Laaltain

کہیں عورت تخلیق میں بانجھ ہو گئی، تو؟

9 اکتوبر، 2016
تخلیق اس کائنات کا حسن ہے۔جب کبھی کسی خوبصورت اور دل کش قدرتی منظر پر آپ کی نگاہ اٹھتی ہے تو کیسا قرار جاگ اٹھتا ہے قلب میں۔ بڑے سے بڑا ملحد دل بھی بے اختیار اسے تخلیق کرنے والے کی صناعیت پر ایمان لے آنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔کتنے خوبصورت ہیں یہ پہاڑ،سمندر ،جھلملاتے ستارے ،تھمتی بکھرتی من کو گدگداتی ہوائیں،جل تھل کرتے رم جھم کے موسم۔ بالکل اسی طرح کتنے دل شاد ہو جاتے ہیں ہم، جب نظر سے کوئی ادبی فن پارہ گزرتا ہے۔کتنا فرحت آگیں لگتا ہے حسین دل کی نغمگی اور اعلیٰ اذہان کی کرشمہ سازی کو پڑھ پڑھ کے سر دھننا۔کبھی صادقین یا بہزاد کے شاہکاروں پر نگاہ اٹھ جائے تو مدتوں اسی منظر کی دلکشی میں کھوئے رہنے کو جی چاہتا ہے۔ گویا انسان اور انسان کو بنانے والا دونوں ہی تخلیق کار ہیں۔ فرق یہ ہے کہ خدا کی تخلیق خالص اور اصل ہے۔کہیں سے مستعار خیال کی دین نہیں۔ اور انسان کی تخلیق اسی کی تخلیق کا پرتو، خالص ہے تو امر ہے، اگر بناوٹی اور سراسر نقل پر مبنی تو فنا کے مستحق۔ لیکن اس کی روح تخلیقی ہے۔ یہ اور بات کہ کبھی کہیں تخلیق کی چاہ جی اٹھتی ہے اور کہیں یہ چاہ پژمردگی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔کبھی تخلیق درد کے بطن سے جنم لے کر کندن کی طرح نکھر جاتی ہے تو کہیں محض ملمع کاری سے سجا کر پیش کردی جاتی ہے جو روح میں اترنے کے وصف سے عاری رہ جاتی ہے۔لیکن انسان اوائل عمری میں اسے آزماتا ضرور ہے۔ بچپنے میں ہر انسان کھیل کھیلتا ہے ایسا ڈرامہ تخلیق کرتا ہے جس کا سکرپٹ بھی اس کی تخلیق ہوتا ہے اور کردار بھی خود کے بنائے ہوئے۔ چاک سے الٹے سیدھے نقش ونگار بنانا،چکنی مٹی سے بت تخلیق کرنا، کبھی نغمہ آرائی میں خود کو آزمانا،کبھی نظمیں لکھنے کی مشق کرنا۔ جب تک ناتواں کندھے بار حیات سے بے پرواہ رہیں وہ اپنی روح کی تخلیق کو عیاں کرنا اور منوانا چاہتا ہے۔

 

“عورت“ شروع سے ہی مرد سے زیادہ تخلیقی ہوتی ہے۔کیوں کہ وہ ذیادہ حساس ہوتی ہے۔ اس کے بدن اور اس کے ذہن کی کوکھ تخلیق کے معاملے میں بڑی زرخیز ہوتی ہے۔
“عورت“ شروع سے ہی مرد سے ذیادہ تخلیقی ہوتی ہے۔کیوں کہ وہ ذیادہ حساس ہوتی ہے۔ اس کے بدن اور اس کے ذہن کی کوکھ تخلیق کے معاملے میں بڑی زرخیز ہوتی ہے۔ وہ کائنات میں تخلیق کا حسیں کرشمہ بھی ہے اور خود انسان کے خاکی وجود کا زریعہ تخلیق بھی۔ وہ آدم خاکی کے وجود کو لمحہ لمحہ اپنے لہو سے سینچتی ہے۔ وہ نو ماہ اسے اپنا جزو بدن بنا کر کرب اور آزار کو سہتی اور اپنی موت سے لڑ کر اسے جنم دیتی ہے۔

 

حال ہی میں جاپان کے ایک گورنر نے بڑا عجیب و غریب تجربہ کیا۔کہتے ہیں کہ جاپان کے مرد گھریلو امور میں عورت کی مدد کرنے میں بہت ہی پھوہڑ اور بے حس ثابت ہوئے ہیں۔ انہیں عورت کی مشکلات کا اندازہ کرنے میں بھی بالکل کورا سمجھا جاتا ہے۔ شاید اسی الزام کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ایک درد دل رکھنے والے جاپانی گورنر نے اپنے تئیں ایک سات ماہ کی حاملہ عورت کی تکلیف کو محسوس کرنے کے لئے 7.3کلو کے وزن کی جیکٹ کو پہنا۔اور نہ صرف اسے پہنا بلکہ دن بھر اس کے بوجھ کو سہارتے ہوئے اپنے روزمرہ کے اموربھی انجام دییے۔ واقعتاً یہ سب بہت مضحکہ خیز لگتا ہے۔ محض تمسخر اڑانے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن بھلا گربھ کو اپنی کوکھ میں سہارے بنا کوئی اس بوجھ کو کیسے محسوس کر سکتا ہے؟ کوئی اس درد کو کیسے سمجھ سکتا ہے جو نو ماہ کے لئے عورت کی نس نس میں رچ بس جاتا ہے۔ جو نو مہینوں کے اک اک پل میں اپنے احساس اور شدت کو بدلتا رہتا ہے، ایک ایسا بدلاﺅ جو اپنی سنگینی اور اذیت کی ناقابل برداشت منزل کا سفر تو طے کرتا ہے لیکن کہیں کسی لمحے اس درد کے تھمنے یا رکنے کا کوئی احتمال بھی نہیں ہوپاتا۔ مرد کیسے محسوس کرے گا اس درد کو جو اس کے اندر پلنے والے اک جیتے جاگتے وجود کی بے سروپا حرکت سے جنم لیتا ہے، اس درد کی وہ ٹیسیں جو رات بھر اسے چین نہیں لینے دیتیں۔ وہ ٹیسیں جو اس وقت اٹھتی ہیں جب اس کے بدن میں پلنے والا وجود اس کی طاقت اور ہمت کو نوچ نوچ کر اپنا جزو بدن بنا رہا ہوتا ہے۔

 

عورت کی زندگی کا درد تو اس نو ماہ والی تکلیف کے گرداب سے کبھی نکل ہی نہیں پاتا۔۔۔۔ وہ دکھ میں رتی رتی تحلیل ہو نا جانتی ہے۔مرد کبھی تحلیل نہیں ہوتا۔ وہ ازل سے اپنی یکتائی پر مصر ہے۔
عورت کی زندگی کا درد تو اس نو ماہ والی تکلیف کے گرداب سے کبھی نکل ہی نہیں پاتا۔۔۔۔ وہ دکھ میں رتی رتی تحلیل ہو نا جانتی ہے۔مرد کبھی تحلیل نہیں ہوتا۔ وہ ازل سے اپنی یکتائی پر مصر ہے۔اس کی انفرادیت اس کی شناخت ہے۔ اور ” عورت “۔۔۔۔ وہ بھی تو اک جیتی جاگتی انسان ہے۔ اس کی روح کو بھی اس کی شناخت درکار ہوتی ہے۔ اسے بھی خود اپنے ہونے کے احساس کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بھی خواب نگر کی باسی بننا چاہتی ہے لیکن جب وہ خواب بُننے کی عمر کو پہنچتی ہے، تو حقیقت کے نوکیلے دانت اس کے سپنوں کے سبھی دھاگے کاٹ کے رکھ دیتے ہیں۔ اور ٹوٹے ہوئے سبھی دھاگے باہم الجھ کے رہ جاتے ہیں، جنہیں پھر وہ زندگی بھر سلجھانے کی کوشش ہی کرتی رہتی ہے۔ عین اس لمحے جب وہ اپنی شناخت، اپنی انفرادیت کو ثابت کرنے کی چاہ کرنے لگتی ہے۔ اسے کسی اور کے سپرد کر کے اس کی شخصیت اور انفرادیت کا قتل کر دیا جاتا ہے۔ بیش بہا آزادی کی خواہش کرتے کرتے سانس لینے کی آزادی بھی چھن جاتی ہے۔ سب کچھ تھم جاتا ہے۔ یہ سوال ساکت ہوجاتا ہے کہ ہم کس لئے پیدا کیے گئے بس یہ یاد رہ جاتا ہے کہ ہم خدمت کے لئے پیدا ہوئے۔ قربانیوں کی نئی داستانیں رقم کرنے کے لئے پیدا ہوئے۔ اس کے لئے خوشیوں کا معیار ہی بدل کے رکھ دیا جاتا ہے۔ زندگی کی سفاکی اعلیٰ سے ادنیٰ کی طرف سفر پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس کی دل شکنیوں کا ایسا دور شروع ہو جاتا ہے کہ پھر جسے کبھی کوئی زوال نہیں آ پاتا حتیٰ کہ عمر کو وقت کی دیمک چاٹ جاتی ہے۔لحظہ لحظہ اسے اس کی کم مائیگی کا ایسا احساس دلایا جاتا ہے کہ محسوس کرنے کی سبھی حسیات کے تار ہی بدن سے اکھڑ کے رہ جاتے ہیں۔ وہ بارش۔ وہ موسم جو کبھی آئے بنا بھی دل کے موسم کو اپنے حصار میں لئے رکھا کرتے تھے اب وہ آ بھی جائیں تو دل پر اثر انداز ہو ہی نہیں پاتے۔ باہر کا ہجوم اس کے باہر ہی رہ جاتا ہے اور اندر کی تنہائی وقت کے سبھی روشن دانوں اور دریچوں پر سر پٹختی رہ جاتی ہے۔ یہاں ہر کوئی اسے سمجھانا چاہتا ہے لیکن کوئی اسے سمجھنا نہیں چاہتا۔ اس کی عقل و دانش اس کا جرم یا مرد کا احساس کمتری بن جاتی ہے شاید اسی لئے وہ اسے بار بار مختلف حیلوں بہانوں سے باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ”عورت کی عقل اس کی چوٹی کے نیچے ہوتی ہے“۔ عورت کھوکھلی ہونے لگتی ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں اپنے خواب چولھے کی آگ میں جھونک دیتی ہے۔ گویا اپنی ذات کے سبھی ہنر خود اپنے ہاتھوں گنوا بیٹھتی ہے۔

 

کیوں نہ مرد کبھی جاپان کے گورنر کی طرح اک ایسا تجربہ بھی کر کے دیکھے کہ عورت کی طرح محض ایک دن کے لئے اپنے خوابوں، اپنی تمناﺅں، اپنی آرزوﺅں سے جدا ہو کر دیکھے
آپ نے کبھی غور سے ریلوے اسٹیشن دیکھا ہے؟ شاید کبھی نظر پڑا ہو کوئی ایک تنہا مسافر جو اسٹیشن کی بھیڑ میں بھی تنہا ہوتا ہے۔ایک میلی کچیلی گٹھڑی اٹھائے۔اس کی آنکھوں کی بے بسی سے دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس ٹکٹ بھی نہیں۔۔لیکن اسے جانا ضرور ہے ،۔۔۔لیکن کہاں یہ شاید اسے خود بھی معلوم نہیں۔کتنا لاچار ہوتا ہے وہ مسافر جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کی منزل کہاں ہے۔یہ ہے عورت کی زندگی۔ وہ ایک ایسا مزدور ہے کہ وقت کا کوئی انقلاب اس کی اجرت مقرر نہیں کر سکا۔ وہ عمر بھر محبتیں بانٹتی ہے لیکن محبت خود اس کے حصے بہت ہی کم آتی ہے۔ شوہر بھی محض اس کا جسم شئیر کرتا ہے اس کی روح نہیں۔ محبت تو کیا عمر بھر ستائیش کو بھی ترستی ہے، اس کی خدمتوں کا اک اقرار جو اس کے حوصلوں کے ٹوٹے ہوئے پروں کو بحال کر سکتا ہے لیکن اگر کبھی ”تشکر“ کے دو بول نصیب بھی ہوتے ہیں تو اخیر عمر میں، وقت کا بن باس کاٹ چکنے کے بعد۔۔۔۔اسے خود بھی اپنے خسارے کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب سمے کی نقدی اس کے ہاتھ سے جا چکتی ہے۔ جب اپنے بارے سوچنے کا وقت ملتا ہے تو اپنے پاس رہ ہی کیا جاتا ہے جسے سوچا جائے۔ گویا عورت ایسی تخلیق کار ہے جو صدا سے بے قدری کا دکھ جھیلتی آئی ہے۔

 

گو کہ اسے ستائش نہیں ملتی ، گو کہ اس کا بار بانٹا نہیں جاتا پھر بھی وہ خاموشی سے سب سہتی رہتی ہے۔ اس کی منزل ،اس کے جذبات،اس کے خیال تک کا تعین اس کے مجازی خدا ہی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ کیوں نہ مرد کبھی جاپان کے گورنر کی طرح اک ایسا تجربہ بھی کر کے دیکھے کہ عورت کی طرح محض ایک دن کے لئے اپنے خوابوں، اپنی تمناﺅں، اپنی آرزوﺅں سے جدا ہو کر دیکھے۔۔۔۔کیسا لگے گا جینا۔۔۔؟ کیا وہ اس طرح کے جینے کو جینا ہی سمجھ پائے گا؟۔۔۔نہیں مرد 7.3کلو کا بوجھ اٹھا کر چل تو سکتا ہے لیکن اپنے آپ کی، اپنے وجود کی نفی کر کے عورت ہی کی طرح ہنسی خوشی، بنا شکوہ شکایت کئے ایک دن تو کیا ایک پل بھی جی نہیں پائے گا۔ وہ عورت کی طرح اندر کی تنہائی کا زہر پی کر دوسروں کی محفل میں چراغاں نہیں کر پائے گا۔ کبھی جی کر تو دیکھے کوئی عورت کی زندگی کا اک دن تو کیا اک پل بھی۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ڈر تو یہ ہے کہ اگر عورت کا بڑھتا گھریلو استحصال کم نہ ہوا، اگر خالق کائنات کی اس تخلیق کی جو کہ خود بھی تخلیق کا باعث اور تخلیق کار ہے، اسی طرح بے قدری ہوتی رہی۔ اگر اس کی ذات کو اسی طرح زمانہ اپنے قدموں تلے روندتا رہا تو کہیں یہ اپنے تخلیقی ہنر میں بانجھ نہ ہو جائے۔ اور اگر یہ بانجھ ہو گئی تو پھر کیا رہ جائے گا؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *