Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

ذائقہ

test-ghori

test-ghori

18 اگست, 2017

“اے بیٹا قورمے میں ذرا بھی روغن نہیں ہے ، دلہن سے کہنا تو کہ اللہ کا دیا بہت سا ہے ذرا فراوانی سے ڈالا کریں ۔”
“جی دادی۔”رمشہ نے حامی بھری اور چلتی بنی۔

رمشہ کی دادی آزر کی ماں اور انیسہ کی ساس،ابھی چند ہی مہینوں پہلے اپنے بہو، بیٹے کے پاس رہنے آئی تھیں۔ ان کے شوہر زندہ تھے، لیکن اب وہ شہر کے مزے لینا چاہتی تھیں ، دیہات کے روز مرہ سے ان کا دل کچھ اس درجہ اچاٹ ہو چکا تھا کہ اپنے شوہر کو بے یار و مدد گا، اپنے بڑے بیٹے کے پاس چھوڑ کر ، چھوٹے بیٹے کے پاس آ گئی تھیں۔ بڑے بیٹے کے پاس باپ کو چھوڑنا ، بے یار و مدد گار ہی چھوڑنا تھا، کیوں کہ وہ اوران کا پورا کنبہ بوڑھے باپ کی پینشن پر پل رہے تھے۔ ان کا خیال خود عفن میاں رکھ رہے تھے۔ کوئی انہیں کیا سنبھالتا۔

نقل مکانی کسے راس آئی ہے ۔ تبدیلی ہوا نے البتہ امکانات رکھے ہیں ، لیکن اب ان کا اختیار اور ہاتھ دونوں ہی تنگ ہو چکے تھے ، اب انہیں کھانا پروسا جاتا تھا ، وہ خود نہیں پروستی تھیں ۔ انیسہ بہو، ساس کے برابرآکر کھڑی ہوئیں، ساس نے پھر وہ ہی راگ الاپنا شروع کر دیا ، لیکن اس کے سر وہ زیادہ لمبے نہ کھینچ سکیں ۔ آخر اب راج رانی بہو تھیں ، کچھ کہتے کہتے دل مسوس کے رہ گیا۔
بہو ، بیٹے کے پاس آنے کے بعد سے دادی کا یہ معمول بن گیا تھا، کہ وہ رمشہ کے پاس بیٹھ کر اپنے پچھلے وقت کے کھانوں اور ان کے ذائقوں اور ان کے پکانے کی تراکیب پر ہی باتیں کیا کرتی تھیں ۔ کبھی کہتیں ۔ “اے بیٹا قورمہ ایسے تھوڑی نہ بنتا ہے۔”اور کبھی کہتیں کہ “اے بیٹا جب دلہن نہ ہوئیں تو کسی روز ہم پکا کر کھلائیں گے۔” اور کسی روز کے فراق میں وہ لمبی لمبی آہیں بھرتیں۔ اپنے سامنے رکھے کھانے کو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھتیں ، جب کبھی بہو بیگم کے بنے ہاتھ کا کھاناان کی حلق سے اترنا مشکل ہوجاتا تو چپکےسے رمشہ سے شکر منگوا لیتیں اور شکر روٹی سے ان کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں نمی اتر آتی۔

ان کے اس معمول میں ایک عرصے تک ذرا بھی تبدلی نہیں آئی ۔ کھانے کی شوقین وہ ہمیشہ سے تھیں ۔ جب تک ساس کے عہدے پر بحال رہیں تب تک انہوں نے بہتر سے بہتر پکایا اور کھایا۔ پکانے کے معاملے میں وہ بڑی دلدار تھیں، البتہ کھلانے میں کچھ تنگ دست واقع ہوئی تھیں ۔ان کی تنگ دستی سے سبھی لوگ واقف تھے ، لیکن رمشہ نے اس کے برعکس کبھی کبھی ان کی سخاوت کے نظارے بھی دیکھے تھے۔ وہ روغن اور مال ، میوہ ڈال کر کچھ پکاتیں تو سب سے بچ بچا کر رمشہ کو کھلا دیتیں ، لیکن یہ بات اس وقت کی تھی جب ساس راج تھا، اب بہو رانی تھی۔ ساس محض تماشہ بیں۔

بڑھاپے میں جسم کے سارے تقاضے زبان میں منتقل ہو کر ذائقے میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ رمشہ کی دادی نے بھی سارے تقاضوں کو ذائقوں میں تلاش کرنا شروع کر دیا تھا۔ کبھی رمشہ ان کو کھاتے ہوئے دیکھتی تو اسے یوں محسوس ہوتا کہ وہ زہر مار کر رہی ہوں اور کبھی وہ کھانے کو چھوڑ کر چھت کو تاکنے لگتیں ۔

واپس جا کر بھی انہیں کچھ حاصل نہیں ہونا تھا،کیوں کہ وہ اختیار بڑی دلہن نے لے لیا تھا کہ جو ہے وہ خود پکائے اور کھلائے۔ ذائقہ ان کے لیے بڑی چیز تھی۔ اچھے کھانوں کے سوا ان کے لیے کوئی شئے معتبر نہ تھی۔ خدا کے پاس جاتے ہوئے بھی وہ تندرست ہی نظر آنا چاہتی تھیں۔ اسی لیے صرف ایک ہی مقولہ ہمہ وقت ان کے لبوں پر جاری رہتا۔”اے بیٹاکھایا پیا ہی تو ساتھ جاتا ہے۔”اعمال پر کچھ خاص نظر نہ تھی،البتہ بدن کی چستی تندرستی کو وہ سب سے زیادہ اہم گردانتی تھیں ۔ دلہن کے ہاتھ کا کھانا انہیں کبھی پسند نہیں آیا۔ ایک عرصے تک برداشت کرتی رہیں، مگر ایک روز تھک ہار کر انہوں نے واپسی کا ارادہ کر ہی لیا اور ان کے اس فیصلے کو جلد از جلد پائے تکمیل تک پہنچا دیا گیا۔ انہیں دوبارہ اپنے شوہر کے پاس پہنچا دیا گیا۔ ابھی وہ اپنے شوہر کے یہاں پہنچی ہی تھیں کہ ایک سانحہ یہ پیش آیا کہ عفن میاں میں چل بسے ،عفن میاں کے چند روز بعدہی خود رمشہ کی دادی بھی اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔ آزر ،انیسہ کے ساتھ رمشہ بھی دادی کی تندرستی کے زوال کو آخری مرتبہ دیکھنے پہنچی،لیکن رمشہ یہ دیکھ کر بھونچکی رہ گئی کہ دادی کے مقام پر صر ف ایک ڈھانچہ رہ گیا تھا۔

مرنے والے کی اچھائیوں کا ذکر چھیڑا جانے لگا، ان میں سے کسی نے کہا، “یہ تو آخر عمر میں پاگل ہو گئی تھیں۔اپنے سارے بال خود ہی نوچ ڈالے۔اسی لیے ان کی بڑی دلہن نے انہیں گنجا کروا دیا تھا اور تو اور یہ تو زمین سےچن چن کر کیڑے مکوڑے اور مٹی کھانے لگی تھیں۔ یہ سنتے ہی رمشہ کو یہ محسوس ہوا کہ جیسے اس کا منہ کیڑوں اور مٹی سے بھر گیا ہو۔ اسے کہیں دور سے یہ آواز آتی محسوس ہوئی۔

“اے بیٹا،میں پاگل تھوڑے ہی نہ تھی، میں ذائقہ ڈھونڈ رہی تھی۔تمہاری ماں کے پاس ذائقہ نہ تھا، بڑی دلہن کے پاس کھانا نہ تھا، اسی لیے ان کیڑوں میں ذائقہ تلاش کر رہی تھی۔ اے بیٹا مزا تو اچھا نہ تھا ، لیکن بھوک بہت لگتی تھی، اسی لیے کھالیا، اے بیٹامیں پاگل تھوڑے ہی نہ تھی،اے بیٹامیں پاگل تھوڑے ہی نہ تھی ، اےبیٹامیں پاگل تھوڑے ہی نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا کے پاس تو کھایا پیا ہی جاتا ہے۔ “تقریباً چیخ پکار کی مانند یہ آوازیں اسے جھنجھوڑ رہی تھیں اور وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دادی کے گنجے سر اور ہڈیوں کے ڈھانچے کو تکے جا رہی تھی۔

Image: Rina Bhabra