Laaltain

کیچڑ سے بھرے جوتے

14 اکتوبر، 2016
گلی تھی یا کو ئی اگا لدان۔۔۔

 

جا بجا پڑی رنگین کپڑوں کی میلی چیکٹ کترنوں سے گندگی یوں چپکی ہوئی تھی جیسے کسی نے ادھڑی دیواروں والے گھروں کی ساری غلاظت ان سے پونچھ کر پھینک دی ہو۔ اور ان پہ بھبھناتی مکھیوں کا اجتماع، جیسے حقوق نسواں کے اجلاس میں مدعو خواتین آپس میں چہ مگو ئیاں یعنی جی بھر کے چغلیاں، غیبتیں اور بد خوئیاں کر تی ہیں اور جن کی ساری توجہ مسائل کی بجائے ایک دوسرے کے زرق برق لباس، پینٹ شدہ تجریدی آرٹ کے نمو نے پیش کرتے چہروں، امارت چھلکا تے جوا ہرات اور ہینڈ بیگز کی اعلی کوالٹی کی طر ف ہو تی ہے۔ اور ان کی چو کیداری پہ مامور رال ٹپکاتی گدلی آنکھوں والے شو ہر حضرات مچھروں کی طر ح مکھیوں کے اطراف میں راگ ملہار گاتے پھر رہے تھے۔ مطلع صاف شفاف تھا۔ البتہ آسمان کے ما تھے پہ کئی بدلیوں کے بل پڑے ہوئے تھے۔ بارش کا امکان نہیں تھا مگر فضا میں عجیب سی سیلن تھی۔

 

اس نے سانسوں کی رفتار درست کی اور کن اکھیوں سے مشرقی دیوار کی سمت دیکھا جس کی کئی اینٹیں اپنی جگہ سے اکھڑی ہو ئی تھیں اور ان پہ مختلف حشرا ت الارض اپنے اپنے حصے کا رزق سمیٹے خراماں خراماں چلے جا رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے اپنے مقدر پہ ضرورت سے زیا دہ شاکر ہوں۔ اسے کیڑے مکو ڑوں سے خوف نہیں محسوس ہو تا تھا بلکہ گھن آتی تھی۔ اس کا دل چاہا اپنے بھا ری بھرکم جو توں سے ان کا کچو مر نکال دے مگر وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے۔ عین ممکن تھا وہ اسی پہ حملہ آور ہو جاتے اور گھنٹے بھر میں اس کا پنجر عبرت کے لئے چھو ڑ دیتے ایسے ہی جیسے مصر میں فرعو ن کی ممی۔۔۔ اس کی سو چوں کا ریلہ بہتا جا رہا تھا۔ قبل اس کے کہ وہ خود بھی بہہ جا تا اس نے ان پر سے نظر ہٹا کر مغربی دیوار کا سہا را لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ ہلکے بادامی رنگ سے ڈھکی یہ دیوار بظاہر صا ف ستھری تھی۔ مگر جیسے ہی اس نے ہاتھ آگے بڑھایا اسے علم ہوا کہ یہ تو بھو ری چیونٹیاں تھیں جنہوں نے سفید دیوار کو مکمل طور پر چھپا دیا تھا۔ وہ بوکھلا کر پیچھے ہٹا۔ سہارے کے لئے اسے اپنے وجود پر ہی انحصار کرنا تھا۔ چند لمحے سوچ میں ڈو بے رہنے کے بعد اس نے منظر نامے پہ طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے قدم بڑھا دئیے۔

 

اس منظر نامے میں تھا بھی کیا؟

 

ہوا کے زور پہ پھڑ پھڑاتے شاپنگ بیگز کے ہیبت ناک قہقہے، گلے سڑے آلوؤں سے اٹھتی بساند، زرد ٹماٹروں کے پچکے ہوئے رخساروں پر جمی مٹی کی تہیں۔ پکے ہوئے خربوزوں کی انتڑیاں باہر ڈھلک رہی تھیں۔ اطراف کی دیواروں کی اڑی ہوئی رنگت پہ بد حواسی کے سیاہ چھینٹے ثبت تھے اور پان کی پچکاریوں کے نقش نگار کے اعلی نمونے نمائش کے لئے پیش کئے گئے تھے۔ وہ اس بستی میں نیا آیا تھا۔ اسے تو ٹھیک سے راستوں کا بھی علم نہیں تھا۔ اب بھی اسے لگ رہا تھا کہ وہ غلط سمت میں نکل آیا ہے۔ دور سے یہ گلی بند لگ رہی تھی لیکن ہو سکتا تھا اس کے کنارے پہ کوئی چھوٹا موٹا راستہ نکلتا ہو یا دروازہ ایستادہ ہو۔ اس نے اندازے سے ہاتھ ملایا اور اللہ پر توکل کرتا اس گلی میں داخل ہو گیا۔ مگر یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔ بظاہر سیاہی مائل خشک زمین سپڑ سپڑکرتے گندے پانی سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں بھی ان گنت مکھیاں اور مچھر اس بدبو دار پانی میں غوطے لگا رہے تھے اور کافی آسودہ حال نظر آ رہے تھے۔ اس کا جی متلا گیا۔ اس کی نفاست پسند طبیعت کو ابکائیاں آنے لگی تھیں مگر اب وہ پاؤں رکھ ہی چکا تھا تو پلٹنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ دوسرا قدم رکھتے ہوئے اس نے ناک پہ ہاتھ رکھ لیا تھا۔ کانچ کی بوتلوں کے ٹوٹے ہوئے کناروں سے بچتے بچاتے وہ آگے بڑھنے لگا۔ اس کے بند جوتے چپچپانے لگے تھے۔ لیکن وہ انہیں اتار دیتا تو اس کے سفید اور خوبصورت پاؤں غلاظت میں لتھڑ جاتے۔ اس لئے وہ دیوار کے سہارے آگے بڑھتا رہا۔ وہ بھری بھری جسامت والا ایک دراز قد اور وجیہہ نوجوان تھا جس کے خدوخال میں بلا کی جاذبیت تھی۔ سلیقے سے جمے ہوئے بالوں کو گردو غبار نے بکھیر دیا تھا اور اس کا بے شکن لباس طویل مسافت کے باعث مسک چکا تھا۔ بظاہر تو اس میں کوئی شخصی خامی دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن بہت کم لو گوں کو علم تھا کہ اس کی نظر کافی کمزورہے۔حالانکہ بڑی بڑی بادامی آنکھیں اس قدر سحر انگیز تھیں کہ مقابل کو پل میں زیر کر لیتی تھیں مگر انہیں بینائی بہت قلیل میسر تھی اور وہ اپنی اس شخصی خامی سے اس قدر خو فزدہ تھا کہ باہر نکلتے وقت وہ مو ٹے عدسوں والی عینک بھی نہیں لگاتا تھا کہ کہیں لوگ اس کا مذاق نہ اڑانا شروع کر دیں اور ڈھلتی شام کے اس سمے جب اندھیرا مندی مندی آنکھوں سے زمین کو دیکھ رہا تھا اسے کا فی دقت ہو رہی تھی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کر دیا۔ صوفے کی ایک پرانی گدی ٹوٹے گلدان کے پاس اوندھی پڑ ی تھی جس کی لٹکی ہو ئی چمڑے کی کھال سے اونی گولے معصو م بچوں کی طر ح آ نکھیں جھپکا جھپکا کر اسے یوں تک رہے تھے جیسے اس کی بے چارگی سے جی بھر کے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔ جو تے وزنی ہو تے جا رہے تھے اسے رکنا پڑا۔ اس کے سر سے ذرا اوپر جنگلی کبوتر مٹر گشت کر رہے تھے۔

 

“کاش میں بھی ایک جنگلی کبو تر ہو تا” اسے خیال آیا اور پھر وقت کی تنگی کا سوچتے ہی آگے بڑھنے لگا مگر اس کے جو توں سے اتنا کیچڑ لگ چکا تھا کہ اسے پھر سے رک کر دایاں پاؤں جھاڑنا پڑا۔ چند چھینٹے اڑ کر اس کے ہلکے آسما نی رنگ کے کرتے سے جو نکوں کی مانند لپٹ گئے تھے۔ اس نے تاسف سے اپنا دامن دیکھا۔ آ ج مو سم موافق تھا لیکن ہوا جانے کو ن سے پرانے بدلے لینے پر آما دہ تھی۔ اس کے چہرے پر پے درپے تھپڑ بر سانے کے بعد ہوا نے مٹھی میں ایک بدبو دار بھبھکا بھرا اور عین اس کے چہر ے کے قریب مٹھی جھاڑ دی۔

 

“آ خ۔۔۔تھو ” وہ اندر سے اٹھتی ابکائیوں کا گلہ گھو نٹ نہ سکا اوردیواروں پر تھو کنے لگا۔ مزید کھڑا رہنا بے حد دشوار ہو گیا تھا اس نے وحشت کے عالم میں جو تے وہیں اتا رے اور بھا گنا شروع کر دیا۔ اس کے پیروں میں کا نٹے چبھ گئے تھے مگر وہ انہیں نکالنے کے لئے رکا نہیں تھا۔ وہ اس تعفن بھری گلی میں ایک لمحہ بھی ٹھہرنا نہیں چا ہتا تھا۔گلی ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہی تھی اور اس کا سانس مکمل طور پر پھو ل چکا تھا۔

 

اب تو اس کی آنکھوں کے کناروں سے ناک میں دھوں بھر جانے کے باعث پا نی بھی چھلکنے لگا تھا۔ وہ بدستور بھاگتا رہا۔ بالآخر گلی ختم ہو ئی اور وہ ایک چٹیل میدان میں پہنچ گیا۔ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس نے سانسیں درست کیں اور میدان کا جائزہ لینے لگا۔ جس کے مشرقی دامن میں رنگ بر نگ خیموں کی ایک طویل بستی تھی۔ یہ شاید خانہ بدوشوں کی بستی تھی۔ اس کی سانسیں ہموار ہو ئیں تو وہ اپنے پا ؤں کی حالت سے لطف اندوز ہو تا اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی اذیت پسند فطرت پر سکو ن سی نظر آ رہی تھی۔ وہ لٹے پٹے حال میں ہی اس بستی کی سمت بڑھنے لگا۔ جس میں سرکنڈوں سے بنی جھو نپڑیاں دو ر سے ہی نظر آ رہی تھیں۔ قریب تھا کہ وہ بستی کی دا خلی دہلیز پا ر کر لیتا۔ ایک سبز لباس میں ملبو س شخص نے اسے روک لیا۔

 

“کون ہو تم ؟” وہ پہلی نگاہ میں ہی جان گیا تھا کہ وہ اس بستی کا مکین نہیں اور مسا فر ہے جو کہیں دور سے صدیوں کا سفر طے کر کے آیا ہے۔

 

“ممم میں۔۔۔ میں۔۔۔۔” وہ ہکلا یا۔۔۔ پھر تھوک نگل کر بو لا۔۔ “میں۔۔ میں ‘خواب ‘ہوں۔ ایک اجلا اور۔۔۔خوب صورت خواب۔۔۔جو آ زادی کے لئے دیکھا جا تا ہے۔۔۔ زنجیروں کی کھنک سے بے نیاز ” اس نے خشک لبوں پر زبا ن پھیرتے ہوئے تعا رف کروایا اور غیر محسوس اندا ز میں اپنے لبا س پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے گر دو غبا ر صا ف کر نے کی کوشش کی۔ مقابل نے سر تاپا اسے یوں دیکھا جیسے اس کی بات سے حظ اٹھایا ہو۔

 

پھر بھاری آ واز میں مزید پوچھا۔

 

“کیا چاہتے ہو؟”

 

“ہر اس آنکھ میں قیام۔۔۔ جو آزادی کا بدن چھو کر محسوس کرنا چاہتی ہے۔”

 

“تمہاری شناخت؟” سبز لباس والا بد ستور مشکو ک نظروں سے اسے گھو ر رہا تھا۔

 

“میری نظر بہت کمزور ہے۔ میں بمشکل دیکھ پاتا ہوں۔” اس نے علا مت بتا ئی تو اس نے تادیبی انداز میں سر ہلایا۔

 

“مذہب؟”

 

“آزادی کا کوئی مذہب نہیں۔۔۔ سو میرا بھی نہیں ہے”

 

“کہاں سے آئے ہو؟”

 

اس نے سبز لباس کو آنکھ بھر کر دیکھا۔پھر عقب میں اشارہ کرتے ہوئے بولا:
” اس گلی سے آ یا ہوں۔ جو ‘دنیا’ کے نام سے مشہو ر ہے”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *