Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

ڈِیپ واٹر ہورائزن؛ حقیقی سانحے پر مبنی پُر تاثیر فلم

test-ghori

test-ghori

08 اکتوبر, 2016
یہ فلم سن دوہزار دس میں پیش آنے والے ایک خوفناک حادثے کو پردہِ سیمیں پر دکھاتی ہے۔ خلیج میکسیکو میں ‘ٹرانس اوشن’ کمپنی کی ملکیت میں کام کرنے والا تیل کا کنواں تکنیکی خرابی کے باعث اس خوفناک حادثے کا سبب بنا۔ یہ کنواں ساحل سے دُور گہرے پانیوں میں بنایا گیا تھا، تاکہ تیل نکالا جا سکے۔ حادثے کی وجہ سے نہ صرف گیارہ قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا بلکہ سمندر میں کثیر مقدار میں تیل بہہ جانے سے سمندری حیات کو بھی نقصان پہنچا۔ یہ فلم اس حادثے کو بہترین انداز میں پردہِ سیمیں پر منتقل کرتی ہے۔

پچھلے دنوں کلنٹ ایسٹ وُڈ کی فلم “سَلّی” دیکھی جس میں ورسٹائل اداکار ‘ٹام ہینکس’ کو لِیڈ رول میں کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقی واقعے پر مبنی تھی۔ اس فلم نے بہت مایوس کیا۔ نہ اسکرین پلے اچھا، نہ ویژیول ایفیکٹس؛ تاہم ٹام ہینکس کی اداکاری اور اِکّا دُکّا مکالمے اچھے تھے۔

پیٹر برگ کی “ڈیپ واٹر ہورائزن” البتہ بہت شاندار فلم ہے۔ میری تجویز ہے کہ اِسے لاہور کے سِنے سٹار آئی میکس، سُپر سینما یا سنے پیکس سینما جیسے غیر معیاری سینماؤں میں نہ دیکھا جائے۔ بلکہ کسی بہتر سینما میں دیکھا جائے تاکہ ساؤنڈ اور پکچر، دونوں سے حظ اُٹھا سکیں۔

ڈیپ واٹر ہورائزن کا اسکرین پلے حیران کُن حد تک اچھا ہے۔ اور ویژیول ایفیکٹس بھی اعلیٰ پائے کے ہیں۔ جس قدر ویژیولز پاورفُل ہیں، اتنا ہی اچھا ساؤنڈ ڈیزائن ہے۔ جس جس سیکوئنس میں کہانی اس موڑ پر پہنچی جہاں تصویر کی مدد سے سسپنس پیدا کیا گیا، وہاں وہاں ساؤنڈ نے اس سسپنس کو دوآتشہ کر دیا۔

ایک مشکل سبجیکٹ پر بنائی گئی پونے دوگھنٹے کی فلم ہمیں بور نہیں کرتی۔ انڈر واٹر تخلیق پاتے اور باہر تباہی مچاتے اس حادثے کی جُزئیات کو جس مہارت سے پردے پر دکھایا گیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔

اس فلم کی Pace کہانی سے زیادہ ایڈیٹنگ کی مدد سے بڑھائی اور گھٹائی جاتی رہی۔ فریمنگ بہتر، لائٹ بھی مناسب؛ مگر پریشر کے ساتھ ڈرِل وَیل سے نکلتے گارے کو جس انداز سے کنٹرول کیا گیا اور حادثے کی جُزئیات کو شُوٹ کیا گیا، وہ حیران کُن ہے۔

کہنہ مشق اداکار ‘کرٹ رَسَل’، مارک والبرگ اور کیٹ ہُڈسن کی اداکاری لاجواب رہی۔

سینما بینی کے رسیا لوگوں کے لیے یہ کسی تُحفے سے کم نہیں۔ The Abyss, Dante’s Peak جن کو پسند آئیں، اُن کو Deep water Horizon بھی پسند آئے گی۔

ایک دلچسپ بات:

ان دنوں سینماؤں میں کلنٹ ایسٹ وُڈ کی “سلّی” اور پیٹر برگ کی “ڈیپ واٹر ہورائزن”؛ دونوں فلموں کی نمائش جاری ہے۔ دونوں فلمیں سچے واقعات پر مبنی ہیں۔

1۔ دونوں فلموں میں امریکی میاں بیوی کے درمیان محبت کا لازوال رشتہ اور اپنے بچوں کے لیے بے پناہ پیار دکھایا گیا ہے۔ خاوند پر آئے بُحران کے بُرے وقتوں میں پریشان بیوی، خاوند کی ڈھارس بندھاتی اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی دکھائی دیتی ہے۔

2۔ دونوں فلموں میں اداروں کے ریسکیو آپریشنز کی کامیابی کو دکھایا گیا ہے۔ ان حادثات کے بعد ریسکیو رسپانس ٹائم حیران کُن حد تک کم ہے۔ اور ان دونوں حادثات کی تحقیقات جس جانفشانی سے کی گئیں، جس طرح فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنائے گئے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا ہوتے دکھایا گیا، وہ اتفاق نہیں۔ “سلّی” میں فلم کا کم وقت حادثے یا پائلٹ کے جہاز کو خلیج ہُڈسن میں لینڈ کرتے دکھایا گیا۔ اور زیادہ وقت کمیشن میں چلتی تحقیقات کو۔۔۔ اس کے برعکس، ڈیپ واٹر ہورائزن میں کمیشن کی رپورٹ کو آخریں کریڈٹس میں دکھایا گیا، مگر تاکید کے ساتھ۔ تاکید سے مُراد یہ کہ فلم ختم ہونے کے بعد اور کاسٹ اینڈ کریو کی تفصیل بتانے سے پہلے ایک ایک کر کے اہم کرداروں کی مابعد حادثہ زندگی اور وَیل ڈرلنگ کمپنی کی سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے۔

فلم ختم ہونے کے بعد اور کاسٹ اینڈ کریو کی تفصیل بتانے سے پہلے ایک ایک کر کے اہم کرداروں کی مابعد حادثہ زندگی اور وَیل ڈرلنگ کمپنی کی سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ سب اس لیے کیا گیا کہ یہ فلمیں دُنیا میں امریکی سفیر کا کردار ادا کرتی ہیں۔ اور سفیر کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے ملک کا بہترین امیج دنیا کے سامنے لائے۔ امریکہ کے ریسکیو کے ادارے کس قدر متحرک ہیں، وہاں بعد از حادثہ/واقعہ تحقیقات کا کیا معیار اور روایت ہے، اور ذمہ داران کو سزائیں دینے/انصاف کے کٹہرے میں لانے میں امریکی معاشرہ کس قدر حساس واقع ہوا ہے، یہ فلمیں یہی دکھانے کے لیے ہمارے ہاں بھیجی جاتی ہیں۔ یا یوں کہیے کہ واقعات ہی وہ فلمائے جاتے ہیں، جن کے ذریعے دُنیا میں امریکی امیج بہتر بنانے کا امکان زیادہ ہو۔

لینن نے کہا تھا کہ نیم خواندہ معاشروں میں فلم ایک طاقتور سوشل Change Agent کے طور پر کام کرتی ہے۔ اس لیے اس نے روس کی فلم کو روسی معاشرے کے لیے اور انقلاب کو پختہ تر کرنے کے لیے بہت اہم گردانا۔
امریکی اور بھارتی معاشرہ بھی لینن کے اس موقف کی حقانیت کو سمجھتا اور اس پر عمل کرتا ہے۔ادھر ہم پاکستانی ابھی تک فلم کی حقیقت اور اس کے کردار کو سمجھ نہیں پائے۔