ہم بے کاری کی مزدوری کرنے والے
دن بھر گلیوں، بازاروں میں پھرتے ہیں
اسم کی شمع رات کو ایک منارے پر جلتی ہے
صبح سویرے دفتر میں
فائلوں پہ ہوس کی اوس کے چھینٹے جھاڑ کے
رزق کی گٹھڑی کھولتے ہیں
بلند عمارتوں کے روشن دانوں سے جھانکتی زندگی کی ہریالی
ہم کو دہقانی لذت سے نوازتی ہے
ہم بے کاری کی مزدوری کرنے والے
اسمِ عظیم کا ورد لبوں پر رکھ کر
روز گھروں سے نکلتے ہیں
مارکیٹوں میں رونق کا اُبلتا لاوا
انسانی لہو کی بُو سے بھرجاتا ہے
دانش گاہوں میں علم کا میوہ
ٹہنیوں سے پک کے گرجاتا ہے
سڑکوں کے کنارے پودوں کی چھاؤں
سبزپرندے آپس میں بانٹ کے
بستیوں کے اُوپر آنے والے آسمان پہ اڑتے ہیں
گھر گھر سے ناشتے کی خوشبُو
اُجلے دھویں کی روئی اُڑا کے بازاروں تک لانے لگتی ہے
میں اپنے دوستوں کوشہر کے مرکزی چوراہے میں پکارنے جاتا ہوں
میرے دوست (جو میرے باہر سے آگاہ)
میرے اندرکے رستوں کی رکاوٹیں توڑ نہیں سکتے
ہم بے کاری کی مزدوری کرنے والے
دن بھر گلیوں، بازاروں میں پھرتے ہیں
شام ڈھلے گھر کے صحن میں
چاند کی ٹھنڈی لَو کے لمبے لمبے کش لیتے ہیں
پھر رات کو دن کی تھکن اتارکے بستر پر رکھتے ہیں
اورچاند کی چادر اوڑھ کے
خواب کی آنکھوں میں سو جاتے ہیں