Surkh Shamyana

Poet and Musician Hussain Abid, was born in Lahore and is currently living in Germany. His poetry collections; "Utri Konjain”, "Dhundla’ay din ki Hidat” and Behtay Aks ka Bulawa” have been praised by the general audience and the critics alike. Hussain Abid collaborated with Masood Qamar to produce "Kaghaz pe Bani Dhoop” and "Qehqaha Isnan ne Ejad kia”. Abid’s musical group "Saranga” is the first ever musical assemble to perform in Urdu and German together. Hussain Abid’s first novel "Surkh Shamiyana” is being published on Laaltain.

سرخ شامیانہ۔ ساتویں قسط

حسین عابد: شرم نہیں آتی، شراب پیتے ہو؟ شکل سے تو مسلمان لگتے ہو"، پستول بردار نے بوتل پر قبضہ کرتے ہوئے شدید نفرت اور غصے سے راشد کے جبڑے پر پستول کا دستہ رسید کیا۔

سرخ شامیانہ – چھٹی قسط

حسین عابد: سنٹر پر نئے ڈاکٹر کی آمد کی خبر دور دراز تک پھیل چکی تھی، اپنے کوارٹر کے دروازے پر شب خوابی کے پاجامے میں ملبوس شاہد نے دیکھا، وہ مریض خواتین و حضرات شاید سورج کے ساتھ ہی گھروں سے نکل پڑے تھے اور جوق در جوق ڈسپنسری کے صحن میں جمع ہو رہے تھے۔

سرخ شامیانہ – پانچویں قسط

حسین عابد: ڈسپنسری تین کمروں پر مشتمل تھی، ایک گرد آلود میز، کرسی، معائینے کا سٹول، چند زنگ خوردہ اوزار، ایک بستر جس کے سپرنگ پینڈولم کی طرح لٹک رہے تھے اور دوائیوں کی ایک الماری اس کا کل اثاثہ تھے۔

سرخ شامیانہ – چوتھی قسط

حسین عابد: جتنی دعائیں اور کراہیں اس دھرتی سے اٹھتی ہیں اگر انہیں کاغذوں پر لکھ کر آسمان پر چپکا دیا جائے تو آسمان بھر جائے، چھاؤں ہو جائے اس دھرتی پر”، شاہد تلخی سے بولا

سرخ شامیانہ۔ قسط نمبر2

حسین عابد: اگلی صبح راشد نے سامان باندھا اور دوبارہ لاہور کا رخ کیا۔عرفان اور شاہد اسے لاری اڈے پر الوداع کرنے کے بعد کالج آگئے۔ لڑکے لڑکیاں سفید گاؤن پہنے، گردنوں میں سٹیتھو سکوپ لٹکائے،کتابیں سنبھالے ادھر سے ادھر آ جا رہے تھے۔

سرخ شامیانہ-پہلی قسط

حسین عابد: میں جو تُند ندی کی طرح تھا، ایک بدبودار جوہڑ بنتا جا رہا ہوں، جامد اور یکساں۔ اب مجھ پر صرف کائی کی تہیں جم سکتی ہیں۔ اس نے استہزائی کرب سے سوچا۔