[blockquote style=“3”]
تصنیف حیدر شاعر ہیں اور شاعر بھی وہ جو غزل میں تجربات اور جدت طرازی سے خوف زدہ نہیں۔ دوردرشن اور ریختہ سے وابستہ رہے ہیں اور آج کل انٹرنیٹ پر اردو ادب کی سہل اور مفت دستیابی کے لیے ادبی دنیا کے نام سے اپنی ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔ ان کی آپ بیتی “دس برسوں کی دلی” ان کے دلی میں گزرے دس برس پر محیط ہے جس کی بعض اقساط ادبی دنیا پر بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اس آپ بیتی کو اب مکمل صورت میں لالٹین پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
دس برسوں کی دلی کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
انہیں اصل میں اس بات پر یقین کرتے ہوئے بڑی شرم سی محسوس ہورہی تھی کہ یہ جو چھٹانک بھر کا لڑکا ان کی نگاہوں کے سامنے کھڑا ہے، ابھی ابھی ان کی بیٹی نے اسے اپنا استاد تسلیم کیا ہے۔
بہت دنوں تک دوردرشن اردو کے لیے کام کرنے کے بعد مجھے جب فراغت ملی تو میں ایک روز جب دوپہری میں گھر پر آرام کررہا تھا، طلعت مجھ سے ملنے آئی۔طلعت دراصل انہی دو لڑکیوں میں سے ایک تھی، جن کو مجھے کوچنگ میں پڑھانا تھا۔لیکن اپنی مصروفیت کی وجہ سے نہ پڑھا سکا تھا۔دہلی ایجوکیشن پوائنٹ میں بہت زیادہ وقت میں نہ گزار سکا۔وہاں اصل میں مسئلہ یہ تھا کہ بہت کم پیسوں پر مجھے کام کرنا پڑتا تھا۔طلعت والی بات بھی بڑھاؤں گا، مگر اس سے پہلے دو واقعات سن لیجیے، جو کچھ مزے کے ہیں۔کوچنگ میں سردیوں میں پھٹے ہوئے ایک کوٹ کو پہن کر بیٹھے رہنے سے لے کر تین تین شفٹ کرنے کی بھی نوبت آئی تھی۔اس نوبت کے پہنچتے پہنچتے میں وہاں سے نکل آیا اور مجھے سکرپٹنگ کا چسکہ لگ گیا۔اس کام میں کوچنگ کی بہ نسبت پیسے کافی زیادہ تھے اور کام بھی میری پسند کا تھا۔کوچنگ کے دوران بتانے کے لیے ایسا کچھ خاص نہیں ،بس ان دنوں میں یہ تبدیلی ضرور ہوئی تھی کہ ہم شاہین باغ سے اب بٹلہ ہاؤس شفٹ ہوچکے تھے، وہاں ایک بہت چھوٹے کمرے میں کچھ بیس بائیس دن گزار کر، ہم نے ایک دو کمروں کا فلیٹ ایک پرانی سی بلڈنگ کے فرسٹ فلور پر ذاکر نگر کے علاقے میں لے لیا تھا۔تو پہلا واقعہ کچھ یوں ہے کہ میں کوچنگ میں کچھ کم عمر لڑکیوں کو بھی پڑھایا کرتا تھا، جو جوانی اور بچپن کے بالکل برابر کی لکیر پر کھڑی ہوا کرتی تھیں۔وہ مجھ سے مانوس اس لیے ہوجاتی تھیں کیونکہ میں پڑھاتا کم تھا اور ان سے باتیں زیادہ کرتا تھا۔مجھے کبھی سختی سمجھ ہی میں نہ آئی، کسی طالب علم پر آنکھیں نکالنا بھی میرے لیے کبھی ممکن نہ ہوسکا۔اس لیے کیا لڑکے ، کیا لڑکیاں سب سے ایک دوستانہ قسم کے ماحول میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ خوب باتیں ہوا کرتیں۔ایک روز میں اپنے گھر سے کوچنگ جارہا تھا، کوچنگ کوئی بہت دور تو تھی نہیں۔لیکن میں جب اپنے گھر سے نکل کر کچھ سیدھا چل کر ایک گلی میں مڑا تو سامنے سے ایک طالبہ اپنی والدہ کے ساتھ آرہی تھی، اس نے مجھے سلام کیا تو میں مسکرادیا۔میرا مسکرانا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بہت بھاری بھرکم قسم کی خاتون اپنے ڈگڈاتے بدن، تمتماتے چہرے اور چھلکتے ہوئے غصے کے ہمراہ میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئیں۔انہوں نے میری طرف نہایت جارحانہ رخ اختیار کرتے ہوئے پوچھا۔
“کس کو دیکھ کر ہنس رہا تھا تو؟”
میں کچھ سمجھ نہ پایا کہ کیا کروں، مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی لڑکی کو چھیڑتا ہوگا تو ضرور اسے بچ نکلنے، بھاگنے یا پھر ایسی سچویشن میں مقابلہ کرنے کے سارے گر ضرور معلوم ہوں گے، لیکن میں اس معاملے بالکل اناڑی تھا اور پھر کسی عورت کو اس قسم کے روپ میں دیکھنا اس وقت میرے لیے بالکل ہی انوکھا تجربہ تھا، ان کی آنکھیں ابلی پڑرہی تھیں، بدن پر لال رنگ کا جمپر تیزی سے آگے کی جانب جھکا پڑرہا تھا، دوپٹہ گلے میں کسی اجگر کی طرح لپٹا ہوا، بال بندھے ہوئے اور ایک ہاتھ ہوا میں اس نیت سے لہراتا ہوا کہ میرے الفاظ سن کر میرے گالوں کے حق میں کوئی فیصلہ کرے گا۔مجھ سے بے وقوفی یہ ہوئی کہ میں نے ان سے یہ کہہ دیا
“آپ اپنی بیٹی سے معلوم کیجیے، میں کون ہوں!”
اس روز مجھے اس بات کا ضرور احساس ہوا کہ اس سوسائٹی میں رہنا ہے تو غصے میں رہنا بہت ضروری ہے۔کسی لڑکی کو دیکھ کر توکیا کسی کبوتر کو دیکھ کر بھی مسکرادینے سے بے وقت کی آفت ٹپک پڑسکتی ہے۔
اب وہ آئو دیکھیں نہ تاو، مجھ پر مزید برس پڑیں۔اور اس چھوٹی ، معصوم اور ننھی گلی کے آدھے دائرے میں ان کے غصے کا بگولہ ایسا رقص کرنے لگا کہ آس پاس کی کھڑکیوں نے اس نظارے کے لیے یکدم پٹاپٹ اپنی اپنی آنکھیں کھولنی شروع کردیں۔بات بڑھنے لگی، پتہ نہیں ، کیا مسئلہ تھا کہ وہ مجھ پر ہاتھ اٹھانے سے چوک رہی تھیں۔مگر یقینی طور پر اگر اسی وقت ان کی بیٹی آگے بڑھ کر انہیں فوراً یہ نہ بتاتی کہ ‘ارے امی! کیا کررہی ہو، یہ تصنیف سر ہیں!‘تو ان ہاتھوں کی برق میں لپٹی لہروں کو ضرور ایک زناٹے کے ساتھ میرے رخساروں سے چپٹ جانا تھا۔اول تو انہوں نے بیٹی کے بیان پر گھور کر مجھے دیکھا، پھر ان کی خون آلود نگاہوں میں ابلتا ہوا دریا ،دھیرے دھیرے بیٹھنے لگا۔انہیں اصل میں اس بات پر یقین کرتے ہوئے بڑی شرم سی محسوس ہورہی تھی کہ یہ جو چھٹانک بھر کا لڑکا ان کی نگاہوں کے سامنے کھڑا ہے، ابھی ابھی ان کی بیٹی نے اسے اپنا استاد تسلیم کیا ہے۔ اس لیے انہوں نے زیادہ معافی تلافی تو نہ مانگی،البتہ یہ کہہ کر کام چلایا کہ ‘سر! پلیز سڑک پر آئندہ اس کی طرف دیکھ کر آپ مسکرائیے گا نہیں، اگر مجھے غلط فہمی ہوسکتی ہے تو کسی کو بھی ہوسکتی ہے۔آپ تو سمجھ دار ہیں نا۔۔۔‘اس وقت میرے پاس ان کی بات ماننے کے علاوہ کوئی اور چارہ تھا ہی نہیں۔
میں اس واقعے پر اتنا سٹپٹا گیا تھا کہ میں نے ان کی شکایت نسیم سر سے کی، مگر وہ بے چارے بھی کیا کرسکتے تھے۔اب میرا پتلا دبلا ڈھانچہ نما جسم، پکاکالا رنگ اور اس پر حلیہ بھی بالکل راہ چلتوں کا سا۔قدرت کے ساتھ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کہ جو چیز اندر سے جیسی ہے، ویسی باہر سے بالکل نہیں ہے۔اور ہر چیز کا اندر و باہر جاننا ہر شخص کا مسئلہ نہیں ہے۔جیسے اس لڑکی کی والدہ کا یہ مسئلہ بالکل نہ تھا کہ میں کون ہوں یا کون ہوسکتا ہوں، ان کا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ میں ان کی لڑکی کو دیکھ کر مسکرایا کیوں۔بہرحال برا وقت تھا ٹل گیا۔لیکن اس روز مجھے اس بات کا ضرور احساس ہوا کہ اس سوسائٹی میں رہنا ہے تو غصے میں رہنا بہت ضروری ہے۔کسی لڑکی کو دیکھ کر توکیا کسی کبوتر کو دیکھ کر بھی مسکرادینے سے بے وقت کی آفت ٹپک پڑسکتی ہے۔مجھے یاد ہے کہ اس واقعے کا اثر بہت دنوں تک میرے ذہن و دل پر رہا اور میں سڑک پر اس قدر سنجیدہ ہوکر چلنے لگا جیسے وہاں بھی میں کوئی استاد ہوں، جبکہ سڑک پر ہر آدمی صر ف آدمی ہونا چاہیے، اس کا عہدہ، اس کا کردار، اس کی ذہانت، اس کی خوبصورتی یا بدصورتی سب کچھ ایک سیال میں ڈوبے ہوئے برادے کی طرح گھل مل جانا چاہیے لیکن ایسا یہاں نہیں چل سکتا تھا۔اس لیے بعد میں احساس ہوا کہ لوگ یہاں سڑک پر بھی اپنے ماتھوں پر اپنے عہدوں کی تختیاں لگائے کیوں گھومتے ہیں۔
دوسراواقعہ یہ ہے کہ طلعت اور روشن، یعنی کہ انہی دو لڑکیوں کو ساتھ میں پڑھانے کے دوران بہت سی ادھر ادھر کی باتیں ہوجایا کرتی تھیں، ایک دن طلعت نے بتایا کہ اسے اپنے ہی کسی استاد پر کرش ہے۔میں چونک گیا کیونکہ استاد تو میں بھی تھا لیکن اس زمانے میں مجھے اس کی امید کم تھی کہ میری طرف کوئی بہت خوبصورت لڑکی اس طور بھی دھیان دے سکتی ہے۔واقعہ یہ تھا کہ میرا ایک دانت ، جو کہ سامنے کی اوپری جانب کا تھا، ٹوٹ گیا تھا۔یہ تب ہی سے ٹوٹا ہوا تھا، جب میں ممبئی سے دہلی آیا تھا،جس حادثے میں میں نے اپنا یہ دندان شہید کروایا تھا، وہ خاص ایک کتے سے تعلق رکھتا ہے، اور اسی دن سے کتوں نے میرے دل میں ایک بڑا خوف سا پیدا کردیا تھا، ممبئی کے علاقے میرا روڈ میں جب میں کورئیر بانٹا کرتا تھا، جو کام میں نے ٹھیک سے شاید مہینہ دیڑھ مہینہ ہی کیا تھا۔ اس زمانے کی بات ہے کہ ایک بلڈنگ میں مجھے خط پہنچانے جانا تھا، میں ایک سائیکل پر خطوط لے کر نکلا کرتا تھا۔ آخری خط بچا تھا، بلڈنگ گھر سے بہت دور نہیں تھی، چنانچہ سوچا کہ اسے بھی پہنچا دیا جائے۔جب بلڈنگ کے پھاٹک سے اندر داخل ہوا اور بلڈنگ میں جانے کے لیے دائیں جانب کو مڑا تو دیکھتا کیا ہوں کہ ایک کافی بھاری بھرکم چاکلیٹی رنگ کا کتا، اپنی دم کو اپنی بانہوں میں دبائے آرام کررہا ہے، میری ہمت نہ ہوئی کہ اسے پار کرکے اوپر کی جانب نکل جاؤں۔
ایسے وقت میں جب سڑک پر کوئی آدمی کسی جانور سے خوفزدہ ہوکر سہما ہوا کھڑا ہو، اسے ایک محفوظ گھر سے دیکھنے کی انسانی جبلت الگ ہی لطف دیتی ہے ۔
ایسا نہیں تھا کہ اس سے پہلے بلڈنگوں میں خطوط پہنچاتے وقت کتوں سے میرا سامنا نہ ہوتا ہو، لیکن وہ کتا کچھ دراز قامت تھا اور بھیانک شکل و صورت کی صفت بھی رکھتا تھا۔میں باہر آیا اور سائیکل پر بیٹھ کر اسے موڑنے لگا، اچانک ایک دوسرا کتا، جو کہ نہ جانے کہاں سے منظر کی سفید چادر پر نمودار ہوا اور اپنی گرجدار آواز سے اس میں چھید کرنے کی کوشش کرنے لگا۔اس کے چمکتے ہوئے دانت، ٹپکتی ہوئی رال اور بھوں بھاں اس قدر بھیانک تھے کہ مجھے کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ کروں تو کیا کروں، ہوتا یہ تھا کہ جہاں میں پیڈل پر پیر رکھ کر اسے آگے بڑھانا چاہوں ، وہاں وہ بھونک کر میری جانب بڑھ جاتا، ادھر میری حالت ایسی کہ پاؤں بھاری ہوئے جارہے تھے، جب میں پرسکون ہوجاتا اور حرکت نہ کرتا تو وہ بھی بیٹھ جاتا۔اس وقت اس کے بھرپور گدرائے ہوئے چکنے بدن میں جس پھرتی سی کسی ضدی بچے کی روح داخل ہوئی تھی، وہ میری عاقبت کے لیے کافی اندوہناک ثابت ہونے والی تھی۔میں نے دیکھا کہ گراؤنڈ فلور کی ایک گریل میں لٹکا ہوا چھوٹا سا ایک لڑکا بڑی ہی دلچسپی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔میں اس کی دلچسپی کو سمجھ سکتا تھا۔ایسے وقت میں جب سڑک پر کوئی آدمی کسی جانور سے خوفزدہ ہوکر سہما ہوا کھڑا ہو، اسے ایک محفوظ گھر سے دیکھنے کی انسانی جبلت الگ ہی لطف دیتی ہے ۔بہرحال، رکنے کا کوئی فائدہ نظر نہ آتا تھا، میں نے تیزی سے اچانک پیڈل پر پیر رکھ کر اسے بھگانا شروع کر دیا، بائیں جانب مڑتے ہی پیچھے جو اک نظر کی تو بھاگتا اور ہانپتا ہوا وہی کتا، بالکل میرے پیروں سے لپٹا نظر آیا، ہوا کے اس تیز کینواس پر میری چیخ اور دہشت کا ایک بھرپور رنگ پھیلتا جارہا تھا۔سامنے کسی نے پھاٹک بند کردیا تھا اور سائیکل میں بریک نہ تھے۔میں نے پیڈل پر ابتدائی قدم دھرتے ہوئے یہی سوچا تھا کہ سائیکل کو بھگاتا ہوا پھاٹک سے باہر لے جائوں گا، لیکن میری امیدوں کا در بند تھا اور راستہ تنگ تھا، نہایت منطقی قسم کا سوال اس موقع پر یہ ہوسکتا ہے کہ اگر اس وقت سائیکل میں بریک ہوتے بھی تو کیا میں انہیں لگانے کی دلیری کا متحمل ہوسکتا تھا۔بہرحال دھاڑ سے جاکر سائیکل پھاٹک سے ٹکرائی ، اونگھتا ہوا پھاٹک اس بد ہنگم قسم کی اچانک بغل گیری پر ایسا بوکھلایا کہ اس کا ایک پٹ دور تک گھسٹتا چلا گیا، میں ایک ذرا ہوا میں اچھلا اور دھڑام سے زمین پر آرہا، بلڈنگ کے باہر موجود دکان پر سے کچھ لونڈے میری طرف دوڑے ، جب تک وہ میرے پاس آئے، کتا مجھے سونگھ سانگھ کر بھاگ چکا تھا۔اسی حادثے میں میرے مسوڑھوں کا خون ایک دانت کو کھوکھلا کرتا ہوا اس میں اتر گیا اور وہ دانت کالا پڑتا چلا گیا، کچھ عرصے بعد ایک دن جب میں انڈا بریڈ تناول فرمارہا تھا، کٹ کی سی ایک ہلکی آواز ہوئی اور وہ داغ نما دندان چھوٹے سے نوالے کی قالین میں لپٹا ہوا میری ہتھیلی پر اتر آیا۔کافی بعد میں جاکر میں نے اس مقام پر ایک مصنوعی دانت لگوایا تھا جو کہ بدستور اپنی جگہ پر قائم ہے۔
اس سے پہلے دو دفعہ طلعت کا ذکر آچکا ہے، مگر درمیان میں کوئی نہ کوئی واقعہ نکل آتا ہے۔تو میں بتا یہ رہا تھا کہ اس نے مجھے بتایا کہ اسے اپنے ایک استاد سے محبت ہے، تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ جن صاحب کے بدن سے انہیں عشق کی بو آرہی ہے، وہ فیضان علی ہیں۔فیضان ایک بہت ہی ہینڈسم نوجوان تھے، وہ کوچنگ کی اس چھوٹی برانچ میں پڑھایا کرتے تھے، جس کے وہ مالک بھی تھے اور روح رواں بھی۔وہاں یہ لڑکیاں ان سے انگریزی وغیرہ پڑھنے جایا کرتی تھیں۔لیکن اس وقت تک میں نے انہیں نہ دیکھا تھا، پھر ایک روز جب وہ جوگابائی والی برانچ میں آئے تو میری ان سے ملاقات ہوئی۔میرے دل پر ان کے نقوش کا گہرا اثر ہوا اور ہماری دوستی ہوگئی۔ یہ اتفاق ہی تھا ، مگر اتفاق ، فیضان جتنا ہی حسین نکلا۔میں ہمیشہ سے محبت کرنے والوں کی قدر کرتا ہوں، طلعت فیضان کو پسند کرتی تھی، یہی بات میری اور فیضان کی دوستی کا محرک ثابت ہوئی۔وقت گزرا، بہت سا وقت گزرا ، رفتہ رفتہ طلعت تو کہیں غائب ہوگئی، مگر فیضان سے میری دوستی بہت گہری ہوگئی۔آج وہ ایک شادی شدہ مرد ہیں ، اور ان کی یہ شادی شدگی، میری زندگی سے ان کی بہت حد تک گمشدگی کا باعث بھی ہوئی ہے۔ لیکن طلعت ان کی بیوی نہیں ہےبلکہ ان کے ہی ایک اور بہت گہرے دوست کی بیوی ہے۔ یہ ایک طویل قصہ ہے، ایسا طویل قصہ، جس میں بہت سے داؤ پیچ ہیں۔مگر میں انہیں کم لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کروں گا۔

