Laaltain

فنِ گزشتگان

13 نومبر، 2016
ہم ہمیشہ کی طرح جنگ ختم ہونے کے بعد وہاں پہنچے۔ گیارہ سال ہمیں اس جنگ کا انتظار کرنا پڑا اور یہ جنگ مسلسل سات دن اور سات راتوں تک جاری رہی۔ ان سات دنوں میں ہم لوگ روز دور سے حسرت بھری نظروں سے جنگ میں مرنے والوں کی لاشوں کو دیکھتے رہے مگر ہمیں میدانِ جنگ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ جنگ ختم ہونے کا نقارہ بجا دیا گیا جس کے بعد ہمارا پورا قبیلہ اپنے جھونپڑی نما گھروں سےننگ دھڑنگ میدانِ حشر کی طرف دوڑتا چلا گیا۔ سب نے اپنے ہاتھوں میں بڑے بڑے تھیلے اٹھا رکھے تھے جس میں تمام ضروری اوزار اور مصالحےموجود تھے جنہیں پچھلے سات دنوں میں ہم نے تیار کیا تھا۔ ہمارا قبیلہ موت اور زندگی کی سرحد پہ کھڑا رہتا تھا یہاں تک کہ موت اپنا آخری حُکم سنا دیتی اور آنے کے لئے پر تولتی ایسے میں ہم یکایک کہیں زمین کہ بطن سے نمودار ہو جاتے اور زندگی کشید کرتے۔ ہمارے بزرگوں نے سوریا دیوتا کی اطاعت سے انکار کر دیا تھا جس کہ بعد اُن کے شراپ کے نتیجے میں ہماری قوم ایسے مرض میں مبتلا ہو گئی کہ کسی بھی زندہ انسان کو چھوتے تو وہ برص کہ مرض میں مبتلا ہو جاتا۔ اس لئے ہمیں صرف دشمن قوم کی لاشوں کو چھونے کی اجازت ہوتی تھی۔ ہم اس لمس کو ترس جاتے۔ تخلیق ہماری انگلیوں میں دم توڑنے لگتی۔ جنگ کہ بعد ہم لاشوں سے کئی ضروری اشیا بناتے تھے۔ یہی ہمارے جیون کا مقصد تھا اور ہم صدیوں سے اس پیشے سے منسلک تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جب پہلی بار ایک شخص نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا تو لاش کو دفناتے وقت اس نے اُس کی آنکھیں نکال لیں تھیں۔ اُن آنکھوں میں حیرت اور خوف تھا یہی حیرت اور خوف بعد میں تخلیق، ایجاد اور دریافت کا سبب بنا، یہی شخص ہمارے قبیلے کا پہلا بزرگ تھا اور اس فن کا بانی بھی۔

 

میں اپنے گیارہ سالہ بیٹے کو ہمراہ لئے ہوئے تھا کہ یہ اُس کی زندگی کہ پہلی لڑائی تھی اور مجھے اُسے اپنا خاندانی فن سکھانا تھا۔ وہ بہت پُرجوش تھا اور پورے قبیلے کے آگے آگے دوڑتا جا رہا تھا۔میدانِ جنگ میں تاحدِنظر لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ جن پر چیل کوئے اور گدھ جھپٹ رہے تھے۔ انہوں نے کتنی ہی لاشوں کو برباد کر دیا تھا۔ رہی سہی کسر کُتوں اور گیڈروں نے پوری کر دی تھی۔ وہاں اتنا تعفن پھیلا ہوا تھا کہ اُس کی بو ہمیں مدہوش کئے دیتی تھی۔ کچھ بد مست نوجوان تو اتنے نشے میں تھے کہ جگہ جگہ قے کر رہے تھے۔ اس تعفن کے باوجود ہماری بو سونگھتے ہی یہ سب میدانِ جنگ سے یوں بھاگے جیسے ان سب لاشوں میں جان پڑ گئی ہو۔ کئی کتوں کے منہ سے نوالے گر گئے۔ “بیٹا یاد رکھنا فنونِ لطیفہ سے بے بہرہ یہ اقوام ہماری سب سے بڑی دشمن ہیں، انہوں نے کتنی ہی قیمتی لاشوں کو تباہ کر دیا ہو گا۔ لیکن خیر چونکہ جنگ سات دن اور سات رات جاری رہی ہے اس لئے ابھی بھی بہت ساری لاشیں،کام کی مل جائیں گی”۔ میں نے اپنے بیٹے سے کہا۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ سپاہی ابھی بھی زندہ تھے اور ان کی نیم بُریدہ گلوں سے خون کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔ ہمیں ان کی موت کا نتظار کرنا تھا۔ سب سے پہلے قبیلے کے بزرگوں نے قابلِ استعمال لاشوں کو الگ کیا۔ خواتین نے ان کے لباسوں کو الگ کیا اور ان کے زخموں کو دھویا۔ ہمیں کُل تین سو پینسٹھ لاشیں ایسی مل گئی تھیں جو مکمل طور پر قابلِ استعمال تھی۔ میں نے ان میں سے تین لاشوں کو الگ کیا۔ ان میں سے ایک تو محض سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان تھا اور اس کے گلے میں تیر لگا تھا۔ دوسرا قدرے ادھیڑ عمر تھا جس کی آدھی گردن تلوار کے وار سے کٹی ہوئی تھی۔ تیسرا ایک بھاری بھرکم جوان تھا جس کے سینے اور پیٹ کے درمیان نیزہ لگا تھا۔

 

میں نے اپنے بیٹے کو پہلو میں بٹھایا اور اُس کو سکھانے لگ گیا۔ وہ نہایت انہماک سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔

 

“بیٹا سب سے پہلے لاش کے ہاتھ الگ کرتے ہیں” میں نے مُردہ نوجوان کا ہاتھ بیٹے کے ہاتھ میں دیا۔ اُس کا ہاتھ یکدم اکڑ گیا اور مانو اس نے میرے بیٹے کی کلائی ہی پکڑ لی۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹا۔ میں نے آرام سے اُس کا ہاتھ چھڑایا۔ اور کہا “بیٹا ڈرو مت نوجوان لاشے اس طرح کی حرکت کرتے ہیں۔ دیکھو لاش اور عورت اگر تمہارا ہاتھ پکڑ لیں تو جلدی سے چُھڑا لینا، ورنہ اپنا فن فراموش کر بیٹھو گے” اُس نے سعادت مندی سے اپنا سر ہلایا۔ میں نے تیز خنجر سے جلدی جلدی اس کی کلائی کاٹی۔ پھر نہایت چابک دستی سے اُس کی انگلیوں کو الگ کیا اور نوک دار آلے سے انگلیوں میں سوراخ کرنے لگا۔ “ بیٹا ان ہاتھوں کی انگلیوں سے ہار بنتا ہے جو قبیلے کا سردار اپنے گلے میں پہنتا تھا یہ اُس کی شناخت ہوتی ہے۔ جتنی زیادہ انگلیوں والے ہار اُتنا بڑا سردار” میں نے اُسے بتایا۔ پھر میں نے کہنیوں تک بازو الگ کئے۔ “ بابا اس سے کیا بنتا ہے” بیٹا کبھی ہم اس سے چپو بنایا کرتے تھے جس پر زندگی کی کشتی دھیرے دھیرے لہروں پر چلتی رہتی تھی۔ پر اب تو کشتیاں بہت بڑی ہو گئی ہیں یہ اُن کو کھینچ نہیں سکتے۔ اب ہم اس سے بچوں کے جھولے بناتے ہیں”۔

 

پھر میں نے گردن الگ کی اور کھوپڑی کو اندر سے صاف کرنے لگا۔ میرا بیٹا مجھے کام کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ “بابا ان آنکھوں سے کیا بناتے ہیں۔ یہ بہت خوبصورت ہیں یہ مجھے دے دیں” میرے بہادر بیٹے ان آنکھوں کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے تم ان سے محض سپنے بنا سکتے ہو۔ دیکھو اگر احتیاط سے اس کے اندر کا کالا حصہ الگ کر لو گے تو وہ قاضی کی انگوٹھی میں جڑنے کے کام آئے گا” میں بہت تیزی سے کھوپڑی صاف کر رہا تھا “ سنو سر ہمیشہ احتیاط سے صاف کیا کرنا کیوں کہ اس سے جام بنتے ہیں جب بادشاہ دشمن فوج کے کسی سورما کے سر کے جام میں شراب پیتا ہے تو اس کا نشہ برسوں رہتا ہے۔ یہ کھوپڑی کسی شہزادے کی ہے اور جب میں اس سے بادشاہ کا جام بنا لوں گا تو یہ بہت اچھے داموں بک جائے گی” لیکن سب کھوپڑیاں تو ایک جیسی ہی ہوتی ہیں” اُس نے معصومیت سے پوچھا” بیٹا یہ انسانوں کی دنیا ہے یہاں مرنے کے بعد بھی سب برابر نہیں ہوتے”۔
پھر میں نے اُس نے سینے کو چاک کیا اور چھاتی کی ہڈیوں کو الگ کرنے لگا اور ایک ایک کر کر کے جسم کے مختلف حصوں کا استعمال اُسے سمجھانے لگا “ سینے اور پسلیوں کی ہڈیاں زینے بنانے کے کام آتی ہیں۔ رانوں سے شہزادیوں کے گاو تکیے بنائے جائیں گے۔ عضو تناسل اور خصیوں کے ساتھ آشا دیوی کے مندر کی گھنٹیاں لٹکائی جائیں گی “ وہ نہایت توجہ سے ایک ایک بات سُن رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اگلی لاش پر وہ بھی میرے ساتھ ہاتھ بٹائے تا کہ وہ اس فن کو پوری طرح سیکھ لے۔ “ ایک بات کا خاص طور پر خیال رکھنا کہ خنجر ، چاقویا کوئی بھی اوزار چلاتے وقت تمہارا ہاتھ زخمی نہ ہو۔ اگر تمہارے خون کا ایک بھی قطرہ لاش پر گر گیا تو تمہاری نسلوں میں یہ فن ختم ہو جائے گا اور تم صرف کمہار پیدا کر سکو گے”۔ وہ دھیمے سے لہجے میں بولا” جب جنگیں نہیں ہوتی تھیں تو ہم لوگ کیا کرتے تھے اور اگر جنگیں ختم ہو جائیں تو ہم کیا کریں گے؟” میں اُس کے سوال پر مسکرایا میرا خنجر نوجوان کی ٹانگوں کے درمیاں سے کاٹتا ہوا اُس کے پیٹ تک پہنچ چکا تھا۔ ابھی دو مزید لاشوں کو رات سے پہلے کاٹ کر الگ کرنا ہے۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *