شمالی شام اور عراق کے کچھ علاقوں پر گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے وحشیوں کا قبضہ ہے اور اُن کے زیر نگیں علاقوں میں نہ تو سالوں کی عمر پانے والے انسان محفوظ ہیں اور نہ ہی صدیوں کی عمر پانے والے آثارِ قدیمہ۔
ابھی قدیم میسوپوٹیمیا کی تہذیب کے وارث “بابل” شہر کے آثار کی کی تباہی کے انمٹ نشانوں کا الم گہرا تھا کہ خبر ملی ”شام میں واقع پائیلمارا شہر میں جہاں ان دنوں درندوں کا راج ہے وہاں موجود قدیم عہد کے رومی و یونانی معبدوں میں بارود نصب کر دیا گیا ہے ” پھر یہ اطلاع آئی کہ وہاں رہائش پذیر ان آثار کے تحفظ اور تحقیق پر مامور خلدالاسعد نامی ضعیف ماہر آثار قدیمہ کا سر قلم کردیا گیا ہے۔ قصور یہ تھا کہ وہ بوڑھا قدیم بت پرستی کے عہد کی عمارات کا محافظ تھا۔ ابھی تصاویر جاری ہوئی ہیں کہ سب سے قدیم معبد کو بارود کے ذریعے تباہ کر دیا گیا ہے۔ یونیسکو اور دیگر عالمی اداروں کے مذمتی بیانات جاری ہو رہے ہیں۔ شامی کی حکومت کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ صرف شام کی سالمیت کو ہی درپیش خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ تنظیم شام کے تہذیبی ورثے، شناخت اور شاندار ماضی کو بھی تاراج کردینا چاہتی ہے۔
ابھی قدیم میسوپوٹیمیا کی تہذیب کے وارث “بابل” شہر کے آثار کی کی تباہی کے انمٹ نشانوں کا الم گہرا تھا کہ خبر ملی ”شام میں واقع پائیلمارا شہر میں جہاں ان دنوں درندوں کا راج ہے وہاں موجود قدیم عہد کے رومی و یونانی معبدوں میں بارود نصب کر دیا گیا ہے ” پھر یہ اطلاع آئی کہ وہاں رہائش پذیر ان آثار کے تحفظ اور تحقیق پر مامور خلدالاسعد نامی ضعیف ماہر آثار قدیمہ کا سر قلم کردیا گیا ہے۔ قصور یہ تھا کہ وہ بوڑھا قدیم بت پرستی کے عہد کی عمارات کا محافظ تھا۔ ابھی تصاویر جاری ہوئی ہیں کہ سب سے قدیم معبد کو بارود کے ذریعے تباہ کر دیا گیا ہے۔ یونیسکو اور دیگر عالمی اداروں کے مذمتی بیانات جاری ہو رہے ہیں۔ شامی کی حکومت کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ صرف شام کی سالمیت کو ہی درپیش خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ تنظیم شام کے تہذیبی ورثے، شناخت اور شاندار ماضی کو بھی تاراج کردینا چاہتی ہے۔
شامی کی حکومت کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ صرف شام کی سالمیت کو ہی درپیش خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ تنظیم شام کے تہذیبی ورثے، شناخت اور شاندار ماضی کو بھی تاراج کردینا چاہتی ہے۔
جونہی تہذیبی ورثہ، شناخت اور شاندار ماضی جیسے الفاظ نے ذہن کے دروازے پردستک دی تو یکلخت کچھ چھناکے سے ٹوٹ گیا۔
عکسی مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ” پاکستان میں ثقافتی محکموں کے کسی اہلکار سے اگر پوچھا جائے کہ ہماری ثقافت کیا ہے تو وہ فوری طور پر ناچ گانا، مصوری اور ممکن ہے کہ پتنگ بازی کانام لے اور پھر مفتی جی ہی فرماتے ہیں کہ اگر یہی سوال کسی سیاستدان، نامور صحافی یا محب وطن دانشور سے پوچھ لیا جائے تو وہ نظریہ پاکستان کا تحفظ، تصور پاکستان کی آبیاری، پورے جوش وولولے سے قائد اور اقبال کے فرامین کی روشنی میں تحریک پاکستان، قراردادِ پاکستان اور دو قومی نظریے کی بات شروع کردے گا”۔
ذرا گہرائی میں چلے جائیں تو وہ صاحب اردو زبان کو ہی اوڑھنے بچھونے پر زور دیتے ہوئے عرب کے صحراوں اور وسط ایشیاء کے سبزہ زاروں میں جا نکلیں گے اور جھٹ سے اپنی مقامی، علاقائی اور لسانی شناخت سے جڑے ہوئے افراد کو غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دیں گے۔
پیرس کی کچی آبادی میں رہائش پذیر اپنا سب کچھ علمی اداروں کے نام کر دینے والے، پاکستان کے پہلے ڈائرایکٹر جنرل ادراہ برائے آثارِ قدیمہ مونسیو کر یال سے جب عکسی مفتی صاحب کی ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے سوال کیا کہ وہ یونیسکو کے چئیرمین کیوں نہیں لگ جاتے؟ جواب میں مونسیو کریال کے الفاظ سے صرف مفتی جی کی ہی نہیں میری آنکھیں بھی حیرت سے کھل گئیں ” مفتی! پاکستان کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائرایکٹر جنرل کا عہدہ چئیرمین یونیسکو سے کہیں بلندتر ہے۔ یونیسکو کا چئیرمین کیا ہوتا ہے سوائے ایک دفتری ملازم کے، پاکستان کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کا ڈی جی دنیا کی تین خوبصورت تہذیبوں کا وارث ہوتا ہے، موہنجوداڑو، گندھارا ، اور مغل عہد کے قلعے اور عمارات”۔
کبھی سوچا بھی ہے؟
کبھی سوچا بھی ہے؟
مفتی! پاکستان کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائرایکٹر جنرل کا عہدہ چئیرمین یونیسکو سے کہیں بلندتر ہے۔ یونیسکو کا چئیرمین کیا ہوتا ہے سوائے ایک دفتری ملازم کے، پاکستان کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کا ڈی جی دنیا کی تین خوبصورت تہذیبوں کا وارث ہوتا ہے، موہنجوداڑو، گندھارا ، اور مغل عہد کے قلعے اور عمارات۔
(مفتی صاحب کی سوچ پڑھنے کے لیے ان کی تحریر کردہ کتاب ”پاکستانی ثقافت ” سے رجوع کیجئے یہاں ان کے خیالات درج کرنا مناسب امر نہیں ہے۔)
شنید ہے کہ یونیسکو نے سرد جنگ کے خاتمے کے دنوں میں عالمی ورثے کے تحفظ کی مہم کی کامیانی کے بعد ‘انٹیلکچوئل پراپرٹی’ اور ‘کریٹو رائٹس’ کے تحفظ کی مہم کا آغاز کیا تھا ۔
حیف ! کہ وطن عزیز سے منسوب دو خبریں جی جلاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ بی ایس اے نامی عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان چھیاسی فیصد شرح کے ساتھ دنیا کے پہلے تین ممالک میں شامل ہے جہاں پائریسی اور انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کی شدید خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
دوسری خبر یہ ہے کہ پاکستان سے چوری ہوکر برطانیہ اور اٹلی اسمگل ہونے والے تین سو سے زائد ناقابل بیان مالیت کے حامل قیمتی نوادرات جنہیں اِن ممالک میں موجود سفارتخانوں کے حوالے کر دیا گیا تھا پچھلے آٹھ سالوں سے وطن واپس نہیں لائے جا سکے۔ جس جگہ ان قدیم نوادرات کو عارضی طور پر رکھا گیا ہے وہاں ان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
سوچتا ہوں کہ ہماری شناخت، ہمارے ماضی اور قدیم روایات کے حامل ان آثارکو تو کسی دولت اسلامیہ العراق و الشام سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے پھر میں ان سلامتی اور تحفظ کے لئے نوحہ کناں کیوں ہوں۔ سرجھٹک کر کام میں لگیئے صاحب!
؎ تجھ کو کسی کی کیا پڑی اپنی گزار تو ۔۔۔ !!!
؎ تجھ کو کسی کی کیا پڑی اپنی گزار تو ۔۔۔ !!!
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]
پاکستانی ثقافت ازعکسی مفتی
1. http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/08/150825_pakistan_copy_rights_zz
2. http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/08/150813_pak_artefacts_smuggling_zz
3. http://www.bbc.com/urdu/world/2015/08/150819_isis_kill_palmyra_custodian_mb