوئی خاص بات نہیں، اپنی دیوانگی میں بڑبڑاتا پھرتا ہے، اس کا میرے حالات و واقعات سے کیا تعلق؟ راشد نے فیصلہ کن انداز میں سوچا۔
بقیہ سفر میں اس نے ناک، کان، گلا کے امراض کے متعلق کتاب پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی، دھچکے کھاتی لاری میں لفظوں پر نظر جماناایک بازی گری تھا،جلد ہی وہ اونگھ گیا۔لاہور پہنچ کر جب وہ لاری سے اترا تو اس دیوانے کو بھول چکا تھا۔
بقیہ سفر میں اس نے ناک، کان، گلا کے امراض کے متعلق کتاب پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی، دھچکے کھاتی لاری میں لفظوں پر نظر جماناایک بازی گری تھا،جلد ہی وہ اونگھ گیا۔لاہور پہنچ کر جب وہ لاری سے اترا تو اس دیوانے کو بھول چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنک فلائیڈ کا گیت “ دی وال” ایک ہیبت کے ساتھ گونج رہا تھا، کارسے اکھاڑے گئے سپیکر دو خالی مٹکوں میں رکھے تھے جن سے برآمد ہونے والی آواز نے اس عظیم الشان گیت کو ایک ایسا پہلو دیا تھا جو اس گیت کے خالق کے گمان میں بھی نہ آسکتا تھا۔ کمرے کے وسط میں شاہد چھت کے پنکھے سے بندھا فرش سے چند انچ اوپر جھُول رہا تھا، دیوار کے ساتھ سجے اس کے بنائے مجسموں میں سے کئی کے ناک، کان ٹوٹ چکے تھے۔توفیق بستر میں لیٹا سگریٹ پھونک رہا تھا اور عرفان کھڑکی کے پاس میز پر چڑھا اس کان پھاڑ ماحول میں نہایت سنجیدگی سے مطالعہ میں منہمک تھا۔
“ پانی پلا دے”! شاہد نے توفیق کو گالی دیتے ہوئے مطالبانہ درخواست کی۔ توفیق نے محض گالی کا جواب دینے پر اکتفاکیا۔
“ کتابوں میں آیا ہے کہ ایسی معلق حالت جہنم واصلی پر منتج ہو سکتی ہے،” شاہد چلایا۔
“ کتابوں میں آیا ہے کہ ایسی معلق حالت جہنم واصلی پر منتج ہو سکتی ہے،” شاہد چلایا۔
“ یہی دن دیکھنے کے لئے زندہ ہیں ایک عرصے سے،” عرفان نے اس کی طرف مُڑے بغیر کہا۔
“ اچھا یار توبہ کرتا ہوں، کھولو مجھے،”
“ اتنی محنت سے اس لئے تو نہیں باندھا کہ تم فوراٌ توبہ کر لو”، توفیق غرایا۔
“ اس کے منہ پر ٹیپ لگا دو”، عرفان نے توفیق کو مشورہ دیا۔
“ لگا دو، رستے اور بھی ہیں احتجاج کرنے کے”، شاہدبولا۔
“ لگا دو، رستے اور بھی ہیں احتجاج کرنے کے”، شاہدبولا۔
“ خاموش لٹکا رہ ورنہ چلاتا ہوں پنکھا”، توفیق نے دھمکی دی۔
آج صبح وہ اسے ملتان کے میڈیکل کالج کے ہاسٹل سے پکڑ کر لائے تھے جہاں وہ گزشتہ پانچ دنوں سے روپوش تھا۔کسی کو بتائے بغیر وہ ایک شام غائب ہو گیا تھا۔ عرفان اور توفیق نے شہر کے تمام ممکنہ ٹھکانے کھنگال ڈالے تھے، لاہور اس کے گھر فون کیا، ان کی بد قسمتی سے فون شاہد کے بڑے بھائی خاور نے اٹھایا تھا جس نے سنتے ہی ان پر چڑھائی شروع کر دی تھی، شاہد کو خراب کرنے والے وہ لوگ تھے، اچھا خاصا فرمانبردار لڑکا میڈیکل کالج بھیجا تھا،ان لوگوں میں آتے ہی اس کا دماغ خراب ہو گیا تھا،وغیرہ وغیرہ۔ پانچویں دن انہیں نشتر میڈیکل کالج سے تنویر کا فون آیا تھا جس نے آہ و زاری کرتے ہوئے ان سے التجا کی تھی کہ وہ اس عذاب کو آ کر لے جائیں۔ اس نے بتایا کہ شاہد اچانک وہاں آ وارد ہوا تھا،دن بھر چرس پیتا اور گالیاں بکتا پھرتا تھا،کوئی ڈھنگ کی بات کرتا نہ کسی کو پڑھنے دیتا، اتنے دنوں میں وہ سب اس سے عاجز آگئے تھے۔
عرفان اور توفیق جب نشتر میڈیکل کالج کے ہاسٹل پہنچے تو شاہد نے انہیں دیکھ کر فرار ہونے کی کوشش کی لیکن تیسری منزل کی کھڑکی سے زمین کی دوری دیکھ کر سہم گیا۔ واپسی کے سفر میں وہ شاہد سے ہمدردی کی باتیں کرتے رہے، بیچ بیچ میں گالی گلوچ پر بھی اُتر آتے، “حرامی کا دل ٹوٹ گیا! بھین چود یہاں ہر دوسرا آدمی ٹوٹا دل کھڑکھڑاتا پھرتا ہے،تم نے کون سا کمال کر لیا”۔ توفیق نے کہا کہ یہ دل ٹوٹنے کا محض ڈراما تھا اصل میں وہ امتحان سے ڈر کر چھپتا پھرتا تھا۔
آج صبح وہ اسے ملتان کے میڈیکل کالج کے ہاسٹل سے پکڑ کر لائے تھے جہاں وہ گزشتہ پانچ دنوں سے روپوش تھا۔کسی کو بتائے بغیر وہ ایک شام غائب ہو گیا تھا۔ عرفان اور توفیق نے شہر کے تمام ممکنہ ٹھکانے کھنگال ڈالے تھے، لاہور اس کے گھر فون کیا، ان کی بد قسمتی سے فون شاہد کے بڑے بھائی خاور نے اٹھایا تھا جس نے سنتے ہی ان پر چڑھائی شروع کر دی تھی، شاہد کو خراب کرنے والے وہ لوگ تھے، اچھا خاصا فرمانبردار لڑکا میڈیکل کالج بھیجا تھا،ان لوگوں میں آتے ہی اس کا دماغ خراب ہو گیا تھا،وغیرہ وغیرہ۔ پانچویں دن انہیں نشتر میڈیکل کالج سے تنویر کا فون آیا تھا جس نے آہ و زاری کرتے ہوئے ان سے التجا کی تھی کہ وہ اس عذاب کو آ کر لے جائیں۔ اس نے بتایا کہ شاہد اچانک وہاں آ وارد ہوا تھا،دن بھر چرس پیتا اور گالیاں بکتا پھرتا تھا،کوئی ڈھنگ کی بات کرتا نہ کسی کو پڑھنے دیتا، اتنے دنوں میں وہ سب اس سے عاجز آگئے تھے۔
عرفان اور توفیق جب نشتر میڈیکل کالج کے ہاسٹل پہنچے تو شاہد نے انہیں دیکھ کر فرار ہونے کی کوشش کی لیکن تیسری منزل کی کھڑکی سے زمین کی دوری دیکھ کر سہم گیا۔ واپسی کے سفر میں وہ شاہد سے ہمدردی کی باتیں کرتے رہے، بیچ بیچ میں گالی گلوچ پر بھی اُتر آتے، “حرامی کا دل ٹوٹ گیا! بھین چود یہاں ہر دوسرا آدمی ٹوٹا دل کھڑکھڑاتا پھرتا ہے،تم نے کون سا کمال کر لیا”۔ توفیق نے کہا کہ یہ دل ٹوٹنے کا محض ڈراما تھا اصل میں وہ امتحان سے ڈر کر چھپتا پھرتا تھا۔
شاہد نے بتایا کہ وہ ایک شام پھرتا پھراتا لاری اڈے جا نکلا تھا جہاں سے وہ بغیر کسی واضح ارادے کے لاری میں بیٹھ کر ساھیوال روانہ ہو گیا تھا، پتوکی کے قریب کسی جگہ وہ اتر گیا تھا اور پھرتا پھراتا رات ڈھلے ہڑپہ کے کھنڈروں میں جا نکلا تھا۔” وہاں کھنڈروں میں میں پھرتا رہا، “ شاہد نے انہیں بتایا،”مجھے لگا جیسے میں بھی مر چکا ہوں، اپنا بھوت ہوں،ابھی یہاں بھوتوں کا رتجگا ہوگا۔ لیکن مجھے اپنے علاوہ کوئی دوسرا بھوت نظر نہیں آیا، وہ جگہ اتنی پرانی ہے کہ وہاں کے بھوت بھی مر چکے ہیں، وہیں کھنڈروں میں لیٹ کر میں سو گیا، صبح سویرے میری آنکھ کھلی، صدیوں پرانے آسمان پر صدیوں پرانی روشنی پھیل رہی تھی، صدیوں پرانی منڈیروں کے پار کھیت اور درخت نظر آ رہے تھے، کھیتوں میں ہل چل رہے تھے، بیلوں کے گلوں میں بندھی گھنٹیاں بج رھی تھیں۔ اس وقت میں نے زندگی پر دس بار لعنت بھیجی، اتنی سنجیدگی، اتنی محنت، اتنی جسمانی اور روحانی تکلیف اور انجام؟ چھت بچی نہ فرش، تخت، ڈنڈا، لوٹا ہر شے ختم، بھوت تک مر گئے، لعنت ہے۔ مجھے لگا میں امر ہو گیا ہوں۔ زندہ مردہ ایک برابر، پتھر، نہ غم غم ہے نہ خوشی خوشی ہے۔ عناصر کی ایک بھونڈی ترتیب، ایک چُوتیا تجربہ، انسان!”
“ لایعنیت اور لغویت کوئی نئے خیال نہیں ہیں”، عرفان نے کہا۔
“ علم کی کوئی حقیقت نہیں راشد”، شاہد نے کہا، ”ابتلا حقیقت ہے“۔
ہاسٹل پہنچ کر انہوں نے بے خبری میں شاہد کو باندھ لیا تھا اور چار چھ لوگوں نے مل کر اسے چھت کے پنکھے سے لٹکا دیا تھا۔
“سالے کتوں کی طرح تجھے سارے شہر میں ڈھونڈتے پھرے ہیں“، عرفان اسے باندھتے ہوئے غصے سے بڑبڑایا۔
“ علم کی کوئی حقیقت نہیں راشد”، شاہد نے کہا، ”ابتلا حقیقت ہے“۔
ہاسٹل پہنچ کر انہوں نے بے خبری میں شاہد کو باندھ لیا تھا اور چار چھ لوگوں نے مل کر اسے چھت کے پنکھے سے لٹکا دیا تھا۔
“سالے کتوں کی طرح تجھے سارے شہر میں ڈھونڈتے پھرے ہیں“، عرفان اسے باندھتے ہوئے غصے سے بڑبڑایا۔
“ تو کیا ہوا،یہاں اچھے خاصے معزز باپ کسی کو کچھ بتائے بغیر غائب ہو جاتے ہیں میری کیا اوقات ہے”، شاہد نے احتجاج کیا۔ “ اسی بات کا غصہ زیادہ تھا ہمیں، ایک ابھی اپنے باپ کی تلاش سے نہیں لوٹا اور باقیوں کو اس حرامی اولاد نے اپنے چکر میں ڈال دیا”، توفیق گرجا۔
دوپہر کے کھانے کے وقت انہوں نے شاہد کو پنکھے کی قید سے آزاد کیا۔ اس دوران بقیہ واقف دوست اسے وقتا فوقتا پھبتیوں اور جُگتوں سے نوازتے رہے تھے۔
شاہد دن بھر کمرے کے کونے میں کتابیں کھولے بیٹھا رہتا، کبھی کبھار وہ ہاسٹل سے باہر کھیتوں میں اکیلا پھرتا نظر آتا جو ایک بڑی تبدیلی تھی۔ وہ سب تقریبا ہمیشہ اکٹھے ہی رہتے تھے، یکسر تنِ تنہا پایا جانا ان میں سے کسی کا شیوہ نہ تھا۔
ایک شام راشد واپس وارد ہوا۔ اس کے والد کا کچھ پتہ نہیں چلا تھا۔ لاہور میں، دوسرے شہروں میں،واقف دوست،رشتے دار، ہر جگہ ڈھونڈا جاچکا تھا، پروفیسر جمیل احمد بدستور لاپتہ تھا۔ گھر میں مُردنی طاری تھی، عرفان کی ماں کو،جو اب تک بڑی ہمت سے برداشت کر رہی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چپ لگ گئی تھی۔ راشد کے لئے ضروری تھا کہ وہ والد کی بازیابی تک ماں کے پاس ٹھہرے۔
“کیا کروں، دیوار پھاند کر گرلز ہاسٹل میں کود جاؤں، اٹھا کر بھاگ جاؤں ناہید کو ؟ “رات کینو کے باغ میں خشک کھالے میں لیٹے لیٹے شاہد نے تمسخرانہ سنجیدگی کے ساتھ راشد سے استفسار کیا
“حماقت یہ ہے کہ تم یہ بھی نہ جان پائے کہ اس کے دل میں بھی تمھارے لیے کچھ تھا یا نہیں،” راشد بولا۔
“حماقت یہ ہے کہ تم یہ بھی نہ جان پائے کہ اس کے دل میں بھی تمھارے لیے کچھ تھا یا نہیں،” راشد بولا۔
“اب اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے،” شاہد مایوسی سے بولا۔
“ہاں یہ تو پتھرہو چکا ہے،زندہ،مردہ ایک برابر، اسے اب کسی چیز سے فرق نہیں پڑتا”، توفیق نے کہا۔
“ فرق تو بہت پڑتا ہے،” عرفان نے شاہد سے کہا،” تم دل کی بات کہہ دینے میں اگراتنے ٹھس نہ ہوتے تو آج معاملہ شایدکچھ اور ہوتا”۔
“سالا ہم لوگوں کو تو بات بھی نہیں کرنے دیتا، قینچی کی طرح زبان چلتی ہے اس کی، اور اس بیمار سی لڑکی کے سامنے پسینے چھوٹ جاتے تھے اس کے”، توفیق غرایا۔
“ تو نے خود زندگی میں ماں کے علاوہ کسی عورت سے بات کی ہے”؟ شاہد نے اس سے پوچھا۔
توفیق نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر وہ اسی غصے سے بولا،”مجھے عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں”۔
“ وہ کیوں بھئی”؟ عرفان نے پوچھا۔
“ عورتیں دماغ چاٹ چاٹ کر کھوکھلا کر دیتی ہیں مرد کو”، توفیق نے جواب دیا۔
“ عورت اور مرد، برخوردار، دو پہیے ہیں زندگانی کی گاڑی کے “،راشد نے ارشاد کیا۔
“ میرے لئے ایک پہیے والی سائیکل ہی کافی ہے”،توفیق نے قطعی لہجے میں جواب دیا۔
اگلی صبح راشد نے سامان باندھا اور دوبارہ لاہور کا رخ کیا۔عرفان اور شاہد اسے لاری اڈے پر الوداع کرنے کے بعد کالج آگئے۔ لڑکے لڑکیاں سفید گاؤن پہنے، گردنوں میں سٹیتھو سکوپ لٹکائے،کتابیں سنبھالے ادھر سے ادھر آ جا رہے تھے۔کالج کینٹین کے باہر انہیں توفیق مل گیا۔”حالات ٹھیک نہیں،” وہ دھیمی آواز میں بولا،”دونوں پارٹیاں اسلحہ اٹھائے پھر رہی ہیں”۔
(جاری ہے)