Laaltain

افضال احمد سید ستر برس کے ہو گئے

20 اکتوبر، 2016
حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاسوں اور ان میں پیش کی جانے والی مزید تخلیقات پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

حلقہ اربابِ ذوق، کراچی کا ہفتہ واراجلاس مورخہ 04 اکتوبر 2016 کو وفاقی وزارتِ اطلاعات کے زیرِ انتظام ڈائر یکٹر یٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلکیشنز کے کانفرنس روم میں منعقد ہوا۔ اس نشست کی صدارت محترمہ تنویرانجم نے کی۔ یہ خصوصی اجلاس نام ور شاعرمحترم افضال احمد سید کی ستر ویں سال گرہ پر منعقد کیا گیا۔

 

اجلاس شروع ہونے سے پہلے افضال احمد سید صاحب نے اپنی سال گرہ کا کیک کاٹا۔ عذرا عباس نے اپنی اور انور سن رائے کی جانب سے افضال صاحب کو پھول پیش کیے اور باقی حاضرین نے با آواز بلند افضال صاحب کو سال گرہ کی مبارک باد دی۔ محترمہ نگت مجید صاحبہ نے تمام حاضرین کو کیک پیش کیا۔

 

اس کے بعد افضال صاحب نے اپنی غیر مطبوعہ یا داشتوں کا ابتدائی حصہ پڑھ کر سنایا، جس میں 1947 میں ان کے خاندان کے یو پی سے ڈھاکہ منتقل ہونے کے واقعات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کی خود نوشت سوانح سنتے وقت حاضرین کی اکثریت پر گہرا تاثر غالب رہا۔ سوانح کی قرات کے بعد تقریباً سب نے اس پر اظہارِ رائے کیا۔ خود نوشت سوانح میں بھی افضال صاحب کا مخصوص شاعرانہ اسلوب جھلک رہا تھا۔ بچپن کے اکثر واقعات کا متن ان کی غزلیات کے مجموعے “خیمہء سیاہ” کے مصرعوں کی طرح اختصار اور ابہام لیے ہوئے تھا مگراس کا تاثر بہت بھر پور اور گہرا تھا۔ ایک جگہ انہوں نے پڑھا۔ “ہم سے پہلے جو لوگ اس مکان میں رہتے تھے، ان میں سے کبھی کوئی لوٹ کر اس مکان کو دیکھنے نہیں آیا، کن حالا ت میں چھوڑا ہو گا اس مکان کو، پوری منصوبہ بندی کے ساتھ، افراتفری میں قیمتی اشیاء سنبھال کر فرار ہوتے ہوئے، سب کچھ لٹ جانے کے بعد یا وہ کہیں نہیں گئے یہیں ان کی گردنیں کاٹ دی گئیں۔ “اور یہ حصہ “ڈھاکہ میں جس گلی میں ہمارا مکان تھا اس میں با لکل عام سے لوگ رہتے تھے پتہ نہیں عام رہ جانا ان کی تقدیر تھی یا ترجیح “۔ ایک اور جگہ وہ رقم طراز تھے۔ “پرانے ڈھاکہ میں طوائفوں کے لئے مشہور بادام گلی سے میری آشنائی ان رکشہ چلانے والوں نے کرائی، جو متبادل راستوں کے ہوتے ہوئے بھی ادھر سے ہی گزر کر جاتے، کبھی کبھی گلی میں کھڑی کوئی طو ائف جسے عرفِ عام میں خانگی کہا جا تا تھا، اس سے کچھ چھیڑ چھاڑکر لیتی تھی، تو رکشے والے کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ رہتا، اگر خانگی، شرارت سے اس کے عُضوء تناسل کو پکڑ لیتی تو یہ ایک محنت کش کے لئے ایک جسم فروش کا ایثار ہوتا جو دو ٹکے کی طوائف کے پاس بھی جا نے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔”

 

afzal-ahmed-syed-2

خود نوشت سوانح کی قرأت کے اختتام پر اس کے حوالے سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے نگہت مجید نے کہا کہ اس نسبتاً مختصر باب میں اس قدر تنوع اور گہرائی دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ واقعات کی کثرت اور تیز رفتاری قاری کو پریشان کن حد تک متجسس رکھتی ہے۔ کاشف رضا نے گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جو تحریر ہم نے سنی اس کا بیانیہ بہت مختلف اور انوکھا ہے۔ جس میں افضال صاحب کا مخصوص شاعرانہ اسلوب جھلک رہا ہے۔ ایک مشکل جو اس حصے میں قاری کو محسوس ہوتی ہے، وہ بہت سے زمانوں کا ایک ساتھ چلنا ہے۔ یہ سوانح مکمل حالت میں سامنے آئے تو پتا چلے کہ انہوں نے زمان و مکان کو کس طرح تقسیم کیا ہے۔ بہر حال پوری تحریر پڑھ کر ہی تمام جزئیات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ خالد معین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بعض جگہ عمر کا تعین کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے اور واقعات میں تفاصیل کی کمی بھی محسوس ہو رہی ہے لیکن یہ طے ہے کہ جزئیات نگاری اور تفاصیل کی حد کا تعین آپ نے کرنا ہے اور اسی طرح اسٹائل کے حولے سے بھی آپ کو پابند نہیں کیا جا سکتا ہے۔ خالق داد اُمید کے اس سوال پر کہ بہت سے سوانحی نکتے، جیسا کہ اپنے خاندان کے بارے میں تفصیل کو آپ نے بالکل نظر انداز کر دیا ہے اور بچپن کے جن واقعات کو شامل کیا ہے ان کی بھی جائز تفاصیل موجود نہیں، بس اشارہ اور صرف دلچسپ اشارہ کرکے گز رنے کا تاثر کیوں مل رہا ہے؟ اس کے جواب میں افضال صاحب نے بتایا کہ یہ تاثر درست ہے۔ بنیادی طور پر یہ سوانح لکھنے کی وجہ اس باب کے بعد شروع ہونے والے قیامت خیز واقعات ہیں، جن کے بارے میں، میں تفصیل سے لکھنا چاہتا ہوں۔ یہ بچپن کا ذکر تو ان جھلکیوں پر مشتمل ہے جو میرے لاشعور میں رچ بس گئی ہیں اور جن کے ذکر کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ آج بھی میں خواب دیکھتا ہوں تو اکثر اپنا پچپن ہی خواب میں دیکھتا ہوں۔ افضال صاحب کے اس جواب پر سعدیہ بلوچ نے کہا، جیسا افضال صاحب نے بتایا کہ آگے چل کر وہ کچھ قیامت خیز واقعات پر لکھنا چاہ رہے ہیں لہٰذا یہ تعارف اس کے لیے معاون ثابت ہو گا۔ عذرا عباس نے کہا کہ خود نوشت کے راوی کی عمر اور واقعات کا زمانہ جو کہ ایک ہی چیز ہے، اس کی عدم وضاحت بیانیہ کوسمجھنے کے >لئے مشکل بنا رہی ہے، گر ایسا ہے تو راوی کی عمر اور واقعات کے زمان کے حوالے سے وضاحت پیدا کی جائے۔ عبدالصمد نے کہا کہ بہت سی کمینوٹیوں کے مذہبی اور لسانی حوالوں کا ذکر ہے اور اس مختصر باب میں واقعات کا کثیر الجہت مشاہدہ پیش کیا گیا ہے جس سے تحریر بظاہر گُنجلک لگنے لگی ہے مگر ایسا حقیقت میں نہیں ہے بلکہ ہر چیز واضح ہے۔

 

رفاقت حیات نے کہا کہ ڈھاکہ کاجتنا ذکر اس باب میں سنا، اسے سنتے ہوئے محسوس ہوا کہ کرچی کا ذکر چل رہا ہے۔ مقامی بنگالیوں، بہاریوں، یو پی، سی پی کے اُردو بولنے والوں کشمیریوں حتیٰ کہ پٹھانوں کا ذکر بھی ڈھاکہ کو کراچی بنا رہا ہے۔ علی ارقم نے بتایا کہ جس رقص کا ذکر پٹھانوں کے حوالے سے کیا گیا اور جسے گفتگو میں دوستوں نے اتنڑ کہا، در اصل خٹک ڈانس کی ایک خاص صورت ہے جس میں تلواروں کو لہراتے ہوئے رقص کیا جاتا ہے اور جو اب بہت کم دیکھنے میں آ تا ہے۔ محترمہ تنویر انجم نے اجلاس کے اس حصے کے اختتام پر گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ میرا تاثر بھی اس تحریر کو سن کر یہی ہے کہ بہت سے واقعات کا بہت ہی کم ٹائم فریم میں ذکر کیا گیا ہے اور ہر واقعے کی تفصیل سے بھی اجتناب برتا گیا ہے جس سے تحریر گنجلک ہو گئی ہے۔ اگر ہر واقعے کو اس کی مطلوبہ تفصیل دے دی جائے تو یہ چھوٹی چھوٹی الگ الگ کہانیاں ہیں جو اس آپ بیتی کو بہت سپورٹ دے سکتی ہیں بہر حال یہ سب کچھ طے کر نا لکھنے والے پر منحصر ہے کہ کس چیز یا واقعے کو کتنی تفصیل اور وضاحت سے بیان کرنا چاہتا ہے۔ اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ صدرِ نشست کی گفتگوکے بعد افضال صاحب نے اپنی کلیات “مٹی کی کان” کے بعد کی نثری نظمیں “جواہرات کی نمائش میں شاعرہ”، “مٹی میں تیرا رنگِ حنا اور بھی چمکے” سنائیں اور اس کے بعد خیمہء سیا ہ کے بعد تخلیق پانے والی غزلیں سنائیں۔ جن میں سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:

 

اک رنجِ من و تو کو ہمہ وقت اٹھائے
پھرتا ہوں یہی مطلعِ دولخت اٹھائے
آتش کدہ ءِ یزدِ محبت میں ملے تو
اک شمع بنامِ دل و زرتشت اٹھائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری وحشت سے جو اس حسن پہ تشدید آئی
دل یہ کہتا ہے کہ اب ساعتِ تمہید آئی
روبرو اس کے جو اس دل سا خطاکار آیا
اس کی آ نکھوں میں بھی اک شوخیِ تائید آئی
ایک آئینہ میں ایسا بھی لیے پھرتا ہوں
جس میں جب دیکھا نظر صورتِ امید آئی
اس نے سن کر یہ غزل بوسہِ لب تک نہ دیا
اس کی جانب سے بڑی سخت یہ تنقید آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عکسِ معدوم سہی میں تیری آنکھوں میں مگر
دل مرا تجھ پہ تو اے آئینہ رُو روشن ہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دست برداری ہے اب تیغِ ستم سے تیری
یا ہماری سرِ وحشت سے سبک دوشی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزر کے منزلِ ہر خوب و زشت سے اس کی
ملیں گے جا کے بہارِ بہشت سے اس کی
جہاں سے صورتِ تنویم میں گزرتا ہوں
خیالِ چشمِ ستارہ سرشت سے اس کی

 

حاضرین کی اکثریت کے لیے جو کہ افضال صاحب کی غیر مطبوعہ غزلیں خاصے کی چیز تھیں۔ شرکائے اجلاس نے افضال کی غزلوں پر انہیں خوب خوب داد دی۔

afzal-ahmed-syed

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *