Laaltain

کر سوال مگر کیوں کر

30 نومبر، 2015
سر جی مان ہی لیں کہ ہم ہی ذمہ دار ہیں۔ ہم ہی ہیں جو نئی نسل میں تنقیدی شعور بیدار ہی نہیں ہونے دیتے۔ ہم نام نہاد استاد، ہم پروفیسر، ہمارے پیوند کاری شدہ سیاستدان و صحافی، جو سوال کرنے کی روح کو کچل دیتے ہیں۔ تنقیدی شعور کی پہلی سیڑھی سوال سے جنم لیتی ہے۔ ہمارے اساتذہ سے کمرۂِ جماعت میں کوئی سوال کرتا ہے تو ہماری اندر کی فقہ اسے کلاس مینیجمنٹ کا مسئلہ گردان کے سوال کو اور سوال کرنے کی جرات کو مسل دیتی ہیں۔ سوال کرنے والے کے متعلق عمومی طور پر ان کا پہلا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ “مجھے لیکچر مکمل کر لینے دو، پھر پوچھنے لینا۔”

 

بدقسمتی کے اس سلسلے کی ایک قسط یہ بھی ہوتی ہے کہ ہمارے اساتذہ علمی چیلنج دینے والے طالب علموں کو اسائنمنٹس میں قابلِ گردن زدنی قرار دے دیتے ہیں۔ گو اپنے کمرہ جماعت کے خطبات میں وہ علامہ اقبال کے استاد پروفیسر نکلسن کی اس بات کی تکرار کرتے نہیں تھکتے کہ اقبال جیسے شاگرد استاد کو محقق سے محقق تر بنا دیتے ہیں۔
ہمارے یہ صاحبان شکر نہیں کرتے کہ کوئی انہیں اس قدر انہماک سے سن رہا ہے اور اس کی بابت سوچ بھی رہا ہے۔ لیکن نہیں، استاد فرماتے ہیں کہ کمرہ جماعت کے تاجدار فقط وہی ہیں۔ بہت سے تو سوال کرنے والے کو اپنی ہتک کا مرحلہِ اوّل جانتے ہیں۔ بدقسمتی کے اس سلسلے کی ایک قسط یہ بھی ہوتی ہے کہ ہمارے اساتذہ علمی چیلنج دینے والے طالب علموں کو اسائنمنٹس میں قابلِ گردن زدنی قرار دے دے دیتے ہیں۔ گو اپنے کمرہ جماعت کے خطبات میں وہ علامہ اقبال کے استاد پروفیسر نکلسن کی اس بات کی تکرار کرتے نہیں تھکتے کہ اقبال جیسے شاگرد استاد کو محقق سے محقق تر بنا دیتے ہیں۔ وہ اضافی سمسٹر پہ سمسٹر ڈال کے ایسے ناہنجاروں کے سوال کرنے والی زبان کی کھچڑی بنا دیتے ہیں۔

 

البتہ معدودے چند اساتذہ نا جانے کہاں سے بھٹکے ہوئے اس سوال کُش ماحول میں پہنچ آتے ہیں۔ اگر ایسی نایاب النّوع ہستیاں بعض اوقات سوال کی آزادی کا نعرہ بلند کرنا بھی چاہتی ہیں تو ان کے لیے بھی کریکولم کے زندان تیار ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں وفاقی وزارتِ تعلیم کے کریکولم ونگ کے خلافتی پِچھل پیرے، آبپارہ کی تیار کردہ ہمدرد کی گُھٹی پہ پلے، ملّا کے جمعے کے خطبے پر پرورش پائے، احمد قریشیوں، مبشر لقمانوں کے متعفن پانیوں کی دانش کے نہلائے نصاب یوں پکڑا دیا جاتا ہے گویا یہ نصابی کتب نہیں آسمانی صحیفے ہوں۔ یہ نصاب صرف جواب رٹنے کا تقاضا کرتا ہے۔ سوال بھی خود ہی فراہم کرتا ہے اور جوابوں کا دائرۂِ کار تو رکھتا ہی اپنی بغل میں ہے۔
ان نصابی صحیفوں کی حقانیت پہ، ان کی پاکیزگی پہ، آسمانوں سے اترے ہوئے ہونے پہ کوئی سوال نہیں ہو سکتا۔ اگر سوال کر ڈالا تو گویا انہیں بھی پچھلی قوموں جیسا نافرمان قرار دے دیا جائے گا کہ تحریف کر دی کلامِ کریکولم میں! ہمیں ہر لمحے یہی خدشہ لاحق رہتا ہے کہ ایسے سُچے موتیوں کے حلق میں بھی سقراط کے پیالے سے بچی زہر ابھی آئی کہ ابھی آئی۔ لیکن ان نئے زمانوں کے سقراط کُشوں نے عجب زہر پیالے بنا لیے ہیں جو جان جلدی نہیں نکالتے بلکہ سسکیوں کی فصل بوتے ہیں۔

 

اور ہمارا سیاستدان طبقہ جو کہ میری دانست میں تو عوامی استاد کے رتبے پر ہی فائز ہوتا ہے، کیوں کہ اس کا بھی بڑا اہم کردار ہوتا ہے سوال اٹھانے، سوال کرنےاور سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے کلچر کو عام کرنے میں۔ لیکن ہمارے یہاں جو سیاسی جماعتوں کی مجالسِ عاملہ، مجالسِ شورٰی اور کور کمیٹیوں کے اجلاس ہوتے ہیں ان کی فضا بھی کور کمانڈروں کی میٹنگ جیسی ہی ہوتی ہے۔ یعنی جو کچھ بولے گا، جو کچھ ارشاد کرے گا اس کا ادھیکار صرف پارٹی باس کا ہی ہوگا۔ اگر کسی نے سوال کرنے کی جسارت کی تو اگلی بار کے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ سے ایسے محروم کر دیا جائے گا، جس طرح گاؤں میں چھوٹے بچے کے ہاتھ سے کوا روٹی کا ٹکڑا اُچک کے بھاگ کھڑا ہوتا تھا۔

 

ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں کی مجالسِ عاملہ، مجالسِ شورٰی، اور کور کمیٹیوں کے اجلاسوں کی فضا بھی کور کمانڈروں کی میٹنگ جیسی ہوتی ہے۔ یعنی جو کچھ بولے گا، جو کچھ ارشاد کرے گا اس کا ادھیکار صرف پارٹی باس کو ہی ہوگا
سو سیاستدانوں کا استاذالاستاذ یعنی پارٹی چیئرمین سوال کی بہار میں کِھلی کونپل کو ایک جنگلی بکری کی طرح چر جاتا ہے۔ یہیں سے، اسی سوال کُش رویہ سے سماجی تیز طراروں کو کامیابی کے ہنر کا نسخہ ہاتھ لگ جاتا ہے۔ انہیں اطلاقی تعلیم مل جاتی ہے کہ: چپ رہو، ہاں ہاں بولو اور ثواب و ثمرِ دو جہاں پاؤ! یہی رویہ معاشرے کے زیریں اکائیوں کی سیڑھیوں تک نفوذ کر جاتا ہے۔ اور سوال کرنے کا حوصلہ سیدھے لفظوں میں جیسے رضائے الٰہی سے انتقال کر جاتا ہے۔

 

صحافت کی درسی کتابوں اور صحافتی تاریخ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ کام ان لوگوں نے شروع کیا جنہیں کچھ کہنے کی تڑپ ہوتی تھی، جن کے اندر کچھ سوال مچل رہے ہوتے تھے اور وہ مزید سوال اٹھانا چاہتے تھے۔ وہ مشکلوں سے اخبار نکلواتے، اپنے پمفلٹ چھپواتے۔ ان میں خیال اور پیغام خطیبانہ اور ادیبانہ ڈھنگ میں ہوتا، یوں ہی لفظوں کی گھومن گھیریاں ڈال کے، بے جَڑ کی کہانیاں جوڑ کے کالم ٹوئیاں نہیں کرتے تھے۔ زبان میں سادگی، بے ساختگی اور خوبصورتی ہوتی جو ان کی ادبی وراثت اور مطالعہ کی دین ہوتی۔ وہ اپنے مقصد کی خاطر مشکلیں جھیلتے۔ وہ اپنے پہ اٹھنے والے سوالوں کو نئی تحریروں کےلیے مہمیز سمجھتے۔

 

لیکن اب کے ہمارے ملک کے میڈیائی ساون نے ہر نرگسیت کے مارے کو نیوز ریڈر اور اینکر بننے کا شوق ڈال دیا ہے۔ اب صحافت ان گروؤں اور میگزینوں کے پیج تِھری کے شوقین لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے (ماسوائے چند ایک کو چھوڑ کے) جن کی جانے بلا کہ یہ صحافت بیچاری کیا چیز تھی۔ نتیجہ ہے کہ معصوم صحافت ہے جو اب ان کے ذوق خود نمائی کی لونڈیِ محض بن گئی ہے۔

 

تو ہوا کیا؟ آپ ان کے شوبز ٹائپ نیوز پروگرام دیکھیے؛ کوئی حقیقی سوال نہیں ملے گا اور آگے بیٹھے جواب دینے والے بھی کمال کرتے ہیں۔ وہ بھی کوئی جواب نہیں دیں گے بلکہ آپ کو لگے گا کہ بس لفظوں کا بے لذت کاروبار ہورہا ہے۔ دو بانجھ لوگ محبت کے رومان کے ثواب کے تصور میں جھوٹے ملنگ بنے ہوتے ہیں۔ افسوس کہ یہ عشق افلاطونی کاروبار بھی نہیں ہوگا۔ بہتوں کو دیکھ کے ٹی ایس ایلیٹ کا لازوال نظمیہ کردار پرُفراک بہت یاد آتا ہے۔ اسی کی ایک اور نظم دِی ہالو مین میں شیشوں کی کرچیوں پہ دوڑتے چوہے یاد داشت میں پھرنے لگتے ہیں۔

 

سوال پہ پہرہ دماغ پہ پہرہ ہے۔ اور دماغ پہ پہرہ تخلیق پہ پہرہ ہے۔ سو پورے معاشرے کے لیے عمومی اور اشرافیہ کے لیے خصوصی طور پر سوال سے ڈرنے کی نفسیات پہ قابو پانا ضروری ہے بشرطیکہ اگر ہمیں کچھ تازہ ہوا چاہیئے اور ہم دانش پہ براجمان طوطوں کی فیملی پلاننگ کرنا چاہتے ہیں
سو جناب، صحافی جس نے بڑے سوال کھڑے کرکے عوامی سطح کی تعلیم کا مقدس فریضہ نبھانا تھا اب محض رنگ برنگے لباسوں کی گُڈی گُڈے کا کھیل کھیلنا اور سیلفیوں کی جاگیر کا اکیلا وارث بن جانا اپنا وظیفہ قرار دے چکا ہے۔ اب چونکہ قبلہ خود سوال کرنا بھول چکے ہیں تو حضرت سوشل میڈیا پہ اپنی ذات پہ اٹھنے والے سوالوں کا جواب دوسرے بندے کو بلاک کر کے دیتے ہیں۔ اگرچہ یہاں یہ کہنا بہت ضروری ہوگا کہ کچھ سوشل میڈیائی برقہ آئی ڈی والے بھی تو گالی کو سوال کا قائم مقام بنانے سے باز نہیں آتے۔ ایک طرح سے تو ایسے گوریلے سوال کی حرمت کو تارتار کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف دیکھیں تو قصور ان کا بھی اتنا زیادہ نہیں۔ جب آپ معاشرے میں طاقتور کے بیانیے اور یک طرفہ تقریر کی گھٹن پیدا کر دیں گے تو ذہنی و نفسیاتی کمزور لوگوں کا غصہ گالی کی صورت میں پھٹنے کا ناپسندیدہ لیکن جبری ردعمل ظہور پذیر ہو جائے گا۔

 

پس سوال پہ پہرہ دماغ پہ پہرہ ہے۔ اور دماغ پہ پہرہ تخلیق پہ پہرہ ہے۔ سو پورے معاشرے کے لیے عمومی اور اشرافیہ کے لیے خصوصی طور پر سوال سے ڈرنے کی نفسیات پہ قابو پانا ضروری ہے بشرطیکہ اگر ہمیں کچھ تازہ ہوا چاہیئے اور اگر ہم دانش پہ براجمان طوطوں کی فیملی پلاننگ کرنا چاہتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *