Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

نولکھی کوٹھی – دوسری قسط

test-ghori

test-ghori

20 فروری, 2017

[blockquote style=”3″]

علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہو ا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوا اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔

ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔

[/blockquote]

علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔

(4)

ولیم کو انگلستان سے آئے ایک سال کے قریب ہوگیا لیکن ابھی تک اُسے خاص جگہ تعینات نہیں کیا گیا تھا۔ مختلف کمشنروں کے دفتروں میں ہی چھوٹے موٹے کاموں کی تربیت میں مصروف رکھا،تاکہ کام پر نکلے تو پورے حساب میں ہو۔ایک سال کے بعد جب اُس کے باقاعدہ پوسٹنگ آرڈر تیار ہوئے تو وہ فیروز پور کی تحصیل جلال آباد میں بطور اسسٹنٹ کمشنر کے تھے۔ ولیم نے بہت کوشش کی اُسے مشرقی پنجاب نہ بھیجا جائے مگر اِن دنوں چیف سیکرٹری صاحب کے موڈ اچھے نہیں تھے اور کمشنر جیمس ویسے ہی ولیم کے باپ سے خار کھائے بیٹھا تھا۔اس لیے وہ اُن سے کہنے کا رِسک نہیں لے سکتا تھا۔ جانسن نے پہلے ہی کہہ دیا تھا اِس معاملے میں کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ چنانچہ ولیم کو فیروزپور میں بطورِ اسسٹنٹ کمشنر اپنی پوسٹنگ کے آرڈر لینے ہی پڑے، بجز اس کے چارہ نہیں تھا۔

ولیم فیروزپور میں ڈسڑکٹ آفس کے ریسٹ ہاؤس میں پہنچا تو رات کے آٹھ بج چکے تھے۔ ایک تو رات کی تاریکی تھی دوسرا پہلے اس علاقے میں آیا بھی نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی شہر کے خط وخال اور رنگ ڈھنگ کو دیکھ نہ سکا۔علاقے کا تحصیلدار اور دوسرے کئی دیسی افسر ریلوے سٹیشن پر اُسے لینے کے لیے آئے۔ سرد رات کے اس پہر ولیم کے لیے اُن کی شکلیں بھوتوں کے سا ئے محسوس ہو رہے تھے۔اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی گیدڑوں کی ہاؤ ہُو اور کتوں کے بھونکنے کی آواز وں نے اُس کا استقبال کیا۔ ان کریہہ آوازوں نے ڈسٹرکٹ کمپلیکس تک اُس کو آزار پہنچایا۔اس کے سبب ولیم کی بیزاری مزیدبڑھ گئی۔ فیروز پور شہر جس قدر کھلا تھا اُسی قدر سنسان بھی تھا۔ جیپ سے اُترا تو اُس نے دیکھا ہر طرف سناٹے کا سماں ہے۔ پانچ چھ سکھ سنتری بندوقیں کاندھوں پر رکھے ستونوں کی طرح اٹینشن کھڑے تھے۔ غالباََ اُنہیں بتا دیا گیا تھا کہ نئے صاحب آ رہے ہیں۔ چوکیدار اور سنتریوں نے تیزی سے سلام کیااور ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ ولیم نے چاروں طرف غائر نظر ماری۔گیس کے ہُنڈے جل رہے تھے، جن کی پیلی روشنی ہلکی دھند میں مزید ٹھنڈی اور دھندلی ہو رہی تھی۔ گاہے گاہے دُور سے بھونکتے کتوں اور چیختے گیدڑوں کی آوازیں اِس دُھند میں اور زیادہ اُداسی پھیلا رہی تھیں۔ ایک افسر نے ولیم کا اٹیچی کیس پکڑ لیا۔ دوسرا عملہ چوکیدار کے ساتھ مل کر جیپ سے بقیہ سامان اُتارنے لگا۔اِسی اِثنا میں ولیم قدم بڑھاتا ہوا ریسٹ ہاؤس میں داخل ہوگیا۔ وہ کچھ دیر ٖضرور باہر کی ہوا دیکھتامگر سفر کی تھکاوٹ اور ٹھہرے ہوئے موسم نے اُسے اِس بات پر آمادہ نہ ہو نے دیا۔ جب سامان اندر آگیا اورتحصیلدار سمیت تمام عملہ سلام کر کے رخصت ہو چکا تو چوکیدار سامان کو ترتیب سے ایک طرف جمانے لگا۔ اس معاملے میں اس کی مدد ایک سب انسپیکٹرازخود کر رہا تھا۔ اِسی بہانے اُس نے ایک بار ولیم سے گفتگو کرنے کی کوشش بھی کی لیکن ولیم اپنی ہدایات مسلسل چوکیدار ہی کو دیتا رہا۔ سامان پوری طرح ترتیب سے لگ گیا تو ولیم نے سب انسپیکٹر کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور آرام سے کرسی پر دراز ہو کر چوکیدار سے مخاطب ہوا۔

مسٹر آپ کا نام کیا ہے ؟

چوکیدار پورے جوش سے آگے بڑھتے ہوئے بولا، جی صاحب بہادر غلام کا نام نیاز دین ہے لیکن سب نجا کہتے ہیں۔ صاحب آپ حاکم ہیں، جس نام سے چاہیں بلا لیں۔

ولیم نے بغیر تاثر اور کیفیت پیدا کیے کہا، نو نو نیاز دین، ہم آپ کو نیاز دین ہی کہیں گے۔پھر فوراََ کرسی سے اُٹھ کر بولا، نیاز دین ہمارے نہانے کا بندوبست کرو۔ ہم جلدی آرام کرنا چاہتے ہیں۔

صاحب جی، پانی گرم ہے۔ مجھے پتہ تھا آپ آ رہے ہیں اس لیے مَیں نے آپ کے آرام کا پورا بندوبست کر دیا ہے۔ نیاز دین نے ایک کونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ولیم کوداد طلب نظروں سے دیکھامگر ولیم کا چہرہ سپاٹ رہا۔ وہ بغیر کچھ کہے واش روم کی طرف مُڑ گیا۔ نیاز دین کو ولیم کے اس عمل سے تھوڑا سا دکھ ہوالیکن زیادہ تعجب نہ ہوا کیونکہ وہ اس ریسٹ ہاؤس میں کئی برسوں سے چوکیدارہونے کے سبب انگریز افسروں کے سپاٹ رویوں کا عادی ہوچکا تھا۔بلکہ وہ اس بات سے خوش تھا کہ ولیم نے اُس کے اصلی نام سے اُسے مخاطب کیا تھا۔

گرم پانی سے نہاکرولیم کی طبیعت میں تازگی کا احساس در آیا۔ ابھی کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ نیاز دین نے یاد دلایا، کھانا تیار ہے۔ ولیم نیاز دین کی اس تیز رفتاری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہامگر اپنے آپ کو جذبات سے باہر رکھتے ہوئے،جس کی تاکید سول افسر کو خاص طور پر دورانِ تربیت کی جاتی ہے،بولا،ویل ڈن نیاز دین اور کھانے کے کمرے میں چلا گیا۔کمرے کی اندرونی ترتیب کا اہتمام خاص طور پر آرائش سے لے کر کھانے تک انگریزی اور ہندوستانی امتزاج سے بہت عمدہ کیا گیا تھا۔ کھانے کے دوران نیاز دین اور باورچی ہاتھ باندھے خدمت کے لیے تیار ایک کونے میں کھڑے رہے۔ ولیم نے باورچی کو نہ تو آواز دی اور نہ ہی نام پوچھنے کی ضرورت محسوس کی۔ البتہ ایک دفعہ نیاز دین کو تھینکس ضرور کہا۔

چائے پینے کے بعد ولیم ایک دفعہ پھر ریسٹ ہاؤس کے صحن میں نکل آیا اور آدھ گھنٹہ ٹہلتا رہا تاکہ کھانا ہضم ہو جائے اور اب تھکا وٹ دوبارہ اثر دکھانے لگی تھی۔جس کی وجہ سے غنودگی طاری ہوگئی۔وہ بیڈ روم میں آگیااورلیٹتے ہی سو گیا۔

اگلے دن ولیم کی آنکھ کھلی تو اُس نے انگڑائی لیتے ہوئے سامنے کے دیوار گیر کلارک پر نظر ڈالی۔ صبح کے آٹھ بج رہے تھے جس کا مطلب تھا کہ وہ پورے نوگھنٹے سویا۔اس قدر سکون کی نیند اُسے شاید ہی کبھی آئی تھی۔ مختصر یہ کہ ناشتہ کرنے اور پوری طرح سے تیار ہونے کے بعد دس بجے کمرے سے نکلا۔دھوپ خوب چمک رہی تھی۔ باہر قدم رکھتے ہی اُس کی نظر بغیر کسی رکاوٹ کے دُور تک چلی گئی۔ باہر نہ تو کوئی دیکھنے کو منظر تھا اور نہ زندگی کے آثار۔ کچے میدان اور خاکستری آسمان کے درمیان فقط چند اُجاڑ درخت ایک دوسرے سے دُور اور روٹھے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔اُن ٹُنڈ مُنڈ پیڑوں پر نہ کوئی پرندہ تھا، نہ گلہریوں کے آثار۔ ریسٹ ہاؤس کے گرد دوچار کیکر، ایک برگد اور بے شمار عک کے پودے تھے۔ جن کے اندر غالباً چوہیاں دوڑ رہی تھیں۔ کیکر کے پیڑوں کے نیچے تُکلوں کی پھلیاں بکھری پڑی تھیں۔ایک جانب کچھ سرسوں کے کھیت اور دوسری طرف شہر کی اُجڑی عمارتیں تھیں۔بازاروں کو وہ دُور ہونے کی وجہ سے نہ دیکھ سکتا تھا۔لیکن اُسے یہ احساس ضرور ہوگیاکہ یہ شہر انسانوں سے زیادہ بھوتوں کا ہوگا۔اُسے یہ سب دیکھ کر تعجب ہوا۔ کیا فیروز پور انگریزی سرکار کے ماتحت نہیں کہ اس کی جمالیات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ؟یا پھر یہ شہر ہی منحوس ہے۔ تحصیلدار جوزف اور ایک دو دیسی افسر اسے ویلکم کہنے کو ریسٹ ہاوس کے باہر موجود تھے، جو صبح سات بجے ہی وہاں پہنچ گئے تھے اور تین گھنٹے تک ویٹنگ روم میں بیٹھے ولیم کے نکلنے کا انتظار کرتے رہے۔ ولیم نے اُن سے ہاتھ ملا کر ہیلو کہنے کے علاوہ کچھ خاص بات نہیں کی، اپنے اُنہی خیالوں میں گم چلتا گیا مگر پھر اُس نے یہ خیال جھٹک دیا کہ خواہ مخوادماغ کو ہلکان کرنے کا فائدہ نہیں تھا۔ کونسا اُس نے یہاں رہنا تھا، نہ ہرچیز ٹھیک کرنے کا اُس نے ٹھیکہ لیا تھا۔ اُس نے سوچا وہ کچھ وقت تک یہاں مہمان ہے۔ اُس کی بلا سے جائے جہنم میں۔ اُسے تو ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے ہدایات وصول کرنا ہیں۔ وہ یہ کام جلد کر کے جلال آباد کی طرف نکل جانا چاہتا تھا، جہاں اُسے اپنے فرائض بطوراسسٹنٹ کمشنر ادا کرنے ہوں گے۔ لاہور سے جاتے ہوئے اُس نے خیال کیا تھا کہ دوچار دن کے لیے فیروز پور رُکے گالیکن یہاں آکر جلد ہی اکتاہٹ محسوس کرنے لگا تھا۔ یہاں اگر کوئی شے اِن میں جاندار تھی تو وہ نیاز دین تھا، جس نے اُسے کل شام سے کچھ تکلیف نہ ہونے دی، لیکن جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے،فیروز پور آنا ولیم کی غلطی نہیں مجبوری تھی۔ اس کے ساتھ ایک بات کا اُسے اطمینان بھی تھا کہ اُس کی پوسٹنگ ابھی فیروز پورہی میں ہوئی تھی، نہ کہ لدھیانہ یا راجستان میں، جس کا پہلے بہت امکان تھا اور اُن کے نام ہی سے وہ بیزار تھا۔پھر یہ بات اور بھی اطمینان بخش تھی کہ فیروز پور کی بجائے اُس کو تحصیل جلال آبادبھیجا جا رہا تھا،جو فیروزپورسے جنوب مغرب کی طرف ستر کلو میٹر پر تھی۔وہاں سے وسطی پنجاب محض پچاس کلومیٹر تھا، اُس کے خوابوں کا استھان۔

ولیم خیال کی انہی وادیوں سے گزرتا ہوا ڈپٹی کمشنرکے دفتر پہنچ گیا۔ نائب تحصیلدار وِکرم نے جیپ رُکتے ہی آگے بڑھ کر ولیم سے بریف کیس پکڑ لیا اور بڑے ادب سے ڈپٹی کمشنر کے کمرے کی طرف رہنمائی کرنے لگا۔ اُس نے دیکھا بہت سے کلرک اپنے کمروں کے کھلے دروازوں سے جھانک رہے ہیں۔اِن میں اکثر کی گول شیشے والی عینکیں میلی چکٹ ڈوریوں سے بندھی،اُن کی ناکوں پر ترچھی جمی اُسے گھو رہی تھیں۔کچھ کلرک اِن دھندلائے ہوئے شیشوں کے اُوپر سے دیکھنے کی کوشش میں تھے۔ ولیم کوسرسری نظر میں بھی اُن کی باہر نکلی ہوئی توندیں اور بغیر بالوں کی چُندھیائیں دِکھنے سے باز نہ رہ سکیں۔ وہ جانتا تھا،یہ سب اُس کے گزر جانے کے بعد اُس پر رائے زنی شروع کر دیں گے۔ جس کا نہ اُنھیں کچھ فائدہ ہو گا اور نہ انگریز سرکارکو۔مگر ہوا میں ضائع ہو جانے والے تبصرے وہ ہر حالت میں کریں گے۔ کلرکوں کے ایسے عمل سے اُسے شدید نفرت تھی مگر اِن کی مشترکہ عادات کو روکنا اُس کے بس کا روگ بھی نہیں تھا۔ وہ راہداریوں سے گزر کر جیسے ہی ڈپٹی صاحب کے دروازے پر پہنچا، ڈپٹی کمشنر ہیلے دروازے پر استقبال کرنے کے لیے موجود تھا۔

گڈمارننگ سَر’’ولیم نے ایک لمبا ڈگ بھرتے ہوئے ہیلے کی طرف ہاتھ بڑھا یا۔

گڈ مارننگ ینگ مین، ’’ہیلے نے ولیم کا ہاتھ گرم جوشی سے دبایا اور کمرے میں داخل ہونے کا اشارہ کیا۔
تحصیلدار جوزف کو ولیم نے باہر ہی سے رخصت کر دیا۔ نائب تحصیلدار وِکرم نے جلدی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا اور اُس وقت تک دروازہ پکڑے کھڑا رہا جب تک دونوں کمرے میں داخل نہیں ہو گئے۔ہیلے نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہی سگار کا کش لیا اور ولیم کو سامنے بیٹھنے کا اشارہ کر دیا۔

چند ثانیوں بعد ایک شخص کافی اور بسکٹ رکھ کر چلا گیا۔پھر کچھ دیر خاموشی چھائی رہی،نہ ولیم کچھ بولااور نہ ہیلے۔دونوں شاید ایک دوسرے کے جسمانی خدو خال سے دماغ کی اندرونی کیفیت کا اندازہ لگاتے رہے۔ چند ثانیوں کے اس وقفے کے بعد ہیلے نے گفتگو کا آغاز کر دیا،برطانیہ سے کب آئے؟

ولیم نے کرسی پر ٹھیک سے پہلو درست کیااور جواب دیا،سر لندن سے آئے ایک سال سے اوپر ہو گیا لیکن آرام سے ایک دن نہیں بیٹھ سکا۔ آپ جانتے ہیں،اکیڈمیوں والے ایک کے بعد دوسری ٹریننگ کے چولہے میں جھونک دیتے ہیں اور سیکھا ہوا بار بار سکھاتے ہیں۔

اس باوجود بھی کچھ لوگ نہیں سیکھتے،ہیلے نے یہ جملہ چبھتے ہوئے انداز میں کہا،جسے ولیم محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا لیکن خاموش رہا۔

بات فوراًبدل کر اوروطن کی پوری محبت دل میں جمع کرتے ہوئے ہیلے دوبارہ بولا،لندن کیسا تھا؟

ولیم نے کاندھے اُچکاتے ہوئے بے نیازی سے جواب دیا،وہی پرانی برف،جو قیامت تک رہے گی۔

ہیلے کو ولیم کا جواب ناگوار لگا مگر وہ پی گیا اور گفتگو اپنے مطلب کی طرف لے آیا،فیروزپور کا سفر کیسے کٹا؟ میرا مطلب ہے کچھ تکلیف تو نہیں ہوئی ؟

ولیم نے کافی کا گھونٹ پیتے ہوئے جواب دیا، بہت عمدہ سر، ریسٹ ہاؤس کا ملازم اچھا تھا۔

باتیں کرنے کے ساتھ ولیم کمرے کا جائزہ بھی لیتا جا رہا۔ ہیلے کی میز اور کمرے کی اندرونی ہیئت واقعتاً برطانوی ایمپائر کی ہیبت کی عکاس تھی۔ دس فٹ لمبی اور چھ فٹ چوڑی میز کے ایک کونے پر رکھا ہوا گلوب کچھ معنی رکھتا تھا۔ کمرہ انتہائی کھلا اور آرائش میں پروقار چیزوں کی نشاندہی کر رہا تھا۔ پردوں سے لے کر صوفوں تک اور سامنے کی دیوار پر برطانیہ کی وسیع سلطنت کے پھیلے ہوئے نقشے کسی بھی ملاقاتی کے دل پر حکومت کی جلالت اور اس کے نمائندے کی ہیبت پیدا کرنے کے لیے کافی تھے۔

ینگ مین آپ کب تک جلال آباد جانا چاہتے ہیں؟ ہیلے جلد ہی مطلب پر آ گیا۔

ولیم،جسے حال ہی میں انگلستان میں آٹھ سال گزارنے پڑے تھے، جواب دینے کے معاملے میں اس کی طبیعت میں ایک ٹھہراو تھا۔کچھ دیر کافی کی چسکی لینے کے بعد کمرے کو چند ثانیے گھورتا رہا پھر اعتماد کے ساتھ بولا،سَر میں آج ہی یہاں سے روانہ ہونا چاہتا ہوں۔ لیٹر جلد مل جائے تو خوشی ہوگی۔

ہیلے نے کچھ دیر ولیم کی نیلی آنکھوں میں، جن میں ہلکا سبز رنگ بھی گُھلا تھا ’دیکھتے ہوئے ایک بھر پور خاموشی کا سوال کیا۔جس کا مطلب تھا، جواب وضاحت طلب ہے۔

ولیم نے وضاحت کی ’ سَر میری طبیعت یہاں اُکتاہٹ کا شکار ہو رہی ہے اس لیے اپنے کام پر جلد پہنچنا چاہتا ہوں۔
او کے، ہم آپ کو آج ہی رخصت کر دیں گے۔ ہیلے نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیا، بس کچھ ضروری معلومات آپ کے گوش گزار کرنا ہیں۔ جن میں سے کچھ کا تعلق زبانی ہے اور کچھ تحریری۔

کیا زبانی معلومات ابھی نہیں مل سکتیں ؟ولیم نے اب کے بے چینی کا مظاہرہ کیا۔

یس مسٹر ولیم، ہیلے نے کرسی سے اُٹھتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا۔

آپ کے متعلق میرے پاس خاصی معلومات ہیں،جو ہندوستان میں رہنے والے ایک انگریز افسر کے لیے خطرناک ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آپ کمشنری کے لیے مناسب نہیں تھے۔اُن کا کہنا ہے آپ کے مزاج میں شوریدگی اور بعض شاعرانہ قباحتیں ہیں۔لیکن ہوم منسٹری نے آپ کے اجداد کی سابقہ خدمات کے پیش نظر اُس رپورٹ کو نظر انداز کردیا اور پوسٹنگ لیٹر دے کریہاں بھیج دیا۔ اب اُس رپورٹ کو غلط ثابت کرنا آپ کے ذمہ ہے۔

سر بات میری سمجھ میں نہیں آئی،ولیم نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔

ولیم،ہیلے دوبارہ بولا،اسٹیج پر آنے کے بعد اسٹیج سے باعزت اُترنا زیادہ اہم ہے۔ آپ ایک ایسے ناٹک کی طرف جا رہے ہیں جس میں ایک سین ایک ہی بار شوٹ ہوتا ہے۔ ری ایکٹ کرنے کی گنجائش نہیں۔ چنانچہ پہلی ہی بار پرفیکٹ ہونا ضروری ہے۔جہاں ا سٹیج کے اصولوں کی خلاف ورزی کی، وہیں ذلت اُٹھاؤ گے۔ میرا خیال ہے، آپ ہوم منسٹری کی عزت رکھیں گے اور اپنے اجداد کی بھی۔

ولیم کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے ہیلے کی گفتگو سن رہا تھا۔ ہیلے کے چہرے کی سلوٹیں بھی غور سے دیکھ رہا تھا۔جن میں ہر اُس افسر کی طرح، جب وہ سروس میں کچھ عرصہ گزار لیتا ہے، بقراطیت جھلکنے لگتی ہے۔

ہیلے نے دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر آگے جھکتے ہوئے گفتگو دوبارہ شروع کی،ولیم، تم ایک انگریز ہو۔یہاں تمہاری حیثیت حاکم کی ہے۔ ہم یہاں کی زمین سے رومانس نہیں، حکومت کرنے آئے ہیں۔ جیسا کہ مجھے معلوم ہواہے، آپ کی شاعرانہ طبعیت آپ کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔ یہاں آپ کاوجود ایک برتر سطح پر ہے۔اس لیے آپ پر کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔جو انگریز نوجوان برٹش سول سروس کو جوائن نہیں کرتے وہ ان حدود اور ذمہ داریوں سے ماورا ہیں۔

ولیم حاکم اور محکوم میں ایک فاصلہ ہوتا ہے۔ اُسے قائم رکھنا حاکم کی ذمہ داری ہے۔ دیسی لوگوں کو انصاف فراہم کرو لیکن عدل کے دوران تمہارا ظالم اور مظلوم سے فاصلہ برابر ہونا چاہیے۔ اُن کے درمیان فیصلہ کر کے دونوں سے بے تعلق ہو جاؤ۔ اگر مقامی سے سو دفعہ ملو تو ہربار اجنبی کی طرح۔کیونکہ تمہاری قربت اُسے تمھاری ہیبت سے باہر کر دے گی اور یہ بات قانون کو چھوٹا کرنے کے لیے کافی ہے۔یہی قانون جو ہماری ایمپائرکاحقیقی ستون ہے۔ (ہیلے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر سیدھا کھڑا ہوگیا اور گلوب کو دائیں ہاتھ کی انگلی سے گھماکر بات جاری رکھی )میرا خیال ہے ینگ مین،آپ میری بات کے سمجھنے میں مشکل محسوس نہیں کر رہے۔ ہندوستان ایک وسیع سمندر ہے جو انتہائی گہرا،تندوتیز موجوں سے بھرا ہوا ہے۔ حکومت یعنی ہم اس کی سطح پر ایک جہاز کی مانند تَیر رہے ہیں۔ہمیں اپنی بقا کے لیے ہر طرف سے ہوشیار اور متحرک رہنا ہے۔ اس کی ہولناکیوں پر قابو پانے کے لیے بے رحم طاقت چاہیے۔ جہاز کا ہر تختہ دوسرے سے بغیر فاصلے کے جُڑا ہو، ورنہ سمندر کا اپنا وجود مستعار نہیں۔ وہ اپنی زمین پر کھڑا ہے۔ہم اُسے اُٹھا کر نہیں لے جا سکتے۔اس کی موجوں کو طغیانی سے نہیں روک سکتے۔ مَیں جانتا ہوں، ہم نے جہاز پر اتنا کچھ لاد لیا ہے جس کی گراں باری تختوں کے چوکھٹے ہلا رہی ہے۔ چنانچہ اُس وقت تک موجوں کی سرکشی کوبادبانوں پر رکھوجب تک تمہاری کشتیاں ٹھنڈے ساحلوں پر لنگر نہیں گرا لیتیں۔ ولیم،ہم ان تختوں کے ساتھ ڈوبنا نہیں چاہتے۔

آپ میری باتیں سن رہے ہیں؟ہیلے نے اُسے دوبارہ مخاطب کیا۔

سَر آپ بات جاری ر کھیں، ولیم دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے بولا۔

گُڈ۔ تو میں کہہ رہا تھا (اسی اثنا میں ہیلے نے سگار کا بھر پور کش لیا) ہمیں یہاں اپنا وجود ثابت کرتے رہنا ہے، جب تک اس جگہ موجود ہیں۔ مجھے نہیں معلوم،ہمارے مرکز میں کتنی طاقت ہے۔لیکن تمہارے ہیٹ کی چوڑائی پگڑی سے زیادہ ہونی چاہئے اور سگار کا دھواں حقے سے تلخ۔تم ان کی آنکھوں میں دھواں بھر تے رہو تاکہ یہ صاف نہ دیکھ پائیں۔ اُس کے بعدجو تمہاری عینک اِنہیں دکھائے، یہ وہی دیکھیں۔لیکن دھواں تمہاری اپنی آنکھوں کی طرف نہ آنا چاہیے۔

اس کے بعد ہیلے آرام سے کرسی پر بیٹھ کر کچھ دیر کے لیے خموش ہو گیا۔ اُس کی خموشی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ولیم نے کہا،سَر کیا آپ پسند کریں گے،مجھے جلال آباد کے متعلق سرسری معلومات مل جائیں؟

ولیم کے اس سوال نے ہیلے کو یاد دلایا کہ وہ اپنی پوسٹنگ سائیٹ میں دلچسپی رکھنے پر اکتفا کرے گا۔ہیلے مسکرایا، اُسے محسوس ہوا ولیم کچھ زیادہ بے چینی میں ہے۔

وائے ناٹ، مسٹر ولیم، یو وِل ورک انڈر می اور میں آپ کے کام کا ذمہ دار ہوں۔ غور سے سنو،ہندوستان میں پنجاب واحد ایسا علاقہ ہے جہاں انسان جانوروں کے ساتھ رہتے ہیں۔اس لیے اکثر پتا نہیں چلتا، دونوں میں اصل جانور کون ہے؟ ان لوگوں کے پاس بیل اور بھینسیں بہت ہیں۔یہ لوگ اطاعت کے وقت بھینس اور سرکشی کے وقت بیل بن جاتے ہیں۔چنانچہ ِانھیں دوہتے وقت تھپکی دینا اور سرکشی کریں تو سینگوں سے دور رہنا۔ شاید برکلے کا انجام تمھیں یاد ہو۔ قبروں پر چراغ جلانے میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔ جلال آباد وسطی پنجاب کی سرحد پرفیروز پورکی آخری تحصیل ہے۔ اِن کے سینے دریاؤں کی طرح چوڑے اور مزاج اس کے بہاؤ کی طرح تیز ہیں۔جنھیں کناروں میں رکھنا آپ کی ذمہ داری ہے۔

یہاں دو قومیں ہروقت ایک دوسرے کے مقابلے پر رہتی ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے حریف سکھ اور پنجابی مسلمان ہیں۔ پنجابی مسلمان معقول اور بات کو جلد سمجھ لینے والے ہیں۔ جب کہ سکھ احمق اور ہر وقت اپنے ہی نقصان کے دَر پَے رہتے ہیں۔لیکن تمہارے لیے بہتر مدد گار سکھ ہوں گے۔کیونکہ مسلمانوں کے اندر سے نخوت اور منافقت ختم نہیں ہو سکتی۔ یہ لوگ اپنے پرائے کو کسی بھی وقت دھوکا دے سکتے ہیں۔ مَیں یہ نہیں کہتا، سکھوں کو بلا جواز مدد دینا۔ یہ تمہارے لیے خطرناک ہوگا لیکن مشکل کے وقت انہی سے کام لینا۔ یہ لوگ ہر کام بغیر سوچے کر گزریں گے۔ جب کہ مسلمان تمھارے کاموں میں اپنی رائے داخل کریں گے اور وہ ناقص ہوگی۔بس یہی کچھ ہے جو میں زبانی آپ سے کہنا چاہ رہا تھا۔ اب آپ کچھ پوچھنا چاہیں تو مَیں بتانے کو بیٹھا ہوں۔

صرف ایک بات سر ’’ولیم نے دھیمے سے کہا‘‘

پوچھیے، ہیلے نے متوجہ ہوکر کہا۔

کسی معاملے میں اگر مَیں تنہا ہو جاؤں تو اس وقت آپ کی عینک کے شیشے سیاہ ہوں گے یا شفاف؟

دیکھو ولیم، ہیلے نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے جواب دیا،ہر انچارج ہمیشہ دو عینکیں رکھتا ہے، ایک شفاف ایک سیاہ۔ شفاف عینک اُس کے ضمیر کی ہوتی ہے اور سیاہ اپنے مفاد کی۔ اکثر ایسا ہو تا ہے سیاہ عینک لگانی پڑ جائے البتہ مَیں مدد سے گریز نہیں کرتا۔پھر بھی آپ احتیاط سے کام لیتے رہیں۔ اتنا کہہ کر ہیلے کرسی پر دوبارہ بیٹھ گیا اور گھنٹی پر ہاتھ رکھ دیا۔

ولیم نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔

اتنے میں ایک آدمی جس کے سَر کے بال تقریباََ اُڑ چکے تھے اور گول پاجامے سے پیٹ ڈھولکی کی طرح اتنا با ہر نکلاتھا کہ اُس میں پاجامے کی بیلٹ چھپ چکی تھی۔ وہ ایک بڑی بھاری فائل لے کر اندر داخل ہوا۔ ہیلے نے اُسے ولیم کی طرف اشارہ کر دیاجس کا مطلب تھا یہ فائل صاحب کو دے دی جائے۔ جب فائل ولیم کے سامنے آئی تو ہیلے نے کہا، مسٹر ولیم، اس گز یٹر میں آپ کو بہت کچھ مل جائے گا۔اور آخر میں ایک اور مگر سب سے اہم بات دھیان میں رہے۔یہ کہہ کر ہیلے اُٹھ کر میز کی دوسری طرف سے ہوتے ہوئے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ولیم ہیلے کی طرف مکمل طور پر متوجہ ہو گیا تو اُس نے نہایت سنجیدہ لہجے میں کہا، ولیم تمھیں انگلستان کی برف ہندوستان کے گرم دریاؤں سے اور لندن کے سفید کوے آگرہ کے کبوتروں سے زیادہ عزیز ہونا چاہیئیں۔ بس اب آپ جا سکتے ہیں۔

ولیم نے ہیلے کے آخری جملے کی چبھن کو واضح محسوس کیا لیکن کچھ بولا نہیں، بلکہ اٹھنے کے لیے سلام کیا۔ ہیلے اُسے باہر تک چھوڑ نے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔ دونوں پورے وقار کے ساتھ جیسے ہی دفتر کے مرکزی دروازے پر آئے دفتر کا پورا عملہ دورویہ قطار میں مقامی حیثیت کا اعلان کرنے کے لیے موجود تھا۔ جنہیں آگے بڑھ کر ہا تھ ملا نے کا حوصلہ تو نہیں تھا البتہ اپنے ہاتھ ماتھوں پر ضرور لے آئے اور نائب تحصیلدار وِکرم کو رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ کیسے اِترا اِترا کر ولیم کا بیگ پکڑے چل رہا تھا۔ موتی چند کے پاس سے گزراتو اُس نے کہنی مارکر بابوجلال سے کہا،بابوجی، یہ وِکرم بہت حرامی ہے۔ جلال آباد تک ولیم کے ساتھ جائے گااو ر رستے میں صاحب کو شیشے میں اُتار لے گا۔

بابو جلال دھیمے سے تائید میں سر ہلاتے ہوئے بولا،منشی جی یہ چپڑ قناتیا تحصیلدار ایسے ہی نہیں ہوا،موقعے کی تاڑ میں رہتا ہے۔بھلا یہ بتاؤ کِسے خبر تھی ولیم جلال آباد کا اسسٹنٹ کمشنر بن کر آ رہا ہے؟ سوائے اس حرام خور کے۔
ولیم جیپ میں بیٹھ چکا،جس کا انجن کچھ دیر پہلے ہی رسہ گھما کر سٹارٹ کر دیا گیا تھا، تو وِکرم بیگ پکڑ کر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر سمٹ گیا،پھر نہایت اد ب سے بولا، سَراگر حکم ہو تو غلام آپ کو فیروز پور کی سیر کروا دے۔

وِکرم، مَیں فیروزپور نہیں دیکھنا چاہوں گا۔ولیم نے دو ٹوک اور سپاٹ انداز میں وکرم کی فرمائش کو رد کر دیا
اس کے بعد جیپ چل دی، جس کے پیچھے پولیس کی ایک جیپ مزید پروٹو کول کے لیے موجود تھی۔اس میں چھ سپاہی اور ایک تھانیدار تھا۔ پروٹوکول جیپ کو قانوناً ولیم کے آگے چلنا چاہیے تھا لیکن کچی سڑک پر گرد کی بہتات اور ولیم کو مٹی سے بچانے کے لیے یہ جیپ پیچھے ہی رکھی گئی۔

(5)

شیر حیدرکی خواہش تھی اُس کا بیٹا غلام حیدر کلکٹر بنے۔ اس سلسلے میں اسے میٹرک کے بعد لندن بھی بھیجا گیا مگر غلام حیدر نے وہاں خاص کامیابی حاصل نہ کی اور دو سال بعد ہی لوٹ آیا۔ویسے بھی ہندوستانیوں کا اِس معیار پر پورا اُترنا کچھ خالہ جی کا کھیل نہ تھا۔البتہ تعلیم کا سلسلہ جاری رہا اور وہ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔اے کر گیا۔ شیر حیدر نے اپنی زندگی میں ہمیشہ کوشش کی کہ غلام حیدر جلال آباد سے دُور رہے۔ وہ اُسے کسی طرح اقتدار کی حویلیوں تک لے جانا چاہتا تھا۔جس کے لیے بڑے اور پڑھے لکھے لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کے آداب کچھ جلال آباد کے دیہاتوں سے دُور رہ کر ہی آ سکتے تھے۔اسی بات کے پیش نظر لاہور میں اس کے لیے ایک کوٹھی بنوا دی۔جہاں دو چار ملازم بھیج دیے گئے۔ اس طرح لاہور میں طویل قیام نے غلام حیدر کے مزاج میں ایک تہذیبی رچاؤ داخل کر دیا۔ پیسے کی کمی نہیں تھی جس کے سبب اعلیٰ سوسائٹی اور کلبوں میں آمدورفت کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ انہی مشاغل میں بہت سے ایسے دوست نکل آئے جن کا تعلق اقتدار کے حلقوں سے تھا۔ ان میں خاص کر دو دوست میجر رچرڈ اور نواب افتخار غلام حیدر سے کچھ زیادہ ہی شیرو شکر ہو گئے۔میجر رچرڈ جو بعد میں کرنل بن گئے تھے،ایک دفعہ غلا م حیدر کے ساتھ سیر و شکار کے لیے جلال آباد بھی جا چکے تھے۔نواب افتخار کی زیادہ زمین بھی اِسی طرف تھی۔ اس لحاظ سے یہ ربط وضبط ایک ثلاثہ کی حیثیت اختیار کررہا تھا کہ اچانک نواب افتخار لندن چلا گیا اور چار سال تک اس کے واپس آنے کا امکان نہ رہا۔جبکہ کرنل رچرڈ کی پوسٹنگ بنارس ہو گئی۔ اس طرح یہ سلسلہ بیچ ہی میں رہ گیا البتہ اتنا ہوا کہ وہ جاتے جاتے ایک ولایتی بندوق بمعہ لائسنس غلام حیدر کو تحفے میں دے گیا۔ یہ بات اس لیے بھی اہم تھی کہ اُس وقت ایک تو ولایتی بندوق کا دیسی آدمی کو ملنا مشکل تھا،دوم یہ کہ اُس کا لائسنس اِ س سے بھی زیادہ ناممکن بات تھی اور یہ دونوں کام کرنل رچرڈ نے کسی نامعلوم طاقت ور وسائل کو استعمال کرتے ہوئے غلام حیدر کے لیے کر دیے۔ جن کی اجازت کم از کم نواب سے نیچے کسی کو ملنا ممکن نہیں تھی۔

اب شیر حیدر کی دفعتاً موت واقع ہوئی تو اس کا اکلوتا وارث ہونے کی وجہ سے غلام حیدر پر کافی ذمہ داریاں آ گئیں۔ چار ہزار یکڑ رقبے کو سنبھالنا اور علاقے کے بُرے بھلے کی خبر رکھنا آسان کام نہ تھا۔ زمینداری اور زمینوں میں کام کرنے والی رعایا اور ان کے درمیان پیداہونے والے بیسیوں جھگڑوں کا بار بھی غلام حیدر کے سر آپڑا۔ عمومی طو رپر قتل اور ڈکیتی کی واردات کے علاوہ اتنے بڑے رقبے میں رہنے والی رعایا سے گورنمنٹ بے نیاز سی ہو جاتی۔ ویسے بھی بڑے زمیندار کچھ تو اپنی ذیلداری کا بھرم رکھنے کے لیے اور کچھ گورنمنٹ کی نظروں میں اعتبار پانے کی غرض سے اپنی رعایا کے فیصلے عام طور پر خود ہی عدل سے چکا دیتے۔اس لیے زیادہ تر ایسے علاقوں میں امن و امان ہی رہتا۔یااگر کسی کے ساتھ زور زیادتی ہوبھی جاتی تو وہ صبر کر لیتا اور گورنمنٹ تک بات کم پہنچتی۔ پھر بھی مکمل طور پر ہر ایک کی خبر گیری کرنا کسی طرح آسان نہیں تھا۔ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ غلام حیدر کو ان معاملات میں تجربہ کچھ نہیں تھا۔ اس کی زندگی کسی اور ہی تربیت کا نتیجہ تھی۔اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ سب کاروبار رفیق پاولی کو سونپ کر چند دنوں بعد لاہور چلا جائے گا۔ رفیق خود ہی مزارعوں کے ساتھ حساب کتاب کرتارہے گا۔ ویسے بھی شیر حیدر کی زندگی میں نوے فی صد کام رفیق پاولی نے اپنے ہی ذمے لے رکھے تھے اور اس سے زیادہ قابل اعتماد آدمی کوئی اور تھابھی نہیں۔ شیر حیدر اسے چھوٹے بھائیوں کی طرح رکھتا تھا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ رفیق پاولی نے کبھی اُس کے اعتماد کو ٹھیس بھی نہیں پہنچنے دی تھی۔

شیر حیدر کی وفات کودو دن گزر چکے تھے۔ تمام برادری، شیر حیدر کے یاردوست اور غلام حیدر کے کچھ دوست۔اس کے علاوہ اردر گرد کی رعایا۔ سینکڑوں لوگ حویلی میں جمع تھے۔

حویلی کیا تھی، ایک چھوٹا سا قلعہ تھا۔ جس کی چار دیواری پچیس فٹ اونچی ضرور ہو گی،جوچھوٹی سرخ اینٹوں سے تیار کی گئی تھی۔ اس پچیس فٹ اونچی اور تین فٹ چوڑی دیوارپر، جس پر گھوڑا بھی دوڑ سکتا تھا، جگہ جگہ برج بنے ہوئے تھے اور برجوں پر چھوٹی چھوٹی محرابیاں اور طاق تھے۔ جن میں رات کے وقت لالٹینیں روشن ہو جاتیں۔ مرکزی دروازے کے سامنے ڈیوڑھی سو فٹ لمبی اور چالیس فٹ چوڑی تھی۔ یہ پچیس فٹ اونچی چھت والی ڈیوڑھی بے شمار ڈاٹوں اور محرابوں کے سہاروں پر دور تک چلی گئی تھی۔ اسی طرح ڈاٹوں کے ساتھ بے شمار طاق اور محرابیں بنا دی گئیں۔ یہاں بھی یہ طاق زیادہ تر لالٹینیں جلانے کے کام آتے۔لالٹینوں کے متواتر اٹھتے ہوئے دھوئیں سے سیاہ رنگ کا دبیز پلستر ڈیوڑھی کی دیواروں پر چڑھ گیا تھا۔ ڈیوڑھی چھوٹی سرخ اینٹوں سے تیار کی گئی تھی۔ مگر اب نہ کوئی ان اینٹوں کا رنگ اور نہ ہی سائز بتا سکتا تھا۔ البتہ سیاہ دھوئیں نے اس آباد ڈیوڑھی کی ہیبت میں ایک طرح سے اضافہ ہی کیا تھا۔ ڈیوڑھی میں ہر وقت بیس چالیس لوگ بیٹھے رہتے۔ ان میں کچھ تو معذور اور بے گھر تھے۔ جن کا کام صرف تین وقت کھانا اور گپیں ہانکنا تھا۔باقی اِدھر اُدھر سے مسافر یا داستان گو آن پڑتے۔ ان سب کا روزانہ کا کھانا شیر حیدر کے ذمہ تھا۔ ایک دیگ صبح پک جاتی ایک شام اور اِن کا پیٹ بھر جاتا۔ کپڑا لتّا بھی عید بقرعید یہیں سے مل جاتا اور نہانے دھونے کو رہٹ وہاں جگہ جگہ تھے۔

ڈیوڑھی کے علاوہ دیوار کے ساتھ ساتھ چاروں طرف سو کے قریب کمرے تھے۔ان میں اجناس، غلہ اور ضرورت کی دوسری اشیاء بھری رہتیں۔ اسی احاطے کے درمیان سے ایک دیوار کھینچ دی گئی تھی، جس نے جنوبی سمت کے حصے کو پورے احاطے سے الگ کر دیا تھا۔اس کے اندر شیر حیدر کے اپنے رہنے کے مکان تھے۔ان مکانوں کی دیواریں بیرونی دیوار کی طرح مضبوط تو نہیں تھی البتہ آرائش کے اعتبار سے کہیں بہتر اور صاف تھیں۔

شیر حیدر کی عمومی مجلس زیادہ تر بیرونی احاطے میں رہتی۔ پیپل کے دو بڑے پیڑ حویلی کے بڑے صحن میں موجود تھے۔ اِن کا سایہ احاطے کے صحن کی آدھی جگہ گھیر لیتا۔ وہیں گرمیوں میں شیر حیدر کی پرانی چار پائی لگ جاتی۔ سینکڑوں مُوڈھے اور چار پائیاں سامنے پڑے رہتے۔ جن پر بیسیوں لوگ ہمہ وقت موجود خوش گپیوں میں اپنا وقت کاٹتے۔
یہ دن سردیوں کے تھے۔ اس لیے چارپائیاں پیپلوں سے کافی ہٹ کے مغربی دیوار کے ساتھ لگی تھیں اور احاطہ ایک ایکڑ کھلا تھا۔

آج شیر حیدر کے سوم کا ختم تھا۔ اس لیے مہمان سینکڑوں کی تعدادمیں جمع تھے۔اُن کی تواضع کے لیے پچاس کے قریب دیگیں حویلی کے باہر قطاروں میں چڑھی ہوئی تھیں اور صبح نو بجے ہی کا وقت تھا۔ دھوپ کی تمازت میں غلام حیدر چارپائی پر بیٹھا چاروں طرف سے پُرسہ دینے والوں میں گِھرا تھا۔سوم کے ختم کے بعد پگڑی باندھنے کی رسم تھی۔ جس کے لیے برادری والے سب دُور نزدیک سے اکٹھے ہو رہے تھے۔ اس پس منظر میں ایک ایسا ماحول بن گیا،جس کے پس پردہ توالم کی کیفیت تھی لیکن ظاہر ی طور پر شادی کی سی فضا بن چکی تھی۔ہرکوئی شیر حیدر کے سابقہ کارنامے گنوا رہاتھا۔ کسی کو اس کا عدل و انصاف یاد آنے لگا۔کوئی رو رو کر بتا رہا تھا کہ کس طرح بہشتی نے اُس کی بیٹی کے جہیز کا بندوبست کیا۔ غلام حیدر سب کچھ بیٹھا خموشی سے سنتا رہا۔ زنانہ حصے سے بین کی آوازیں بھی کچھ کچھ دیر بعد اُس کے کان میں پڑ جاتیں۔ یہ رونے والیاں گاؤں کی زیادہ تر وہ عورتیں تھیں،جو اُن کی رعایا میں شمار ہوتیں اور غلام حیدر کی والدہ کو خاوند کا پرسہ دینے آئی تھیں۔ سب کچھ دھیمے سے چل رہا تھا، اچانک رفیق پاؤلی تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا غلام حیدر کی طرف آیا۔ چہرے پر پریشانی اور سراسیمگی نمایاں تھی۔ آتے ہی اُس نے چپکے سے غلام حیدر کے کان میں کچھ کہا۔ پھر وہ دونوں پیپل کے دوسری طرف مشرقی دیوار کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ غلام حیدر کی زندگی میں چونکہ اس قسم کا پہلا تجربہ تھا اس لیے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا جواب دے اور ایسی صورت حال میں کس ردعمل کا مظاہرہ کرے۔اُس نے فیقے سے کہا۔

چاچا فیقے، اب آپ ہی بتاؤ، ایسے معاملے میں کیا کرنا چاہیے؟ میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ بابا شیر حیدر اگر ہوتے تو وہ کیا کرتے؟ اس کے سارے کام تو آپ ہی کرتے رہے ہیں۔

رفیق پاؤلی کے لیے یہ ایک سٹپٹانے والی کیفیت تھی۔ شیر حیدر کے وقت اگر وہ اپنی مرضی سے کچھ فیصلے کر جاتا تھا تو فقط اس امید پر کہ مالک سر پر موجود ہے۔ کچھ غلط بھی ہو گیا تو سنبھال لیا جائے گا۔ یعنی اس کے بُرے بھلے کی ذمہ داری شیر حیدر پر ہی ہوتی لیکن اب معاملہ بالکل برعکس تھا۔ رفیق پاؤلی نے سوچا کہ اب اگر وہ کوئی فیصلہ اپنی مرضی سے کر جائے اور اُس کا نتیجہ غلط نکل آیا تو پھر نہ جانے کیا ہوکیونکہ غلام حیدر ابھی ناتجربہ کار لڑکا ہی ہے۔وہ لاکھ شہر میں رہتے ہوئے تجربہ کار ہو گیا ہو مگر شیر حیدر کی بات تو پیدا نہیں ہو سکتی۔ ایسی صورت حال میں ظاہر ہے معاملے کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔چنانچہ کچھ دیر اُلجھن کے ساتھ سوچتا رہا۔

غلام حیدر معاملہ بہت گھمبیر ہو چکا ہے ’’رفیق پاؤلی نے بے کسی اور بے چینی کی ملی جلی کیفیت میں پگڑی ایک طرف کر کے سر کھجایا‘‘ سودھا سنگھ سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اتنی اوچھی حرکت کرے گا۔ اس خنزیر نے عین پھوڑے کے اُوپر سٹ ماری ہے۔اِدھر سارا شریکا جمع ہے۔ اگر بات پھیلی تو لوگ پوچھ پوچھ کرکے کان کھا جائیں گے۔

چاچا رفیق اب تو اُس نے جو کرنا تھا کر دیا ’’غلام حیدر نے بے قراری سے کہا‘‘ میں نہیں سمجھتا کہ اس کا جواب دینا مشکل ہے۔بیس ایکڑ مونگی کی تو خیر ہے لیکن چراغ دین کے قتل کا کیا کریں۔ وہ بچارا تو بڑا وفادار ملازم تھا۔ جلدی کوئی حل بتا۔میرا دماغ تپنے لگا ہے۔

کچھ کرتے ہیں سردار غلام حیدر ’’رفیق پاولی دوربارہ سر کھجاتے ہوئے بولا۔پھر شریف کو آواز دی جو مہمانوں کو لسی پانی پلانے میں مصروف تھا۔ اس نے لسی کے جگ، گلاس وہیں رکھے اور بھاگ کر رفیق پاولی اور غلام حیدر کے پاس آ گیا۔ رفیق نے اسے کہا کہ ایک چارپائی اٹھاکر یہاں لے آ اور دیکھ، نیاز حسین کو بھی یہیں پر بُلا لے۔ اُس سے کچھ بات کرنی ہے۔

شریف نے تھوڑی دیر میں چار پائی دہکتے ہوئے سُرخ کوئلوں کے پاس مشرقی دیوار کے ساتھ رکھ دی۔ غلام حیدر اور رفیق تسلّی سے اس پر بیٹھ کر معاملات پر غور کرنے لگے، اتنے میں نیاز حسین بھی آ گیا۔ غلام حیدر نے نیاز حسین سے کہا بیٹھ جا اور جو کچھ ہوا ہے اُس واقعے کی صاف صاف تفصیل بتا لیکن ایک بات نہ بُھولنا، تمہارے جھوٹ بولنے سے معاملہ خراب بھی ہو سکتا ہے۔ جو نقصان ہوا اور جس طرح چراغ دین کا قتل ہوا ہے، یہ بات بہت آگے تک بڑھے گی۔اس لیے ابتدا ہی میں اگر غلطی ہو گئی تو کیس خراب ہو جائے گا۔ لہٰذا جو کچھ ہوا اور جیسے ہوا ہے وہ چھپانا نہیں۔نہ ہی واقعے کو بڑھا چڑھا کر بتانے کی ضرورت ہے۔ہم نے تمہارے چشم دید قصے پر ہی کیس کی بنیاد رکھنی ہے۔

نیاز حسین نے حقے کے دو تین کش لیے جس کا پانی کچھ ہی دیر پہلے تبدیل کیا تھا اور چلم میں نیا تمباکو ڈال کر اُس میں تازہ کوئلے رکھے گئے تھے۔ اُسے تمباکو کی کڑواہٹ ایک سرور سا دے گئی۔ مزید دھواں پھیپھڑوں میں لے جانے کے لیے اس نے دو تین کش مزید لے کر حقے کی نَے ایک طرف کر دی۔

بات بھائی جی یہ ہے، نیاز حسین نے واقعہ سنانا شروع کر دیا ’’گیدڑوں اور سوئروں سے مونگی کی راکھی کے لیے مَیں اور چراغ دین روز کی طرح رات وہیں پر رُک گئے۔ سوئروں سے بچنے کے لیے کہ سوتے میں ہمیں پھاڑ ہی نہ کھائیں،چار بانس زمین میں گاڈ کر ہم نے اُس پر لکڑیاں باندھیں اور اُس کے اُوپر پرالی پھینک کر چھ فٹ اونچا چھپر سا بنا لیا۔ اِس پر چڑھ کر رکھوالی کے لیے لیٹ جاتے۔اِس میں ایک اور فائدہ بھی تھاکہ اونچا ہونے کی وجہ سے دور تک نظر جاتی تھی۔ میں پورے کھیت کا چکر لگا کر آگیاتھا۔پھرریگلے سے دو تین پٹاخے بھی مار دیے کہ گیدڑ ویدڑ بھاگ جائیں۔ رات کے دو پہر نکلے تھے۔ دُھند نے چاندنی ختم کر دی تھی۔ پٹاخے مارکر ابھی میں نے ریگلا چھپرکے بانس کے ساتھ لگایا ہی تھا کہ دُور سے ہمیں کچھ کُھسر پھسر سُنائی دی۔ یہ جانور نہیں تھے بلکہ انسانوں کی آوازیں تھیں۔ پہلے تو مجھے شک پڑا، کوئی راہ گیر ہیں مگر پھر جب تھوڑی ہی دیر بعداندھا دُھن مونگی کے کھیت میں دبڑ دبڑ ہونے لگی تو میں نے کہا،چراغ دین دشمن آ گئے۔ اسی لمحے بے شمار قدموں کی آواز آنا بھی شروع ہو گئی۔ایسے لگا مونگی میں درانتیاں چل رہی ہیں۔ ہم نے جلدی جلدی اپنی ڈانگوں پر چَھو یاں چڑھا لیں اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ منظر کچھ واضح نہیں تھا۔پھر بھی سب کچھ نظر آ رہا تھا۔ بے شمار آدمی تھے۔ کچھ انّھے مُنہ مُونگی کاٹ رہے تھے،کچھ مونگی کے گٹھڑ اُٹھا کر گڈوں پر لاد رہے تھے۔ ہم حیران کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ چراغ دین نے کہا، نیازے اِن کو للکار مار۔ سچی بات تو یہ ہے مجھے اتنے بندوں کو دیکھ کر حوصلہ نہ ہوا۔ مَیں نے کہا، بھائی چراغ دین ہم دو ٹیٹرو کیا کر لیں گے مگر وہ نہ مانا، کہنے لگا، نیازے یہ نہیں ہو سکتا۔ کل ہی ہمارا مالک فوت ہوا ہے اور آج اس کی فصل اُجڑ جائے ہماری آنکھوں کے سامنے، بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ساری عمر شیر حیدر کا نمک کھایا ہے۔ میں تو انھیں جیتے جی مونگی نہ لے جانے دوں گا۔ کل کو لوگ کیا کہیں گے، دیکھو شیر حیدر کا عمر بھر کھاتے رہے، آج موقع آیا تو نمک حرامی کر دی۔ مُنہ د کھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ کیا لوگوں کو بتائیں گے کہ ہم چوڑیاں پہن کے بیٹھے تھے؟

میں نے کہا، بھائی چراغ دین یہاں سوائے موت کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ یہ تو کوئی پچاس بندے ہیں۔ لیکن صاحب جی چراغ دین نہ مانااُس نے سرہانے سے اپنا صافا اُٹھا کر اُسے کس کے سر پر باندھا، چھَوی چڑھی ہوئی ڈانگ پکڑی اور للکارتے ہوئے دشمنوں کی طرف چھلانگ ماردی۔سردار غلام حیدر !میں سمجھ گیا تھا، چراغ دین کے دن پورے ہو چکے ہیں۔ اُس نے میری ایک نہیں سُنی۔جیسے ہی یہ بھاگ کر اُن کی طرف گیا، انہوں نے فوراً اُس پر بر چھیوں کا مینہ برسا دیا اور چراغ دین شوہدے پر لوہے کے پہاڑ گرنے لگے۔ بس ایک دو پَل میں ہی رَت کے پرنالے بہہ گئے۔ میرے تو ساہ سوکھ گئے اور میں بھاگ کے اُسی چھپر کے نیچے پڑی چارپائی، جو اس لیے رکھی تھی کہ بارش وارش ہو تو چھپر سے اُتر کر چارپائی پر لیٹ جائیں، مَیں اُسی کے نیچے چھپ گیا۔کچھ اندھیرا اور کچھ دُھند، اس لیے میرا اُن کو کچھ پتا نہ چلا۔ بس میں خوف کے مارے چار پائی کے نیچے لیٹا ساہ دبائے اُن کے واہگرو اور ست سری اکال کے نعرے سنتا رہا۔اسی طرح تین گھنٹے گزر گئے۔وہ میری آنکھوں کے سامنے مونگی کا اُجاڑا کرتے رہے اور گڈوں پر لادتے رہے۔ حتیٰ کہ صفایا کر کے چلتے بنے۔ میں گِن کے صحیح صحیح تو نہیں بتا سکتا مگر بیس چھکڑے ضرور تھے۔ اِدھر گڈے مونگی لے کر چلے، اُدھر میں چارپائی کے نیچے سے نکلا، بھاگ کر چراغ کے پاس آیا۔ بچارا اُلٹے مُنہ پڑا تھا۔ میں نے سیدھا کیا، دیکھا تو اُس کے ساہ پورے ہو چُکے تھے اور زمین پر خون کے نِگال جم گئے تھے۔ میں نے لاش کو ہاتھ نہیں لگایا اور فوراً چادر لپیٹ کر جو دھاپور سے نکل پڑا۔ چوہدری صاحب، بھاگم بھاگ یہاں آ گیا۔ خدا گواہ ہے بارہ میل کی راہ میں سانس تک نہیں لی۔ جودھا پور کے یار محمد کو بتا آیا ہوں۔ وہ بندے لے کر لاش کے پاس پہنچ گیاتھا۔ ایک بندہ تھانے اطلاع کے لیے بھیج دیا ہے۔ شاید پولیس بھی اب تک آگئی ہو۔

نیاز حسین جیسے جیسے کہانی سناتا گیا، غلام حیدر کے چہرے کارنگ کئی پرتوں میں بدلتا رہا اور شدید غصے سے کپکپاہٹ اس پر طاری ہوتی رہی۔ پھر ایک دم یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا، چاچا فیقے عصر تک یہ قل فاتحہ کو نپٹاؤ۔ اس سے زیادہ دیر نہ کرنا اُس کے بعد سودھا سنگھ کو ایک پیغام بھیج دو اور چراغ دین کے بچوں کے لیے پانچ سو روپیہ لیتے جاؤ۔ اُن کے سر پر ہاتھ رکھو۔ اِس طرح وارثوں کی ڈھارس بندھ جاتی ہے۔ عصر کے فوراً بعد جودھا پور روانہ ہو جاؤ اور سب خبریں خود لے کر آؤ۔ میں تحصیل جا کر کمشنر صاحب سے بات کرتا ہوں۔

سودھا سنگھ کو کیا پیغام دوں؟رفیق پاولی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا‘‘

یہی کہ سکھڑے اب واہگرو سے جو مدد مانگنا ہے مانگ لے کیونکہ موت اسے زیادہ مہلت نہیں دے گی۔غلام حیدر نے غصے سے شدید نفرت پیدا کرتے ہوئے کہا،جیسے کہہ رہا ہو کہ میں تیرے واہگرو کو بھی دیکھ لوں گا۔

رفیق پاولی ایسی صورت حال میں جلد بازی کا قائل نہیں تھا۔لیکن نیاز حسین نے میدان جنگ کا ایسا نقشہ کھینچا کہ غلام حیدر کے تیور جو تھوڑی دیر پہلے اعتدال پر تھے، بڑی حد تک بگڑ گئے۔ اس سے پہلے کہ رفیق غلام حیدر کو کچھ مشورہ دے وہ اٹھ کر جلدی سے حویلی کے اندرونی حصے میں چلا گیا۔

تھوڑی ہی دیر میں اس واقعے کی خبر مہمانوں سے لے کر گاؤں کے ہر چھوٹے بڑے کو ہو گئی۔ ماحول میں دوبارہ ایک ماتمی کیفیت کا احساس در آیا اورلوگ شیر حیدر کی داستانوں کو چھوڑ کر تازہ صورت حال پر تبصرے کرنے لگے۔جس میں غلام حیدر کے رد عمل کا کوئی صحیح تعین نہیں کر سکتا تھا۔ البتہ یہ طے تھا کہ حالات کسی برُی صورت کا رخ کرنے والے ہیں۔ ڈیوڑھی اور احاطے میں لوگوں کی تعداد،جو پہلے ہی کم نہ تھی، بڑھ کر دگنی ہو گئی۔ باتیں اس تسلسل میں گونجنے لگیں جیسے شہد کی مکھیوں کے غول اُڑ کر نکلے جا رہے ہوں اور ہر کام میں بے چینی در آئی۔ وہ تو خیر ہوئی چراغ دین کی لاش جودھا پور ہی میں تھی ورنہ وہ بھی سارے کا سارا گاؤں یہیں آ پڑتا۔ حویلی کے ہر کام میں ایک پُراسرار وحشت پیدا ہو گئی۔ نوکروں سے لے کر متعلقین تک کے قدموں میں بوجھل پن کی کیفیت تھی، جو اُن کے دلوں پر وزن بڑھا رہی تھی۔ خاص رفیق پاولی کی ذہنی حالت بہت تذبذب میں تھی۔ شیر حیدر کے ہوتے ہوئے اُسے اطمینان ہوتا کہ مشورے میں کجی بھی ہوئی تو فکر کی بات نہیں۔ کام غلط ہو جانے پر شیر حیدر سنبھال سکتا ہے مگر غلام حیدر کا معاملہ دوسرا تھا۔ وہ ابھی ان معاملات میں بالکل کورا تھا۔ اِس لیے رفیق پاولی کو اب اپنے کسی فیصلے پر اعتماد نہ تھا۔ شاید کچھ دن بعد وہ اعتماد لوٹ آتا مگر یہاں تو سر منڈلاتے ہی اولے پڑنے والی بات تھی۔ اِدھر وقت گزرنے کانام ہی نہیں لے رہا تھا۔ رفیق پاولی کی نظر دیوار کے سائے پر تھی،جو صدیوں سے رُکا کھڑا تھا۔ وہ سر جھکائے اسی سوچ میں غرق تھاکہ آخر اچانک سودھا سنگھ کو کیا سوجھی ؟کچھ دم بھی نہ لینے دیا۔ اُسے اس قدر فکر مندی میں دیکھ کر نیاز حسین نے کہا،فیقے بھائی آخر کیا ہوا ؟حوصلہ کر،ہمارے سر پر ابھی غُلام حیدر ہے نا۔کیا ہوا جو شیر حیدر زندہ نہیں۔غلام حیدر بھی تو اُسی کا بیٹا ہے۔ دیکھ لینا، سکھڑوں کو کیسا سبق دیتا ہے؟

نیاز حسین کی با ت سُن کر رفیق پاولی نے سر اُوپر اٹھایا اور بولا نیاجے، تو نہیں جانتا، اب بات یہاں رُکنے والی نہیں ہے۔ یہ تو سودھا سنگھ نے ابھی للکار دی ہے۔مَیں جانتا ہوں، اُس کے سینے میں کتنا کینہ بھرا ہوا ہے۔ اُسے د یکھ کر پتا نہیں کون کون سے سنپولیے سِریاں نکال لیں گے۔ مجھے تو غلام حیدر کی زندگی کی فکر پڑ گئی ہے۔ اتنا کہہ کر رفیق پاؤلی اٹھ کھڑا ہوا اور جانی چھینبے کوپاس بُلا کر سارا پروگرام سمجھا دیا کہ پگ بندی کے بعد انھیں جودھا پور جانا ہے اس لیے وہ تیاری کر لیں۔

نیاز حسین نے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، فیقے ہمت کر ہم تیرے پیچھے ہیں۔ جو گزرے گی، مولا کے سہارے بھگتیں گے۔

اِسی عالم میں دو بج گئے۔صحن میں دور تک دریاں اور چاندیاں بچھ گئیں۔ ختم نیاز کے لیے پھل اور چاولوں کی پراتیں الگ تھیں۔جنھیں کاڑھے ہوئے ریشمی غلافوں سے ڈھانک دیا گیا۔ مولوی صاحب بھی آ چکے تھے۔ غلام حیدر سامنے بیٹھ گیا تو مولوی نے سورہ الحمد سے تلاوت شروع کی۔ تمام خلقت جو کم سے کم چھ سو کے لگ بھگ تھی، چاندنیوں پر بیٹھ گئی۔ آیات کی تلاوت نے پوری خلقت اور خاص کر غلام حیدر کے دل میں سوز کی کیفیت پیدا کر دی۔ قرأت کچھ اِس ملائمت سے جاری تھی کہ فی الوقت تکدّر دُور ہو گیا۔ غلام حیدر سمیت تمام لوگ تازہ حادثے کو بھول گئے اور طبیعتوں میں ٹھہراؤ سا آ گیا۔ اسی عالم میں شام کے تین بج گئے۔ غلام حیدر کے سر پر پگڑی باندھ دی گئی۔ رعایا اور رشتے داروں نے آگے بڑھ کر وفاداری کے حلف دیے۔ رفیق پاولی اس سارے عمل کے دوران سرخوشی کے عالم میں کھڑا تھا۔ دوسری طرف لوگ نیاز کھانے میں مصروف تھے،جو کئی دیگوں پر مشتمل تھی۔چار بجے غلام حیدر اٹھ کھڑا ہوا۔ اُس نے دلاور کے ساتھ صبح ہی شاہ دین کو تھانہ گروہرسارپورٹ درج کروانے بھیج دیا تھا۔ لیکن یہ محض سرسری قانونی خانہ پری تھی جوغیر اہم ہونے کے ساتھ ا ہم بھی تھی۔

چار بجے ٹھیک رفیق پاولی شیدے، جانی چھینبے، سلام علی اور گامے کے ساتھ جودھا پور روانہ ہو گیا تاکہ معاملے کی پوری جانچ لے کر آئے اور چراغ دین کی بیوی کو غلام حیدر کی طرف سے پُرسہ بھی دے۔ اِدھر رفیق جودھا پور کی طرف روانہ ہوا،اُدھر غلام حیدر زنانے میں چلا گیاکیونکہ پانچ بج چکے تھے اور یہ تحصیل کا دفتری وقت نہیں تھا۔ اس کے علاوہ سارے دن کی کِلکِل اور شور شرابے سے دماغ بھی بوجھل ہو چکا تھا اور اب نیند کے جھولے آنے شروع ہو گئے تھے۔اس لیے تحصیل جانے کا پروگرام کل پر ملتوی کر دیا گیا۔

یہ خبر غلام حیدر کو آج ہوئی کہ چودھراہٹیں کرنی کتنی مشکل ہیں۔غلام حیدر گھر میں داخل ہوا تو رونے والیوں کا شور ایک دم بڑھ گیا۔ پہلے جو عورتیں غلام حیدر کی والدہ فاطمہ بانو کے گرد جمگھٹا کیے بیٹھی تھیں، اُٹھ کر غلام حیدر کے چوفیرے ہوگئیں۔کوئی اُسے روکردِکھانے لگی،کوئی سر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ کچھ ادھیڑ عمر اور بوڑھی عورتیں گلے لگ کر روئیں۔ عورتوں سے فارغ ہو کر وہ بڑی مشکل سے اپنی ماں کے پاس پہنچا،جو سفید چاندنی کے فرش پر سر تا پا سفید لباس میں سوگوار بیٹھی تھی۔ غلام حیدر ماں کے پاس بیٹھا تو وہ بھی بیٹے کے گلے لگ کے رونے لگی۔ لیکن یہ رونا دھونا چند ہی منٹ جاری رہا کیونکہ شیر حیدر کو فوت ہوئے آج تین روز ہو چکے تھے جس میں بہت کچھ غم ہلکا ہو گیا تھا۔ دوم بے شمار عورتوں کی مسلسل تعزیت اور پرُسہ داری نے فاطمہ بانو کو بھی تھکا دیا تھا۔چنانچہ غلام حیدر چند منٹ بیٹھنے کے بعد سونے کے کمرے میں آ گیا۔

اگلے دن صبح چھ بجے غلام حیدر کی آنکھ کھلی۔ وہ نہا دھو کر باہر نکلا تو طبیعت بحال ہو چکی تھی۔ حویلی میں مہمان کچھ آگ کے گرد بیٹھے حقہ پی رہے تھے،کچھ چائے کی پیالیوں سے چسکیاں لے رہے تھے۔ غلام حیدر کو دیکھ کر سب اُٹھ کھڑے ہوئے اور آگے بڑھ کر سلام کرنے لگے۔ فیقا ابھی تک نظرنہیں آیا تھا۔غالباً وہ جودھا پور سے ابھی نہیں لوٹا تھا۔ غلا م حیدر نے ملازم سے کہا،چار پائی آگ کے پاس لے آئے جہاں لوگ حقہ پینے میں مصروف تھے۔ تھوڑی دیر میں غلام حیدر سب کے ساتھ گھل مل گیا اور سانحات کو بھول کر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا۔ جبکہ دوسرے آدمی اُسے اُس کے باپ کے واقعات سنانے لگے حتیٰ کہ آٹھ بج گئے اور فیقا اپنے ساتھیوں سمیت حویلی میں داخل ہو ا۔ اس کے بعد وہ، رفیق پاولی اور چھ سات خاص بندوں کو لے کر دوسرے کونے میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگا۔ تمام لوگ رفیق پاولی کے گرد جمع ہو گئے۔ ہر آدمی واقعے کو پہلے سے ہی جانتا تھا مگر رفیق پاولی کی حیثیت زیادہ معتبر تھی۔ اس لیے لوگ مزید نئی خبر کی توقع رکھتے تھے، جو رفیق اُن کے خیال میں ہر حالت میں لے کر آیا ہو گا۔ جب ہجوم بہت زیادہ اُن کے گرد اکٹھا ہو گیا تو رفیق پاولی نے سب کو جھڑک کر پیچھے کر دیا۔

کوئلوں پر ہاتھ تاپتے ہوئے رفیق نے حقے کا کش لیا اور بولا، سردارغلام حیدر ایک بات تو طے ہے کہ حملہ سودھا سنگھ کے آدمیوں ہی نے کیا ہے اور چھپ چھپا کر نہیں، کھلے عام کیا ہے۔ اتنے زیادہ چھکڑے اور آدمی، سب کے کُھرے جھنڈو والا کی طرف جاتے ہیں۔ میں نے کھیم نگر سے کھوجی بھی ساتھ لے لیے تھے۔ ہر ایک نے غور سے اور جانچ کر کے یہی نتیجہ نکالا کہ اِس کا ذِمہ دار سودھا سنگھ ہے۔چار بندوں کے پیروں کے نشان تو کھوجیوں نے پہچان بھی لیے،جو کئی جگہ چوری چکاری میں پکڑے گئے تھے۔ وہ خاص سودھا سنگھ کے ہی بندے ہیں۔ دمّا سنگھ، ہاسو وٹو، رنگا اور متھا سنگھ۔متھا سنگھ مَنّا پروَنّا بدمعاش ہے، جس کے کُھرے کھوجی نہیں بھول سکتے۔ یہ خاص سودھا سنگھ کا بندہ، علاقے کا سب سے بڑا غنڈہ ہے۔ پولیس اس پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتی ہے۔ سودھا سنگھ ہر مشکل کام اسی سے لیتا ہے۔ سُنا ہے کئی بندوں کا قاتل ہے۔ ڈانگ سوٹے اور کرپان چلانے کا اتنا ماہر کہ اکیلے ہی دس دس بندوں کو پھٹڑ کر کے صاف نکل جاتا ہے۔ باقی کے تین بھی بہت خطرناک ہیں۔ سودھا سنگھ کسی کو سٹ پھینٹ بھی انہی سے لگواتا ہے اور تھانے کچہری میں اُن کے پیچھے امداد بھی اِسی کی ہوتی ہے۔ باقی تین میں رنگا سب سے خطرناک ہے۔ سٹ مارنے میں ڈھیل نہیں کرتا۔ کھوجی اس کے قدموں کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ اگر مزید پوچھ گچھ کرنی ہو تو مَیں اُنھیں ساتھ ہی لے آیا ہوں۔ ڈیوڑھی میں بیٹھے ناشتہ کر رہے ہیں۔چاچا رفیق تم بھی ناشتہ کر لو ’’ غلام حیدرنے اٹھتے ہوئے کہا‘‘ تھوڑی دیر آرام کرو پھر ہم نے تحصیل جاکراسسٹنٹ کمشنر سے ملاقات کرنی ہے۔سنا ہے، کچھ ہی دن پہلے ایک اسسٹنٹ کمشنر نیا نیا آیا ہے۔ میرا خیال ہے، ابھی اُس کے کسی سے تعلقات نہیں ہوں گے۔ ہمیں ٹھیک دس بجے تحصیل پہنچ جانا چاہیے۔ یہ کہہ کر غلام حیدر اٹھ کر حویلی کے اندرونی حصے میں چلا گیا۔

دس بجے تین بگھیوں کے ساتھ مزید پانچ گھوڑوں پر سوار یہ قافلہ جلال آبادتحصیل کمپلیکس کی طرف چل دیا۔ غلام حیدر کے پاس بندوق تھی۔ باقی سب کے پاس ڈانگوں کا اسلحہ وافر تھا۔ برچھیاں اور کُلہاڑیاں البتہ ساتھ نہ رکھ سکتے تھے کہ اُن ہتھیاروں کی ابھی تک کھلی اجازت نہیں تھی اور تحصیل کچہری میں تو بالکل بھی نہیں تھی۔ قافلہ جیسے ہی تحصیل کی طرف روانہ ہوا، ہر طرف جوش و خروش کی لہر پھیل گئی۔ گاؤں والے گویا اپنی یتیمی کے احساس کو نئے طاقت ور مالک کی آمد کے احساس میں دبا چکے تھے۔ وہ اس شان و شوکت کی سواری کوحویلی سے نکلتے دیکھ کر اپنے اندر ایک نئی طاقت محسوس کرنے لگے اور شیر حیدر کے دکھ کوفی الحال بھول سے گئے۔

(جاری ہے)