Laaltain

کر گئی وابستہ ءِ تن میری عریانی مجھے

27 ستمبر، 2016

[blockquote style=”3″]

Virtual Textual Practical Criticism “قاری اساس تنقید” کی مجموعی تھیوری کے تحت وہ طریقِ کار ہے، جس میں طلبہ کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ کسی نظم یا نظمیہ فارمیٹ کے متن پر عملی تنقید کیسے لکھی جائے۔ اس کے لیے شاعر کے نام کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔ (اگر ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن اس کے نجی حالات، سیاسی یا مذہبی خیالات، ہم عصر شاعری کی نہج یا ہم عصر شعرا کا تتبع یا مخالفت وغیرہم کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جانا ضروری ہے، گویا کہ آپ کو علم ہی نہیں ہے کہ یہ نظم کس شاعر کی ہے)۔صرف سامنے رکھے ہوئے متن پر ہی انحصار کرنے کے لیے یہ طریق ِ کار اختیار کیا جائے۔ متن میں مشمولہ تمام Proper and Common Nouns اسماء کے ہم معنی الفاظ، یعنی homonyms یا ان کے متبادل الفاظ کی فہرست تیار کر لی جائے۔ اب ہر اس اسم (اسم، اسم ِ ضمیر، اسم معرفہ، نکرہ، آلہ، تصغیر، تکبیر، وغیرہ) کے سامنے بنائی گئی فہرست کے ہر ایک لفظ کو استعمال کیے گئے لفظ کی جگہ پر رکھ کر دیکھا جائے کہ کون سا لفظ شاعر کی منشا یا مطلب کو براہ راست یا استعارہ یا علامت کے طور پر زیادہ واضح طور پر پیش کر سکتا ہے۔ اب تنقید لکھتے ہوئے ان الفاظ کو زیر ِ بحث لایا جائے اور آخری پیرا گراف میں اپنی findings تفصیل سے لکھی جائیں۔ اس طریق کار کے تحت تنقید کا مضمون یورپ اور امریکہ میں پڑھایا جا رہا۔ یہ منظوم سلسلہ “خامہ بدست غالب” غالب کے کلام کو Virtual Textual Practical Criticism کے تحت سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ ستیہ پال آنند

[/blockquote]

غالب کے اشعار پر ستیہ پال آنند کی نظموں پر مشتمل سلسلے ‘خامہ بدست غالب‘ میں شامل مزید نظمیں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

شعر

 

دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
کر گئی وابستہ ءِ تن میری عریانی مجھے

 

نظم

 

بے لباسی من کی تھی یا تن کی؟، غالب، کچھ تو کہیئے
کیسی عریانی تھی یہ؟ سرمدؔ کی سی۔۔۔یا
‘نانگا سادھو’ کی جو اپنے
ننگے رہنے کو ’ریاضت‘، مانتا ہو؟

 

جسم تو آراستہ تھا آپ کا۔۔۔۔ پر
خوش لباسی سے مبّرا
جسم، کے اندر کہیں تھی
ایک انترآتما؟ سہمی ہوئی، ننگی بُچی سی؟

 

اور پھر وابستہءِ تن ہو کے خود کو ڈھانپنا
اس جوح، انتر آتماکی
اک نئے فاضل بدن میں
دخل یابی کی تمنا تھی بھلا کیا؟
مسئلہ آوا گون، ابداع یا کایا بدل کا
کیا کہیں تحت الشعوری رو میں بہتا
اور پھٹتا بلبلہ تھا
جس نے ایسے شعر کا چولا پہن کر
خود کو یوں ظاہر کیا تھا؟
جی نہیں یہ مانتا غالب، مبادا آپ پر بھی
بُدھّ کے رستے پہ چلنے کا کوئی الزام آئے!

 

ہاں، مگر “در پردہ گرمِ دامن افشانی” تو خود کو
“ڈھانپ” کر رکھنے کا بھی
اور “کھول” کر رکھنے کا بھی ایسا عمل ہے
جس کو ہم “گنجینہِ معنی” کہیں تو کیا غلط ہے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *