کپل وستو کے شہزادے!
تم نے انسانی دکھ کی ایک جھلک دیکھی تو
محل تیاگ دیا
اپنی ماں اور اپنے بچے کی ماں پر
آخری نظر بھی نہ ڈالی
باپ کے جھکے کاندھے پہ ہاتھ بھی نہ رکھا
کہ تم انسانوں کو غم کے انفیکشن سے بچانے کا کوئی اینٹی بائیوٹک
دریافت کرنے نکلے تھے
دکھ کی گھمبیر کثافتوں کو
فلٹر کرنے کا فارمولا ایجاد کرنا
تمہارے دماغ میں گھوم رہا تھا
شاکیہ منی!
تمہارے سفر کے ایک ایک پڑاؤ کا سمے
انسانوں کو دکھوں سے نجات دلانے کی تحقیق میں صرف ہوا
اس کانٹوں بھرے سفر میں
ننگے پاؤں چلتے
تم برگد تک پہنچے
جہاں تپسیا کے انتہائی لمحوں میں
تم نے بھوک اور بھوگ کو
اپنے اندر اتار لیا
دُکھی پرجا کے بھاگ کے اندھے بیج اپنے اندر بوتے رہے
اور یہاں تک کہ تمہارے من میں روشنی آگ آئی
اے انسانی دکھوں سے نجات
کا بھید پانے والے!
تیری روشنی نے بڑے بڑے ہنسا کے پجاری بدل دیئے
فتوحات کے سخت دل شکاریوں کو
نرم خو بنا دیا
ایسا نہیں کہ تیرے خلاف
سازشیں نہیں ہوئیں
تاریخ کے کیلنڈر پہ ابھی کچھ دیر پہلے کی بات ہے
دور سنگلاخ پہاڑوں
میں جب تمہارے قد آور مجسمے کو توڑا گیا تو
جنگی جنونیوں کی لعن طعن کرنے والوں میں
دنیا بھر کے امن پسندوں نے حصہ لیا
لیکن آج ۔۔۔۔
تمہاری روشنی کی پھڑپھڑاتی ہوئی لو
اس کی اپنی ہی رکھوالی ہواؤں کو آندھیوں میں بدلتے دیکھ رہی ہے
تمہارے نام لیوا
تمہارے مقدس نام پر پاپ کے چھینٹے اڑا رہے ہیں
اے انسانی دکھوں کے آنت بھید کی پرتیں کھولنے والے!
تمہارے نروان کی روشنی خطرے میں ہے
چنڈ اشوک کو اشوکِ اعظم میں بدلنے والے!
نروان کی اس انوکھی پرکھشا میں
ہنسا کے نئے پجاریوں کو اہنسا کا دان بخش!!