Laaltain

گلگت بلتستان؛ دہشت گردی کے اسباب اور عوامل

5 دسمبر، 2015
دیامر ‘باب گلگت بلتستان’ یعنی ہمارے گھر کے مرکزی دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ میرے حلقہ احباب میں دیامر سے تعلق رکھنے والی کئی ایسی شخصیات موجود ہیں جن سے سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باجود کبھی محبت اور خلوص میں کمی نہیں آئی۔ ایسے بھی دوست ہیں جن سے سوشل میڈیا کے ذریعے گپ شب ہوتی ہے، ہم ایک دوسرے پر شدید تنقید بھی کرتے ہیں مگر باہمی عزت اور احترام کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے، اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیئے۔ لیکن مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کی اس نگری میں ریاست اور معاشرے نے ہماری تربیت اس طرح سے کی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں دہشت گردی کے دلخراش واقعات نے ہمارے درمیان سے اعتبار کا لفظ ہی غائب کر دیا ہے، ہم ایک دوسرے سے کھل کر بات کرنے، تنقید کرنے یا اختلاف کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں اور یہ شدت پسندوں کی شاید سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم میں سے ہی لوگ دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوئے ہیں، ان کے سہولت کار بنے ہیں اور ان سے ہمدردی بھی رکھتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے عام لوگوں کے مابین غلط فہمیوں کا در آنا اور خوف پیدا ہونا بے حد تشویش ناک ہے۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے عام آدمی کے درمیان ایسی دوریاں پیدا ہوگئی ہیں جنہیں کم کرنے کے لیے کوئی بھی کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں۔

 

ضیاء الحق کے مشورے سے مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو تقویت ملی اور انہوں نے حکومتی ایماء پر اٖفغان مجاہدین کے ساتھ مل کر 1988 میں گلگت بلتستان پر چڑھائی شروع کی جس کے نتیجے میں کئی سو لوگ مارے گئے، کئی درجن گھر اور مال مویشی زندہ جلائے گئے لیکن مقامی حکومت نے اس جلتی آگ کو بجھانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
میرا خیال ہے جہاں دہشت گردی کے اس ناسور کی وجہ شدت پسند مذہبی سیاسی فکر ہے وہیں ہمارے ریاستی ادارے، پڑے لکھے صاحب الرائے لوگ اور عوامی ووٹ لے کر قانون ساز اسمبلی تک پہنچنے والے اراکین بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ہم جمہوریت اور تعلیم کے مبلغ ہونے کے باوجود انحراف، اختلاف اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ سیاست دان مسائل کو سلجھانے کی کوشش کرنے کی بجائے جلتی پر تیل چھڑکتے ہیں، اُنہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کے اس غیر جمہوری رویے کی وجہ سے معاشرہ کس طرح غلط سمت کی طرف جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر بھی ہر سیاسی مسئلے کو مسلک کی بنیاد پر متنازع بنا کر مخالف مکتبہ فکر کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرنے کا رواج عام ہو چُکا ہے۔ اس وجہ سے جہاں معاشرے میں عدم برداشت بڑھتی ہے تو دوسری طرف جھوٹ کو سچ سمجھ کر یقین کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

 

گزشتہ کئی ماہ سے دیامر داریل تانگیر کے علاقے میں پائے جانے والی کشیدگی کو بھی ایسے ہی رحجانات کی وجہ سے ہوا ملی ہے۔ گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی وجوہ انیس سوستاسی میں ہونے والی سیاسی پیش رفت سے جڑی ہوئی ہیں۔ انیس ستاسی کے انتخابات میں جب گلگت میں قوم پرستوں کے انتخابات جیتنے کے امکانات سامنے آئے تو اُس وقت گلگت شہر کے دیوراوں پر نامعلوم افراد نے راتوں رات فرقہ وارانہ وال چاکنگ کی اور قوم پرست سیاستدانوں کو دیوار سے لگانے کے لیے فرقے کی بنیاد پر منافرت پھیلائی گئی۔ صدیوں پر محیط بین المسالک ہم آہنگی کے خاتمے سے شدت پسندی کی جو آگ بھڑکی وہ آج بھی بجھنے کا نام نہیں لے رہی۔ دہشت گردی کے ان اسباب کو تاریخ کے آئینے میں دیکھیں توپاک فضائیہ کے سابق سربراہ ائر مارشل ریٹائرڈ محمد اصغر خان اپنی کتاب ‘تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، سیاست اور افواج پاکستان میں جہاد اور امریکہ’ میں لکھتے ہیں کہ ضیاء دور اقتدار میں کوہستان کے کچھ لوگوں نے جنرل ضیاء سے خصوصی ملاقات کرکے یہ شکایت کی کہ کوہستان سے ملحقہ علاقوں میں گلگت اور بلتستان سے کچھ لوگ ‘تبلیغ’ کے لیے آرہے ہیں، تو جنرل ضیاء نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اس مسئلے سے خود نمٹیں۔ اگر وہ کارروائی کرتے ہیں تو حکومت مداخلت نہیں کرے گی۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ضیاء الحق کے اس مشورے سے مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو تقویت ملی اور انہوں نے حکومتی ایماء پر اٖفغان مجاہدین کے ساتھ مل کر 1988 میں گلگت بلتستان پر چڑھائی شروع کی جس کے نتیجے میں کئی سو لوگ مارے گئے، کئی درجن گھر اور مال مویشی زندہ جلائے گئے لیکن مقامی حکومت نے اس جلتی آگ کو بجھانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ صورت حال نازک ہوئی تو اُس وقت کے اہم سیاسی رہنما شیخ غلام محمد مرحوم نے ضیاالحق کو براہ راست فون کرکے تنبیہ کی کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو محاذ پر موجود این ایل آئی کے جوانوں کو گلگت بلتستان کے تحفظ کے لیے واپس آنے کا حکم بھی جاری کرسکتے ہیں۔ یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی یہی وجہ تھی کہ ضیاالحق گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے اور نام نہاد مجاہدین کو ‘شکست’ کھانا پڑی۔ لیکن آج وہی شکست خوردہ عناصر گلگت بلتستان کے عوام کو زیر کرنے کے لیے دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں۔

 

ہمیں سمجھنا چاہیئے ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ کون کس عقیدے سے تعلق رکھتا ہے بلکہ ہم ایک باغ کے کئی پھولوں کی مانند ہیں جو ایک ساتھ کھلتے ہیں اور خوب صورت لگتے ہیں۔
ماضی کے تلخ تجربات مستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کے لیے رہنمائی کر سکتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیئے ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ کون کس عقیدے سے تعلق رکھتا ہے بلکہ ہم ایک باغ کے کئی پھولوں کی مانند ہیں جو ایک ساتھ کھلتے ہیں اور خوب صورت لگتے ہیں۔ لیکن اس باغ کی باغبانی ہم نے بدقسمتی سے دوسروں کے ہاتھ میں دی ہوئی ہے جو اس رنگا رنگی کو بدرنگی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے یہ ‘باغبان’ سیاسی مسائل کو بھی دینی اور مذہبی رنگ دے کر متنازع اور ناقابل حل بنا دیتے ہیں۔ ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گلگت بلتستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی مزاحمت کیسے کی جا سکتی ہے۔

 

حال ہی میں کوہستان سے بازیاب کرائے گئے دو انجینئرز کا واقعہ گلگت بلتستان پرمنڈلاتے دہشت کے مہیب سایوں کی عکاسی کرتا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق اسپیکر گلگت بلتستان قانون ساز کونسل ملک مسکین کی مداخلت سے دونوں مغوی انجینرز کو کوہستان سے بازیاب کرایا گیا جو اپنی جگہ ایک قابل تشویش امر ہے۔ اگر یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں تھا تو اغواء کاروں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ داریل سے اغواء ہونے والے کوہستان کیسے پہنچے؟ اور دہشت گردوں کے ساتھ ان حضرات کا تعلق کس نوعیت کا ہے؟ جب ان لوگوں نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا تھا توتمام سیکیورٹی فورسز کو دیامر کی طرف بھیجنے کا کیا مقصد تھا؟ مگر افسوس کسی کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں مگر عوام جواب منتظرہیں۔ اگر وفاق گلگت بلتستان میں امن دیکھنا چاہتا ہے تو کوہستان اور گلگت بلتستان کے مابین زمینی راستوں پر نفری بڑھانا ضروری ہے اور اگر ریاستی اداروں نے اپنی کارکردگی بہتر نہ بنائی تو دیامیر بھاشا ڈیم اور اقتصادی راہداری جیسے منصوبے بھی شدت پسندوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *