Laaltain

کوئی ہونا چاہیے

13 مئی، 2017
کوئی ہونا چاہیے
آوازوں کے غبارے پھٹتے ہوں جب
چاروں جانب
لایعنیت شفاف زیر جامے میں
ٹھمکے لگاتی، ہونٹ پچکاتی، قہقہہ زن ہو گلی گلی
کوئی ہونا چاہیے
جسے یاد ہو کوئل کی کُوک

سنگ زنی سے گھائل دن
جب آن گرے سروں اور کندھوں پر
ٹکرا جائیں زم زم سے دُھلی پیشانیاں
فاحشہ رات کی متعفن لاش سے
کوئی ہونا چاہیے
جسے یاد ہو چنبیلی کا چٹکنا

ہجوم بن جائے جب بے ہئیت جانور
بے بصارت، بے سمت
اک سیال دیوانگی سے گھروں
دفتروں، کارخانوں، عبادت گاہوں کو ڈبوتا
کوئی ہونا چاہیے
جسے یاد ہو بچے کی پہلی کھلکھلاہٹ

اور آن پہنچیں جب ہم
تاریک سرنگ کے آخر پر
وقت کے ایک نئے قطعے پر
چندھیائے ہوئے، ہکا بکا
کوئی ہونا چاہیے جو پکار اٹھے
“یہ روشنی ہے”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *